• 24 اپریل, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط: 19)

اداریہ
کتاب تعلیم کی تیاری
قسط: 19

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

دیکھو یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پرہیز کروں گا، یہی تمہارے لئے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی اور خدا تعالےٰ کا خوف ہو۔ ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی بُرے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کیا فائدہ؟ یقیناً مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لئے بڑا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو ہرگز ممکن نہیں کہ انسان اُن سب گناہوں سے بچ سکے جو کہ اُسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں مگر خوف ہی ایک ایسی شئے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نُقصان نہیں کر سکتے۔ مثلاً بلّی جو کہ دُودھ کی بڑی حریص ہے جب اُسے معلوم ہو کہ اس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے پرندوں کو جب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا تو جال میں پھنسے اور موت آئی تو وہ اس دُودھ اور دانہ کے نزدیک نہیں پھٹکتے۔ اس کی وجہ صرف خوف ہے پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے، اُسے کس قدر خوف اور پرہیز کرنا چاہیئے۔ یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقعہ پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقعہ پر وہ جُرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا۔ مثلاً طاعون زدہ گاؤں میں اگر کسی کو جانے کو کہا جاوے۔ تو کوئی بھی جرأت کر کے نہیں جاتا حتیٰ کہ اگر حُکّام بھی حکم دیویں تو بھی ترساں اور لرزاں جائے گا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگا کہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ کام کو جلد پُورا کر کے وہاں سے بھاگے۔ پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے۔ لیکن یہ خوف کیونکر پیدا ہو۔ اس کے لئے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔ جسقدر خدا تعالےٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا

؂ ہر کہ عارف تراست ترساں تر

اس امر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے۔ معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے جیسے پسُّو اور مچّھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ خدا جو قادر مطلق ہے۔ اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے۔ اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔ اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ معرفت نہیں۔

بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ اُن کے اندر دہریت ہے۔ کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالےٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بُھول جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دُعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا وہ اُس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے گناہ سے بچنے کیلئے جہاں دُعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سِلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضا و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالےٰ کی مدد ساتھ نہ ہو۔ ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا۔ تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی۔ نماز کے معنے ٹکریں مار لینےاور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ رُوح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الُوہیت پر گِر پڑے۔ جہانتک طاقت ہے وہاں تک رقّت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرّع سے دُعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دُور ہوں۔ اسی قسم کی نماز با برکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نُور اس کے قلب پر گِرا ہے اور نفسِ امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔ جیسے اژدھا میں ایک سمّ قاتل ہے۔ اسی طرح نفس امّارہ میں بھی سمّ قاتل ہوتا ہے اور جس نے اُسے پیدا کیا۔ اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے

کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالےٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (النجم: 33) کہ تم اپنے آپ کو مُزَکّٰی مت کہو۔ وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے کون متقی ہے۔ جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خدا تعالےٰ اُس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہی حالت ہے کہ خدا تعالےٰ کا نُور اس کے دل پر گِر کر کُل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیئے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی۔ جیسے دیوار پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی۔ اس پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اُس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں۔ آفتاب نے کہا کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر تو کہاں سے لیگی؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے۔ وہ بھی مستقل نہیں ہوتی بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہے۔ انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نُور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے نادان لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا۔ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔ اگر وہ استغفار نہ کرتا تھا تو گویا اس نُور سے بالکل محروم تھا جو کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔ کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنے والا ثابت ہوگا اسی قدر اس کا درجہ بڑا اور بلند ہوگا لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اَور، سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔ استغفار کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اَور ملے۔ اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تاکہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پا سکتا ہے۔ وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دُوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔ میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں مگر ان میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ میرے املاک کے لئے یا اولاد کے لئے دعا ہو۔ فلاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتا ہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دُور ہونے کے لئے درخواست کی گئی ہو۔ بعض خطوط میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مِل جاوے تو میں بیعت کر لُوں۔ بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں۔ وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں۔ کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اُوپر ذکر ہوا۔ اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں۔ جیسے کسی کا لڑکا مر گیا تو شکایت کرتا ہے، میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا۔ کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم باوجود کہ پیغمبر تھے مگر آپ کے گیارہ بچّے فوت ہو گئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خُداوندا تو نے مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچّے کیوں مار دیئے۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ121۔ 125، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

نفس کے ہم پر حقوق

نفس کی تین حالتیں ہیں۔ یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے۔ بچپن کی حالت میں نفس زکیہ ہوتا ہے یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس عمر کے طَے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں۔ سب سے اوّل جو حالت ہوتی ہے اس کا نام نفس امارہ ہے۔ اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قوتیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے۔ یہ جوش نفس ہر قسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے، لیکن پھر اس پر ایک حالت اَور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفس لوّامہ ہے۔ اس کا نام لوّامہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر قسم کی بے اعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے۔ جیسا کہ نفس امارہ کی صورت میں تھا۔ بلکہ نفس لوّامہ اُسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ نفس لوّامہ کی حالت میں انسان بالکل گُناہ سے پاک اور بَری نہیں ہوتا۔ مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی شیطان غالب آ جاتا ہے اور کبھی وہ غالب آ جاتا ہے۔ مگر نفس لوّامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اسی کشمکش اور جنگ و جدل میں اللہ تعالےٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اُسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مطمئنّہ ہے۔ یعنی اس حالت میں انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پا کر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آ کر داخل ہو جاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس وقت یہ خدا پر راضی ہوتا ہے اور خدا تعالےٰ اس پر راضی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ پورے طور پر اللہ تعالےٰ کی عبادت اور اطاعت میں فنا اور محو ہو جاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اس کو پُوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے۔

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۸﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۹﴾فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۱﴾

(الفجر: 28 تا 31)

یعنی اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا ہے اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں مِل جا اور میرے بہشت کے اندر آ جا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالےٰ کی رضا سے رضاءِ انسانی مِل جاوے۔ یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے۔ جہاں اللہ تعالےٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے۔ اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوتا ہے۔ ہر وقت اللہ تعالےٰ کی رضا میں زندہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے۔ انسانی ہستی کا مقصدِ اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالےٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ190۔ 192، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امّارہ نے اس کو ردّی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کارآمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ (یوسف: 54) یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفسِ امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔ اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا ربّ رحم کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نِری کوشِش ہی شرط نہیں بلکہ دعاؤں کی بہت بڑی ضرورت ہے نِرا زہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کارآمد نہیں ہوتا۔ جب تک خدا تعالےٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالےٰ کی طرف سے آتا ہے۔ حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جالے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے۔ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشِش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک امنگ اور جوش ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں کوشِش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔

اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا۔ جو شخص دیدہ دانستہ بد راہ اخیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقیناً ہلاک ہوگا۔ ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ رحم ٹھہر سکتا ہے اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالےٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہانتک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں۔ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔ اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہانتک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیئے اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیئے۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ258۔ 260، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دو راہ ہیں۔ ایک تو زہد نفس کشی اور مجاہدات کا ہے اور دوسرا قضا و قدر کا۔ لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے۔ عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ دانستہ تکلیف جھیلیں۔ لیکن قضا و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آ پڑتے ہیں تو قہرِ درویش برجانِ درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیہ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر اجر کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضا و قدر سے ہی ملتے ہیں۔ ورنہ اگر تنہائی میں اُن کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جو شہید ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 156۔ 157) اس کا یہی مطلب ہے کہ قضا و قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں اور پھر وہ صبر کرتے ہیں تو خدا تعالےٰ کی عنایتیں اور رحمتیں ان کے شاملِ حال ہوتی ہیں کیونکہ تلخ زندگی کا حصّہ ان کو بہت ملتا ہے لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب۔ امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا ہے۔ آرام سے بیٹھے ہیں۔ خدمتگار چائے لایا ہے اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے۔خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصّہ سے بھر جاتے ہیں۔ خدمت گار پر ناراض ہوتے ہیں۔ بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے کہ اُن کو ہل جوتنا نہیں پڑا۔ کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کئے۔ چولھے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شئے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے سامنے آ گئی ہے۔ چایئے تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللساں ہوتے۔ لیکن اس کے سارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سارا کیا کرایا رائیگاں کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بُھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امیر) بھی تو انسان ہے۔ اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوتا تو کیا یہ غلطی نہ کرتا؟ پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقا کے دل میں رہ رہ کر جوش اُٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولتا ہے اور اسی لئے وہ خدمتگار کی ذلّت کے درپے ہوتا ہے حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لئے زبان کشائی کرے۔ اس پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیزتھی۔ اُس نے ایک دن بادشاہ کا بستر جو کیا تو اُسے گدگدا اور ملائم اور پُھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پا کر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے۔ وہ لیٹی تو اُسے نیند آ گئی۔ جب بادشاہ آیا تو اُسے سوتا پا کر ناراض ہوا۔ اور تازیانہ کی سزا دی۔وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ روتی تو اس لئے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لئے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کس قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔ پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہیئے۔ ان کا قدم آگے ہی ہے لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں۔کیونکہ بعض وقت ان لوگوں سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں۔ صبر نہیں کرتے خدا تعالےٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ معاش کی قلت ہو تو چوری، ڈاکہ اور دوسرے جرائم شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہیئے اور خدا تعالےٰ کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہیئے۔ غربت اور کم رزقی دراصل انسان کو انسان بنانے کے لئے بڑی کیمیا ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں۔ جیسے مالداروں میں تکبّر اور نخوت وغیرہ پیدا ہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجب ہلاکت ہوتی ہے۔ اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اَور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصّہ بھی رکھ دیا ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم بکریاں چرایا کرتے تھے۔ موسیٰ ؑ نے بکریاں چرائیں۔ کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کا گزر ایک جنگل میں ہوا۔ وہاں کچھ پھلدار درخت تھے۔ چند ایک صحابی جو کہ ہمراہ تھے وہ ان کا پھل توڑ کر کھانے لگے تو آپؐ نے فرمایا کہ فُلاں درخت کا پھل کھاؤ بہت شیریں ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے معلوم ہے؟ فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں ورنہ تکبّر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصّہ ان میں ضرور رہ جاتا۔ اور پھر نبوت کے بھی دو حصّے کر دیئے۔ ایک مصائب اور شدائد کا۔ اور دوسرا فتح و نصرت کا۔ انبیاء کی زندگی کے ان دو حصّوں میں بھی الٰہی حکمت تھی۔ ایک تو یہی تھی ہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو۔ اور سچّی بات یہی ہے کہ جُوں جُوں نبوت کا زمانہ گزرتا ہے اور واقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ ابتداء میں ممکن ہے کہ غصّہ وغیرہ زیادہ ہو۔ اس لئے نبی کی زندگی کا آخری حصّہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتداء میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصہ عمر میں بہت مؤدب ہوتے ہیں ورنہ اُن کی ابتدائی زندگی کا حصہ بھی اخلاق میں تو کل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ113۔ 116، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

حضرت خلیفۃ المسیح کا خصوصی پیغام جماعت احمدیہ ناروے کے نام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2021