• 25 اپریل, 2024

حصولِ فضل کی راہیں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھوکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دوراہ ہیں۔ایک تو زُہد نفس کشی اور مجاہدات کا ہے اور دوسرا قضاء وقدر کا۔لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے۔ عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں۔لیکن قضاء و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑ تے ہیں تو قہرِ دردیش برجان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیۂ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر اجر کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضاء و قدر سے ہی ملتے ہیں ؛ورنہ اگر تنہائی میں اُن کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جوشہید ہوں۔اسی لئے اﷲ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے۔

وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ …(البقرہ : 156، 157)

اس کا یہی مطلب ہے کہ قضاو قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں اور پھر وہ صبر کرتے ہیں تو خد اتعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں،کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے،لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب۔امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا ہے۔آرام سے بیٹھے ہیں۔خدمتگار چائے لایا ہے۔اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے ۔خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصہ سے بھر جاتے ہیں۔خدمتگار پر ناراض ہوتے ہیں۔بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے کہ اُن کو ہل جوتنا نہیں پڑا۔ کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کئے۔چولہے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شئے محض خدا کے فضل سے سامنے آگئی ہے۔

چاہئے تو یہ تھا کہ خد اکے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللساں ہوتے۔لیکن اس کے سارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سارا کیا کرایا رائیگاں کردیتے ہیں؛ حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امیر) بھی تو انسان ہے۔اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوتا تو کیا یہ غلطی نہ کرتا؟ پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقاکے دل میں رہ رہ کر جوش اُٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولتاہے اور اسی لئے وہ خدمتگار کی ذلت کے درپے ہوتا ہے؛ حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لئے زبان کشائی کرے۔اس پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سلطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیز تھی۔ اُس نے ایک دن بادشاہ کا بستر جو کیا تو اُسے گدگدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پاکر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے۔ وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی۔جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر ناراض ہوا اور تازیانہ کی سزا دی۔وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی۔بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ روتی تو اس لئے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لئے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کسی قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص 88)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے