• 25 اپریل, 2024

چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے

چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے
جسم ایسا جیسے آئینہ بدن پہنے ہوئے
عرش سے تا فرش اک نظّارہ و آواز تھا
جب وہ اُترا جامۂ نورِ سخن پہنے ہوئے
رات بھر پگھلا دعا میں اشک اشک اس کا وجود
تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے
اس حجابِ وصل میں اٹھتے ہیں پردے ذات کے
جسم ہوں بے پیرہن بھی پیرہن پہنے ہوئے
اُن کی خوشبو اب وطن کی خاک سے آنے لگی
وہ جو زنداں میں ہیں زنجیرِ وطن پہنے ہوئے
اُٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار
میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے ہوئے
گر کرم تم بھی نہ فرماؤ تو پھر دیکھے یہ کون
آئینے ٹوٹے ہوئے گردِ محن پہنے ہوئے

(عبید اللہ علیم ؔ)
(یہ زندگی ہے ہماری۔ نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ27۔28)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2021