• 19 اپریل, 2024

فضل کا تعلق

ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبّیْ

آج کے اداریہ کا عنوان ایک قرآنی آیت ہے جس کے معنی ہیں کہ یہ محض میرے رب کے فضل سے ہے۔قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ یہ الفاظ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہیں۔ جب ملکہ سبا کا تخت ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ھٰذا مِنْ فَضْلِ رَبّیْ۔سورۃالنمل کی آیت 41 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک سبق سکھلایا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایسے نبی تھے جن کے پاس دنیوی مال ، جلا ل اور جاہ و حشمت بھی تھی۔ جب ایک ملکہ کا تخت پیش ہوا تو کبروغرور کی بجائے اسے ایک فضل الہٰی جا نا اور کہا لِيَبْلُوَنِـىٓ ءَاَشْكُـرُ اَمْ اَكْفُرُ وَ مَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ کہ تا وہ (اللہ) مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو بھی شکر کرتا ہے تو اپنے نفس کے فائدہ کے لئے کرتا ہے۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سارےواقعہ میں ایک بڑا سبق دعوت الیٰ اللہ کابھی ہے ایک طرف حضرت سلیمان ؑاپنی تعلیم و تربیت کے لئے خدائے عزوجل کا شکر ادا کر رہے ہیں اور دوسری طرف ملکہ سبا کو اس کی حیثیت بتانے کاسبق دینا چاہتے ہیں کہ اس تخت پر گھمنڈ کرنے کی ضرورت نہیں یہ معمولی شئے ہے۔
جہاں تک لفظ ’’فضل کا تعلق‘‘ ہے۔ اقرب الموارد میں لکھا ہے کہ فضل کے معنی ایسے احسا ن کے ہیں جو کسی پر اس کے کام کے بغیر ابتداءً احسان کرنا فضل کہلاتا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 494)

گویا خدا کی خدائی اور ماں کی ممتا کی کہانی ہے کہ مخلوق کے کچھ کئے بغیر اور اولاد کا ماں کے لئے کچھ کرے بغیر اللہ اورماں کی رحیمیت جوش میں آتی ہے اور اللہ اپنے مخلوق اورماں اپنی اولاد پر فضل و احسان کرتی ہے۔ اسلامی تعلیم میں اسے ’’الرحیم‘‘ کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔یعنی بِن مانگے دینے والا
احباب جماعت عالمگیر پر روزنامہ ’’الفضل‘‘ بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں میں ایک احسان اور فضل ہےاور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ ( خلیفہ کا درجہ ماں جیسا ہوتا ہے جو اپنے ماننے والوں پر ایسے بے شمار احسان اور فضل کرتا ہے جو پیروکاروں کے مطالبہ کے بغیر ہوتا ہے) کا بھی احباب جماعت پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ الفضل کی صورت میں ایک علمی، تربیتی، روحانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی نہر جاری فرمادی۔ جس کاایک راجباہ اب آن لائن کی صورت میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی مبارک سر پرستی اور نگرانی میں جاری ہوا ہے۔ اللہ اس روحانی پانی سے تمام دنیا کو سیراب کرے۔
آج ہم میں ہر احمدی کی علی الاعلان دل کی گہرائیوں سے اپنے خالق حقیقی خدائے عزوجل اللہ میاں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس نہر کے اجراء پر سرعام یہ اعلان اور آوازوپکار ہے۔
ھٰذا مِنْ فَضْلِ رَبّیْ
کہ یہ ’’الفضل‘‘ بھی میرے رب کے فضل میں سےہے۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے آغاز میں اس اخبار کا ’’فضل‘‘ ہی تجویز فرمایاتھا۔ اس لئے اب ہم میں سے ہر ایک مرد وزن کا فرض ہے کہ
1 . اپنے خداتعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جائیں۔
2 . اللہ نے آسمان سےہمارے لئے مائدہ اُتارا ہے جس سے ہم نے استفادہ کرنا ہے۔ خود بھی اسے پڑھنا ہے، اپنی اولادوں کوبھی پڑھانا ہے اور دینی تعلیم کو اپنے جسموں میں اُتار کر اپنے اندر ایسے رنگ بھرنے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اصحاب رسولؐ جیسے لگنے لگ جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منظوم قطعہ ہم میں سے ہر ایک پر لاگو ہو۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا

مجھے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ جب ’’الفضل‘‘ آتاتھا تو میں نے اپنی اولاد کو بتا رکھا تھا کہ اول تو سارے اخبار سے گزرو۔ اگر نہیں تو پہلا صفحہ جس میں قرآن، حدیث، ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور فرمودات خلیفۃ المسیح ہیں ضرور پڑھو۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم بہن بھائی جب صبح ناشتہ کے لئے چنگیر کے اردگرد بیٹھا کرتے تھے تو ہماری ماں ہمیں یہ کہا کرتی تھیں کہ پہلے الفضل کا پہلا صفحہ پڑھ کر سناؤ۔ یہی دراصل خلاصہ ہےاخبار کااوریہی ہماری فیملی کلاس ہوا کرتی تھی۔
ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ اور حضرت مرز شریف احمدؓ کے درمیان بحث چھڑ گئی کہ علم اچھا ہے یا مال۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گزر اپنے ان بچوں کے قریب سے ہوا تو گفتگو سن کر فرمایا نہ علم اچھا ہے نہ مال۔محض خداکا فضل اچھا ہے۔
پس ’’آج الفضل‘‘ خدا کے فضل کی صورت میں ہمارے سامنےہے۔ اس فضل کو اپنے اندر جذب کرنا اور اپنے بچوں کو اس سے فیض یاب کرنااور کرنا بہت ضروری ہے۔اللہ کا فضل ’’الفضل‘‘ کی صورت میں جو نازل ہوا ہے اس کی اشاعت اپنے عزیزو اقارب، اہل خانہ اور دوست احباب میں بذریعہ ویب اور سوشل میڈیا بڑھائیں اور اسے پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

خطبہ جمعہ کا خلاصہ فرمودہ 13دسمبر 2019ء بمقام مسجد مبارک اسلام آباد