• 19 اپریل, 2024

عظیم سجدہ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سورۃ الانعام کی آیت 163 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کی تفسیر میں سورۃ الاعراف کے تعارفی نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہاں آنحضرت ﷺ کا ذکر ان معنوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے عظیم سجدہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا اور اسی نسبت سے تمام بنی نوع انسان کو آپؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے اس سجدہ کا ذکر گزشتہ سورت کے آخر پر ان الفاظ میں ملتا ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پس جس کا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہوجائے اس کے حضور جھکنا کوئی شرک نہیں بلکہ اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوگی۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ تعارفی نوٹ سورۃ الاعراف صفحہ239)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں مزید لکھتے ہیں:
’’اس سورت (الانعام) کے آخر پر ایک ایسی آیت ہے جو آنحضرت ﷺ کے اپنے رب کے حضور کامل مطیع ہونے کا اس کمال کے ساتھ ذکر کرتی ہے کہ اس سے بہتر ذکر ممکن نہیں اور تمام دنیا کی الہٰی کتب میں اس مضمون کی کوئی آیت موجود نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا گیاہےکہ میری نمازیں اور میری سب قربانیاں یعنی صرف اَنعام (چوپائے) کی قربانیاں نہیں بلکہ اپنے دلی جذبات کی قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت خالصۃً اپنے اللہ کے لئے وقف ہوچکی ہیں۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ تعارفی نوٹ سورۃ الانعام صفحہ 204)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ان مندرجہ بالا ارشادات میں ہمارے لئے دو سبق ہیں۔

  1. جس طرح آنحضورﷺ نے اپنی نماز، قربانیاں، زندگی اور موت کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کرکے اللہ کی خاطر عظیم سجدہ کیا۔ ہمیں بھی آپؐ کی اتباع میں اپنا سب کچھ خدا کے لئے وقف کرکے سجدہ ریز رہنا چاہیے۔
  2. آنحضور ﷺ کی اطاعت کریں۔ آپؐ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

ان ہر دو امورکے بارے میں آنحضورﷺ کی سیرت کے ذکر میں قرآن کریم اور احادیث میں مزید وضاحت ملتی ہے۔ آنحضور ﷺ اپنے خالق اللہ تعالیٰ کی طرف اس قدر جھکتے تھے اور تسبیح و تحمید کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مجسّم ذکر قرار دیتے ہوئے فرمایا قَدْ أَنزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا (الطلاق:11) کہ اللہ نے تمہاری طرف ایک عظیم ذکر (یعنی محمدؐ) نازل کیاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے سورۃ الحدید کے تعارفی نوٹ میں اس کا ترجمہ یوں کیا کہ یقیناً اللہ نے تمہاری طرف مجسّم ذکر الہٰی رسول نازل کیا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ صفحہ 993-994)

پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کودنیا بھر میں اپنا سب سے بڑا ’’مُسَبِّحْ اعظم‘‘ قرار دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے سورۃ التغابن کے تعارفی نوٹ میں آیت نمبر 4 کی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے۔

’’اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح کررہا ہے جیسا کہ سب تسبیح کرنے والوں سے بڑھ کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ صفحہ1036)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مثالی عبد یعنی عبادت کرنے والا قرار دیا ہے اور سورۃ المزمل میں آپؐ کی نماز تہجد کا ذکر فرما کر آپؐ کے عظیم سجدوں کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؐ کی نفلی نمازوں بالخصوص نماز تہجد کی نماز میں رکوع، سجود، قیام اور قعود کی طوالت کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔

ایک دفعہ حضرت سودہؓ کے دل میں آنحضرتﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی باری میں رسول کریم ﷺ جب تہجد کے لئے اٹھے تو یہ بھی آنحضورﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔ ان کا جسم بھاری تھا۔ اُدھر آنحضورﷺ رات کو اکیلے میں لمبی نماز پڑھتے۔ لمبا قیام، رکوع اور طویل سجدے ہوتے تھے۔ اگلی صبح جب حضور ﷺ سے اس نماز کے بارہ میں اپنا تاثر بیان کیا تو بے تکلفی سے یوں کہہ دیا کہ یارسول اللہﷺ! میں نے رات آپ کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے تو اتنا لمبا رکوع کروایا کہ بالآخر میں نے اپنی ناک ہی پکڑلی کہ جھک جھک کر کہیں نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے۔ آنحضورﷺ یہ تبصرہ سن کر خوب محظوظ ہوئے۔

(طبقات ابن سعد جزء8 صفحہ54 مطبوعہ بیروت)(حوالہ نہیں ملا)

غزوہ بدر میں آپؐ کو طویل سجدوں ہی کی حالت میں إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلامِ ، فَلا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (مسلم) کے مبارک نتائج سے آگاہ کیا تھا اور مسلمانوں کو فتح عطا ہوئی تھی۔

حضرت عائشہؓ نے آپؐ کی طویل عبادات اور رکوع و سجود دیکھ کر فرمایا تھا کہ جب خدا نے آپؐ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں تو اتنے لمبے سجدے کیوں بجالاتے ہیں تب آپؐ نے فرمایا تھا أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أكُونَ عبْداً شكُوراً (متفق علیہ) کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں۔

دوسرا سبق۔ آنحضور ﷺ کی اطاعت اور پیروی کا ہے اور آپؐ کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے جیسا کہ فرمایا مَنْ يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ (النساء:81) کہ جو رسول (محمدؐ) کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔

پھر آپؐ کی اتباع و اطاعت کو محبت الہٰی کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (ال عمران: 32)

کہ اے محمدؐ! تو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

ایک اور موقع پر آپؐ کی مکمل اطاعت کی برکت سے اللہ تعالیٰ انسان کو صالح، شہید، صدیق اور نبی کا مقام عطا کرسکتا ہے۔ (النساء: 70)

ان آیات کی روشنی میں ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ہر ادا اور حرکت اور حکم و ہدایت کی پیروی کریں۔ اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں۔ آپؐ جس خشوع و خضوع سے اپنی نمازیں ادا فرماتے، ہمیں بھی اسی خشوع و خضوع کے ساتھ نمازوں کو سجانا چاہیے۔ آپؐ کے سجدوں، رکوع و قیام کی طرح ہمیں اپنے سجدوں، رکوع وقیام کو طول دینا چاہیے۔ تا ہمارا خدا ہم سے محبت کرے۔ اور ہمیں آنحضورﷺ کو اپنے گھروں میں بسانا چاہیے تا ہم اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کو مخاطب ہوکر قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ (الانفال: 34) کہ اللہ ہرگز ان کو عذاب نہ دے گا جب تک تو اُن میں ہے۔ گویا آنحضورﷺ تعویز ہیں ان کے لئے جن کے گھروں میں لوگ حضرت محمدﷺ کو بساتے اور آباد کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں اس شہر کو گواہ ٹھہراتا ہوں اُس وقت تک جب تک تو اس میں ہے کہ جب تجھے اس شہر سے نکال دیں گے تو یہ شہر پھر امن دینے والا نہیں رہے گا۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ تعارفی نوٹس سورۃ البلد صفحہ1170)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ