• 25 اپریل, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 41)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 41

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

پس یاد رکھنے چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے۔ جو اِن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں۔ علمی رنگ دیدیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۴﴾ وَّمَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ (الطارق: 14-15) وہ میزان، مہیمن، نُور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اُسے قصّہ سمجھتے ہیں انھوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حُرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصّے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے، خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے۔ اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نُور پیدا نہیں ہوسکتا۔ اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچّائی کے ذریعہ اسلام کی خُوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نِرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔

اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجُوع کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی۔ اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن: 47) یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا۔ اس کے واسطے دو بہشت ہیں۔ یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے۔ اور بدیوں کیطرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرناک جہنّم ہے۔ لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تو دم نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جُھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یُوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اُس کے لئے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنّمی زندگی شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کر دیا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ155-156 ایڈیشن 1984ء)

مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپرد کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور خوشنودی ہو۔ اورتمام نیکیاں اور اعمال حسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقّت اور مشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذّت اور حلاوت کی کشش ہو۔ جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت سے تبدیل کردے۔

حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب و مولا پیدا کرنے والا اورمُحسن ہے۔ اس لئے اُس کے آستانہ پر سر رکھ دیتاہے۔ سچّے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں نہ لذّات ہیں تو وہ اپنے اعمال صالحہ اور محبت الٰہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ اُس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اُس کی فرماں برداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی شناخت اُس کی محبت اور اطاعت کے لئے بنائی گئی ہے اور کوئی غرض اور مقصد اُس کا ہے ہی نہیں۔ اسی لئے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میں صرف کرتا ہے تو اس کو اپنے محبوب حقیقی ہی کا چہرہ نظر آتا ہے۔ بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاً نظر نہیں ہوتی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلا دیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں۔ کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو ایک لذّت اور محبت کے جوش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دُکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لاانتہا موت سے بڑھ کر اور دُکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے۔ جیسے اگر کوئی بادشاہ عام اعلان کرائے کہ اگر کوئی ماں اپنے بچّے کو دودھ نہ دے گی تو بادشاہ اس سے خوش ہو کر انعام دیگا توایک ماں کبھی گوارا نہیں کر سکتی کہ وہ اس انعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچّے کو ہلاک کرے۔ اسی طرح ایک سچّا مسلمان خدا کے حکم سے باہر ہونا اپنے لئے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اور آرام کا وعدہ دیا جاوے۔

پس حقیقی مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔ کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے۔ کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کسی جزا اور سزا کے خوف اور امید کی بناء پر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعی خاصہ اور جزو ہو کر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لئے ایک بہشت پیدا کر دیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے۔ کوئی آدمی بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جبتک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے۔ اس لئے میں تم کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ اسی راہ سے داخل ہونے کی تعلیم دیتا ہوں کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ182-183 ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے۔ اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا۔ پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو۔ کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا۔

اپنے خدا کو وحدہٗ لا شریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اﷲ کے سوا نہیں ہے یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے مشرک بُت پرستوں کو سکھایا جاتا۔ اور وہ اس کو سمجھ لیتے تو ہرگز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تباہی اور مصیبت آئی اور اُن کی روح مجذوم ہو کر ہلاک ہو گئی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ184-185 ایڈیشن 1984ء)

خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس، غرض ہر چیز پر اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا (البقرہ: 201) یعنی اﷲ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا رکھ دیا۔ اگر اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر اب اس نے اُس کو حل کر دیا۔ جو باپ کہتے ہیں وہ کیسے گِرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اُٹھے۔

بعض الفاظ ابتلا کے لئے ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو نصاریٰ کا ابتلا منظور تھا۔ اس لئے اُن کی کتابوں میں انبیاء کی یہ اصطلاح ٹھہر گئی۔ مگر چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے اس لئے پہلے ہی سے لفظ اَبْ کو کثیر الاستعمال کر دیا۔ مگر نصاریٰ کی بدقسمتی کہ جب مسیح نے یہ لفظ بولا تو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا اور دھوکا کھا لیا۔ حالانکہ مسیح نے یہ کہہ کر کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ تم اِلٰہ ہو اس شرک کو مٹانا چاہا اور اُن کو سمجھانا چاہا مگر نادانوں نے پرواہ نہ کی۔ اور اُن کی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی اُن کو ابن اللّٰہ قرار دے ہی لیا۔

یہودیوں کو بھی اس قسم کا ابتلا آیا۔ چونکہ مُوذی قوم تھی۔ اُن کی درخواست پر منّ و سلویٰ نازل ہوا۔ کیونکہ یہ طاعون پیدا کرنے کا مقدّمہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ وہ حد سے نکل جائیں گے اور اُن کی سزا طاعون تھی۔ اس لئے پہلے سے وہ اسباب رکھ دیئے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ188 ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

حقیقی اور سچّی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لئے ضرورت ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو۔ تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تاکہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے مخلوق کو پہنچاوے۔ جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا۔ پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابل غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اور ساری بحثیں فرضی ہیں۔ مسیح کے نمونہ کو دیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے۔ ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انھوں نے عذاب الیم سے چھوڑایا اور گناہ کی زندگی سے اُن کو نکالا کہ عالم ہی پلٹ دیا۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا۔ عیسائی جو مسیح کو مثیل موسیٰ قرار دیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ موسیٰ کی طرح انہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی۔ اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تو لنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کر دیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑا دیا ہے یا پھنسا دیا ہے اور یوں کہنے تو ایک چُوہڑا بھی کہہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھوڑایا۔ مگر یہ نرے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لئے آیا تھا۔ ایک خیالی بات ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور روحانیت سے بالکل دور جا پڑی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ216 ایڈیشن 1984ء)

مامور من اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی۔ اس ہمدردی میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کُل دنیا کے لئے مامور ہو کر آئے تھے۔ اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختصّ القوم اور مختصّ الزمان کے طور پر تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کُل دنیا اور ہمیشہ کے لئے نبی تھے۔ اس لئے آپؐ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (الشعراء: 4)۔ اس کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی فکر میں اپنی جان دے دیگا۔ اس آیت سے اس درد اور فکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپ کو دنیا کی تباہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے۔ یہ تو آپ کی عام ہمدردی کے لئے ہے۔ اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی فکر میں تو اپنی جان دے دیگا۔ یعنی ایمان کو کامل بنانے میں۔

اسی لئے دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ (النساء: 137) بظاہر تو یہ تحصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب حقیقت حال پر غور کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں اس لئے اﷲ تعالیٰ تکمیل چاہتا ہے۔

غرض مامور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اُس سے متاثر ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ221-222 ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

کچھ یادیں کچھ باتیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مئی 2022