• 24 اپریل, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 13)

قرآنی انبیاء
دریا کا بیٹا
قسط 13

حضرت موسیٰؑ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے۔ خدا تعالیٰ ہر قدم پر آپ کے ساتھ تھا۔ اس نے آپ کے لئے ہر مشکل وقت میں آسانی کا سامان مہیا کیا۔ آپ کو بچپن میں ظالم بادشاہ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا آپ کی بہترین پرورش کا انتظام کیا اور جوانی میں موت کی سزا سے آپ کو محفوظ رکھا۔ آپ نے ہجرت کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے نہ صرف نئے ملک میں رہنے کا انتظام کر دیا بلکہ آپ کو ایک نیک بیوی بھی عطا کر دی آپ کو نبوت کی نعمت عطا کی اور آپ کی خاطر بڑی سے بڑی طاقت کو بھی خاک میں ملا دیا۔ لیکن افسوس کہ آپ کی قوم نے ان باتوں کو نہ سمجھا۔ اور وہ آخری اور عظیم الشان فتح جو آپ کے ذریعے سے آپ کی قوم کو ملنا تھی۔ قوم کی بزدلی کی وجہ سے اس میں چالیس سال کی تاخیر ہو گئی۔

ایک بزرگ نبی کے واقعات جن کا ذکر قرآن کریم میں سب انبیاء سے زیادہ ہوا ہے۔

بہت مشکل دن چل رہے تھے ملک کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ترقیاتی کام بالکل رکے ہوئے تھے اور عوام کے مختلف طبقے آپس میں لڑنے میں مشغول تھے۔ کہیں قوم کا جھگڑا چل رہا تھا اور کہیں رنگ و نسل کا۔ اور ان سارے فسادات میں سب سے بری حالت بنی اسرائیل کی تھی جن کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جا رہا تھا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ بنی اسرائیلیوں کو ہر گز ترقی نہ کرنے دی جائے۔ ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ آہستہ آہستہ ان کی نسل ہی ختم ہو جائے۔

ملک مصر کا بادشاہ بہت متکبر تھا۔ اسے صرف اپنی حکومت سے غرض تھی۔ رعایا کا کیا حال ہے اس کی اسے ذرہ برابر بھی پرواہ نہ تھی۔ مصر میں اس وقت بادشاہ وقت کیلئے فرعون کا لقب استعمال کیا جا تا تھا۔ چنانچہ یہ فرعون مختلف مذہبوں اور مختلف نسل کے لوگوں کو جان بوجھ کر آپس میں لڑوا تا تھا تا کہ لوگ آپس میں لڑتے رہیں اور کوئی بھی بادشاہ کے خلاف متحد نہ ہو سکے۔ مذہبی لحاظ سے بنی اسرائیل چونکہ ایک تھے۔ اس لئے بادشاہ ڈر تا تھا کہ کہیں یہ لوگ کسی وقت اکٹھے ہو کر اس کی حکومت کو نقصان نہ پہنچائیں اس لئے اس کے مظالم کا خصوصی طور پر نشانہ بنی اسرائیل تھے۔ طرح طرح کے ظلم توڑنے کے بعد فرعون نے آخر اس قوم کو تباہ کرنے کی غرض سے یہ سلسلہ شروع کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کو مار دیا جائے تاکہ یہ نسل بڑھ ہی نہ سکے۔ یہ ایک ظالمانہ فیصلہ تھا لیکن بنی اسرائیل مجبور تھے۔ اس ظلم کے خلاف بول نہیں سکتے تھے۔

اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں سے بہت محبت کر تا ہے اس نے بنی اسرائیل کی تکلیف کی حالت پر نظر کرتے ہوئے ان پر رحم کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں فرعون سے نجات دلوانے کیلئے ایک نبی ان کی قوم میں پیدا کر دیا۔ یہ بچہ جس نے بڑے ہو کر نبی بننا تھا بنی اسرائیل کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوا۔ اور جیسا کہ بادشاہ کا علم تھا اس بچے کو بھی فوراً ہی قتل کر دیا جانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس بچے کو کسی لکڑی کے صندوق میں رکھ کر آرام سے دریائے نیل میں ڈال دو۔ ہم خود اس کی حفاظت کریں گے۔ اسے دوبارہ تم سے ملوائیں گے اور جب یہ بڑا ہو جائے گا تو اسے اپنے نبیوں میں شامل کریں گے۔

اس الہام نے بچے کی ماں کے دل کو مطمئن کر دیا۔ اس کو دکھوں کے بادل چھٹتے ہوئے معلوم ہوئے۔ نہ صرف اس خاندان کا بلکہ تمام قوم کا سارے بنی اسرائیل کا نجات دہندہ پیدا ہو چکا تھا۔ وہ جس نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ چنگل سے نجات دلانا تھی۔ ماں نے الہام کے مطابق اپنے بچے کو لکڑی کے ایک صندوق میں رکھا۔ اور دریا کے حوالے کر دیا لیکن ساتھ ہی احتیاطاً بچے کی بڑی بہن سے کہا کہ اس صندوق کے ساتھ ساتھ جاؤ اور دیکھو کہ یہ صندوق کہاں جا تا ہے۔

دریائے نیل کی لہروں پر تیر تا ہوا یہ صندوق ابھی کچھ دور ہی گیا ہو گا کہ دریا کے کنارے نہاتی ہوئی کچھ عورتوں کی نظر اس بہتے ہوئے صندوق پر پڑی۔ ان عورتوں میں بادشاہ وقت کے خاندان کی ایک عورت بھی تھی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ دریا پر آئی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی سہیلیوں میں سے ایک سے کہا کہ اس صندوق کو دریا سے نکال کر لاؤ تاکہ ہم دیکھیں کہ اس میں کیا ہے۔ شہزادی کے حکم کے مطابق وہ صندوق دریا سے نکالا گیا اور اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس صندوق کو کھولو ! شہزادی نے حکم دیا۔ اور جب صندوق کھولا گیا تو عجیب منظر تھا۔ صندوق میں ایک نہایت خوبصورت معصوم سا بچہ لیٹا ہوا تھا۔ موسیٰؑ، موسیٰؑ، موسیٰؑ شہزادی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بچہ میں نے پانی سے نکالا ہے۔ یوں اس بچے کا نام موسیٰؑ رکھا گیا۔

آپ بالکل ٹھیک سمجھے ! یہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ نبی حضرت موسیٰؑ علیہ السلام تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں سب انبیاء سے زیادہ آیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کس وجہ سے؟ چلیں ہم آپ کو بتا دیتے ہیں! اس لئے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کا مثیل قرار دیا ہے۔ یعنی جیسے حالات حضرت موسی علیہ السلام پر آئے۔ اس سے ملتے جلتے حالات آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی آنے تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا تاکہ حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے حالات کے بارے میں آپ کو پہلے سے آگاہ کیا جا سکے۔ بہر حال یہ تو ایک انسانی بات تھی۔ ہم بات کر رہے تھے دریائے نیل کے کنارے پر موجود فرعون وقت کے گھرانے کی عورت کی جس نے موسیٰؑ گو دریا سے نکالا تھا اور پانی سے نکالنے کی وجہ سے آپ کا نام موسیٰؑ رکھ دیا تھا۔

یہ بچہ شہزادی کو بے حد پیارا لگا تھا اور پہلی نظر میں ہی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس بچے کو پالے گی اس کی پرورش کرے گی اور اسے اپنا بیٹا بنا لے گی۔ یہ ایک بہت عجیب فیصلہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے شہزادی کے دل میں ڈالا ورنہ اس طرح ایک لا وارث بچے کو اٹھا کر پرورش کیلئے گھر لے جانا بہت مشکل کام تھا۔

شہزادی نے ننھے موسیٰؑ کو اٹھا لیا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ محل کی جانب روانہ ہو گئی۔ موسیٰؑ کی بڑی بہن جو یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھی یہ خبر لے کر دوڑی دوڑی اپنی والدہ کے پاس پہنچی اور خوشی خوشی اسے سارا حال سنایا۔ ماں! شہزادی نے بھائی کا نام موسیٰؑ رکھا ہے اور وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اس کی پرورش اپنے بیٹے کی طرح کرے گی۔ ماں ! وہ بہت خوش تھی اور بھائی کو اپنے ساتھ محل میں لے گئی ہے۔ موسیٰؑ کی والدہ نے یہ سب سنا تو آپ بے انتہا خوش ہوئیں۔ اپنے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی مد داور فضل کاتو وہ تصور بھی نہ کر سکتی تھیں۔ شکر ہے میرے خدایا۔ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا اور انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کے دل سے کوئی بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ لیکن بیٹی ! موسیٰؑ کی والدہ نے اپنی بیٹی سے کہا۔ تم محل کے آس پاس رہنا اور وہاں پر موجود ملازموں سے اپنے بھائی کے متعلق بہانے بہانے سے پوچھتی رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ موسی کو ضرور مجھ سے ملوائے گا۔ ممکن ہے تمہارے وہاں جانے سے کوئی راستہ نکل آئے۔ ٹھیک ہے ماں ! میں ایسا ہی کروں گی۔ بیٹی نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔

فرعون کو جب سے اس بات کی اطلاع ملی کہ شہزادی ایک لاوارث بچے کو دریا سے نکال کر محل میں لے آئی ہے وہ سخت غصے میں تھا۔ اس کے خیال میں یہ ایک احمقانہ فیصلہ تھا اسی وجہ سے اس نے اسی وقت شہزادی کو طلب کیا تھا۔دیکھو لڑکی! مجھے پتہ چلا ہے کہ تم ایک لاوارث بچے کو دریا سے نکال کر محل میں لائی ہو اور تم چاہتی ہو کہ اسے پال پوس کو جوان کرو۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جی ہاں بادشاہ سلامت ! شہزادی نے کہا مجھے یہ بچہ دریائے نیل کے پانی پر ایک تیرتے ہوئے صندوق میں پڑا ہوا ملا تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو مجھے بہت پیارا لگا اور میں اسے محل میں لے آئی۔ لیکن کیوں؟ فرعون غصے سے چلایا۔ کیا تمہیں معلوم ہے یہ بچہ کس کا ہے؟ نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بچہ کس کا ہے شہزادی نے جوابا ًکہا میں تو اسے دریا سے لیکر آئی ہوں۔ دریائے نیل ہی اس بچہ کا باپ بھی ہے اور ماں بھی۔ جب تمہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بچہ کون ہے فرعون نے شہزادی کی بات کاٹی تو پھر تم اسے کیوں پالنا چاہتی ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ یہ بچہ کون ہے کس قوم سے تعلق رکھتا ہے؟ میں تمہیں بتا تا ہوں کہ یہ بچہ کون ہے۔ فرعون نے گویا اسے سمجھانا شروع کیا۔

یہ بچہ اسرائیلیوں کا بچہ ہے۔ اس نے گویا بہت بڑا انکشاف کیا۔ چونکہ میں نے حکم دے رکھا ہے کہ بنی اسرائیل قوم میں جو بھی لڑکا پیدا ہو اسے فوری طور پر قتل کر دیا جائے۔ اس لئے کسی بنی اسرائیلی عورت نے اپنے بچے کی جان بچانے کیلئے اسے دریا میں بہا دیا ہے یہ بچہ ہمارے دشمنوں کا بچہ ہے۔ یہ ہر گز ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتا۔ میرے بنائے ہوئے قانون کے مطابق اس کو قتل کیا جانا ضروری ہے۔

آپ کا بنایا ہوا قانون اپنی جگہ درست ہو گا بادشاہ سلامت ! شہزادی نے جواب دیتے ہوئے کہا لیکن یہ بچہ تو بالکل معصوم ہے اسے کیا معلوم کہ یہ بنی اسرائیلی ہے یا ہمارے ساتھ کا مصر کا رہنے والا ’’مصری‘‘ جب ہم اسے پالیں گے اور اپنے گھر میں اس کی پرورش کریں گے تو پھر یہ ہمارے خیالات کے مطابق ہی کام کرے گا۔ پھر ممکن ہے کہ یہ ہمارے لئے کسی لحاظ سے مفید ہو اور ہم اسے بیٹے کے طور پر ساتھ رکھ لیں۔

فرعون کی بیوی جو یہ سب باتیں سن رہی تھی اور ایک نیک عورت تھی۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر شہزادی کا ساتھ دیا اور کہا کہ یہ لڑ کی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں جو کرتی ہے اسے کرنے دیں اور اس معصوم بچے کو مت ماریں۔

فرعون یہ بات ماننا تو نہیں چاہتا تھا لیکن ان دونوں کی بات سن کر اس نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ موسیٰؑ کو اپنے ساتھ محل میں رکھ لیں۔

محل میں موسیٰؑ کی پرورش شروع ہوئی اور آپ کے لئے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش شروع ہوئی لیکن عجیب بات اس وقت یہ ہوئی کہ جو بھی دایہ آپ کو دودھ پلانے کی کوشش کرتی آپ اس کا دودھ پینے سے انکار کر دیتے اور منہ پھیر لیتے۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو آپ کی والدہ سے ملانے کا ایک انتظام تھا۔ شہزادی نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰؑ کسی دایہ کا دودھ نہیں پی رہے تو وہ بہت متفکر ہوئی۔ اسی اثناء میں حضرت موسیٰؑ کی بڑی بہن جو محل کے اندر کی ساری خبریں معلوم کر رہی تھی شہزادی کے پاس پہنچی اور اسے کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کو ایک گھر کا پتہ دیتی ہوں۔ وہاں پر ایک خاتون ہیں ان کو بلوا کر دیکھیں وہ ضرور اس کو پال لیں گی۔ موسیٰؑ کی بہن کی بات سن کر شہزادی نے موسی کی والدہ کو بلا بھیجا۔ وہ آئیں اور موسیٰؑ کو اپنا دودھ پلایا۔ موسیٰؑ نے بڑی خوشی کے ساتھ اپنی والدہ کا دودھ پیا اور شہزادی کو بتایا گیا کہ یہ بنی اسرائیلی عورت موسیٰؑ کو دودھ پلا سکتی ہے۔ شہزادی نے موسیٰؑ کی والدہ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لئے اس بچے کو دودھ پلا دیا کریں۔ موسیٰؑ کی والدہ کو اور کیا چاہئے تھا ؟ وہ تو پہلے ہی اپنے بچے کی جدائی میں بے قرار ہو رہی تھیں انہوں نے فورا ًحامی بھر لی اور یوں اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہو گیا جو اس نے حضرت موسیٰؑ کی والدہ سے کیا تھا۔ موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ سے ملا دیا تھا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور موسیٰؑ، فرعون کے گھر میں پرورش پاتے رہے۔ ان کی والدہ نے محتاط طریقے سے ان کو ساری بات بتا دی ہوئی تھی۔ اور باوجود اس کے کہ آپ فرعون کے گھر میں رہ رہے تھے آپ کی تمام تر ہمدردیاں اپنی مظلوم قوم بنی اسرائیل کے لئے تھیں۔ آپ چاہتے تھے کہ کسی طرح اپنی مظلوم قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائیں لیکن ابھی آپ ایسا کرنے کے قابل نہ تھے۔ لیکن وہ وقت بہت زیادہ دور نہ تھا۔ موسیٰؑ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ مضبوط جسم کے مالک موسیٰؑ بہت بہادر اور طاقتور تھے۔ اور اپنی قوم کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ بھی رکھتے تھے۔ اور پھر ایک دن ایسا ہوا کہ آپ رات کے وقت شہر میں کسی کام سے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک ان میں سے فرعون کی قوم کا یعنی مصری تھا ور دوسرا موسیٰؑ کی قوم کا یعنی بنی اسرائیلی تھا۔ مصری شخص کافی طاقتور تھا اور وہ بنی اسرائیلی کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔ بنی اسرائیلی نے جب موسیٰؑ کو دیکھا تو چلا کر موسیٰؑ سے مدد طلب کی۔ موسیٰؑ آگے بڑھے اور بھر پور طاقت کے ساتھ ایک مکہ اس مصری شخص کو مارا جو کافی دیر سے بنی اسرائیلی کو پیٹ رہا تھا آپ نے یہ مکہ محض اس مصری کو ہٹانے کیلئے مارا تھا لیکن یہ مکہ اس مصری کیلئے بہت مہلک ثابت ہوا۔ وہ اس بھر پور مکے کو برداشت نہ کر سکا اور مرگیا۔

یہ کیا ہوا؟ موسی نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ میں نے ہر گز اسے قتل کرنے کی نیت سے مکہ نہیں مارا تھا۔ بلکہ میرا مقصد تو صرف ایک مظلوم بنی اسرائیلی کی مدد کرنا تھا۔ آپ نے فوراً خد ا تعالیٰ سے معافی مانگی توبہ کی اور اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کیا۔ اور یہ بات وہیں ختم ہو گئی۔ اور کسی کو اس واقعے کے بارے میں پتہ نہ چلا۔

اگلے روز موسیٰؑ شہر سے گزر رہے تھے تو اچانک کیا دیکھا کہ وہی بنی اسرائیلی شخص جو گزشتہ رات ایک مصری سے لڑائی کر رہا تھا آج پھر ایک مصری سے جھگڑ رہا ہے۔ اور موسیٰؑ کو مد د کے لئے بلا رہا ہے۔ موسیٰؑ نے یہ منظر دیکھا تو جان لیا کہ یہ بنی اسرائیلی کوئی فسادی شخص ہے جو روزانہ ہی لوگوں سے جھگڑے کر تا ہے۔ آپ نے اس سے کہا کہ تو بہت بڑا فسادی ہے اور روزانہ جھگڑے کر تا ہے۔ لیکن پھر بھی آپ نے لڑائی ختم کروانے لئے جب ان دونوں کی طرف قدم بڑھائے تو وہ فسادی بنی اسرائیلی یہ سمجھا کہ موسی مجھ سے ناراض ہو کر مجھے مارنے کے لئے آ رہے ہیں وہ یہ دیکھ کر خوف کے مارے چلایا۔ اے موسیٰؑ کیا تو مجھے مارنا چاہتا ہے جیسا کہ کل تو نے ایک آدمی کو مکہ مار کر قتل کر دیا ہے۔ تو کمزور لوگوں کو دبا کر اپنی حکومت بنانا چاہتا ہے اور اصلاح کرنا تیرے پیش نظر نہیں ہے ! وہ جاہل بنی اسرائیلی خوف کے مارے بلا سوچے سمجھے بولتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن اس کا یہ بولنا حضرت موسیٰؑ کے لئے بے حد خطرناک ہو گیا۔ یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ رات ایک مصری کو موسیٰؑ نے مکہ مار کر قتل کر دیا ہے۔ مصری قوم سخت جوش میں تھی کہ اس جرم کی سزا موسیٰؑ کو دی جائے۔ وہ موسیٰؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے مصری بھائی کی موت کا بدلہ چکا سکیں۔ بات بڑھتے بڑھتے سرداران مصر تک جا پہنچی اور انہوں نے مل کر موسی کو قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ ایک مصری کے قتل کے جرم میں موسیٰؑ کو قتل کر دیا جائے۔

اب اس شہر میں ٹھہرنا موسیٰؑ کے لئے بہت خطرناک تھا وہ کسی وقت بھی پکڑے جا سکتے تھے اور اس مصری کو قتل کرنے کے جرم میں آپ کو موت کی سزا دی جا سکتی تھے۔ لیکن موسی ان باتوں سے بے خبر تھے۔ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے متعلق حکومت کی طرف سے کیا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

موسیٰؑ موسیٰؑ میری بات سنو موسیٰؑ! ایک شخص جو موسیٰؑ کے دوستوں میں سے تھا دوڑتا ہوا موسی کی طرف آ رہا تھا وہ شہر کے اس حصے سے آرہا تھا جہاں موسیٰؑ کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا موسیٰؑ کو یہ اطلاع دینے کیلئے آیا تھا کہ موسیٰؑ کو جلد از جلد مصر سے نکل جانا چاہئے ورنہ وہ جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ موسیٰؑ تم فوراً یہاں سے نکل جاؤ! ورنہ مصری تمہیں پکڑ لیں گے اور پھر …. پھر تم جانتے ہی ہو کہ کیا ہو گا۔ وہ ہانپتا ہوا بولا۔ دیکھو میں تمہارا دوست ہوں خیر خواہ ہوں۔ اس لئے بالکل سچ بات تمہیں بتا رہا ہوں۔ تم اگر فوراً یہاں سے نہ نکلے تو پھر تمہاری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

موسیٰؑ کو اس کی بات کا یقین تھا۔ اس لئے آپ نے اپنے اس دوست کے مشورے کے مطابق فور اًمصر سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور پوری احتیاط کے ساتھ شہر سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑے۔ آپ پوری احتیاط کے باوجود انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ شہر کی حدود سے باہر نکل گئے۔ اور مدین شہر کا رخ کیا۔ (یہ وہی شہر ہے جس کا ذکر ہم حضرت شعیب کے واقعات میں پڑھ چکے ہیں)۔

حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کا تمام سفر دعائیں کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے خیریت سے گزر گیا اور آپ ظالم فرعون اور اس کی قوم کی پہنچ سے دور مدین شہر میں پہنچ گئے۔ آپ کا سفر کافی لمبا اور تھکا دینے والا تھا اس لئے مدین پہنچ کر آپ نے سکون کا سانس لیا۔ مدین شہر کے آغاز میں ایک ٹھنڈے پانی کے چشمے کے پاس آپ ایک درخت کے نیچے سستانے کیلئے بیٹھ گئے۔ آپ مدین تو آ گئے تھے لیکن آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ اب آگے کہاں جانا ہے۔ رہنے کا انتظام کیا ہو گا کھانے پینے کا کیا بنے گا۔ بہر حال اللہ مالک ہے۔ آپ نے اپنے دل میں سوچا اور چشمے پر موجود لوگوں کا جائزہ لینے لگے۔ آپ نے دیکھا کہ چشمے پر کئی چروا ہے اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ کافی رش لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو پانی پلانے میں دقت ہو رہی تھے۔ دھکم پیل کے اس منظر سے تھوڑی دور دو لڑکیاں اپنے جانور لئے کھڑی تھیں اور اپنے جانوروں کو پانی سے ہٹا رہی تھیں تا کہ وہ لوگوں کے ہجوم میں گھس کر کہیں گم نہ ہو جائیں۔ حضرت موسیٰؑ نے جب یہ معاملہ دیکھا کہ چرواہے ان لڑکیوں کو آگے نہیں آنے دے رہے اور نہ ہی وہ شرم و حیاء کی وجہ سے ان چرواہوں کے قریب جا رہی ہیں تو آپ آگے بڑھے اور ان سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟

ایک لڑکی نے جواب دیا کہ ہم دونوں بہنیں ہیں اور ہمارا باپ کانی بوڑھا ہے۔ اس لئے وہ جانور لیکر نہیں آ سکتا مجبور جانوروں کو پانی پلانے کے لئے ہمیں آنا پڑ تا ہے۔ لیکن ان چرواہوں میں گھس کر ہم پانی نہیں پلا سکتی۔ اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ کب یہ چشمہ ان چرواہوں سے خالی ہو اور ہم اپنے جانوروں کو پانی پلا کر گھر واپس لوٹیں۔

حضرت موسیٰؑ کو ان لڑکیوں پر بڑا ترس آیا۔ آپ نے لڑکیوں کے جانور لیکر اس چشمے سے ان کو پانی پلوا دیا اور جانور ان لڑکیوں کے حوالے کر کے خاموشی سے واپس آ کر درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور ایک مرتبہ پھر خدا تعالیٰ سے دعاؤں میں مصروف ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کیلئے مدین میں رہنے کا اس طرح سامان کیا کہ وہی دونوں بہنیں جب گھر واپس گئیں تو انہوں نے اپنے والد کے پاس سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ والد محترم ! ہم تو اس روز روز کی مصیبت سے تھک گئی ہیں۔ اگر آپ ہماری بات مان لیں تو اس نوجوان کو جس نے آج ہماری مدد کی تھی ملازم رکھ لیں وہ بہت نیک اور شریف لگتا ہے اور پھر ہے بھی مضبوط جسم کا مالک ہمارے سارے کام کر دیا کرے گا۔

لڑکیوں کا باپ اپنی بیٹیوں کی تکلیف سے واقف تھا اس لئے اس نے اس مشورے کو پسند کیا اور ان میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور اس نوجوان کو بلا لاؤ۔ وہ لڑ کی باپ کی بات سن کر شرماتی ہوئی حضرت موسیٰؑ کے پاس آئی جو ابھی تک اس درخت کے نیچے بیٹھے دعا میں مصروف تھے۔ اس نے آ کر کہا کہ اے نوجوان! ہم نے اپنے والد کے پاس تمہارا ذکر کیا تھا وہ تمہارے کام سے بہت خوش ہوئے ہیں اور تمہیں گھر بلا رہے ہیں۔ اگر تم میرے ساتھ چلو تو میں تمہاری شکر گزار ہوں گی۔ حضرت موسیٰؑ تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی امداد کے منتظر تھے۔ لڑکی کی بات سنی تو فورا ً سمجھ گئے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعا سن کر مدین میں میرے رہنے کا انتظام فرما دیا ہے۔ آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اٹھے اور لڑکی کے ساتھ اس کے گھر کی جانب چل دیئے۔

اے نوجوان! تمہاری شرافت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ لڑکیوں کے والد نے حضرت موسیٰؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھ لوں۔ اس کے لئے سب سے بہترین صورت جو میرے ذہن میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ تم میری ان دونوں بیٹیوں میں سے جس سے چاہو شادی کر لو اور ہمارے ساتھ رہنا شروع کر دو۔ لیکن اس کے لئے میری ایک شرط ہے کہ تمہیں کم از کم 8 سال ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنا ہو گا کیونکہ تم جانتے ہو کہ ہم بالکل اکیلے ہیں ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے جو گھر کے کام کاج کر سکے۔ اس لئے 8 سال تم ہمارے ساتھ رہو اس کے بعد تم جہاں جانا چاہو چلے جانا۔ ہاں اگر اس کے بعد بھی تم ایک دو سال اور ہماری خدمت کر دو تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہو گا۔ پس اے نوجوان اگر تمہیں یہ بات منظور ہو تو بتاؤ تاکہ تمہاری شادی کی جاسکے۔ حضرت موسیٰؑ نے بخوشی ان بزرگ کی یہ بات مان لی اور ان کی ایک بیٹی سے شادی کر کے سکون سے وہاں رہنے لگے۔ وقت گزرتا رہا اور بالآخر یہ مقررہ مدت پوری ہو گئی۔

حضرت موسیٰؑ اب مدین میں مزید نہیں رہنا چاہتے تھے اس لئے آپ نے اپنے سسر سے اجازت لی اور مدین سے نکل کھڑے ہوئے۔ سفر کرتے کرتے آپ جب طور پہاڑ کے پاس سے گزر رہے تھے تو پہاڑی کی طرف آپ نے ایک آگ دیکھی۔ آپ نے اپنے گھر والوں کو وہیں رکنے کیلئے کہا اور فرمایا کہ تم ٹھہرو میں دیکھ کر آتا ہوں کہ یہ آگ کیسی ہے۔ شاید یہاں کوئی لوگ آباد ہوں یا کچھ اور بات ہو۔ میں دیکھ کر آتا ہوں۔ آپ طور کی جانب بڑھے جب اس آگ کے قریب پہنچے تو آپ کو ایک عظیم الشان جلالی آواز سنائی دی۔

’’اے موسیٰؑ! میں اللہ ہوں جو سب جہانوں کا رب ہے۔ تو اپنا سونٹا جو تیرے ہاتھ میں ہے زمین پر پھینک دے۔‘‘

موسیٰؑ نے یہ حکم سنا تو فوراً اپنا سونٹا زمین پر پھینک دیا۔ لیکن آپ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سونٹا زمین پر گرتے ہی ایک سانپ نظر آنے لگا۔ آپ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے کہ پھروہی آواز سنائی دی۔

’’اے موسیٰؑ! مت بھاگ۔ آگے بڑھ اور بالکل خوف نہ کر۔ تو بالکل امن سے رہے گا تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘

آپ آگے آئے تو پھر آواز آئی۔

’’اے موسیٰؑ ! اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال تو دیکھے گا کہ جب یہ ہاتھ باہر آئے گا تو بغیر کسی بیماری کے یہ سفید ہو گا۔ یہ چند معجزات ہیں جو ہم نے تجھے دیئے ہیں تو ان کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جا اور انہیں نافرمانی اور مظالم سے منع کر۔ آج سے تو ہمارا رسول ہے۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘

حضرت موسیٰؑ اتنی بڑی ذمہ داری کا سن کر حیران رہ گئے۔ آپ تو مصر سے سزائے موت کے ڈر سے نکلے تھے۔ اور اب آپ کو یہ حکم دیا جا رہا تھا کہ آپ اس شہر میں جا کر فرعون اور اس کے سرداروں کو حق کی طرف بلائیں۔ آپ کو اپنی جان کا تو اتنا خوف نہیں تھا لیکن آپ کو یہ خیال ضرور تھا کہ وہ لوگ مجھے قاتل سمجھتے ہیں وہ کیسے مجھے خدا تعالیٰ کا پیغمبر مانیں گے۔ وہ کیسے یہ تسلیم کریں گے کہ میں نے وہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا تھا بلکہ وہ ایک اتفاقی حادثہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ نے عرض کیا۔

’’اے میرے رب ! تو جانتا ہے کہ میں غلطی سے ان کا ایک آدمی مار چکا ہوں۔ اب اگر میں تیرا پیغام لے کر مصریوں کے پاس گیا تو وہ میری بات سننے سے پہلے ہی مجھے مار دیں گے اور میرا کام پورا نہیں ہو سکے گا۔ اے میرے خدا ! میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ اچھی طرح کلام کر لیتا ہے تو اسے بھی میرے ساتھ مددگار کے طور پر نبی بنا دے تاکہ اگر مصری میری تکذیب کریں یا مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں تو تیرا پیغام پھر بھی ان تک پہنچ جائے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کی یہ دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ تم دونوں بھائی ہمارے حکم سے فرعون اور اس کی قوم کی طرف جاؤ انہیں ہمارا پیغام دو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں وہ ہر گز تم پر غالب نہیں آ سکتے اور نہ ہی تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت موسیٰؑ کی ڈھارس بندھی اور آپ کو معلوم ہو گیا کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے۔ مصری ہر گز آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ (دراصل حضرت موسی کی ہجرت کے بعد (غالبا ً) وہ فرعون مرگیا تھا جس کے زمانے میں آپ مصر سے مدین کی طرف گئے تھے۔ اس کے مرنے سے اس کے زمانے کے قوانین وغیرہ بھی ختم ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اس کے وقت کے جرم پر نیا فرعون سزا نہیں دے سکتا تھا۔ چنانچہ آپ مصر گئے اور ایک نیا دور شروع کیا)۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مصریوں کو ظلم سے روکنے لگے۔ انہیں بتانے لگے کہ ان کا ایک خدا ہے جو تمام طاقتوں والا ہے اور سب کا مالک ہے۔ اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے اور وہی سب کو پالتا ہے۔ سب کی دیکھ بھال کرتا ہے اور رزق مہیا کرتا ہے۔ فرعون مصر کے بلند و بانگ دعوی کے مقابل پر یہ ایک نئی تعلیم تھی جو فرعونوں کے متکبرانہ دعوؤں کو جھٹلا رہی تھی اس لئے فرعون کا ان باتوں پر چونکنا ایک فطری امر تھا۔ فرعون جانتا تھا کہ اگر موسیٰؑ اور ہارون کے بیان کردہ خیالات عوام میں مشہور ہو گئے تو اس کی حکومت اور بادشاہت خاک میں مل جائے گی۔ اس لئے اس نے موسیٰؑ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا اور ان خیالات کے بارے میں دریافت کیا۔ فرعون کے بھرے ہوئے دربار میں حضرت موسیٰؑ پورے عزم اور استقلال کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور فرعون کو اپنے خدا کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ آپ نے فرعون سے کہا۔

اے بادشاہ! اے فرعون!! میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ایک پیغامبر کے طور پر آیا ہوں۔ مجھے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے تاکہ میں مظلوم بنی اسرائیل کو تیرے ظلم سے رہائی دلواؤں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ تو ظلم سے باز آجا اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ تاکہ ہم سب تیری اس حکومت سے نکل کر اپنے آبائی وطن یعنی فلسطین کی طرف چلے جائیں۔ (حضرت یعقوبؑ کے واقعات میں ہم نے پڑھا تھا کہ جب حضرت یعقوبؑ کو مصر میں طاقت حاصل ہو گئی تھی تو آپ کے والد حضرت یعقوبؑ اور آپ کے بھائی بھی مصر میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ حضرت یعقوبؑ کے انہی سب بیٹوں کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے اور یہ لوگ حضرت موسیٰؑ کے زمانے تک ابھی مصر میں ہی رہ رہے تھے۔ حضرت یعقوبؑ کے زمانے میں تو یہ بڑی عزت کے ساتھ مصر میں آئے تھے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ مقامی لوگوں نے ان پر ظلم شروع کر دیئے اور انہیں غلام بنا لیا۔ اب اس فرعون کے زمانے میں یہ مظالم انتہا کو پہنچ گئے تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی حالت پر رحم کھا کر ان کی نجات کیلئے حضرت موسیٰؑ کو بھیجا تھا)۔ حضرت موسیٰؑ نے جب فرعون سے یہ کہا کہ بنی اسرائیل پر بہت ظلم ہو چکے اب انہیں معاف کرو اور میرے ساتھ مصر سے نکلنے کی اجازت دے دو تو فرعون کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ وہ کیسے مفت کے غلاموں کو ہاتھ سے جانے دیتا۔ اس نے حضرت موسیٰؑ سے کہا کہ اے موسی ! ہم جانتے ہیں کہ تو سچ بات نہیں کہہ رہا لیکن پھر بھی ہم تجھے ایک موقعہ دیتے ہیں۔ تو اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو اس کا ثبوت پیش کر۔ تیرے پاس اس بات کی کیانشانی ہے کہ تو خدا کی طرف سے آیا ہے؟

حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی بات سنی تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا۔ آپ نے اپنا سونٹا بھرے دربار میں زمین پر پھینک دیا۔۔ سونٹا زمین پر گرتے ہی ایک بڑے اژدھے کی شکل اختیار کر گیا اس نشان کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ والا نشان دکھایا اور فرعون اور اس کے سرداروں سے کہا کہ یہ دیکھو ! نشانیاں اب تو مان جاؤ کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور بنی اسرائیل کو آزاد کر دو۔ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود بھی فرعون اور اس کے سردار یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ موسیٰؑ خدا کا نبی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ موسیٰؑ کہیں سے جادو سیکھ کر آگیا ہے اور اب ہمیں اس جادو کے ذریعے ڈرانا چاہتا ہے۔

اب کیا کیا جائے؟ فرعون نے اپنے سرداروں سے مشورہ کیا۔ یہ تو کوئی بہت بڑا جادوگر معلوم ہو تا ہے۔ بادشاہ سلامت! سرداروں نے جواباً کہا۔ ہمارا خیال ہے کہ موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارون کو ابھی فی الحال ان کے حال پر چھوڑ دیں اور ملک بھر کے بڑے بڑے جادو گروں کو بلوا کران کا موسیٰؑ سے مقابلہ کروادیں اس طرح جب یہ ان جادو گروں سے ہار جائے گا تو لوگ خود ہی جان لیں گے کہ یہ سب دھوکہ بازی تھی۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے ! تمام دربار نے اس بات کی تائید کی اور حکم دے دیا گیا کہ ملک کے تمام نامور جادوگروں کو بلوا کر موسیٰؑ سے ان کا مقابلہ کروایا جائے۔

آج موسیٰؑ اور جادوگروں میں مقابلے کا دن تھا۔ تمام ملک کے بڑے بڑے جادو گروں کو فرعون نے موسیٰؑ کے مقابل پر بلالیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ اگر تم جیت گئے تو تمہیں بے انتہا مال و دولت دی جائے گی۔ اور میں تمہیں اپنے قریبی لوگوں میں بھی شامل کر لوں گا۔ یہ بہت بڑا لالچ تھا جس کی وجہ سے جادو گر اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کر کے موسیٰؑ کو شکست دینا چاہتے تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آج ان کا مقابلہ کسی جادوگر سے نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی سے ہے جسے شکست دینا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس مقابلے کو دیکھنے کیلئے بے تاب ہو رہی تھی۔ اور بالآخر مقابلہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

حضرت موسیٰؑ نے جادو گروں کو پیشکش کی کہ پہلے تم اپنے جادو د کھاؤ اور جو چاہے جادو پیش کرو۔ جادو گروں نے یہ سن کر اپنے جادو شروع کئے۔ ایسے حیرت انگیز طور پر انہوں نے جادو کے کمالات کئے کہ عام لوگوں کے دل دہل کر رہ گئے۔ ایسے خطرناک جادو لوگوں نے اس سے پہلے نہ دیکھے تھے۔ لیکن حضرت موسیٰؑ بڑے سکون کے ساتھ جادو گروں کی ان حرکتوں کو دیکھ رہے تھے۔ آپ ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہ تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے اور آخر کار فتح آپ ہی کا مقدر ہے۔

جب جادو گر اپنی سی پوری کوشش کر چکے اور آپؑ کو خوفزدہ نہ کر سکے تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اپنے سونٹے کو زمین پر پھینکا۔ آپؑ کا ایسا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے تمام جادو کا اثر یکا یک زائل ہو گیا۔ جادو کی وہ تمام فضا جو تمام جادو گروں نے بڑی محنت سے تیار کی تھی ایک لمحے میں بکھر کر رہ گئی۔ جادو گر حیران و پریشان کھڑے تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اور بالآخر وہ سب یہ سمجھ گئے کہ یہ شخص کوئی جادوگر نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے آیا ہوا ہے ورنہ کسی جادوگر کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسے عظیم جادوگروں کے طلسم کو توڑ سکتا۔ تمام جادوگر بے اختیار دوڑتے ہوئے آئے اور حضرت موسیٰؑ کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگے۔ فرعون کا سارا تکبر ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔ لوگوں کی اکثریت جان چکی تھی کہ موسیٰؑ سچے ہیں اور خدا کے نبی ہیں لیکن فرعون کے ظلم اور سزاؤں کے خوف سے وہ موسی کی باتوں پر ایمان نہ لائے اور نہ ہی موسیٰؑ کے ساتھ شامل ہوئے۔ البتہ موسی کی اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل آپ کو خدا کا نبی مان چکی تھی اور آپ کے ذریعے سے نجات کی منتظر تھی۔

وقت گزرتا گیا اور حضرت موسیٰؑ مصری قوم اور فرعون کو تبلیغ کرتے رہے لیکن ان پر کوئی بھی اثر نہ ہوا بلکہ فرعون نے پہلے سے بڑھ کر بنی اسرائیل پر اور حضرت موسیٰؑ کے ماننے والوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دیئے۔ اب یہ مظالم ناقابل برداشت ہوتے چلے جا رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو لیکر اس ظالم حکومت سے نکل جاؤ۔ آپ نے اپنی قوم کو ہجرت کے بارے میں بتایا اور ایک روز چپکے سے اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔

خدا کا عظیم نبی موسیٰؑ آج مصر کی سر زمین کو چھوڑ رہا تھا۔ کئی سو سال پہلے حضرت یعقوبؑ اس سرزمین کی طرف آئے تھے اور آج ان کی اولاد یہاں سے رخصت ہو رہی تھی۔ بنی اسرائیل اس علاقے کو چھوڑنا تو نہیں چاہتے تھے لیکن فرعون وقت کے ناقابل برداشت مظالم کی وجہ سے انہیں ایسا کرنا پڑ رہا تھا۔ آج ان کے دل غمگین بھی تھے اور خوش بھی۔ اور خوشی اور غمی کے اس ملے جلے احساس کے ساتھ وہ لمحہ بہ لمحہ فرعون کی بادشاہی سے دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔

فرعون کو جب اس بات کی اطلاع ملی کہ موسیٰؑ اپنے ماننے والوں سمیت شہر چھوڑ کر جا چکا ہے تو اس کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ اسے اپنی شکست خیال کر رہا تھا کہ موسیٰؑ اس کے غلاموں کو اس کی اجازت کے بغیر ملک سے نکال کر لے جائے۔ اس نے فوراً اپنے لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔ اور اپنے بڑے بڑے سرداروں کے ساتھ خود اس لشکر کی قیادت کر تا ہوا بنی اسرائیل کے تعاقب کیلئے نکل کھڑا ہوا۔ اسے یقین تھا کہ وہ جلد ہی موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو جا لے گا۔ اور پھر …… پھر وہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ وہ دل ہی دل میں شاید انہیں سخت ترین سزائیں دینے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ طوفانی رفتار سے سفر کرتے ہوئے فرعون اور اس کے لشکر نے بحیرہ احمر کے پاس بنی اسرائیل کو جالیا۔

فرعون کو دور سے بنی اسرائیل نظر آ رہے تھے جو اس کے لشکر کو دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ سمند ر کا پانی اس وقت کچھ پیچھے ہٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کے گزرنے کی جگہ بن گئی تھی۔ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک تھا حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا کہ فلاں جگہ سے پانی اس وقت ہٹا ہوا ہے۔ وہاں جا کر دیکھو اپنا سونٹا مار کر اس جگہ کی نشان دہی کرو اور وہاں سے گزر جاؤ۔ چنانچہ آپ خدائی راہنمائی کے ماتحت اس راستے سے جو خدا تعالیٰ نے آپ کیلئے بنا دیا تھا گزر گئے۔ فرعون بھی اب اپنے لشکر سمیت سمندر تک آ پہنچا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ موسیٰؑ اور اس کے ساتھ سمند ر میں بنے ہوئے ایک راستے سے گزرے ہیں تو اس نے بھی اپنی سواریوں کو اس راستے پر ڈال دیا۔ فرعون اپنے لشکر سمیت سمند رمیں داخل ہو چکا تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ اب بنی اسرائیل کو اس کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا کہ اچانک خدا تعالیٰ کی تقدیر نے اپنا ہاتھ دکھایا۔ پانی اچانک بلند ہونے لگا اور وہ راستہ جو سمندر میں پانی کے کم ہونے کی وجہ سے بن گیا تھا یکایک ڈوبنے لگا۔ سواریاں پانی بلند ہونے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئیں۔ اب فرعون اور اس کے ساتھی نہ آگے جا سکتے تھے اور نہ پیچھے پانی اس قدر تیزی سے بلند ہوا کہ فرعون اور اس کے ساتھی ڈوبنے لگے۔ فرعون درد بھرے الفاظ میں چلا رہا تھا کہ اے میرے رب۔ اے موسیٰؑ اور ہارون کے رب میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں۔ میں ڈوب رہا ہوں مجھے بچا لے۔ میں بنی اسرائیل کی مخالفت سے باز آتا ہوں مجھے بچا لے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اب ایمان لا تا ہے جب کہ اس سے پہلے تو نے نافرمانی میں حد کر دی تھی۔ لیکن پھر بھی ہم ایک نشان کے طور پر تیرے بدن کو نجات دے دیتے ہیں۔ لیکن روحانی طور پر زندگی تجھے کبھی بھی نہیں ملے گی۔

حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل نے ایک لمحے کیلئے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں فرعون اور اس کا لشکر چیخ و پکار میں مصروف تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ فرعون کے ساتھی اسے بچانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے فرعون کو سمندر سے باہر نکال لیا تھا لیکن وہ اس قابل ہر گز نہیں تھے کہ اب مزید پیچھا کر سکتے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے اپنے خدا کا شکر ادا کیا اور آگے بڑھ گئے۔ فرعون کے لشکر کی چیخ و پکار لمحہ بہ لمحہ ان سے دور ہوتی جا رہی تھی۔

غلامی کے ایک لمبے دور نے بنی اسرائیل کے کردار اور اخلاق پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ وہ قدم قدم پر خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ چکے تھے پھر بھی ابھی ان کی بزدلی پورے طور پر گئی نہ تھی۔ وہ حضرت موسیٰؑ کے ساتھ مصر سے نکل تو آئے تھے لیکن ابھی ان کے ایمان پوری طرح مضبوط نہ تھے۔ بار بار وہ حضرت موسی کو تنگ کرتے کبھی کسی بات پر اور کبھی کسی بات پر۔ نہ جانے کیوں اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں اور احسانوں کو دیکھنے کے باوجود بھی وہ پوری طرح مطمئن نہ تھے۔

یہی وجہ تھی کہ جب حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ارض مقدس یعنی فلسطین کی فتح مقدر کر دی ہے اس لئے آگے بڑھ کر ہمیں اس کیلئے پیش قدی کرنی چاہئے تو قوم نے صاف انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگے۔ ’’اے موسیٰؑ؟ ہم کیسے ارض مقدس میں داخل ہو سکتے ہیں جب کہ وہاں رہنے والے لوگ طاقتور اور مضبوط ہیں۔ ہم ان کو شکست نہیں دے سکتے۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے وہ زمین مقدر کر دی ہے تو پھر پہلے اللہ تعالیٰ ان طاقتور لوگوں کو وہاں سے نکال دے پھر ہم داخل ہو جائیں گے۔ لیکن اے موسیٰؑ! ہم ان سے لڑنے کی طاقت بالکل نہیں رکھتے۔‘‘

حضرت موسیٰؑ نے انہیں سمجھایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس نے ہم سے فتح کا وعدہ کر رکھا ہے تم آگے بڑھ کر تو دیکھو ! لیکن قوم تھی کہ ماننے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ چند ایک نیک لوگوں کے سوا جن کو خدا کی تائید پر بھروسہ تھا باقی سب نے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اے موسیٰؑ! اگر خدا تعالیٰ نے آپ سے فتح دینے کا وعدہ کر رکھا ہے تو پھر آپ ایسا کریں کہ آپ اور خدا تعالیٰ جا کر لڑیں۔ جب فتح ہو جائے تو ہمیں بلا لیں۔ ہم یہیں بیٹھے آپ کا انتظار کریں گے۔

یہ بزدلی کی انتہا تھی جو بنی اسرائیل اپنے مقدس نبی کو دکھا رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو 40 سال تک اس سر زمین میں داخل نہ ہونے دیا۔ وہ یہ سارا عرصہ ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور جنگلوں کی خاک چھانتے رہے اور وہ یقینی فتح جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے وعدہ کیا تھا نئی آنے والی نسل کے زمانے میں 40 سال کے بعد ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت موسیٰؑ بھی وفات پا گئے۔ اور اپنے ماننے والوں کی بزدلی کی وجہ سے اس یقینی فتح کو اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

کچھ یادیں کچھ باتیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مئی 2022