• 18 اپریل, 2024

سورۃ الرعد اور ابراہیم کا تعارف ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع

سورۃ الرعد اور ابراہیم کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الرّعد

یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چوالیس آیات ہیں۔

یہاں الٓـمّٓ کے علاوہ حرف ‘ر’ آتا ہے اور الٓـمٓرٰ کا مطلب ہے اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ وَاَرٰی یعنی میَں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور دیکھتا ہوں۔

اس سورت میں کائنات کے ایسے مخفی رازوں سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ ِ راست کوئی بھی خبر نہیں تھی۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس سے پہلے جو خبریں تیرے سامنے بیان کی گئی ہیں وہ بھی یقیناً ایک عالم الغیب اللہ کی طرف سے بیان کی گئی تھیں جن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔

کائنات کے رازوں میں سے سب سے بنیادی بات جو یہاں پیش کی گئی ہے وہ کشش ِ ثقل (Gravity) کی حقیقت ہے۔ فرمایا کہ زمین و آسمان از خود اتفاقاً اپنے مدار پر قائم نہیں بلکہ تمام اجرامِ فلکی کے درمیان ایک ایسی پنہاں قوت کام کر رہی ہے جسے تم آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اس قوت کے نتیجہ میں اپنے مدار پر قائم سارے اجرامِ فلکی گویا ستونوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ علمِ فلکیات کے ماہرین کششِ ثقل کی یہی تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے تفصیلی بیان کا یہاں موقعہ نہیں۔

ایک دوسرا اہم مضمون اس سورت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے شفاف پانی سے زمین کی ہر چیز کو زندگی عطا کی ہے۔ سمندر کا پانی تو انتہائی کھاری ہوتا ہے کہ اس سے خشکی پر بسنے والے جانور اور نباتات زندگی حاصل کرنے کی بجائے موت کا شکار ہو جاتے۔اس میں سمندر کے پانی کو نتھار کر بلند پہاڑوں کی طرف لے جانے اور پھر وہاں سے اس کے برسنے اور سمندر کی طرف واپس پہنچتے پہنچتےہر طرف زندگی بکھیرنے کے نظام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس نظام کا بہت گہرا تعلق آسمانی بجلیوں سے ہے جو سمندر سے بخارات اٹھنے کے نتیجہ ہی میں پیدا ہوتی ہیں اور پانی بھی بادلوں کے درمیان بجلی کے لپکوں کے بغیر قطروں کی صورت میں زمین پر نہیں برس سکتا۔ یہ بجلی کے کڑکے بعض دفعہ ایسے ہولناک ہوتے ہیں کہ بعضوں کے لئے وہ زندگی بخش ہونے کی بجائے ان کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ فرشتے ایسے وقتوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور لرزہ بر اَندام ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر بھی فرما دیا کہ ہر انسان کی حفاظت کے لئے اس کےآگے اور پیچھے ایسے مخفی محافظ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی گہرا سائنسی مضمون ہے جس کی تفاصیل کی یہاں گنجائش نہیں لیکن جس کو بھی توفیق ہے اس کے بحر معانی میں غوطے لگا کر حکمت کے موتی نکال سکتا ہے۔

پھر اس سورت میں یہ بھی فرمایا گیا کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ عرب اتنا تو جانتے تھے کہ کھجور کے جوڑے ہوتے ہیں مگر دیگر درختوں اور پھلوں کے متعلق ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بھی جوڑے جوڑے ہیں۔ پس یہ ایک نیا مضمون بیان فرما دیا گیا جس کو آج کے سائنسدانوں نے اس گہرائی سے سمجھ لیا ہے کہ ان کے بیان کے مطابق صرف ہر زندہ نباتات کے جوڑے نہیں بلکہ مالیکیولز اور ایٹمز میں بھی جوڑے ملتے ہیں۔

مادہ Matter کے مقابل پر ضد مادہ Anti-matter کا بھی ایک جوڑا ہے۔ گویا اگر ساری کائنات کو سمیٹ دیا جائے تو اس کا مثبت مادہ اس کے منفی مادہ سے مل کر کالعدم ہو جائےاور عدم سے وجود کا فلسفہ بھی ان آیات میں مضمر معانی سے حل ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے ایک زبردست دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ عظیم الشان نبیؐ اور اس کے صحابہ ؓکیسے مغلوب ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی زمین بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان کے دشمنوں کی زمین کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے بعد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دی گئی کہ با لآخر خواہ اسلام کی عظیم الشان فتح تُو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے ہم بہر حال تیرے دین کو سب دنیا پر غالب کر دیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ399-400)

سورۃ ابراہیم

یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ترپن آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز بھی مقطعات سے ہو رہا ہے اور سورت یونس میں جہاں الٓرٰ پہلے آ چکا ہے وہی تشریح اس پر بھی اطلاق پاتی ہے۔

اس سے پہلی سورت کا اختتام اس آیت کریمہ پر ہے:۔ ’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ تُو مرسل نہیں ہے۔ تُو کہہ دے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے اور وہ بھی (گواہ ہے) جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔‘‘

پس اس سورت کا آغاز بھی کتاب کے ذکر سے ہوا اور کتاب کے نزول کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی کہ یہ تجھ پر اس لئے نازل کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالا جائے۔ پھر یہ بھی ذکر فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اس غرض سے کتاب دی گئی تھی۔ پھر حضرت موسیٰؑ کے اُس انتباہ کا ذکر ہے جس سے آپؑ نے اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر تم اور وہ تمام جو زمین میں بستے ہیں میرا انکار کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے انکار سے مستغنی ہے اور تم اس کی حمد نہ بھی کرو تو وہ اپنی ذات میں صاحب ِ حمد ہے۔

اس کے بعد مختلف انبیاء کا ذکر ہے کہ ان کی قوموں نے انکار کیوں کیا۔ ان کے انکار کی بنا یہی تھی کہ وہ رسولوں کو اپنے جیسا ایک انسان سمجھتے تھے جن پر خدا تعالیٰ کی پاک وحی نازل ہو ہی نہیں سکتی۔

اس سورت میں ایک نئی بات یہ بھی پائی جاتی ہے کہ قتلِ مرتد کے عقیدے کی بحث اٹھائی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ قتل ِ مرتد کا عقیدہ رسولوں کا انکار کرنے والوں کا اجماعی عقیدہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہر رسول کو اپنے زعم میں مرتد سمجھتے ہوئے اس کے عواقب سے آگاہ کیا کہ ہم مرتد کو ضرور سزا دیا کرتے ہیں جو اپنی زمین سے دیس نکالا ہے جب تک واپس ہماری ملت میں نہ لوٹ آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں پر وحی فرمائی کہ تمہاری ہلاکت کا دعویٰ کرنے والے خود ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے یہاں تک کہ جن زمینوں کے وہ مالک بنے بیٹھے ہیں ان کے بعد تم ان کے وارث بنا دیئے جاؤ گے۔

اسی سورت میں لفظ کَلِمَۃٌ کی ایک عظیم الشان تشریح پیش فرمائی گئی ہے اور اسی طرح شَجَرَہ کے معنے بھی خوب کھول دیئے گئے ہیں۔ شجرہ ٔ طیّبہ کی مثال پاک انسانوں یعنی انبیاء کی طرح ہے جن کی جڑیں بظاہر زمین میں پیوست ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی روحانی غذا آسمان سے حاصل کرتے ہیں اور ہر حال میں ان کو یہ غذا عطا کی جاتی ہے خواہ موسم بہار ہو یا موسم خزاں ہو۔ اور شجرۂ خبیثہ سے مراد انبیاء کے مخالفین ہیں جو اس طرح زمین سے اکھاڑ پھینک دئے جائیں گے جیسے وہ پودے جو تیز ہواؤں کے نتیجہ میں زمین سے اکھڑ جاتے ہیں اور ہوائیں انہیں اسی حالت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہیں۔پس انبیاء کے مخالفین کا بھی یہی حال ہو گا۔ وہ بار بار اپنے مؤقف تبدیل کریں گے اور بالآخر خاک میں ملا دیئے جائیں گے۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ دعا ہے جو خانہ کعبہ سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس میں یہ بھی التجا کی گئی ہے کہ خانہ کعبہ کے پاس رہنے والوں کو دُور دراز سے ہر قسم کے پھل عطا کئے جائیں۔ یہ واقعہ اسی طرح رونما ہوا۔ انہیں جسمانی پھل بھی عطا کئے گئے اور روحانی پھل بھی اور اس کا مختصر ذکر سورۃ قریش میں فرمایا گیا ہے۔ روحانی پھلوں میں سب سے بڑا پھل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ظاہر ہوا یعنی آپؐ وہ کلمۂ طیبہ بن کر ابھرے جو بنی نوع انسان کو آسمانی پھل عطا کرتا تھا۔

اس سورت کے آخر پر فرمایا گیا ہے کہ کفّار، اسلام کے خلاف یا رسولوں کے خلاف جس قدر مکر بھی کرنا چاہیں یہاں تک کہ اُن کے مکر کے ذریعہ پہاڑ جڑوں سے اکھیڑ پھینکے جائیں تب بھی وہ اللہ کے رسولوں کو ناکام نہیں کر سکتے۔

یہاں پہاڑوں کی مثال اس لئے دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عظیم ترین پہاڑ سے مشابہت رکھنے والے ایک رسول کی صورت میں پیش فرمایا گیا ہے۔ پس اس سورت کا اختتام ان لفاظ پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کرنے والوں کی زمین اور ان کے آسمان تبدیل کر دیئے جائیں گے اور نئے زمین و آسمان بنائے جائیں گے جس کے نتیجہ میں وہ غالب خدا کے حضور گروہ در گروہ نکل کھڑے ہوں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ411-412)

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

محترم ڈاکٹرا حتشام الحق صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2021