• 19 اپریل, 2024

اردو زبان کی ترویج اور ترقی

اردو زبان کی ترویج اور ترقی
میں جماعت احمدیہ کا کردار

اردو زبان کی ترویج اور ترقی میں اور اس کو ایک بین الاقوامی زبان کے سانچے میں ڈھالنے میں جماعت احمدیہ کا شاندار کردار نہ صرف یہ کہ تاریخی ہے بلکہ منفرد بھی ہے۔اور یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمدؑ قادیانی کے دور سے جب آپ نے دین حق کی تائید میں اور حضرت رسول کریم ﷺ کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے تقریباً 83 کتب تحریر فرمائیں جن مین 18 کتب عربی زبان میں ہی ہیں اور باقی تمام کتب اردو زبان میں ہیں اور ان کے کل صفحات بشمول عربی کتب کے 11 ہزار سے اوپر ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں آپکے ارشادات اور تقاریر ہیں جو ‘‘ملفوظات’’ کے نام سے 10 جلدوں میں موجود ہیں۔پھر اردو زبان میں اشتہارات ہیں جو تین جلدوں میں محفوظ ہیں۔ پھر اردو زبان میں آپکے خطوط ہیں جو ‘‘مکتوبات احمد ؑ’’کے نام سے محفوظ ہیں۔ (اسکے علاوہ آپؑ کا اردو شعری کلام اردو شاعری کی معراج ہے)

(روزنامہ الفضل 17 اکتوبر 2009ء)

اے اردو تو وہ خوش نصیب زبان ہے جو عربی زبان (جو کہ زبانوں کی ماں ہے) کے بعد تکمیل اشاعت دین کے لئے چن لی گئی ہے۔ تو اپنی اس خوش بختی پرجس قدر بھی ناز کرے کم ہے اور تجھے اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور برگزیدہ لوگ ہی لے کر آگے چلے اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا تا دین حق اور حضرت رسول کریم ﷺ کا نام اور دین کی تعلیم تمام دنیا میں پھیل جائے۔لیکن یہ یاد رکھ کہ اپنے محسنوں کو مت بھول جنہوں نے اپنے دن رات ایک کرکے تیری آبیاری کی اور تجھے دین حق کا گلستان بنا دیا۔

(روزنامہ الفضل 13 جنوری 2014ء)

ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر یہی بات حق ہے اور یقیناً ہے تو اس اسلوب ادب پر جو سب سے خوبصورت عمارت قائم ہوئی ہے وہ ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے۔اگر موضوعات شعراور ترجیحاتِ قلبی کے اختلاف کو پیش نظر رکھا جائے اور صرف ان موضوعات شعری کا جائزہ لیا جائے جو آپ حضرتؑ نے اختیار فرمائے ہیں تو اردو شعر میں کوئی ایسا شعرگو شاعر نہیں ملے گا جو ان کے مقابل پر تو کیا ان کے قریب بھی پہنچ سکے۔یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ باوجود اردو زبان کی کم عمری کے اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو اپنے خاص تصرف سے جلدی جلدی پروان چڑھا کر اس قابل بنایا کہ وہ حضرتِ اقدسؑ کی آمد تک آپ کے کلام کی مدد سے اس مقام تک پہنچ جائے کہ عرفانِ باری تعالیٰ کے دقیق اور علمی مضامین اور محبت الہی کی کیفیات کو بیان کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان شاءاللہ

(کتاب ادب المسیح از حضرت مرزا حنیف احمد)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا پیغام:
’’مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت شعر گوئی بھی ہے اور میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم شعر کہا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ سالانہ جلسہ پر نظمیں پڑھنے کے لئے وقت رکھا جاتا ہے۔ تو میں نظم کو پسند کرتا ہوں۔ اور رویا میں مجھے بتایا گیا کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو شعر کہنے کی تحریک کروں مگر انہی باتوں کی وجہ سے مجھے یہ بات سخت نا پسند ہے کہ اشعار ایسے طریق پر پڑھے جائیں کہ زبان خراب ہو۔ ہمیں اس بات کے لئے بڑی غیرت رکھنی چاہئے کہ ہماری ملکی زبان خراب نہ ہو۔

چونکہ کوئی زبان صحیح طور پر بغیر سیکھے نہیں آسکتی اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اردو سیکھنے کے لئے خاص کوشش کرو اور عربی و انگریزی جن کا سیکھنا ضروری ہے ان کے ساتھ ہی اردو بھی سیکھو۔

دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں مخالفین جب کوئی جواب نہ رکھتے اور آپ کے دلائل کی تردید بھی نہ کرسکتے تو کہتے کہ ان کی زبان میں جادو ہے۔ واقعہ میں انبیاء کو جو زبان دی جاتی ہے وہ خاص اور معجزہ کے طور پر ہوتی ہے تو تمہارے لئے اردو سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘

(پر کیف عالم تصّور کا مشاعرہ، جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار از مولانا دوست محمد شاہد، مورخ احمدیت)

اردو زبان کی اہمیت سے متعلق خلفائے احمدیت کے ارشادات

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اردو کہتے ہیں۔ اس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے۔ بلکہ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ اسے بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان میں اور اس کے باہر اردو زبان بہت مقبول ہو گئی ہے۔‘‘

’’ہماری مادری زبان اردو ہے اور ہماراخون دہلی والوں کا ہے۔ بلکہ ان کا خون ہے جن سے اردو بنی ہے۔ جیسے میر درد اور مرزا غالب۔ پس میں ایک نصیحت تو آپ کو یہ کروں گا کہ اردو زبان کو زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہمیشہ اسی زبان میں ہی گفتگو کریں۔جب ہم اردو زبان میں گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتہ نہیں لگے گا کہ اس کو اردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں۔اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اس طرح ہمارے علم میں ترقی ہوگی۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی ان کی سمجھ نہیں آتی۔ لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو اس پر عبور حاصل کر لیتا ہے پس میری نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو زبان کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے۔

(فرمودہ 29 جولائی 1949ء بحوالہ مشعل راہ جلد اول صفحہ536 تا 537)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ آپ اردو کی طرف توجہ کریں۔ الہامات کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کی اکثر تحریرات اردو میں ہیں۔ جب تک آپ اردو نہیں سیکھیں گے آپ حضرت مسیح موعود ؑ کی پر معارف کتب میں بیان فرمودہ نکاتِ روحانیت سے صحیح معنوں میں آشنا نہیں ہو سکتے کیونکہ ترجمہ میں وہ خوبصورتی اور لطف ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو حضورؑ کی اپنی تحریرات پڑھنے سے ہو سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 1993ء بمقام اوسلو ناروے)

’’اس کے علاوہ میرے ذہن میں ان بچوں کی موجودگی بھی ہے جو پیدا تو پاکستانی والدین کے گھر ہوئے لیکن بد قسمتی سے وہ اپنی مادری زبان سے اسقدر بھی واقف نہیں کہ کم از کم عمومی قسم کے خطابات کی اردو ہی سمجھ سکیں۔ اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ بعض اوقات اس بات پر فخر کرتے ہیں جبکہ یہ شرم کا مقام ہے۔ اردو یا کسی اور زبان سے واقفیت نہ ہونا کوئی فخر کی بات نہیں لیکن اپنی مادری زبان سے نا واقفیت تو بہت شرم کی بات ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جسے احساس کمتری کہا جاتا ہے۔ اور احمدیوں کو اس سے بلند ہونا چاہئے۔ چنانچہ مجھے امید ہے کہ آئیندہ جماعت اس بات کی ذمہ داری اٹھائے گی کہ جو لڑکے اور لڑکیاں پاکستانی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اردو زبان کا نہ صرف اچھی طرح علم رکھتے ہوں بلکہ اردو ادب سے بھی بخوبی واقف ہوں اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تحریرات سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں۔ چنانچہ اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ17 ستمبر 1982ء)

(محمد امجد خان ۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن لندن آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ