• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 15؍اپریل 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ 15؍اپریل 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور الله نے اُنہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپؓ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپؓ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوستِ زمین ہو جاتے اور فورًا گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپؓ کو رسولوں جیسا صبر عطاء کیا گیا

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا۔

مرتدین کو سزاء اُن کے ارتداد کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی

 گزشتہ خطبہ سے پہلے جو خطبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واقعات کے بارہ میں دیا جا رہا تھا اُس میں مختلف حوالے بیان کئے گئے تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرتدین کو آپؓ نے سزاء اُن کے ارتداد کی وجہ سے نہیں دی تھی بلکہ بغاوت اور جنگ کی وجہ سے اُن کا جواب دیا گیا تھا۔

حکم و عدلِ زمانہ نے بھی اِس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے

اِس بارہ میں زمانہ کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں اِس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔

اہلِ تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں ہے

آپؑ فرماتے ہیں۔ اہلِ تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ آپؓ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا۔ چنانچہ جب رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے، بہت سے منافق مرتد ہوگئے۔۔۔ افتراء پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٔ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین اُن کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذّاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بد کردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اُٹھے اور مصائب بڑھ گئے اور آفات نے دُور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مؤمنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔۔۔امن کا شائبہ تک نہ تھا۔۔۔ مؤمنوں کا خوف اور اُن کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے۔

ایسے وقت میں آپؓ حضرت خاتم النّبیّین ؐ کے خلیفہ بنائے گئے

 ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ حاکمِ وقت اور حضرت خاتم النّبیّین صلی الله علیہ و سلم  کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپؓ نے مشاہدہ کیا اُن سے آپؓ ہم و غم میں ڈوب گئے، آپؓ اِس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپؓ کے آنسو چشمۂ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپؓ اپنے الله سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔

آپؓ کو رسولوں جیسا صبر عطاء کیا گیا

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور الله نے اُنہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپؓ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپؓ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوستِ زمین ہو جاتے اور فورًا گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپؓ کو رسولوں جیسا صبر عطاء کیا گیا۔

پس غور کر کہ کس طرح وعدۂ خلافت بلوازمات آپؓ کی ذات میں پورا ہؤا

آپؑ فرماتے ہیں۔یہاں تک کہ الله کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے، فتنے دُور کر دیئے گئےاور مصائب چھٹ گئے ۔۔۔ معاملہ کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہؤا اَور الله نے مؤمنوں کو آفت سے بچا لیا اور اُن کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا۔۔۔پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ آپؓ کی ذات میں پورا ہؤا۔ مَیں الله سے دعا کرتا ہوںکہ وہ اِس تحقیق کی خاطر تمہارا سینہ کھول دے۔

یہ سب کچھ آپؓ کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا

غور کرو کہ آپؓ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ اسلام مصائب کی وجہ سے آگ سے جلے ہوئے شخص کی طرح نازک حالت میں تھا پھر الله نے اسلام کو اُس کی طاقت لَوٹا دی اور اُسے گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیانِ نبوت دردناک عذاب سے مارے گئے اور مرتد چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے اور الله نے مؤمنوں کو اِس خوف سے جس میں وہ مُردوں کی طرح تھے امن عطاء فرمایا۔ اِس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد مؤمن خوش ہوتے تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مبارکباد دیتے اور مرحبا کہتے ہوئے اُن سے ملتے تھے، آپؓ کی تعریف کرتے اور ربّ الارباب کی بارگاہ سے آپؓ کے لئے دعائیں کرتے تھے، آپؓ کی تعظیم اور تکریم کے آداب بجا لانے کے لئے لپکتے تھے۔۔۔وہ محبّت اور الفت میں بڑھ گئے اور پوری جد وجہد سے آپؓ کی اطاعت کی،  وہ آپؓ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے اور یہ سب کچھ آپؓ کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا۔

فتنۂ ارتداد اور بغاوت کی طرف آپؓ نے بعض مہمات بھیجی تھیں

 جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکاہے کہ نبیٔ   کریمؐ   کی وفات کے بعد تقریبًا سارے عرب نے ہی ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ کچھ لوگ تو وہ تھے جنہوں نےصرف زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا اُن کے خلاف جو کاروائیاں آپؓ کی طرف سے کی گئیں اُن کا تذکرہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اب دوسرے گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف اسلام سے ارتداد اختیار کر لیا تھا بلکہ بغاوت کر دی تھی اور مسلمانوں کو قتل بھی کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُن کی خبر لینے کا عزم فرمایا چنانچہ البَدایہ و النَّہایہ میں لکھا ہے کہ حضرت اُسامہؓ کے لشکر کے آرام کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ اسلامی افواج کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے مدینہ سے سوار ہو کر ذوالقصّہ کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔ صحابۂ کرامؓ جن میں حضرت علیؓ بھی تھےوہ آپؓ سے اصرار کر رہے تھے کہ آپؓ مدینہ واپس تشریف لے جائیں اور اعراب سے جنگ کے لئے اپنے سواء کسی دوسرے بہادر کو بھیج دیں۔۔۔ اِس پر آپؓ واپس تشریف لے گئے اور فوج کو بھیج دیا۔

حضرت ابوبکرؓ نے فوج کو تقسیم کیا اور گیارہ جھنڈے باندھے

جب حضرت اُسامہؓ اور اُن کے لشکر نے آرام کر لیا اور اُن کی سواریاں بھی تازہ دم ہو گئیں اور اموالِ زکوٰۃ بھی بکثرت آگئےجو مسلمانوں کی ضرورت سے زائد تھے تو حضرت ابوبکرؓ نے فوج کو تقسیم کیا اور گیارہ اُمراء کے لئے بالترتیب جھنڈے باندھےجن میں حضرت خالدؓ بن ولید، حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل، حضرت مُہاجرؓ بن ابو اُمَیّہ، حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص، حضرت عَمروؓ بن العاص، حضرت حذیفہؓ بن محصن غلفانی، حضرت عرفجہؓ بن ہرثمہ، حضرت شُرَحْبِیلؓ بن حَسَنَہ، حضرت طُریفہؓ بن حاجز، حضرت سُوَیدؓ بن مُقرّن اور حضرت عَلاءؓ  بن الحضرمی شامل تھے۔ چنانچہ یہ اُمراء ذوالقَصّہ سے اپنی اپنی مفوضہ سمت روانہ ہو گئے نیز حضرت ابوبکرؓ نے ہر دستہ کے امیر کو حکم دیا کہ جہاں جہاں سے وہ گزریں وہاں کے طاقتور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیں اور بعض طاقتور افراد کو وہیں اپنے علاقہ کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑ دیں۔

منصوبۂ ابوبکرؓ سے منفرد عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتہ چلتا ہے

حضرت ابوبکرؓ کی اِس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں۔ذوالقَصّہ فوجی مرکز قرار پایا یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لئے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں۔ آپؓ کے منصوبہ سے منفرد عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتہ چلتا ہے۔

یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا

جن لشکروں کو آپؓ نے روانہ فرمایا وہ آپس میں مربوط تھے اور یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ اِن لشکروں کے اندر قیادت کی مہارت کے ساتھ حُسنِ تنظیم بھی موجود تھا۔ مزید برآں قتال میں تجربہ پہلے سے تھا، رسول اللهؐ کے دور میں غزوات و سرایاء کی تحریک میں اِنہیں عسکری اعمال کا اچھا تجربہ ہو چکا تھا۔ آپؓ کی حکومت کا عسکری نظام جزیرۂ عرب میں تمام عسکری قوتوں پر فوقیت رکھتا تھا اور اُن لشکروں کے قائد سیف الله المسلول خالدؓ بن ولید تھے جو اسلامی فتوحات اور حُروبِ ارتداد میں منفرد عبقری شخصیت کے حامل تھے۔

اسلامی فوج کی یہ تقسیم انتہائی اہم فوجی منصوبہ کے تحت عمل میں آئی تھی

 کیونکہ مرتدین ابھی تک اپنے اپنے علاقوں میں متفرق تھے، مسلمانوں کے خلاف اُن کی جتھابندی عمل میں نہ آسکی تھی۔۔۔ ثانیًا وہ اپنے خلاف مسلمانوں کے خطرہ کو نہ سمجھ سکے ، وہ یہ تصور کئے ہوئے تھے کہ چند ماہ میں تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے۔ اِسی لئے ابوبکرؓ نے چاہا کہ اچانک اُن کی شوکت و قوت کا صفایا کیا جائے قبل ازیں کہ وہ اپنے باطل کی نصرت کے لئے جتھابندی کر سکیں، اِس لئے آپؓ نےفتنہ کے بڑھنے سے قبل ہی اُن کی خبر لی اور اُنہیں اِس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنا سر اُٹھا سکیں اور اپنی زبان دراز کر سکیں، جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچا سکیں۔

اِس طرح آپؓ کی قیادت میں ربانی فتح و نصرت نمایاں ہوتی ہے

مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ نے اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ کے اصول کو اپنایا، فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اور ہی ہوتا، انتہائی احتیاط و حذر کا طریقہ اختیار کیا کہ کہیں اِن کا منصوبہ فاش نہ ہونے پائے۔ اِس طرح آپؓ کی قیادت میں سیاسی مہارت، علمی تجربہ، علمِ راسخ اور ربانی فتح و نصرت نمایاں ہوتی ہے۔

حضرت ابوبکرؓ کے لکھے گئے دو فرمان

اِس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے دو فرمان بھی لکھے تھے ایک عرب قبائل کے نام اور دوسرا متذکرۂ بالا گیارہ سپۂ سالاران فوج کی ہدایت کے لئے۔ ڈاکٹر علی محمد صلابی اِس خط کی بابت لکھتے ہیں کہ اسلامی لشکر وں کی تیاری اور ٹھوس تنظیم کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ تحریری دعوت کا سلسلہ جاری رہا اور اُس نے اہم کردار ادا کیا۔ آپؓ نے ایک عام خط تحریر کیا جو محدود مضمون پر مشتمل تھا، مرتدین سے قتال کے لئے افواج کو روانہ کرنے سے قبل  آپؓ نے اِس خط کو مرتدین اور ثابت قدم رہنے والے سب کے درمیان اونچے پیمانہ پر ممکنہ حد تک نشر کرنے کی کوشش کی۔ ۔۔آپؓ کا وہ خط جو قبائلِ عرب کے نام تھا سب سے زیادہ تفصیلات کے ساتھ طبری نے بیان کیا ہے، حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے اپنی تصنیف سِرّ الخلافہ میں اِس خط  کا بھی ذکر فرمایا ہے۔

مرتدین باغیوں کو آگ میں جلا دیئے جانے کے حکم کی تصریح

دوسرا خط جو حضرت ابوبکرؓ نے سب  اُمراءِ لشکر کے نام لکھا تھا اُس کے تناظر میں بیان ہؤا کہ اِنہی مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی نے اِس بات کی وضاحت اِس طرح بھی لکھی ہے۔ حدیث میں یہ ذکر ہے کہ مرتدین باغیوں کو آگ میں جلا دیا جائے ۔۔۔کسی کو جلانے کی سزاء دینا تو جائز نہیں ہے ، ارشادِ نبویؐ بھی ہے  اِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا اِلَّا اللهُ کہ آگ کے ذریعہ سے عذاب دینا صرف الله کا کام ہے۔ لیکن یہاں اُنہیں جلانے کا حکم اِس لئے دیا گیا کہ اِن بدمعاشوں نے اہلِ ایمان کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا لہٰذا یہ قصاص کے طور پر تھا۔

باغیوں نے مسلمانوں کو جلا کر قتل کرنے کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا

حضورِ انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں گزشتہ خطبہ میں  اور ابھی بھی بتایا ہے کہ باغیوں نے مسلمانوں کو جلانے اور اُنہیں گھناؤنے طریقہ سے قتل کرنےکے جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔ اُن کوآگ میں جلایا، اُن کے گھروں کو جلایا، اُن کو جلایا، اُن کے بچوں، بیویوں سب کو جلایا، اُن کا مُثلہ کیا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اِسی طرح اُن کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا کہ جو اِس میں شامل تھے اُن سے وہی سلوک کرنا ہے جو اُنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔

بہرحال یہ ذکر جو ہے وہ آگے بھی اِنْ شَآء الله بیان ہو گا

 خطبہ ٔ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا!اب رمضان میں شائد دوسرے خطبے بھی بیچ میں آتے رہیں گےہو سکتا ہے وقت لگ جائے لیکن بہرحال جو بھی آئندہ خطبہ اِس پر آئے گا اُس میں اِس کی تفصیل بیان ہو گی۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

رمضان کے دوسرے عشرہ مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی مناسبت سے حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعائیں