• 24 اپریل, 2024

ڈاکٹر سلیم احمد خلیل صاحب (آف ڈگری سندھ)

یاد رفتگان
والد ِمحترم ڈاکٹر سلیم احمد خلیل صاحب (آف ڈگری سندھ)

زندگی کا مختصر خاکہ

خاکسار کے والد محترم جو ہم سب بہن بھائیوں کے بہترین دوست بھی تھے مؤرخہ 4 مارچ 2021 کو ایک مختصر علالت کے بعد اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ محترم حکیم سردار محمد صاحب مرحوم اور محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ مرحومہ کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ہمارے دادا اُن دنوں ڈگر ی ضلع تھرپارکرسندھ میں رہائش پذیر تھے ۔آپ کی والدہ آپ کی متوقع پیدائش کے پیش نظر اپنے والدین کے پاس قادیان تشریف لے گئیں تھیں۔ جہاں آپ 14 اپریل 1939 کو محلہ دارالرحمت قادیان میں پیدا ہوئے۔

خاندان میں احمدیت

آپ کے آباؤ اجداد لودھی ننگل تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے خاندان میں احمدیت حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے دور خلافت میں آپ کے دادا چوہدری اللہ دتہ صاحب مرحوم کی ایک مبشر ر ؤیا کے ذریعہ آئی ۔آپ کے دادا مرحوم گو ایک چھوٹے زمیندار تھے لیکن اپنی ذہانت اور فراست کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علاقہ میں ایک ممتاز مقام عطا فرمایا تھا ۔ان کی قبول احمدیت کے ساتھ ہی نصف گاؤں نے اسی روز بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت کی سعادت پائی۔ الحمد للہ علیٰ ذلک

والد صاحب کے پڑنانا چوہدری محمد بخشؓ صاحب نے ایک مبشر رؤیا کے ذریعہ 1898میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود ؑکے ہاتھ پر دستی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے گھر جا کر اپنے بیٹوں کو بھی احمدیت میں شامل ہونے کی تلقین کی چنانچہ آپ کے نانا چوہدری امین اللہ ؓ صاحب سمیت تینوں بھائیوں کو بھی 1898 میں ہی حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی توفیق ملی۔ رجسٹر روایات صحابہ کے مطابق آپ کے نانا جان نے 1902 میں حضرت مسیح موعود ؑسے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ حضورؑ سے ملاقات کے وقت اُن کی عمر 16 سال تھی۔ چوہدری محمد بخش صاحبؓ کی وفات کے بعد یہ خاندان مستقل طور پر قادیان منتقل ہوگیا اور محلہ دارالرحمت میں نصف بلاک سکنی اراضی خرید کر اس روحانی بستی کو اپنا مسکن بنا لیا۔

جماعتی ودینی خدمات

میرے والد محترم کی دینی خدمات 65 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں قائد مجلس ڈگر ی سندھ رہے۔

اپنے ربوہ کے قیام کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں بھی خدمات انجام دینے کی توفیق ملی ۔اس دور کا ایک واقعہ خاکسار کو اکثر سُناتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے جب ربوہ تزئین کمیٹی کی بنیاد رکھی تو اسکی پہلی میٹنگ میں بھی آپ کو مجلس خدام الاحمد یہ مرکزیہ کی نمائندگی میں شامل ہونے کی توفیق ملی ۔آپ کی نشست حضور ؒ کے نزدیک ہی تھی (معین جگہ ہمیشہ بتاتے تھے لیکن میں بھول گیا ہوں)

قائد مجلس مظفر آباد اسٹیٹ (لابینی ) ضلع بدین

صدر جماعت مظفر آباد اسٹیٹ (لابینی) ضلع بدین (اپنے یہاں قیام تک آپ ہی صدر جماعت رہے جو کہ اندازاً 10 سال کا عرصہ بنتا ہے)

تقریباً 17 سال مسلسل صدر جماعت احمدیہ ڈگری سندھ رہے ۔متعدد بار مجلس شوریٰ میں ضلع تھرپارکر اور ضلع میرپورخاص کی نمائندگی میں شامل ہوئے۔ آپ کو سب کمیٹیوں کا ممبر بننے کی توفیق ملتی رہی۔ جرمنی ہجرت سے قبل 6 ما ہ کا عرصہ کراچی میں گزارہ وہاں بھی خدمت دین کو فکر معاش پر ترجیح دی اور باقاعدگی کے ساتھ گیسٹ ہاؤس جا کر خدمت کرتے رہے۔

جرمنی آنے کے بعد بھی مسلسل خدمات دینیہ بجا لانے کی توفیق ملی ۔آپ کو بطور نیشنل قائد عمومی مجلس انصار اللہ جرمنی خدمت کی توفیق ملی ۔ایک بار صدر صاحب مجلس انصاراللہ کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر مجلس انصاراللہ جرمنی کے طور پر خدمت کی توفیق پائی ۔آپ مہینے میں 25 ،26 دن دفتر آتے اور نہایت محنت و لگن سے کام کرتے آپ کے دور میں ماہانہ رپوٹس 40-45 سے بڑھ کر 70۔71 تک پہنچ گئیں۔

(تاریخ مجلس انصار اللہ جرمنی صفحہ111)

دار القضاء جرمنی میں بطور، قاضی اول ،ناظم دارالقضاء، اور ممبر اپیل بورڈ جرمنی کے طور پر خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔ (آپ کی دارالقضاء جرمنی میں خدمات کا عرصہ تقریباً 19 سال بنتا ہے)۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

آپ ایک امین اور دیانت دار شخص تھے ۔دارالقضاء کی خدمت کے دوران کبھی کسی کیس کو گھر میں زیر بحث نہیں لائے ۔گھر میں اگر کسی کیس کے حوالہ سے اپنے ساتھی یا سائل سے بات کرنی ہوتی تو الگ کمرہ میں جا کر بات کرتے ۔فیصلہ لکھنے سے پہلے حضور انور کی خدمت میں دعا کی غرض سے خط لکھتے اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی مانگتےاور پھر فیصلہ لکھتے۔ آپ نے اپنی اس ذمہ داری کے پیش نظر اردو ٹائپنگ سیکھی ۔آپ اپنے فیصلے و خطوط خود ٹائپ کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات اپنے قاضی ساتھیوں کے فیصلے بھی ٹائپ کر دیا کرتے تھے۔تاریخ دارالقضاء جرمنی لکھنے اور ٹائپ کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔آپ نہایت معاملہ فہم اور زیرک انسان تھے ۔آپ کی وفات پر آپ کے بہت سے جاننے والوں سے ملاقات ہوئی اور بہت سے احباب نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہم اکثر جماعتی اور اپنے دیگر دنیاوی معاملات میں ا ن سے رہنمائی اور مشورہ مانگا کرتے تھے آپ نہایت دیانت داری سے مشورہ دیا کرتے اور اکثر اوقات کہتے کہ مجھے کچھ وقت دیں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے آپ کو بتاؤں گا اور کچھ گھنٹوں یا اگلے روز مشورہ دیا کرتے تھے۔آپ کے کئے ہوئے ایک فیصلے کو دارلقضاء کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب میں مثالی فیصلہ کے طور پر شائع کیا گیا ہے آپ اس بات کا بھی ذکر بھی بڑے فخر سے کیا کرتے تھے۔

امانت داری کے حوالہ سے ایک واقعہ بھی یاد آگیا جو نہ صرف ان کی امانت داری کو ثابت کرتا ہے بلکہ بہادری اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالہ سے بھی ایک مثال ہے ۔غالباً 1990 کی بات ہے کہ والد صاحب کا پاکستان سے جرمنی ہجرت کا پروگرام بنا انہوں نے یہ سفر اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ کرنا تھا ویزےوغیرہ بھی لگ کر آ چکے تھے بس ایک دو دن میں روانگی تھی۔ ان دنوں ہمارے پاس فان گیس کی سب ایجنسی ہو تی تھی (مین ڈیلر میر پور خاص میں تھے )جس میں لوگ اپنے خالی سلنڈر امانتاً جمع کروا جاتے تھے اور جب سپلائی آتی تھی تو رسید دکھا کر اور گیس کی قیمت ادا کر کے سلنڈر لے جاتے تھے ۔انہی دنوں ہمارے مین ڈیلر نے ہمارے اور علاقے کے باقی سب ڈیلروں کے سارے خالی سلنڈر جو ہمارے پاس لوگوں کی امانت تھے اور ہم نے انہیں بھروانے کے لئے ان کے سپرد کر دیا تھا بیچ کر کراچی بھاگ گئے ۔ والد صاحب اپنے سفر کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے اور ایک دو دن میں روانگی تھی جب آپ کو اس بات کا علم ہوا آپ نے فوری طور پر اپنا سفر ملتوی کردیا اور لوگوں کا نقصان اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔

خلیفۂ وقت سے محبت اور تعلق

خلافت سے آپ کو عشق کی حد تک پیار تھا ہمیشہ خلیفہ وقت کی خدمت میں خطوط لکھتے اور اپنی ہر پریشانی اور خوشی خلیفہ وقت سے شیئر کرتے آپ خلیفہ وقت کو خط لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ اپنی بات مختصر الفاظ میں بیان کریں اور ہر لکھے گئے خط کو ایک فائل میں پلاسٹک کور میں لگاتے اور ساتھ ہی فیکس کی رپورٹ بھی منسلک کر دیتے جواب آنے پر وہ بھی اسی خط کی پشت پر اسی کور میں لگادیتے۔ہم میں سے جو بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے جاتا تو لازمی حضور کو سلام بھجواتے ۔حضور انور سے آپ کی جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں (چاہے وہ ذاتی ملاقات ہوں یا جماعتی گروپس)سب کی تصاویر آپ کے گھر کی دیواروں کی زینت ہیں۔ خلفاء وقت کی تحریکات پر فوری لبیک کہتے۔ کو شش کرتے کہ حضور ایدہ اللہ کی جانب سے کوئی بھی تحریک ہو اُس پر فوری لبیک کہیں ۔چاہے وہ مالی تحریک ہو یا دعاؤں کی تحریک ۔

ہمارے خاندان کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اپنی زمینوں واقع محمد آباد اورمحمود آباد وغیرہ کے دورے پر تشریف لے جاتے تھے۔ (حضورؓ یہ سفر بذریعہ ریل فرماتے تھے) میرپورخاص سے ایک ڈیڑھ فٹ کی ریلوے لائن چلتی تھی جو براستہ ڈگری جا تی تھی اس سفر کے دوران دوپہر کا کھانا محترمہ دادی جان تیار کیا کرتی تھیں جو اسٹیشن پر قافلہ کے سپرد کر دیا جاتا تھا اور دوران سفر تناول کیا جاتا تھا برتن وغیرہ اگلے اسٹیشنوں سے واپس بھجوا دئیے جاتے تھے ۔اسی طرح واپسی کے سفر میں شام کی چائے بھی اسی طرح گاڑی میں بھجوائی جاتی تھی۔

(ان واقعات کے ذکرکا موقع ملا تو محترم دادا جان کی سیرت میں تفصیل سے ذکر کروں گا ان شاء اللہ) حضرت مصلح موعودؓکے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دورِخلافت میں بھی یہ سفر اسی طرح جاری رہے ۔اسی طرح کے ایک دورہ کے دوران والد صاحب بتاتےہیں کہ گاڑی رکنے کے بعد پہرے دار اور قافلہ کے دیگر اراکین حضور ؒ سے کچھ دیر کے لئے جدا ہو گئے حضور ؒ کھڑکی کے پاس تشریف فرما تھے اور ڈبے میں بالکل اکیلے تھے ۔والد صاحب کی طبیعت میں ایک شرم اور حیا پائی جاتی تھی لیکن اس موقع کو دیکھتے ہوئے کہ حضور بالکل اکیلے ہیں آپ جو کہ پلیٹ فارم پر کھڑے تھے ہمت کر کے کھڑکی کے پاس تشریف لے گئے اور حضورؒ سے اپنی کمزور پریکٹس اور مالی پریشانیوں کا ذکرکیا۔ حضور ؒ نے کچھ لمحات کے توقف کے بعد فرمایا ہجرت کر جائیں ۔والد صاحب نے حضور ؒ کی نصیحت کے مطابق سنجر چانگ سے اپنی پریکٹس ختم کر کے مظفر آباد اسٹیٹ ( لابینی) کے قریب کپری موری میں پریکٹس شروع کردی۔ حضورؒ کی دعاؤں کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تمام مالی مشکلات دُور ہوگئیں۔ پاکستان سے جرمنی ہجرت سے 6 ماہ قبل آپ ڈگری سے کراچی منتقل ہو گئے تھے اور پھر جرمنی آ گئے۔

نظام ِجماعت اور عہدیداران سے محبت

آپ نظام جماعت کی بہت زیادہ غیرت رکھنے والے تھے ۔کبھی نظام کے خلاف کوئی بات نہ کرتے تھے اور نا ہی کسی کوکرنے دیتے تھے۔ فوری طور پر نہایت سختی سے ٹوک دیتے کہ یہ بات مناسب نہیں ہے ۔عہدیدار ن کی بھی بہت عزت کرتے تھے ۔ضعیفی کی وجہ سے جماعتی اجلاسات وغیرہ میں شامل ہونے سے قاصر تھے لیکن صدر صاحب جماعت سے مسلسل رابطہ میں رہتے۔جماعتی خدمت کرنے والے بھی ان کا بہت خیال رکھتے تھے ۔آپ کو جماعتی اطلاعات وغیرہ بروقت پہنچاتے۔ محترم سیکرٹری صاحب مال چندہ بھی گھر آکر لے جاتے تھے۔ لوکل سیکرٹری صاحب مال بتاتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے دروازہ سے چندہ پکڑاکر لوٹا دیا ہو۔ ہمیشہ گھر کے اندر لیکر جاتے۔ احترام سے بٹھاتے اور اپنا چندہ جو انہوں نے پہلے سے تیار کر کے رکھا ہوتا تھا، حوالے کرتے اور رسیدیں لے لیتے۔ خاکسار کو بھی بوجہ جماعتی خدمت کے اپنی باقی اولاد سے زیادہ تکریم دیتے۔ کبھی تم کہہ کر نہ بلاتے (ویسے تو وہ اپنے سب بچوں اوران کے بچوں کو بھی آپ کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے)۔ باوجود کمزوری اور ناتوانی کے کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور کھڑے ہو کر ہی رخصت کرتے۔اپنے پوتے عزیزم ابدال احمد توقیر جو کہ اللہ کے فضل سے واقف زندگی ہے اور جامعہ احمدیہ یوکے میں درجہ خامسہ کا طلب علم ہے، سے بھی اسی طرح محبت اور اکرام سے پیش آتے۔ بوقت رخصت لازمی حسب توفیق جیب خرچ دیتے ۔مجھے جب بھی فون کرتے یا میں آپ کو فون کرتا تو آپ کی کوشش ہوتی کہ مختصر بات کریں۔ کہتے تھے کہ آپ کا وقت قیمتی ہے اسے ضائع نہیں ہونا چاہیئے ۔

ڈگری میں مرکز سے آنے والے اکثر مہمان اور انسپکٹران ہمارے ہاں قیام کرتے تھے ۔ان کے قیام وطعام کا عمدہ بندوبست کرتے اور ہمیشہ کوشش ہوتی کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر ان کے آرام و آسائش کا خیال رکھیں۔

لواحقین

اللہ تعالیٰ نے آپ کو 6 بیٹیوں مکرمہ وجیہ نصرت صاحبہ اہلیہ مکرم طارق محمود صاحب مرحوم، مکرمہ فریدہ عشرت صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکرم خالد احمد صاحب رسلز ہائم جرمنی (آپ 2012ء میں وفات پا گئی تھیں) مکرمہ شاہدہ ندرت صاحبہ اہلیہ مکرم وحید احمد صاحب نوئے ہوف جرمنی ، مکرمہ بشریٰ قدسیہ صاحبہ اہلیہ مکرم امتیاز احمد نوید صاحب مربی سلسلہ سڈنی آسٹریلیا، مکرمہ رابعہ سعدیہ صاحبہ اہلیہ مکرم عطاء الرحمان صاحب آلزائے جرمنی ،مکرمہ عطیۃ الشافی صاحبہ اہلیہ مکرم ناصر احمد خان صاحب رسلز ہائم جرمنی اور 4 بیٹوں مکرم سردار احمد محمود صاحب رسلز ہائم جرمنی، خاکسار افضال احمد توقیر (نیشنل سیکرٹری وصایا و افسر جلسہ سالانہ بیلجیئم)، مکرم عبدالہادی سیف صاحب رسلز ہائم اور مکرم احمد عمر ارسلان صاحب رسلز ہائم سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے سب بچے صاحب اولاد ہیں۔ آپ کی وفات کے وقت آپ کے 39 پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور 11 پڑ نواسے اور نواسیاں ہیں ۔الحمدللہ۔ آپ کے ایک پوتے عزیزم ابدال احمد توقیر جامعہ احمدیہ یوکے میں درجہ خامسہ کے طالب علم ہیں اور جلسہ سالانہ یوکے اور جرمنی میں جرمن سے فرنچ اور فرنچ سے جرمن ٹرانسلیشن کرنے کی سعادت پاتے ہیں۔

تعلق باللہ

آپ لڑکپن ہی سے پنج وقتہ نمازوں کے عادی تھے۔ نہ صرف خود نمازیں پڑھتے بلکہ اپنے اہل خانہ کی نمازوں کا بھی خیال رکھتے ۔ اس وقت محترم والد صاحب اور والدہ مرحومہ ایک اپارٹمنٹ میں اکیلے رہتے تھے لیکن نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ میں تمہارے ابو کی جوانی کی نمازوں اور عبادات کی گواہ ہوں۔ کلینک سے واپسی پر نماز عشاء عموماً با جماعت پڑھاتے۔ آپ کی پسندیدہ سورتوں میں جو آپ عموماً نماز عشاء میں پڑھتے تھے، سورۃ البقرہ کی آخری 3 آیات اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 191 تا 195 تھیں۔ یہ آیات ہمیں آپ کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہوئے خود بخود حفظ ہو گئی تھیں۔

تلاوت قرآن کریم بھی بلا نا غہ اور اونچی آواز میں کیا کرتے۔ جب ہم پاکستان میں تھے تو پاکستان میں نامساعد حالات کے باوجود صبح سویرے گھر کے صحن میں بیٹھ کر اونچی آواز میں تلاوت کرتے تھے اور ہمیں بھی تلاوت قرآن کریم کی تلقین کرتے ۔کثرت تلاوت کی وجہ سے آپ کو قرآن کریم اتنا یاد ہو گیا تھا کہ ہم بچوں میں سے اگر کوئی غلط تلفظ سے کوئی لفظ ادا کرتا تو دور ہی سے اُس لفظ کی تصحیح فرمادیتے تھے۔

احادیث مبارکہ بھی آپ کو بہت زیادہ حفظ تھیں۔ ہر موقع اور ہر کام کے وقت آپ کے مد نظر کوئی نہ کوئی حدیث ضرور ہوتی اور آپ اپنی گفتگو میں اُس کا حوالہ بھی دیتے ۔سیرت النبی ﷺ کی کتب بھی زیر مطالعہ رہتی ۔غرض آپ کی ساری عمر احکام خداوندی اور احکام رسول کے تابع ہی گذری۔

مالی قربانی

اللہ کے فضل سے 1958ء میں محض 19سال کی عمر میں وصیت کر کے نظام وصیت کے بابرکت حصار میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔شادی کے بعد فوری طور پرہماری والدہ صاحبہ کی بھی وصیت کروائی۔ وفات کے وقت آپ کے تمام حسابات مکمل تھے۔

پاکستان میں آپ اپنی کلینک کی روز مرہ کی آمدن پر پہلے چندہ نکالتے اور پھر گھریلو اخراجات کی رقم اور اپنے کلینک کے اخراجات کے لئے رقم نکالتے ۔اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کے تحریک جدید کے کھاتے زندہ رکھے ہوئے تھے ۔ہر مالی قربانی میں ہمیشہ اپنا حصہ ڈالتے ۔

میری ایک ہمشیرہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے چندہ باقاعدگی سے ادا نہیں کرتی تھی۔ ایک دن انہوں نے ابو جان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اپنی آمدنی میں سے سب سے پہلے چندہ ادا کیا کرو باقی اخراجات خود بہ خود پورے ہوجایا کریں گے ۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے چندہ کی برکت سے ان کی تمام مالی پریشانیوں کو دُور کر دیا ۔

خدمت خلق

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ ایک نافع الناس وجود تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔پاکستان میں بھی کبھی کسی مریض کا علاج پیسے کے لئے نہیں کیا جس نے جتنی فیس دے دی لے لی۔کبھی اصرار نہیں کیا کہ نہیں جتنی فیس بنتی ہے اُتنی ہی دیں بلکہ اگرکسی کے پاس پیسے نہیں بھی ہوتے تھے تو اُسی شفقت اور توجہ سے علاج کرتے۔

جرمنی آنے کے بعد بھی لوگ آپ سے اپنے علاج کے لئے مشورہ مانگتے۔ آپ انہیں ادویات تجویز کر دیتے اور بعض نسخے لکھوا دیتے۔ بعض اوقات پاکستان سے ادویات منگوا بھی دیتے تھے ۔ہماری اپنی جماعت میں کم از کم 4گھروں میں ان کے تجویز کردہ نسخہ جات استعمال کئے گئے اور اللہ کے فضل سے آج وہ صاحب اولاد ہیں۔ الحمدللہ ۔

ہیومنٹی فرسٹ میں ہر ماہ با قاعدگی سے ایک مخصوص رقم ادا کرتےجو کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے خود کار طریقے سے ہیومنٹی فرسٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی تھی۔

اگر آپ کو بلیجئیم میں کسی چیریٹی پروگرام یا مسجد فنڈ ڈے کے انعقاد کا علم ہوجاتا (چاہے وہ پروگرام لجنہ ہی کی جانب سے منعقد کیا جاتا)تو کہتے کہ میری جانب سے بھی اُس میں حصہ ڈال دیں۔

میرے ایک بہنوئی نے پاکستان میں دوسری شادی کی ہوئی تھی۔ جب ان کی وفات کے بعد آپ کو جب معلوم ہوا کہ پاکستان میں ان کے بچوں کی مالی حالت اچھی نہیں تو آپ انہیں بھی ہر ماہ کچھ رقم بلاناغہ بھجواتے۔

تربیت اولاد

آپ عالم با عمل انسان تھے۔ ہر وہ کام جس کی کسی کو تلقین کرتے آپ پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے۔ مجھے نہیں یاد کہ آپ ہمیں بہت زیادہ نصیحتیں کرتے تھے بس آپ نے اپنا عمل ہی ہمیں دکھایا اور اسی کو ہم نے فالو کیا چاہے وہ نمازوں کی ادائیگی ہو یا چندوں کی ادائیگی ہو ، خدمت خلق ہو یا جماعتی خدمت، ان سب کو اول وقت میں ادا کرنا ہم نے آپ ہی سے سیکھا ۔

آپ کے والد صاحب آپ کے زمانہ طالب علمی میں ہی وفات پا گئے تھے۔ اپنی والدہ کے ساتھ ملکر آپ نے اپنے 9 بہن بھائیوں کی تعلیم وتربیت کا بیڑہ اُٹھایا اوران کی بہترین تعلیم و تربیت کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ایک چچا مکرم افضال احمد صاحب بہاولپور میں پروفیسر تھے۔ ایک چچا مکرم اقبال احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے نیشنل فرٹیلائزر کمپنی پاکستان میں نمایا ں عہدہ عطا کیا تھا۔ ایک چچا مکرم نعیم احمدصاحب کو عرصہ دراز تک جلسہ سالانہ جرمنی میں بطورناظم سپلائی خدمت کی توفیق ملی۔ ایک چچا مکرم ڈاکٹر وسیم احمد طاہرصاحب اللہ کے فضل سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بطور رکن خصوصی مجلس انصاراللہ جرمنی خدمت کی توفیق پار ہے ہیں ۔ایک پھپھو پرائمری اسکول کی ٹیچر اور دوسری ہائی اسکول کی ہیڈ مسٹریس کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئیں ۔

آپ نے اپنی اولاد کی بھی نہایت اچھی تربیت کی۔اللہ تعالیٰ کی محبت ہم سب کے دلوں میں پیدا کی۔ ہمیں اس بات کا یقین دلایا کہ تمام حاجت کا حاجت روا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ آپ کثرت سے یہ حدیث دہراتے تھے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ بچپن میں ہمیں نمازوں کی جانب مختلف طریقوں سے راغب کرتے تھے۔ فجر کی نماز وقت پر نہ پڑھنے والوں کا جیب خرچ بند کرتے دیتے اور اگر ثابت ہوجائے کہ کسی نے نما ز پڑھی ہی نہیں تو ناشتہ بھی نہیں ملتا تھا۔صرف اس ایک معاملہ میں سختی کرتے تھے باقی میں نے انہیں ہر معاملہ میں نہایت شفیق ومہربان پایا ۔

میں جب پرائمری اسکول پاس کر کے ہائی اسکو ل گیا تو وہ ہمارے گھر سے کافی دور تھا۔ اُن دنوں ایک لال رنگ کی سہراب سائیکل پورے چین کور کے ساتھ مجھے بے انتہا پسندتھی جس کا میں نے ابوجان سے اظہار بھی کردیا۔ ایک دن جب میں اسکول سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا اور صحن کے بیچوں بیچ وہی سائیکل کھڑی ہے ۔میں خوشی سے سائیکل کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا کہ سب گھر والے جو مختلف جگہوں پر چھپے ہوئے تھے نکل کر سامنے آ گئے اور مبارک باد دینے لگے۔والد صاحب اپنے جذبات کا منہ سے بہت کم اظہار کیا کرتے تھے لیکن اپنے عمل سے بتا دیتے تھے کہ وہ ہم سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔

10 جنوری 2021ء کو ہماری والدہ صاحبہ کی وفات پر ہم بہن بھائیوں کو ان الفاظ میں مطلع کیا

’’باسمہٖ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

؎ بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ دل توں جان فدا کر‘‘

آپ نے نہایت صبر اور حوصلہ کے ساتھ اس خبر اور غم کو برداشت کیا۔ ان دنوں مجھ سمیت ہم میں سے 4 بہن بھائیوں کو کورونا وائرس کی وجہ سے قرنطینہ کرنا پڑ گیا تھا ۔روٹین کے مطابق ہم سب کو باری باری فون کرتے اور خیریت پوچھتے رہے اور حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تجویز فرمودہ نسخہ جات کے استعمال کی تلقین کرتے رہے۔ ایک آنسو نہیں بہایا۔ چھوٹے بھائی عزیزم عبدالہادی جو کہ ان کے ساتھ ہی تھا نے کہا کہ ابو جان! آپ رولیں۔ رو کیوں نہیں لیتے؟ اس پر آپ نےکہا ’’تمہیں کیا پتا کہ میں نہیں روتا۔ میں نے جہاں اور جس کے حضور رونا ہوتا ہے میں رو لیتا ہوں۔

والدہ صاحبہ کی تدفین ان کی وفات کے چوتھے روز ہوئی۔ تدفین کے بعد جب گھر واپس تشریف لائے تو شام کو ہماری بڑی بہن مکرمہ وجیہہ نصرت صاحبہ سے کہا کہ جاؤ! حلوہ بنا کر لاؤ۔ آنحضور ﷺ نے 3 روز تک سوگ منانے کی اجازت دی ہے اور آج وہ پورے ہوگئے ہیں۔ اب سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں ۔اس مشکل وقت اور تکلیف کی گھڑی میں پورے خاندان کو سنبھالا اور وفات تک بالکل بھی اپنے غم کا اور دکھ کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ کی طرح اپنی روٹین کو جاری رکھا ۔اپنے کھانے پینے اور ادویات کو بھی روٹین کے مطابق لیتے رہے ۔آپ زندگی سے محبت کرنے والے اور اس سے لطف اندوز ہونے والے تھے۔ اسے خدا تعالیٰ کی ایک امانت سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کی۔

آپ ایک نہایت خود دار اور شرم و حیا والے انسان تھے ۔قریباً 83 سال عمر پائی۔ آخری وقت تک اپنے الگ اپارٹمنٹ میں قیام پذیر رہے۔ کسی بچے کے گھر جا کر نہیں رہتے تھے ۔چند گھنٹوں سے زیادہ کسی بھی بیٹے یا بیٹی کے گھر رہنا گوارہ نہیں تھا ۔اپنا کھانا والدہ خود بناتی تھیں۔ بازار سے سودا سلف لانے کا کام آپ کے بیٹے اور نواسے نواسیاں کر دیتے تھے۔اکثر اپنی چیزیں آن لائن آرڈر کر کے منگوا لیا کرتے تھے۔ صفائی البتہ بیٹیاں اوربہوئیں کر جاتی تھیں لیکن کبھی کسی کو کہا نہیں ۔ایک ہی شہر میں آپ کی 3 بیٹیاں اور 3 بیٹے رہائش پذیر تھے ۔صبح سے شام تک بچوں کا آنا جانا لگا رہتا اور آپ کا کچن آباد رہتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ والدہ صاحبہ اور والدہ صاحب نے جو چولہا 55 سال پہلے جلایا تھا وہ آخری دم تک جلا کر رکھا۔ ان کے گھر میں جب بھی باہر کے مہمانوں کی آمد متوقع ہوتی یعنی ان کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے آنا ہوتا تو اس وقت فون کر کے اپنی بیٹی مکرمہ عطیۃ الشافی صاحبہ کو بلاتے اور ان کی ضیافت کے اہتمام کا کہتے۔ آپ کے بچوں میں سے سب ہی نے آپ کی بہت خدمت کی توفیق پائی لیکن خاکسار خاص طور پر اپنی ہمشیرہ عزیزہ عطیۃ الشافی، بھائی عزیزم احمد عمر ارسلان اور عزیزم عبدالہادی سیف اور ہمشیرہ مکرمہ وجیہ نصرت صاحبہ کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے آخری ایام میں ان کی نمایا ں خدمت کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں بے انتہا اجر سے نوازے ۔باقی بچے بھی باوجود دور رہنے کے کوشش کر کے آتے تھے اور حسب توفیق خدمت کر جاتے تھے۔ لیکن ایک نظر سے دیکھا جائے تو وہ آخری عمر تک ہماری ہی خدمت کرتے چلے گئے۔ کبھی کسی کو کوئی نسخہ دے دیا، کسی کی مالی مدد کر دی تو کسی کے بچوں کے شادی بیاہ اور گھریلو معاملات میں ان کی رہنمائی فرماتے رہے۔ اپنے تمام چندہ جات ادا کر کے یا ان کا انتظام کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حتٰی کہ اپنی تدفین کی رقم بھی الگ سے محفوظ کی ہوئی تھی کہ بچوں پر بار نہ پڑے۔

آپ باہمت اور با حوصلہ اتنے تھےکہ ان کی وفات کے بعد چھوٹے بھائی نے بتایا کہ کیا آپ کو پتا تھا کہ ابو جان کو کینسر بھی ہوا تھا ؟میں حیران ہواکہ نہیں مجھے تو بالکل علم نہیں اور نہ کبھی انہوں نے ذکر کیا۔ ایک بار والدہ محترمہ نے ہلکا سا ذکر کیا تھا کہ ان کو مثانے کے کینسر کا اندیشہ ہے لیکن بعد میں وہ بھی کہنے لگیں کہ نہیں ٹھیک ہے۔قریباً عرصہ 9 یا 10 سال سے انہیں پیشاب کی نالی لگی ہوئی تھی جو کہ اُسی وجہ سے لگی تھی۔ ہمیں صرف اتنا بتایا کہ مثانہ کمزور ہوگیا ہے اور پیشاب پر اختیار نہیں رہتا۔ بیحد صفائی پسند تھے۔ اپنے لباس اور بدن کی صفائی کا مکمل خیال رکھتے۔ اس صورتحال میں لباس یا جسم سے بدبو آنا ایک نارمل سے بات سمجھی جاتی ہے لیکن آپ کے پاس سے کبھی کسی قسم کی بدبو نہیں آئی ۔بہت صبر اور حوصلے کے ساتھ قریباً 10 سال اس بیماری کے ساتھ گذارے اور کبھی شکوہ تک زبان پر نہیں لائے ۔زبان کو ہمیشہ ذکرالٰہی سے تر رکھتے او ر ہمیشہ شکر کے کلمات ادا کرتے ۔

28 فروری کو آپ نے ایک نکاح بھی پڑھایا تھا۔ ماشاء اللّٰہ آخری دن تک اپنے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیئے۔

3 مارچ کی صبح انہیں کارڈیو ریسٹ ہوا اور 4 مارچ کی شام چھ بجکر 38 منٹ پر آپ اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔

8 مارچ 2021ء کو آپ کا جنازہ آپ کے پوتے عزیزم ابدال احمد توقیر نے پڑھایا ۔ہم چاروں بھائیوں نے اسی روز صبح اپنے والد صاحب کو غسل دینے اور کفن پہنانے کی توفیق پائی ۔دوپہر ایک بجے آپ کی تدفین والڈ فریڈ ہوف رسلز ہائم میں امانتاً کی گئی ۔

(افضال احمد توقیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2021