• 19 اپریل, 2024

محبت رسول ﷺ تکمیل ایمان کی شرط ہے

حضرت مسیح موعودؑ، حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

وہ آج شاہ دیں ہے، وہ تاج مرسلیں ہے
وہ طیب و امیں ہے، اس کی ثنا یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اس نے وہ کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے

(درثمین)

اللّٰہ جلّ جلالہ و عزاسمہ نےاپنے پیارے کلام قرآن پاک میں فرمایا ہے۔
ترجمہ: تو کہہ دے اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہار ے بھائی اور تمہارے ازواج اور تمہارے قبیلے اور وہ اموال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس میں گھاٹے کا خو ف رکھتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ بدکردار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

( التوبہ:24)

ایمان کی شرط محبت رسولؐ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اُسے پیارا نہ ہوں۔

(بخاری جلد اول صفحہ 52کتاب الایمان)

یہ قیمتی امانت تمہارے سپرد ہے

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ خلیفۃ المسیح الثانی ایک صحابی رسول ؐ کی محبت رسولؐ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ۔
ہمیشہ میرا قلب اس صحابی کا ذکر آنے پر اس کے لئے دعائیں کرنے میں لگ جاتا ہے۔ جس نے اُحد کے موقع پر رسول کریم ﷺسے اخلاص کا ایسا قابل رشک نمونہ پیش کیا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال قائم رہے گی ۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ُاحد کی جنگ میں جب کفار میدان سے چلے گئے اور مسلمان اپنے زخمیوں اور شہیدوں کی تلاش میں نکلے تو ایک انصاری نے دیکھا کہ ایک دوسرے انصاری بہت بُری طرح زخمی ہو کر میدان جنگ میں پڑے ہیں اور چند منٹ کے مہمان معلوم ہوتے ہیں ۔و ہ صحابی ان کے پاس گئے اور کہا اپنے گھروالوں کو کوئی پیغام دینا چاہو تو دے دو ، میں پہنچا دوں گا ۔

اُس وقت اس صحابی نے جو جواب دیا وہ نہایت ہی شاندار تھا ۔ اس حالت میں کہ وہ موت کے قریب تھے اور اپنی موت کے بعد اپنی بیوی بچوں کی حالت کا نظارہ اُن کی آنکھوں کے سامنے تھا انہوں نے جو ایمان کا نمونہ دکھایاوہ بتاتا ہے کہ انصار نے جو کہا سچے دل سے کہا تھا اور اُسے پورا کر کے دکھا دیا ۔ انہوں نے کہا میں پہلے ہی اس بات کی انتظار میں تھا کہ کوئی دوست ملے تو اس کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجوں ، اچھا ہوا تم آ گئے ۔ پھر کہا وہ پیغام یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے رشتہ داروں اور میرے دوستوں سے کہہ دینا کہ جب تک ہم زندہ تھے ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے رسول کریم ﷺ کی، حفاظت کی مگر اب ہم اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور یہ قیمتی امانت تمہارے سپرد کرتے ہیں اُمید ہے کہ آپ ہم سے بھی بڑھ کر اس کی حفاظت کریں گے ۔ یہ کہا اور جان اپنے پیدا کرنے والے کے سپرد کر دی۔

یہ ایسا شاندار ایمان کا مظاہرہ ہے کہ جس کی مثال صحابہ رسول کریم ﷺ کے سوا کسی اور جگہ بہت کم مل سکتی ہے۔

جان اور ماں باپ سے بھی زیادہ پیارا نبیؐ

حضرت مسیح موعود ؑاپنی ایک تصنیف میں رسول پاکؐ کی شان میں ناپاک حملہ کرنے والو ں کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد ﷺ کوبُرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور آنجنابؐ پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی ؐ پر جو ہمیں جان اور ماں باپ سے بھی زیادہ پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔‘‘

آنکھ بھر کر کبھی نہ دیکھا

تمام صحابہ رسولؐ خدا کے عاشق دل وجان سے آپؐ پر فدا رہتے انہی کی شان میں فرمایا کہ اصحابی کالنجوم کہ صحابہ ستاروں کی طرح ہیں۔ ہر صحابی کا محبت رسول کا الگ طریق تھا اور ہر طریقہ میں نیا انداز تھا سارے صحابہ ؓ کے واقعات کو نقل کرنا تو بہت مشکل ہے تاہم محبت و فدائیت کا ایک بہت ہی پیارا واقعہ اس طرح محفوظ ہے۔

حضرت ابن شماسہؓ یعنی عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی وفات کے وقت ان کے پاس گئے ۔ آپؓ پر نزع کی حالت طاری تھی وہ ہمیں دیکھ کر رونے لگے اور اپنا مُنہ دیوار کی طرف کر لیا۔ آپ کے بیٹے آپ سے کہنے لگے ابا جان، آپ کو آنحضرت ﷺ نے ایسی ایسی بشارت نہیں دی؟ آپ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا۔ ہمارے لئے بہترین توشہ یہ ہے کہ ہم اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمؐد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مجھ پر تین حالتیں آئیں۔ ایک وقت تھا کہ مجھے آنحضرتؐ سے سخت بُغض تھا۔ ایسا بغض شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ اگر مجھے موقعہ ملے تو آپ کو شہید کر دوں اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقینا دوزخی ہوتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں صداقت ڈال دی۔ میں حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ آپؐ اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں، میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ حضور ؐنے فرمایا ۔عمرو! یہ کیا؟ میں نے عرض کیا میرا ارادہ ہے کہ بیعت کے لئے ایک شرط رکھوں۔

حضورؐ نے دریافت فرمایا کون سی شرط؟ میں نے کہا کہ میرے گناہ بخشے جائیں۔ حضورؐ نے فرمایا۔ کیا جانتے نہیں کہ اسلام تمام سابقہ قصوروں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام سابقہ کوتاہیوں کو دھو ڈالتی ہے اور حج تمام سابقہ برائیوں کو صاف کر دیتا ہے۔ چنانچہ میں نے بیعت کر لی پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری آنکھوں میں آپؐ کے سوا کسی کا جلال جچتا تھا۔ آپؐ کے جلال کی وجہ سے میں آنکھ بھر کر آپؐ کو نہ دیکھ سکتا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آنحضرتؐ کا حلیہ کیا تھا تو میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتا۔ کیونکہ آنکھ بھر کر میں نے کبھی آپؐ کو نہیں دیکھا (نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام قبول کرنے کے بعد) اگر اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔ اس کے بعد ہمیں اقتدار ملا، اختیار ملا اور اب میں نہیں جانتا کہ ان ذمہ داریوں کے بارے میں میرا کیا حال ہو۔ میری بخشش ہو گی بھی یا نہیں۔ جب میرا انتقال ہو تو میرے جنازے پر کوئی نوحہ نہ کرے، نہ جنازے کے ساتھ آگ لے جائی جائے۔ پھر جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر پر جلدی جلدی مٹی ڈالنا اور پھر اتنی دیر ٹھہرنا جتنی دیر ایک اونٹ کو ذبح کر کے اس کے گوشت کو تقسیم کرنے میں لگتی ہے اس طرح تمہاری موجودگی کی وجہ سے میں اپنی قبر سے مانوس ہو جاؤں گا اور یہ سوچنے کا موقع مل جائے گا کہ اپنے رب کے فرستادہ ملائکہ کو کیا جواب دوں۔

(مسلم کتاب الایمان)

اس نے میرے پیارےکا نام لیا ہے

محبت رسول اللہﷺ کا ایک پیارا واقعہ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق اس طرح محفوظ ہے۔
حضرت صالحہ بی بی رفیقہ حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتی ہیں۔ ’’ایک دفعہ سخت گرمی کے موسم میں ایک عورت جو آلے بھولے (مٹی کے کھلونے) بیچنے والی تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑکے گھر میں آئی اور صحن کے کنویں کے پاس سر سے ٹوکرا اتار کر بیٹھ گئی۔ سلطانو اہلیہ کرم داد کو جو (حضرت مسیح موعود ؑ) کے گھر میں خادمہ تھیں۔ مخاطب کرکے کہنے لگی ’’بی بی بُھکھ لگی اے‘‘ یعنی بی بی مجھے بھوک لگی ہے۔ اس پر خادمہ نے اس کو دو روٹیاں دال ڈال کر دے دیں۔ اس نے اس میں سے ایک لقمہ توڑا۔ لیکن جب منہ کے قریب لے جانے لگی تو ادھر ادھر مکان میں نظر دوڑائی اور کہا کہ ’’بی بی ایہہ عیسائیاں دا گھر تے نہیں؟‘‘ خادمہ نے پوچھا ’’تو کون ایں‘‘۔ تو اس نے جواب دیا ’’میں بندہ خدا دا تے امت حضرت محمد رسول اللہ ؐدی‘‘۔ جب یہ آواز اس کی حضرت مسیح موعود ؑنے سنی تو اسی وقت حضور جو برآمدہ میں ٹہل رہے تھے۔ اس کے الفاظ پر جھٹ اس طرف متوجہ ہوئے اور اس طرف منہ کرکے فرمایا کہ ان کو تسلی دو … اور اسے ایک روپیہ بھی دیا اور فرمایا کہ اس نے میرے پیارے کا نام لیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے تقویٰ سے کام لیا کہ لقمہ توڑ کر منہ میں نہیں ڈال لیا۔ پھر اس عورت نے روٹی کھائی اور خوش خوش چلی گئی۔‘‘

ہر احمدی اسوۂ حسنہ کی عملی تصویر بن کردکھائے

مغربی دنیا والے اور مخالفین … نے ہمارے جان سے پیارے نبی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مُطہرپر ناپاک حملے کئے اور گندی جسارت کرتے ہوئے کارٹون بنائے اور اپنی بزدلی جسد اور خبث باطن کا اظہار کیا جس سے دنیا بھر کے مومنوں کے دل جلائے اور جگر ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اس پر ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا بھر کے احمدیوں کو اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور کثرت سے درود شریف پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ یہی درود ہے اور یہی نبی ہے جس کا دنیا میں غلبہ مقدر ہو چکا ہے۔ پس جہاں ایک احمدی مسلمان اس بیہودہ گوئی پر کراہت اور غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے وہاں ان لوگوں کو بھی اور اپنے اپنے ملکوں کے ارباب حل و عقد کو بھی ایک احمدی اس بیہودہ گوئی سے باز رہنے اور روکنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانی چاہئے۔ دنیاوی لحاظ سے ایک احمدی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس سازش کے خلاف دنیا کو اصل حقیقت سے آشنا کرے اور اصل حقیقت بتائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلو دکھائے۔ اپنے ہر عمل سے آپ ؐکے خوبصورت اُسوہ حسنہ کا اظہار کر کے اوراسلام کی تعلیم اور آپؐ کے اسوہ حسنہ کی عملی تصویر بن کردنیا کو دکھائے۔ ہاں ساتھ ہی یہ بھی جیسا کہ میں نے کہا کہ درود و سلام کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دے۔ مرد، عورت، جوان، بوڑھا، بچہ اپنے ماحول کو، اپنی فضاؤں کو درود و سلام سے بھر دے۔ اپنے عمل کو اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ بنا دے۔ پس یہ خوبصورت ردّعمل ہے جو ہم نے دکھانا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور محبت رسولؐ عطا فرمائے اور آپﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

(نذیر احمد سانول)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے