• 18 اپریل, 2024

اندھیرے سے روشنی تک کا سفر

ایک ترک خاتون کی بیعت کرنے سے لے کر خدمت دین کیلئے زندگی وقف کرنے کی سرگزشت

میں جن دنوں گارنٹی بنک ترکی میں برانچ مینیجرکے طور پر کام کر رہی تھی، میرا تعارف مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس انچارج ٹرکش ڈیسک سے ہوا۔ وہ ان دنوں ٹرکش زبان میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے۔ ایک دن انہوں نے کہا میں تمہارے لئے قیمتی تحفہ لایا ہوں۔ اُنہوں نے ایک بیعت فارم میرے ہاتھ میں تھما دیا اور مجھے کہا کہ اس فارم کے پیچھے بیعت کی 10 شرائط لکھی ہوئی ہیں۔ یہ فارم انگریزی میں ہے اور تم انگریزی جانتی ہو۔ اسے ساتھ لے جاؤ اور اچھی طرح پڑھ کر دعا کرکے اگر تسلی ہو جائے تو اس پر دستخط کردینا۔ میں نے بغیر کوئی سوال پوچھے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مزید معلومت حاصل کئے بغیر قلم نکال کر اُس بیعت فارم پر دستخط کردئیے۔

مارچ 1985ء میں شمس بھائی کے استنبول سے روانہ ہونے سے پہلے بیعت کرکے مسلمان جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئی۔ شمس بھائی کے صاف ستھرے اور عمدہ اخلاق نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ میں بغیر کوئی سوال پوچھے اور بغیر کوئی وضاحت طلب کئے احمدی ہوگئی۔ فالحمد اللہ۔ مارچ 1985 ء میں شمس بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے حکم سے لندن چلے گئے اور میری جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ دین کے احکام پر عمل تو کرتی تھی روزے بھی رکھتی تھی۔ لیکن افسوس ہے کہ دین کے احکام پر عمل کرنے میں سستی کر جایا کرتی تھی۔ بنک مینیجر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے قانوناً بھی میرے لئے اسلامی پردہ کے احکامات پر عمل کرنا قریباً نا ممکن تھا۔ میں نمازوں کی ادائیگی میں بھی سست تھی۔ قریباً 2کروڑ کی آبادی کے شہر استنبول میں، میَں تنہا احمدی تھی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور میں اپنی تعلیم و تربیت کیسے کروں اور کس طرح ایک مثالی احمدی بنوں۔

شمس بھائی مجھے انگلستان سے انگریزی میں شائع ہونے والے رسالے مثلاً ریو یو آف ریلیجنز و دیگر چھوٹی چھوٹی انگریزی کتابیں بھیجا کرتے تھے۔ جب بھی مجھے موقع ملتا اُن کا مطالعہ کرکے اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ اس کے بعد میں نے اُس وقت کے امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں خطوط لکھنے شروع کردیئے۔ اسی طرح میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے اُن کو بھی حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھ کر اُ ن کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا مضبوط تعلق اور بھی مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔

میں نے ایک خواب دیکھا کہ سنگ مر مر کا ایک حوض ہے جس کے صاف اور شفاف پانی سے میں وضو کر رہی ہوں۔ وہاں سنگ مر مر کی سفید رنگ کی ایک مسجد ہے۔ وہاں بہت سی لڑکیاں مختلف رنگ کے ریشمی لباس پہنے نماز ادا کر رہی ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ پہلی صف میں کھڑی ہوکر نماز پڑ ھ رہی ہوں۔ میں نے اس طرح کے خواب پے در پے دیکھے۔

اسی طرح میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سر سبز و شاداب اور وسیع میدان میں کھڑی ہوں۔ وہاں پر مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک کے لوگ طرح طرح کے لباس پہنے کھڑے ہیں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ دنیا کی ہر نسل، ہر رنگ اور قوم کے انسان وہاں موجود ہیں۔ پھر میں نے ایک ایسی خوشبو محسوس کی جو اس سے پہلے مجھے دنیا میں کہیں نہ ملی تھی۔ اس خوشبو کی عمدگی اور تازگی کو بیان کرنا مشکل ہے اُس کے بعد مجھے آواز آئی:

’’یہ جنت کی خوشبو ہے اور یہی تیری جماعت ہے اور یہی تیری جنت ہے۔‘‘ شمس بھائی نے مجھے انگلستان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی تحریک کی۔ میں پوری تیاری کے باوجود اپنی والدہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شریک نہ ہوسکی۔

میری پیاری والدہ دل کے عارضہ کی وجہ سے اسپتال میں تھیں جس کی بناء پر میں نے لندن کے سفر کا ارادہ منسوخ کردیا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور میری پیاری والدہ ٹھیک ہو کر گھر آگئیں۔ اُن کی تحریک پر میں انگلستان کے سفر پر روانہ ہوگئی۔ ان دنوں جلسہ سالانہ یوکے، ٹلفورڈ نامی گاؤں میں ’’اسلام آباد‘‘ نامی جگہ پر منعقد ہوتا تھا۔ جب میں انگلستان پہنچی تو جلسہ اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ شمس بھائی مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے لندن لے گئے۔ حضور انور کے پر نور چہرہ کو دیکھ کر میری خوشی کی انتہاء نہ رہی۔ حضور انور نے میرے ساتھ بے حد شفقت کا سلوک فرمایا اور مجھے تحائف بھی عنایت فرمائے۔ حضور انورکی یہ شفقت ایک باپ سے بھی بڑھ کر تھی۔ جس کا میرے دل پر بے حد اثر ہوا۔ جمہوریہ ترکی کی تاریخ، عربوں اور عثمانی ترکوں کے تعلقات، انگریزوں کے سلطنت عثمانیہ پر اثر و رسوخ، نیز مصطفیٰ کمال اتاترک اور اس کے کارناموں کے بارہ میں حضورؒ کا علم بے حد وسیع تھا۔

اگلے سال میں پھر جلسہ سالانہ انگلستان میں شامل ہوئی۔ جلسہ سے چند دن قبل انگلستان پہنچ گئی۔ اس جلسہ میں شامل ہونا میری زندگی میں ایک انقلابی قدم ثابت ہوا۔ جلسہ سالانہ کی تقاریر بھی میرے لئے بے حد دلچسپ اور مسحور کن تھیں۔ میرے علم میں بھی اضافہ ہوا۔

جلسہ کا دوسرا دن تھا۔ دوپہر کے وقت جلسہ سالانہ کی تقاریر میں وقفہ کیا گیا۔ ہم سب کھانے کے لئے جلسہ کے خیمہ سے باہر آئے۔ میں باہر میدان میں کھڑی تھی۔ اچانک میں نے وہی خوشبو محسوس کی جو میں نے قبل ازیں خواب میں محسوس کی تھی اور مجھے وہ آواز بھی یاد آئی کہ ’’یہ جنت کی خوشبو ہے۔‘‘

میں جو کچھ دیکھتی رہی وہ خواب نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت تھی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اس مادی دنیا میں یہی مبارک جماعت میری جنت ہے جو ایک نورانی خلیفہ کے تابع ہے۔ یہ میرے لئے خدا تعالیٰ کا واضح پیغام تھا کہ اس جماعت کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کرو اور خلیفۂ وقت کی اطاعت میں محو ہو جاؤ تو جنت اسی دنیا میں مل جائے گی۔

وقت گزرتا گیا۔ میرے خاندان اور میرے ماحول میں رہنے والوں نے اُس مثبت تبدیلی کو محسوس کیا جو میرے اندرپیدا ہو رہی تھی۔ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتی رہی کہ وہ مجھے احمدیت پر ثابت قدم رکھے۔ میں نے اپنے خاندان والوں کو احمدیت سے تاحال روشناس نہیں کرایا تھا۔

اُن ایام میں MTA کی نشریات ابھی نئی نئی شروع ہوئی تھیں۔ میں نے MTA کے پروگرام دیکھنے شروع کئے۔ میں بنک سے تھکی ہاری گھر واپس آتی اور MTA کے انگریزی پروگرام دیکھ کر اپنی والدہ صاحبہ اور بہنوں کو بھی اُن سے آگاہ کرتی۔ اس طرح ان کو بھی دلچسپی پیدا ہونے لگی۔

ایک دن میں نے مناسب وقت پر اپنی والدہ صاحبہ کو بتایا کہ میں احمدیہ جماعت میں داخل ہو چکی ہوں۔ اور حضرت امام مہدی ؑ دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔ میری حیرت اور خوشی کی انتہاء نہ رہی جب میری والدہ نے میری بات سن کر مجھے کہا۔

’’بیٹی! میں ہر گز امید نہیں کرتی کہ تم کوئی غلط کام کرو گی۔ اگر تم کسی چیز کے بارہ میں کہتی ہو کہ یہ صحیح ہے تو وہ یقیناً صحیح ہوگی۔ میں بھی تمہارے ساتھ احمدی ہوتی ہوں اور جماعت احمدیہ میں شامل ہوتی ہوں۔‘‘

میں نے بیعت فارم اپنی امی جان کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے بھی بالکل میری طرح، بغیر کوئی اعتراض کئے اور بغیر کوئی سوال پوچھے اور بغیر تحقیق کئے بیعت فارم پر دستخط کردیئے اور احمدیہ مسلم جماعت میں داخل ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرح صدر سے احمدی بننے کی سعادت بخشی جو اُن کی سادگی اور نیک طبیعت کی طرف مائل کر رہی تھی۔ اُس کے بعد ہمارا ماں بیٹی کا تعلق ایک ہی جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے اور بھی مضبوط ہو گیا۔ میری والدہ محترمہ بہت ہی دین دار اور نمازی خاتون تھیں۔ وہ شمس بھائی سے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتیں اور اُنہوں نے شمس بھائی کے مثالی کردار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

ترکی میں سب سے پہلے احمدی حضرت سید محمت افندی ؓ تھے۔ ان کا اسم گرامی حضرت مسیح موعود ؑ کے 313 اصحاب کرام میں درج ہے۔ آپ ؓ نے سلطنت عثمانیہ کے دور میں حضرت مسیح موعود ؑ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ 1985ء میں بیعت کرنے کے بعد شروع میں استنبول میں واحد احمدی صرف میں تھی۔ مجھ سے پہلے ترکی میں 3 بزرگ، یعنی مکرم شناسی حسن، ان کی اہلیہ محترمہ صبیحہّ خانم اور انقرہ میں مقیم مکرم پروفیسر ماجد بے نی جے (MACIT BENICE) احمدی ہو چکے تھے۔ محترمہ صبیحہّ خانم اور ان کے میاں مکرم شناسی حسن (SINASI HASAN SIBER) اِز میّر میں رہائش پذیر تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے حکم پر میں نے اِزمیّر پہنچ کر مکرم شناسی صاحب سے ملاقات کی۔ میرے ساتھ میرا نوجوان بھانجا بھی تھا جس کا نام ’’بارش‘‘ (BARIS) ہے۔ ہم استنبول سے بذریعہ ہوائی جہاز از میر پہنچے اور ٹیکسی لے کر شناسی صاحب کے گھر جاکر ان سے ملے۔ ہم شناسی صاحب سے مل کر بےحد متاثر ہوئے۔ شناسی صاحب کی عمر قریباً 80 سال تھی۔ اُنہوں نے جماعت کی مختلف کتابوں کا انگریزی سے تُرکی میں ترجمہ کیا۔ شناسی صاحب، وزارت خارجہ میں بطور ترجمان کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے اور اپنی اہلیہ صبیحہ خانم صاحبہ کے ساتھ از میّر میں رہائش پذیر تھے۔ آپ ترکی کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ دراصل اُس وقت آپ قبرص کےشہر ’’ماغوسہ‘‘ (MAGOSA) کے رہنے والے تھے۔ آپ اس وقت ترکی میں پہلے احمدی تھے اور آپ کی اہلیہ محترمہ صبیحہ خانم بھی احمدی تھیں۔ ان دونوں بزرگوں کا نام احمدیہ جماعت ترکی کی تاریخ میں سنہری حرو ف میں لکھا جائے گا۔

جب شناسی صاحب انقرہ میں وزارت خارجہ میں کام کر رہے تھے اُن دنوں آپ ترک علماء کے کردار سے شدید متنفرّ تھے اور قریب تھا کہ عیسائی ہوجائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آپ کی ملاقات مکرم سید برکات احمد سے ہوگئی۔ جو ہندوستان کے سفارت خانہ میں کلچرل اتاشی کے طور پر کام کررہے تھے اور اُن دنوں انقرہ میں مقیم تھے۔ اُنہوں نے مکرم شناسی صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت کی بعض کتب مطالعہ کے لئے دیں جن کے مطالعہ کے نتیجہ میں آپ کے دل میں حقیقی اسلام کی محبت گھر کر گئی اور آپ خلوص دل کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اور اصلی اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسی طرح آپ نے حضرت مصلح موعود ؓ کی 5 جلدوں میں تیارکی گئی انگریزی تفسیر کا بھی مطالعہ کیا۔ جب آپ کے احمدی ہونے کا لوگوں کو علم ہوا تو تمام لوگ آپ کے دشمن ہوگئے۔ آپ دفتر سے ریٹائرمنٹ لے کر ازمیر کے محلہ ’’حطائی‘‘ میں رہائش پذیرہوگئے۔ آپ کے گھر میں ٹیلیفون نہیں تھا۔ تاکہ لوگ آپ کے آرام میں خلل انداز نہ ہوسکیں۔ گھر میں ٹی وی بھی موجود نہیں تھا۔ آپ سارا دن جماعت احمدیہ کے شائع کردہ حضرت مولانا شیر علی ؓ کے انگریزی ترجمتہ القرآن کے مطالعہ میں مصروف رہتے۔ شناسیّ صاحب نے ہمیں بتایا کہ اُنہوں نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی کتاب ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ کا انگریزی ترجمہ کرکے محکمہ اوقاف اور امور دینیہ ترکی کے سامنے پیش کیا۔ اُنہوں نے فوراً ہی اس ترجمہ کو 10 ہزار کی تعداد میں شائع کردیا۔

جیسا کہ میں عرض کرچکی ہوں کہ میں استنبول میں اکیلی احمدی تھی۔ بعد میں میری والدہ محترمہ بھی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہو گئیں۔ لیکن میری بہنیں بالعموم اپنے خاوندوں کے زیرِ اثر احمدیت میں داخل نہ ہوئیں۔ لیکن میری چھوٹی بہن سمّاء خانم اُن سے مختلف نکلیں۔ ایک دفعہ میں نے اپنی اُس بہن کو جلسہ میں شمولیت کی تحریک کی اور وہ راضی ہوگئیں۔ قریباً ساڑھے 3 گھنٹے کی فلائیٹ میں مجھے اچھا موقع ملا اور میں نے ان کو احمدیت سے روشناس کرایا۔ وہ جہاز کے اندر ہی احمدیت قبول کرکے میرے ساتھ شامل ہوگئیں۔ میری بہن کی قبولیتِ احمدیت کا واقعہ بھی میری طرح اور امی جان کی طرح ہی تھا۔ بغیر کوئی سوال پوچھے، بغیر سوچنے کے لئے کچھ مدت طلب کرنے کے میری بہن نے لندن پہنچ کر اپنے ہاتھ سے بیعت فارم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا۔ البتہ میری بہن نے مجھے صرف یہ ضرور کہا تھا کہ آپ نے اتنی دیر کیوں کی۔ اور مجھے احمدیت کے بارہ میں پہلے کیوں نہ بتایا؟ جوں جوں دن گزرتے گئے جماعت کے بارہ میں میرے علم میں اضافہ ہوتا گیا اور نظام جماعت سے بھی میری واقفیت بڑھتی چلی گئی۔ میں نے چندہ کا علم ہونے پر ہر چندہ کی ادائیگی بھی شروع کردی اور وصیت کے نظام میں بھی شامل ہوگئی۔

میری بے حد خواہش تھی کہ دوسرے لوگ بھی جماعت میں داخل ہوں۔ 1990ء میں ایک مربیّ مکرم محمد احمد راشدّ ترکی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے استنبول آئے۔ ترکی جماعت میں بھی آہستہ آہستہ اضافہ ہونے لگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجھے صدر لجنہ مقرر فرمایا۔ میں نے نظام وصیت میں شامل ہونے کے بعد اپنی ساری جائیداد کا دسواں حصہ بھی ادا کردیا اور چندہ کی ادائیگی کے علاوہ دوسری ترک احمدی بہنوں کو بھی چندہ کی طرف توجہ دلائی اور نظام وصیت میں شامل ہونے کی بھی تلقین کی۔ الحمد للہ قریباً ساری بہنیں نظام ِوصیت میں شامل ہوگئیں۔ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگرام دن بدن اہمیت اختیار کر گئے۔ لقاء مع العرب، ترجمۃ القرآن کلاس، اردو کلاس، مجالس سوال و جواب، ہومیو پیتھی کلاس و دیگر پروگرام اور بالخصوص خطباتِ جمعہ میرے لئے غیر معمولی دلچسپی کا باعث تھے۔ ان پروگراموں کے ذریعہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور جماعت اور خلیفہ ٔوقت کی محبت بھی ہمارے دلوں میں گھر کرتی چلی گئی۔

بھائی شمس نے ایک تجویز میرے سامنے رکھی۔ اُنہوں نے کہا کہ تم بنک سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لو اور اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کردو۔ چنانچہ حضور انور کی خدمت میں خط لکھا گیا اور مجھے لندن طلب کرلیا گیا۔ لندن پہنچنے پر حضور انور نے مجھے ٹرکش ڈیسک لندن میں خدمت پر مامور فرمایا۔ یہاں تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتی ہوں کہ لندن آتے ہوئے میں نے نہ صرف بنک سے ریٹائرمنٹ لی بلکہ اپنا ذاتی مکان بھی جماعت کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کردیا۔ 1998ء میں مجھے اطلاع ملی کہ میری والدہ نمونیہ کی وجہ سے بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں۔ میں حضور انورکی اجازت سے استنبول پہنچی۔ میری والدہ کو قبل ازیں ہارٹ اٹیک بھی ہوچکا تھا۔ ذیابیطس کی بیماری نے زور مارا اور میری والدہ وفات پاگئیں۔ اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ حضرت خلیفہ رابع رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں میری والدہ کا ذکر خیر فرمایا اور اُن کے اوصاف حمید بیان فرمائے۔ اپنی والدہ کی وفات کے بعد واپس آکر لنڈن پہنچ کر خدمت دین میں مصروف ہوگئی۔ جتنا عرصہ مجھے استنبول میں گزارنا پڑا تھا اُس کمی کو دور کرنے کےلئے میں دن رات کام میں لگی رہتی اور جب تک میرا بدن تھکن سے چور نہ ہوتا میں کام میں مصروف رہتی۔

میں نے ’’اندھیرے سے روشنی تک کا سفر‘‘ اس غرض سے بیان کیا ہے کہ آنے والی ترک احمدی نسلوں کو پتہ لگے کے احمدیت کا پودا ترکی میں کیسے لگا اور کیسے پروان چڑھا۔ نیز اگر ان کو کوئی قابلِ تقلید چیز نظر آئے تو وہ اُسے شوق سے اختیار کرنے والے ہوں۔ آنے والی نسلوں اور آج کے تمام احمدیوں کےلئے میرا ایک ہی پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام برکتیں خلافت احمدیہ کے قدموں سے وابستہ ہیں۔ آج خدا تعالیٰ کی رضا کا یہی طریق ہے کہ ہم خلیفہ ٔوقت کے ارشادات پر دل و جان سے عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(امینہ چقماق ساہی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے