• 18 اپریل, 2024

عائلی زندگی کے بارہ میں اسلامی تعلیمات

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

(الفرقان: 75)

اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدا کردہ یہ حسین و جمیل دنیا آج بے شمار مصائب اور مسائل میں گھِر چکی ہے۔ خود اپنی شامتِ اعمال کے نتیجہ میں انسانیت مختلف نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہے۔ خدا کی ہستی کا انکار، لا دینیت، سیاسی اور معاشی، ملکی اور عالمگیر مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اس تناظر میں ایک بہت بڑا عالمگیر مسئلہ گھروں کے سکون اور عائلی زندگی کی خوشی کا فقدان ہے۔

عائلی زندگی کے حوالہ سے مذہب اسلام اس بات کا عَلم بردار ہے کہ اس کی تعلیمات میں ازدواجی زندگی کو کامیاب اورخوشگوار بنانے کے سلسلہ میں کامل رہنمائی موجود ہے۔یہی بات میرے آج کے مضمون کا موضوع ہے کہ عائلی زندگی کے بارہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں اسلامی تعلیمات کے چند پہلو اختصار سے پیش کروں گا۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ صرف تعلیمات کا علم کافی نہیں بلکہ ان کے مطابق عمل کرنے سے ہی عائلی زندگی کامیاب اور راحت بخش ہو سکتی ہے۔

کامیاب عائلی زندگی کا نسخۂ کیمیا۔ تقویٰ

حضرت مسیح موعود ؑنے ایک نہایت خوبصورت مصرعہ لکھا کہ :۔

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے

دوسرا مصرعہ ابھی آپؑ سوچ ہی رہے تھے کہ الہاماً اللہ تعالیٰ نے عطا فرمادیا :۔

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے۔

غور کیا جائے تو اس خوبصورت شعر میں انسان کی ساری زندگی اس کے دین، ایمان ، فلاح اور کامیابی کا راز بیان کر دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کی ازدواجی زندگی کا نقطۂ آغاز تقریب نکاح ہے۔ اس موقعہ پر رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت کے لئے قرآن مجید کے تین مقامات سے چار آیات کریمہ کا انتخاب فرمایا۔ ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔
’’اللہ تعالیٰ نے پانچ جگہ نکاح کے موقع پر تقویٰ کا لفظ استعمال کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا ہر فعل، تمہارا ہر قول، تمہارا ہر عمل صرف اپنی ذات کے لئے نہ ہو بلکہ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو اور ایک دوسرے کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو۔‘‘

(مستورات سے خطاب، 23 جولائی 2011ء برموقع جلسہ سالانہ یوکے)

تقویٰ کی اہمیّت حضرت مسیح پاک ؑ کے مبارک الفاظ میں سنیے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوّت بخشتی ہے۔ اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھیدیہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 342)

حق یہ ہے کہ کامیاب اور بابرکت عائلی زندگی کا نسخۂ کیمیا یہی تقویٰ ہے۔یہی وہ گوہرِ آبدار ہے جس کی برکت سے ازدواجی زندگی ایک شجرۂ طیبہ بن جاتی ہے۔اس کی جڑیں تقویٰ کی زمین میں پیوستہ ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں اور اسی جوہرکی برکت سے یہ درخت ایک سدا بہار درخت بن جاتا ہے جو زندگی کے ہر مرحلہ میں ہمیشہ تازہ بتازہ لذیذ پھل عطا کرتا ہے۔ازدواجی زندگی اور اس کی کامیابی کی حقیقی بنیاد تقویٰ ہے۔جس گھر میں تقویٰ کی دولت ہے وہ گھر رحمتوں اور برکتوں کا خزینہ ہے اور جس گھر میں تقویٰ نہیں وہ ایک ویرانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو تقویٰ کی بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:۔

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو ! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عشق، مے اور جام تقویٰ

تقویٰ کا مضمون بہت وسیع ہے اور انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تقویٰ کی ایک خوبصورت تعریف فرمائی۔ فرمایا:۔
’’تقویٰ یہی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بُرائی کو بھی بیزار ہو کر ترک کرنا، ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوئے اختیار کرنا‘‘

(خطاب مورخہ23 جولائی 2011ءبرطانیہ)

عائلی زندگی کا اصل الاصول

عائلی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے اسلام نے ایک بنیادی اصول بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان مردوں کو تاکیداً فرماتا ہے:۔ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) کہ اے مسلمان مردو! تم اپنے گھروں کو جنّت کا گہوارہ بنانا چاہتے ہو تو اس اصول پرمضبوطی سے کاربندہوجاؤکہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔اس آیت کریمہ میں ایسی سنہری ہدایت دی گئی ہے جو اصولی اور بنیادی ہے اور عائلی زندگی کو خوبصورت بنانے کی پختہ ضمانت بھی ہے۔

اس سنہری اصول کی وضاحت میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ خوبصورت حدیث ہے جس میں آپ ﷺنے فرمایا:۔

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَ أَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ

(مشکوٰۃ۔ باب عشرۃ النّساء)

کہ اے مسلمانو! خدا کی نظر میں تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابؓہ کو مزید ترغیب دلانے کی غرض سے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ دیکھو مَیں تم کو جو تعلیم دیتا ہوں اس پر سب سے پہلے میں خود عمل کرتا ہوں۔مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں اپنے اہلِ خانہ سے سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔ پس میرے نمونہ کو سامنے رکھو اور اس کی پیروی کرو ، تم بھی خداکی نظر میں اس کے محبوب بن جاؤ گے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا کہ
مومن مرد اپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے اس کا ثواب ملے گا۔

(صحیح بخاری، کتاب النکاح)

حسن معاشرت کے بارہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جگہ جگہ تاکیدی نصیحت فرمائی ہے۔آپ ؑنے فرمایا:

‘‘خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ بیویوں سے نیک سلوک کرو۔ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ لیکن اگر انسان محض اپنی ذاتی اور نفسانی اغراض کی بنا پر وہ سلوک کرتا ہے تو فضول ہے اور وہی سلوک اگراِس حکم الٰہی کے واسطے ہے تو موجب برکات’’

(ملفوظات جلد ششم۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان۔ صفحہ 351)

پھر ایک موقع پر فرمایا :
’’بیوی اسیر کی طرح ہے اگر یہ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ پرعمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے‘‘

(ملفوظات جلدششم۔ ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان۔صفحہ 381)

ایک دفعہ ایک دوست کی شکایت ہوئی کہ وہ بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے تو آپؑ نے فرمایا:۔ ’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘

(ملفوظات جلد دوم۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان۔ صفحہ 2)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو‘‘

(ملفوظات جلد 5۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان۔ صفحہ 418)

خوشگوار عائلی زندگی کی کلید : دعا

عائلی زندگی کی کامیابی کی کلید دعا ہے۔ دعا کیا ہے؟ اپنے آپ کو لا شیٔ محض یقین کرتے ہوئے، قادروتوانا خدا کے حضور پیش کرنا، اس کامل یقین کے ساتھ کہ دعا کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں اور دعا کے ساتھ ہر چیز ممکن ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اگر مردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعا سے اور اگر اندھے بینا ہو سکتے ہیں تو دعا سے۔ پس یہی دعا ہے جو پتھر دل خاوند کو موم کر سکتی ہے،جو باغیانہ سرشت کی بے باک عورت کو رام کر سکتی ہے۔پس عائلی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کا تِیر بہدف نسخہ دعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ازدواجی زندگی کے قدم قدم پر مومنوں کو دعائیں سکھائیں اور اس بارہ میں تاکید فرمائی۔

دعا کا آغاز کس مرحلہ سے ہونا چاہیے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’حضرت میر ناصر نواب صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو یہ اعزاز کس طرح ملا اور کیا کام آپ نے کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو اتنا بڑا مقام حاصل ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے داماد بنے؟ انہوں نے بتایا کہ جب میری یہ بچی پیدا ہوئی تھی تو میں نے اس طرح تڑپ کے ساتھ جس طرح ایک ذبح کیا ہوا جانور تڑپتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تھی کہ اس کو خود سنبھالنا اور ایسا مقام عطا کرنا جو دنیا میں کسی کو نہ ملا ہو۔ جب حضرت میر صاحب یہ بیان فرما رہے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘

(خط حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز محررہ یکم اپریل 2011ء مطبوعہ احمدیہ گزٹ کینیڈا اپریل 2011ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پرفرمایاہے:۔
’’ہر ماں باپ کو اولاد کے لئے اس کی شادی کی عمر سے بہت پہلے دعائیں شروع کردینی چاہئیں تاکہ انہیں نیک نصیب عطا ہوں اور ان کی آئندہ عائلی زندگی پُرسکون اور خوشیوں سے معمور ہو۔ شادی شدہ جوڑے بھی اپنے ہاں نیک اولاد عطا ہونے کی دعائیں کرتے رہیں تو یہ بہت مبارک طریق ہے‘‘

(خط حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز محررہ یکم اپریل 2011ء۔ مطبوعہ احمدیہ گزٹ کینیڈا اپریل 2011ء)

اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جب رشتہ کی تلاش کا مرحلہ آئے تو اس موقع پر خود بھی دعا کرو، بچوں کو دعا کی تلقین کرو اور دعائیں کرتے ہوئے سب مراحل طے ہوں۔ دینی پہلو اور کفوکوترجیح دی جائے۔ اعلانِ نکاح ہو، رخصتانہ ہو، خلوت کاوقت ہوغرض ہر مرحلہ پر دعا ہی مومن کا سہارا ہے۔ قرآن مجید نے عباد الرّحمٰن کی ایک مستقل خوبی یہ بیان کی ہے کہ وہ ہمیشہ عائلی زندگی کے حوالہ سے یہ دعا کرتے رہے ہیں:۔

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

(الفرقان: 75)

کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

ایک تو یہ با ت یاد رکھنے والی ہے کہ جو دعا خود خدا تعالیٰ نے سکھائی ہو وہ اپنی افادیت اور قبولیت میں سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے یہ دعا ایسی ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں سے متعلق ہے کیونکہ عربی میں ’’زوج‘‘ کا لفظ خاونداوربیوی دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ نیکی دراصل وہی ہے جس میں تسلسل اور دوام پایا جائے۔آنکھوں کی حقیقی ٹھنڈک میں یہ دعابھی شامل ہے کہ بچے بھی حقیقی معنوں میں متقی ہوں اور نیکی کا تسلسل جاری رہے۔یہ ایک نہایت ہی جامع دعا ہے جس سے سارا گھر خوشی اورمسرت کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ ساری زندگی اس کابکثرت ورد کرنا چاہئے۔

دعا کا ذکر چل رہا ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک طریق کا ذکر بھی ضروری ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 6 صفحہ 355)

مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض

اسلام نے خوشگوار عائلی زندگی کے حوالہ سے مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق و فرائض اور دائرہ کار کی پوری وضاحت فرمائی ہے۔ خدا تعالیٰ کی نظر میں مرد اور عورت بحیثیت انسان یکساں درجہ رکھتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد بار ذکر آتا ہے کہ مرد عورت میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا اس کا اجر یکساں دیا جائے گا اور کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔یہ حقیقی روحانی مساوات ہے جو اسلامی تعلیم کا طرّۂ امتیاز ہے۔

جسمانی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو مختلف قویٰ عطا فرمائے اور اسی نسبت سے ان کے فرائض مقرر فرما دیئے۔ عائلی زندگی کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ

(البقرۃ:229)

کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا ان پر ہے۔جبکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے۔ اس فوقیت کا ذکر دوسری جگہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ ( النساء: 35) کے الفاظ میں آتا ہے کہ مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کوبعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ قوّام کے لفظ میں مردوں کی وسیع ذمّہ داریوں کا ذکر ہے جو عائلی زندگی کے حوالہ سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ مردگھر کا سربراہ ہے اور اس حوالہ سے اس عظیم ذمہ داری کا مکلّف بنایا گیا ہے۔

اس نہایت متوازن اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر اپنانے سے عائلی زندگی میں ایک حسن اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ جو اس گھر کو رحمتوں اور برکتوں سے بھر دیتا ہے۔

میاں بیوی میں باہمی تعاون اور موافقت

ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانا مرد اور عورت دونوں کی ذمہ داری ہے۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔بالکل بجا کہا جاتا ہے کہ میاں اور بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ان کے ایک ساتھ چلنے سے ہی ازدواجی زندگی کا سفر بخیر و خوبی طے ہو سکتا ہے۔ان کے درمیان باہم موافقت اور تعاون سے ہی یہ رشتہ،جو انسانی زندگی میں سب سے نازک رشتہ ہے ، باہمی مودّت اور رحمت سے ہر دو کے لئے جسمانی اور روحانی تسکین اور خوشی کا موجب ہوسکتا ہے۔ اس باہمی تعاون کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :۔ ھُنَّ لِبَاسُ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنّ (البقرۃ : 188) کہ اے مردو ! عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لئے بطور لباس ہو۔

حضرت مصلح موعود ؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔
’’مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ لباس کا کام دیں۔ یعنی (1) ایک دوسرے کے عیب چھپائیں۔ (2) ایک دوسرے کیلئے زینت کا موجب بنیں۔ (3) پھرجس طرح لباس سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اُسی طرح مرد و عورت سُکھ دُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اورپریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اورسکون کاباعث بنیں۔غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اْسے سردی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے۔ اِسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 411)

اسلامی معاشرہ کو حسین بنانے اور گھروں کو جنت نظیر بنانے کی ذمّہ داری یکساں طور پر مرد اور عورت پر ڈالی گئی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر دلوں میں کدورت پیدا کرنا، معمولی معمولی باتوں کو طول دے کر گھر کی فضا کو مکدّر کر دینا پرلے درجہ کی جہالت ہے۔ شادی تو وہ مقدّس رشتہ ہے جس کو مودّت و رحمت اور باہمی سکون اور سکینت کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ہر مرد اور عورت کو یہ ارشاد خداوندی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ : جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَ رَحْمَۃً (الروم:22) باہمی محبت اور رحمت ہی ازدواجی زندگی کا حقیقی مقصد اور حسن ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بہت قابل توجہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
’’میرے نزدیک یہ نعمت اکثر نعمتوں کا اصل الاصول ہے اور چونکہ مومن اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا طالب و جویاں بلکہ عاشق و حریص ہوتا ہے اس لئے میری رائے میں وہ گھر بہشت کی طرح پاک اور برکتوں سے بھرا ہوا ہے جس میں مرد اور عورت میں محبت و اخلاص و موافقت ہو‘‘

(مکتوبات احمد جلد دوم، مکتوب 37 صفحہ 59)

ایک مومنہ بیوی کے اوصاف

اسلام نے اگر ایک طرف ایک خاوند کو بیوی سے حسن معاشرت کا پابند کیا ہے تو ایک مومنہ بیوی کے اوصاف کا بھی خوب وضاحت سے ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان خوبیوں والی بیوی ہی عائلی زندگی کو خوبصورت بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان صفات کا جامع ذکر قرآن مجید کی سورت الاحزاب کی آیت 36 میں ملتا ہے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک مومنہ بیوی کی صفات اور فرائض کا تذکرہ فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:۔
’’کوئی عورت اس وقت تک خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی‘‘

(سنن ابن ماجہ)

پھر فرمایا:۔
’’جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی۔ رمضان کے روزے رکھے۔ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہا مانا۔ ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو‘‘

(طبرانی)

آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔
’’بہترین عورت وہ ہے جسے اس کا خاوند دیکھے تو اس کا دل خوش ہو اور جب خاوند اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور جس بات کو اُس کا خاوند نا پسند کرے اُس سے بچے‘‘

(مشکوٰۃ)

اسی طرح ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے‘‘

(حدیقۃ الصالحین، صفحہ 404)

حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔
’’جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی‘‘

(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ)

مسیح پاک علیہ السلام کا ایک ارشاد بہت توجہ سے سننے کے لائق ہے۔ آپؑ نے فرمایا ہے :۔
’’عورتوں کے لئے خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر ایک بلا سے بچاوے گا۔ اور ان کی اولاد عمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ، سورۃ النساء جلد 2صفحہ237)

کسی بھی نظام کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرے۔عائلی زندگی کی کامیابی کا مدار بھی اسی اصول پر ہے۔ خاوند اور بیوی دونوں اپنی اپنی ذمہ داری کو، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، پورے اخلاص اور وفا سے ادا کرنے والے ہوں تو تب ہی ان کی زندگی برکتوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے اور عاقبت بھی سنور جاتی ہے۔

ماں باپ سے حسن سلوک اور ان کے لئے دعا

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کا رشتہ اس مقصد سے قائم فرمایا ہے کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے باعث تسکین ہوں۔ لیکن اس باہمی محبت و الفت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کی چاہت میں اس قدر ڈوب جائیں کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ دیگر ذمہ داریوں کو بھول جائیں یا ان میں کوتاہی کریں۔

ایک بہت اہم ذمہ داری ماں باپ کے حوالہ سے ہے۔ بچے خواہ چھوٹے ہوں یا شادی شدہ ہوں ماں باپ کی خدمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ ماں کو کندھوں پر اٹھا کر حج کروانے سے بھی ماں کی خدمت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ سوئے ہوئے ماں باپ کے پاس ساری رات دودھ کا پیالہ لے کر کھڑے رہنے والے بیٹے کی نیکی کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح نوازا۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت کی نوید ایسی نہیں کہ شادی ہو جانے کے بعد بیٹا بیٹی اپنی اس ذمہ داری کو بھول جائیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ساری زندگی دونوں طرف کے والدین کی خدمت لازم ہے اور بڑھاپے کی عمر میں تو یہ فرض اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔خدمت کے علاوہ ماں باپ کے لئے مسلسل دعاؤں کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ فرمایا کہ والدین کے لئے یہ دعا کیا کرو:۔ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل:25) کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کا نمونہ دیکھیں۔ آپؓ نے فرمایا :
’’میں اپنے ماں باپ کے لئے دعا مانگنے سے تھکتا نہیں۔ مَیں نے اب تک کوئی جنازہ ایسا نہیں پڑھا جس میں ان کے لئے دعا نہ مانگی ہو۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 5 اکتوبر 2009ء)

یاد رکھنا چاہئے کہ جس گھر میں والدین کا ادب، احترام اور خدمت کا وصف نہیں وہ رحمتوں اور برکتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

تر بیت اولاد

خوشگوار اور با برکت عائلی زندگی کا ایک اور اہم پہلو بچوں کی نیک تربیت ہے۔ اس بات کی اہمیّت کو نظر انداز کرنے سے، میاں بیوی کی باہمی محبت کے باوجود، ان کو آنکھوں کی حقیقی ٹھنڈک نصیب نہیں ہو سکتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ فِی ذُرِّیَّتِیْ میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے۔کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑجاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے‘‘

(ملفوظات جلددہم۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان۔ صفحہ 139)

اگر مرتے وقت کسی ماں یا باپ کو یہ نظر آئے کہ وہ ایک متقی اولاد پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں تو ان کا سفر آخرت پُر سکون ہو جاتا ہے۔

(مولانا عطاءالمجیب راشد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے