• 23 اپریل, 2024

جامعہ احمدیہ میں گزرے ماہ و سال کی حسین یادیں

جس دور کا میں ذکر کرنے لگا ہوں اب تو وہ قصہ بن چکا ہے۔ بس خواب و خیال کی باتیں ہی لگتی ہیں۔ ہماری رہائش محمد آباد اسٹیٹ سندھ میں تھی۔ 1959ء میں میَں وہاں سے بغرض تعلیم ربوہ پہنچا اور تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی آٹھویں کلاس میں داخل ہو گیا۔ میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا کہ ایک دن اتفاق سے دفتر تحریک جدید کے اندر سے میرا گزر ہوا۔ وہاں میں نے پچاس ساٹھ نوجوان دیکھے۔ اُن کی ٹوپیاں اور شلوار قمیض دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے یہ فرشتوں کا کوئی اجتماع ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارا جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کا ارادہ ہے اور اس غرض سے ہمارا یہاں آج انٹرویو ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی انٹرویو دے سکتا ہوں تو انہوں نے کہا آپ دفتر سے پتہ کرلیں۔ میں نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا فیصلہ تو بہت عرصہ پہلے ہی کر لیا تھا اور ماں باپ سے اجازت بھی لے لی تھی۔ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد یا مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لوں گا۔ لیکن اُن نوجوانوں کو دیکھ کر میرا شوق دو چند ہو گیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ ابھی جامعہ احمدیہ میں داخل ہوجانا بہتر ہے۔ اُن ایام میں ابھی مدرسہ احمدیہ کی کلاسز جاری تھیں اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے میٹرک پاس ہونے کی شرط نہیں تھی۔ بہرحال میں دفتر کے اندر گیا اور پوچھا کہ کیا میں بھی انٹر ویو دے سکتا ہوں؟ کہ کیوں نہیں۔ اور مجھے ایک فارم دیا کہ اس کو پُر کردوں میں نے فارم پُر کردیا۔ انٹرویو کے بعد مجھے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کے قابل قرار دے دیا گیا اور اس طرح اگلے دن تعلیم الاسلام ہائی اسکول جانے کی بجائے میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہو کر وہاں کا طالب علم بن گیا۔

اُن دنوں جامعہ احمدیہ کی عمارت بالکل نئی تعمیر ہوئی تھی۔ اور پرانی عمارت کو ہوسٹل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ ہوسٹل بھی بہت دلچسپ تھا۔ کمروں کی کھڑکیوں میں سے اکثر کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور ان کے اوپر پھٹیاں لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ ایک ایک کمرہ میں آٹھ ۔ آٹھ یا نو۔نو طالب علم تھے۔ بوسیدہ عمارت کی چھتوں سے اندر کی طرف چھوٹی چھوٹی کنکریاں گرتی تھیں۔ ایک دفعہ تو قریباً دو اڑھائی کلو کا ایک ٹکڑا نیچے گرا۔ لیکن شکر ہے کہ کوئی طالبعلم زخمی نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ پورے ہاسٹل میں بجلی کا صرف ایک پنکھا تھا جو نماز والے ہال کی دیوار کے اندر نصب تھا اور باہر سے ہوا کو اندر پھینکتا تھا اکثر طالب علم دوپہر کا کھانا کھا کر اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اُسی ہال میں آرام کیا کرتے تھے۔

مکرم سیّد (میر) داؤد احمد جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے وہ گواہی دیں گے کہ آپ نہایت خوش شکل ، بارعب اور خوب سیرت انسان تھے۔ ان کی شفقتوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا تعلق خاکسار کی ذات کے ساتھ ہے۔ خلاصۃً میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی ذات کے مجھ عاجز پر انگنت احسانات ہیں۔ مضمون میں ان کی شفقتوں، محبتوں اور عظیم احسانات کا الگ ذکر کرچکاہوں۔ فی الحال صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ

یہ ہے ان کا مجھ پہ احساں جسے عمر بھر نہ بھولوں
میری زندگی بنادی میرے ساتھ ساتھ چل کے

جب میں جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوا تو ایک دن میں مکرم میر صاحب مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ آپ میری ڈائری پر کچھ تحریر فرمادیں۔ آپ نے یہ الفاظ لکھے۔

’’فی امان اللہ! ہردم ۔ ہر آن۔ میری دلی دعاؤں کے ساتھ جن کی گہرائیوں کو یا میں جانتا ہوں یا میرا خدا‘‘

اللہ تعالیٰ استاذی المکرم مکرم میر صاحب مرحوم کو غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ مکرم میر صاحب مرحوم اپنے والد مرحوم حضرت میر محمد اسحاق ؓ کی تتبع میں جامعہ احمدیہ میں پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک حدیث پڑھایا کرتے تھے۔ ان کے اندر علم کی گہرائی تھی۔ مضمون پر حاوی تھے اور طلباء میں تحقیق کا جذبہ بیدار کرنے کی سعی فرماتے۔ کج بحثی ان کو پسند نہ تھی۔ لیکن کلاس میں میں نے ان کو کبھی بھی کسی طالب علم کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ان کے علاوہ ہمارے اساتذہ میں مکرم ملک سیف الرحمنٰ مفتیٔ سلسلہ ہمیں فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ وہ کوئی مضمون بیان فرماتے ہوئے چاروں ائمہ کی رائے بھی طلباء کے سامنے رکھتے۔ بڑے نرم طبیعت اور مہربان استاد تھے۔ ان کے علاوہ مولانا غلام باری سیف ہمیں ’’کلام‘‘ پڑھاتے تھے۔ محترم سیّد (میر) محمود احمد ہمیں عیسائیت اورموازنہ مذاہب ’’Comparative Religion‘‘ کا درس دیتے۔ مکرم قریشی نورالحق تنویر ادب عربی پڑھاتے۔ دیگر اساتذہ میں مکرم مولانا محمد احمد جلیل، مکرم مولانا محمد احمد ثاقب، مکرم سیّد سمیع اللہ شاہ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ تمام اساتذہ اپنی اپنی فیلڈ میں نہایت مہارت رکھنے والے اور صاحب علم لوگ تھے۔ جنہوں نے ہمیں زیور علم سے آراستہ کیا۔

اُن دنوں ربوہ میں پوری طرح مکانات تعمیر نہیں ہوئے تھے۔ سڑکیں بھی پختہ نہیں تھیں۔ زیر زمین پانی بھی نمکین تھا۔ گرمی اتنی ہوتی تھی کہ ایک طالب علم دوست دوپہر کے وقت ایک ٹوٹی میں سے پانی لیتے جس پر دھوپ براہ راست پڑ رہی ہوتی۔ چائے کی پتی ذرا زیادہ ڈال لیتے اور اُسی سے چائے تیار کرلیا کرتے تھے۔

جامعہ احمدیہ میں ننگے سر جانا منع تھا۔ ایک دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد پہلے دن جامعہ جاتے ہوئے میری کالی ٹوپی گم ہوگئی میں نے کہیں سے ڈھونڈ کر ’’پی کیپ‘‘ پہن لی۔ مکرم میر داؤد احمد سامنے کھڑے تھے۔ تمام طالب علم ان کو سلام کرکے گزر رہے تھے۔ جب میری باری آئی تو میر صاحب نے میرے سر سے ‘‘پی کیپ’’ اتار لی۔ بعد میں مجھے نصیحت فرمائی کہ جامعہ احمدیہ کے وقار کے مطابق ٹوپی پہننی چاہئے۔ یہ کھلنڈروں والی ٹوپی پہن کر جامعہ احمدیہ میں آنا مناسب نہیں۔

صبح کے وقت جامعہ احمدیہ کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے ‘‘اسمبلی’’ہوتی تھی اور حاضری لی جاتی تھی۔ جو طالب علم لیٹ آتے ان کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس سے ان کے اندر۸۷ وقت کی پابندی کا احساس اُجاگر ہوتا اور ان کو نظم و ضبط کی عادت پڑتی تھی۔ جامعہ احمدیہ میں علمی یعنی تقریروں کے مقابلے بھی ہوتے اور کھیلوں کے مقابلہ جات بھی منعقد ہوتے تھے۔ ہر سال تین زبانوں اردو، انگریزی اور عربی میں تقریری مقابلے ہوتے اور کھیلوں کے مقابلہجات میں کبڈی، دوڑ، فٹ بال، وغیرہ کے مقابلہ جات شامل تھے۔ جامعہ احمدیہ کے تمام طلباء کو پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ یعنی امانت، شجاعت، دیانت، رفاقت اور صداقت یہ پانچ گروپ تھے اور تمام علمی اور ورزشی مقابلہ جات اِن گروپس کے درمیان ہی منعقد ہوتے تھے۔ جامعہ احمدیہ میں ایک دلچسپ مقابلہ روک دوڑ کا تھا۔ یہ اتنا دلچسپ مقابلہ تھا کہ اہلیان ربوہ کی کثیر تعداد اُسے دیکھنے کے لئے آتی۔ اُس کے علاوہ سائیکل ریس اور پیدل سفر کے مقابلہ جات تھے۔ سائیکل ریس قریباً پچاس میل کی ہوتی تھی اور پیدل سفر قریباً ایک سو بیس میل کا تھا۔ ہر طالب علم کے لئے پیدل سفر میں ایک بار شریک ہونا ضروری تھا۔ جس کی کڑی شرائط تھیں۔ خاکسار نے بھی اس میں حصہ لیا۔ علاوہ ازیں ان ایّام میں ایک دفعہ ہائیکنگ کےلئے پاکستان کے شمالی علاقوں کی طرف سفر کرنا بھی ضروری تھا۔ خاکسار نے جس قافلہ کے ساتھ سفر کیا وہ اپر چترال اور کافرستان کی طرف ہائیکنگ کےلئے گیا تھا۔ اس حسین سفر کی یادیں آج بھی دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔

ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جامعہ احمدیہ کے درجہ رابعہ کے طلباء کو ایک استاد کی نگرانی میں تبلیغی اور تربیتی سفر پر بھی بھیجا جاتا تھا۔ ہماری کلاس گجرات اور جہلم کے سفر پر گئی تھی۔ اس سفر میں طلباء کو باری باری تقریر کرنے کا موقع دیا جاتا۔ اس طرح ان کی سیر بھی ہوجاتی اور تقریروں کی مشق بھی ہوجاتی۔ مجھے یاد ہے کہ جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے کے بعد میں حیدر آباد سندھ بطور مربی کام کررہا تھا میں نے مکرم میر صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ جامعہ احمدیہ سے طلباء کو سندھ بھیجیں۔ چنانچہ آپ نے درجہ رابعہ کے طلباء کو حیدر آباد کے سفر پر روانہ فرمایا جہاں خاکسار نے ان کا استقبال کیا اور ان کو حیدر آباد کی مختلف جماعتوں میں ساتھ لے کر گیا۔ طلباء اور نگران استاد اس سفر سے بہت ہی محظوظ ہوئے۔

ان ایام میں جامعہ احمدیہ میں بیرونی ممالک کے طلباء بھی تعلیم حاصل کرنے کےلئے آیا کرتے تھے۔ بالخصوص افریقی ممالک اور انڈونیشیاء کے طالب علم بڑی کثیر تعداد میں جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے۔ الغرض جامعہ احمدیہ ہماری تربیت کی جگہ تھی۔ جہاں ہم نے علم دین کے علاوہ زندگی گزارنے کے اسلوب بھی سیکھے۔ میں نے ایک نظم جامعہ احمدیہ کے بارہ میں لکھی تھی جس کے چند اشعار یہ ہیں۔

بےہنر تھا ناسمجھ تھا جبکہ ہاں آیا تھا میں
ہاں مگر اخلاص سے بھرپور دل لایا تھا میں
واقف اسرار عالم تونے مجھ کو کر دیا
علم کی دولت سے دامن تو نے میرا بھر دیا

فی الحقیقت ’’واقف اسرار عالم‘‘ اور علم کی دولت سے دامن بھرا ہونے کا دعویٰ تو بہت بڑا دعویٰ ہے۔ لیکن اس میں بھی قطعاً کوئی شک نہیں کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ بنیادی طور پر جامعہ احمدیہ اور اس کے اساتذہ کرام کی برکت ہی ہے جس نے میرے اندر مزید علم حاصل کرنے استعداد پیدا کردی۔ اللہ تعالیٰ جامعہ احمدیہ ربوہ کو ہمیشہ آباد رکھے۔ اور اس کی برکت سے جامعہ احمدیہ کے نام پر دنیا کے مختلف ممالک میں جو بھی ادارے قائم ہوئے ہیں مولا کریم ان کو بھی قائم رکھے اور مزید وسعت عطا فرمائے اور ان کے اساتذہ کرام کو بھی ان بزرگوں کے کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز طلباء کو بھی ان مقاصد کو ہمیشہ اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھنے کی تو فیق دے جن کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اورآپؑ کے خلفاء توجہ دلاتے آئے ہیں۔

(ڈاکٹر محمد جلال شمس۔لندن)

پچھلا پڑھیں

تنزانیہ کی جماعت دالونی میںمسجد کاافتتاح

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ