• 25 اپریل, 2024

محبت نامہ، الفضل کے نام

مکرمہ نبیلہ رفیق فوزی ناروے سے لکھتی ہیں کہ

رسول خدا ﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ ہے کہ جس سے محبت کرو اسے بتا نا چاہئے۔

اسی خیال کے تحت آج جب مؤرخہ 5 نومبر2021ء کے پرچے پر مکرمہ رضیہ بیگم آف امریکہ کی الفضل کے لئے ایک خوبصورت تحریر پڑھی تو ہم نے بھی سوچا کہ اب ہمیں بھی الفضل سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی دینا چاہئے ، زیادہ نہیں کچھ نہ کچھ تو ضرور لکھنا چاہئے۔ الفضل سے اپنی پہچان اتنی ہی پرانی ہے، جتنا پرانا یہ شعور کہ، ہر حال میں اپنے والد کی بات ماننا ہے۔ یعنی جو کچھ بھی ابّاجی (کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد درویش) سیکھنے اور پڑھنے کو کہہ رہے ہیں ، وہ پڑھنا ہے۔ جیسے ابّا جی نے نماز سکھائی اور پڑھنے کی عادت ڈالی ۔ اس عمر میں ہی کہیں سے الفضل کے ساتھ بھی تعلق جڑ گیا۔ اگر بہت بچپن میں پڑھنی نہیں آ تی ہوگی تو ، یقینا ً جب الفضل کا کارکن ہر سہ پہر الفضل دینے آتا تھا ،تو اسے لے کر والدہ کو دینا بھی تو چھوٹے بچوں کے فرض میں شامل تھا ۔ الفضل گھر میں آنے کی ایک رونق تھی ، پورے چھ دن جماعت کی روزانہ کی خبریں ملتی تھیں ۔ خلفاء کی صحت خاص خاص معمولات، کسی اپنے پرائے کی خوشی یا رحلت کی خبر ۔الفضل ربوہ صرف مضامین کا مجموعہ نہیں تھا ۔ اپنے پرایوں سے ملنے اور ضروری ضروری خبریں ملنے کا بھی بہت بہترین پلیٹ فارم تھا ۔ (اور یقیناً ابھی تک ہے) ثقیل مضمون پڑھنا تو بڑوں کا کام تھا ، ہم کم از کم پہلے صفحے پر حضر ت خلیفہ الثالثؓ کی روزانہ کی خیریت ، پہلے ہی صفحے پر ،موٹی تحریر میں لکھا ہوا، ارشادات حضرت امام جماعت احمدیہ علیہ السلام، اور آ خری صفحے کے موٹی تحریر میں لکھے ہوئے اشتہارات یا کسی کی ذاتی خبر کی سرخی پڑھ لیتے تھے۔ کیونکہ شام کو جب ابّاجی نے آکر بچوں سے پوچھنا ہوتا تھا کہ الفضل پڑھا ہے کہ نہیں‘‘؟ تو اس کا جواب دینے کے قابل ہوتے تھے۔

اگر اب الفضل کے کلچر کو یاد کریں تو اس سے محض علم ہی نہیں ملتا تھا بلکہ ’’خاندانِ احمدیت‘‘ سے روز کا تعارف تھا ۔ کسی کا نکاح ہوا ہے ، کسی کی شادی ہوئی ہے ، کسی کے بچے کی آمین ہوئی ہے ، کسی نے امتحانات میں امتیازی حیثیت حاصل کی ہے ۔ ربوہ الفضل کا ہر شام کو انتظار اس لئے ہوتا تھا کہ یہ ہماری برادری اور خاندان کو ہر احمدی سے جوڑی رکھتی تھی ۔اسکول کے زمانے میں الفضل نے مجھ پرایک احسان کیا تھا اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بچپن سے ہی میری زبان صاف نہیں تھی ، میں ’قاف‘ کو بھی ’ت‘ کی آواز سے بولتی تھی ۔ ایک سہ پہر میری ایک کزن باجی (رفیعہ رامہ بنت عبدالحق رامہ صاحب مرحوم) کو ریڈر ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے میرے اس مسئلے کا حل ملا ، وہ فوراًمیرے پاس پہنچیں اور ، مجھے زبان کی اس انداز سے مشقیں کروائیں کہ میرے حلق سے ’قاف‘ اور ’گاف‘ جن کو میں پہلے ’ت‘ اور ’دال‘ کی آواز سے بولتی تھی نکلنا شروع ہو گئیں ۔رفیعہ باجی تو تھوڑی دیر بعد چلی گئیں اور مجھے نصیحت کر گئیں کہ ’قاف‘ کے لفظ بولتی رہوں ، میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اس مشق کو جاری رکھوں یا بھول جاوٗں کہ باہر دیوار سے کارکن نے الفضل پکڑادی۔ میں نے کھولا تو پہلے صفحے پر ، موٹے لفظوں میں ارشادات حضرت مسیح ِ موعودؑکے ساتھ ’’حقیقی تقویٰ‘‘ لکھا ہوا تھا ۔

میں نے دس بارہ مرتبہ اسے اونچی آواز سے دُہرایا ۔ اس اقتباس میں کئی مرتبہ ، حقیقی ، حقیقت ، تقویٰ اور دوسرے الفاظ تھے جو میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اونچی آواز میں پڑھ ڈالے ۔ مشق کرتےکرتے میرا حلق تو پک گیا مگر کچھ ہی دیر میں میری زبان بالکل ٹھیک ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ میری کزن ، رفیعہ باجی پر بھی اپنی رحمت کرے اور جنت الفردوس میں مقام عطا کرے ۔ آمین۔

ہمارے ابّاجی کے حکم سے ہر الفضل سنبھال کر رکھا جاتا تھا ،ایک اسٹورمیں تہ در تہالفضل کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔ایک مرتبہ مجھے خیال آیا کہ برسوں سے کبھی ابّا جی نے انہیں دیکھا تک نہیں ان کو کون سا یاد ہے ، میں نے تقریباً 70%بنڈل جلاڈالے شومئی قسمت اس کے کچھ ہی دیر بعد مخالفت کی وجہ سے جب پہلی بار الفضل پر پابندی لگی ۔توباقی لوگوں کے لئےایک غم تھا میرے لئے یہ غم دوہرا تھا کہ، اگر ہمارے ابّاجی کو اب پرانی الفضلوں کی محبت یاد آ گئی تو کیا ہوگا؟ بہرحال میں نے اپنے گھر کے کونے کھدروں میں پڑی اخباریں ، اور اپنے ہمسائیوں اور کچھ رشتےداروں سے پرانی اخباریں اکھٹی کر کے ، ایک دو بنڈل بنا کر، ابّاجی کو دکھانے کے لئے رکھ لئے ۔

جب میری فیملی ناروے میں مقیم ہوئی ہے ، اسوقت تک الفضل دوبارہ شروع ہو چکی تھی ۔ میں نے اپنے پلوٹھے بیٹے ’’یاسر عتیق فوزی‘‘ (جو اب ماشاء اللّٰہ مربی سلسلہ ناروے ہے) کو بہت جلد اردو پڑھنی سکھا دی تھی۔ مجھے بس ایک لگن تھی کہ کسی طرح میرا بیٹا الفضل کھول کر پہلا ارشادات والا صفحہ ضرور پڑھنا سیکھ لے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت کرم کیا۔ اس کی اردو پڑھنے کی کافی اچھی ٹریننگ ہو گئی ۔ وہ چھ سال کا تھا جب میں اپنے بچوں کے ساتھ پہلی مرتبہ پاکستان واپس گئی ۔ راولپنڈی میں اس کے دادا (مکرم نصیب احمد عارف مرحوم) کو جب معلوم ہوا کہ ان کا پوتا الفضل پڑھ سکتا ہے تو ان کی خوشی دیدنی تھی، اس روز کا اخبار آیا تو عزیزم یاسر نے دادی، دادا کو ارشادات پڑھ کر سنائے ۔اردو پڑھنا کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں تھا ۔ ان کا پہلا پو تا چھ سال کی عمر میں الفضل پڑھ لیتا ہے ، خوشی اس بات کی تھی۔ اور اب اللہ تعالی نے یہ فضل کیا کہ ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالی نے میرے اس بیٹے کو روزنامہ الفضل آن لائن کی ترقی و ترویج کے لئے ناروے کا نمائندہ مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالی یہ اعزاز مبارک کرے۔آمین

جہاں تک الفضل کی ترقی کا تعلق ہے ۔ آج اس کو مختلف رنگوں سے آراستہ آن لائن کی صورت میں اپنے Gadgets پر روزانہ نمودار ہوتا دیکھتے ہیں تو دل اللہ کے شکر سے بھر جاتا ہے کہ کہاں ایک اخبار کو پکڑنے کے لئے ہم دوڑتے تھے اور آج گھر کے ہر فرد کے فون پر روزانہ پوری شان کے ساتھ روحانی مائدہ لئے نازل ہوتا ہے۔ الحمد للّٰہ

اللہ تعالیٰ الفضل اور الفضل کے ساتھ محبت کرنے والوں کو اجر عظیم دے ۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ