• 19 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کس طرح بعض لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے

اللہ تعالیٰ کس طرح بعض لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے
بلکہ حیران کن طور پر رہنمائی فرماتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
گزشتہ دنوں مَیں کیمرون کی ایک رپورٹ میں دیکھ رہا تھا جو نائیجیریا کے سپرد ہے، وہاں ہمارے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ کیمرون کے انگریزی بولنے والے علاقوں کے بعد اب فرنچ بولنے والے علاقوں میں بھی بڑی تیزی سے جماعت ترقی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے جو مخالف مقامی مولوی ہیں اور بعض دفعہ وہاں تبلیغی جماعت کے یا دوسرے پاکستانی مولوی بھی پہنچ جاتے ہیں، اُن کی حسد کی آگ بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی تبلیغی جماعت کا ایک گروپ بعض لوکل مُلَّاؤں کے ساتھ مل کے 29؍مئی کو (یہ جو گزشتہ 29؍ مئی گزری ہے) ہماری جماعت مامفے (Mamfe) کی مسجد بیت الہدیٰ میں آئے اور اُن لوگوں نے جماعت کے خلاف زبان درازی کی اور احبابِ جماعت کو جو چند وہاں بیٹھے ہوئے تھے ورغلانے کی کوشش بھی کی۔ اس پر احباب نے اُنہیں کہا کہ اگر یہاں، نماز پڑھنے آئے ہو تو پڑھوورنہ یہاں سے چلے جاؤ ہم تمہاری بکواس نہیں سن سکتے۔ جس پر یہ لوگ وہاں سے چلے گئے لیکن یہاں سے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ناگوٹی (Naguti) جگہ ہے، اُس میں ہماری ایک دوسری مسجد ہے‘‘مسجد بیت السلام’’ جس کا اس سال افتتاح ہوا ہے وہاں پہنچے اور اُس وقت وہاں کی جوقریبی جماعت تھی اس میں بڑے وسیع پیمانے پر یومِ خلافت کا ایک جلسہ ہو رہا تھا اور لوگ اُس میں شامل ہونے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ چند ایک لوگ ہی وہاں بیٹھے تھے یہ (مولوی) اُن کے پاس گئے اور اُن کو ڈرایا دھمکایا لیکن اُنہوں نے نہ تو اُن کی باتیں سنیں اور نہ ہی اُن سے یہ کہا کہ ہاں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن بہر حال کیونکہ مقامی مولوی بھی ساتھ تھے اور کچھ بڑے لوگ بھی تھے اس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکے اور ان مولویوں نے ہماری مسجد جس کا مَیں نے ذکر کیاکہ افتتاح ہوا ہے، وہاں سے قرآنِ کریم اور لٹریچر اُٹھایا اور مسجد کے باہرجو بورڈ لگا ہوا تھا اُس کو بھی توڑ کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بہر حال جب ہماری جماعت کے لوگ واپس آئے تو پھر حکام سے رابطہ کیا۔ گو ان لوگوں نے ہمارے خلاف وہاں کے جو حکام تھے اُن کو کافی ورغلایا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں اور فساد پیدا کرنے والے ہیں اور دہشتگرد ہیں اور ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے ہیں۔ لیکن بہر حال افسران سے رابطے تھے بلکہ وہاں کے ایک بڑے افسر تھے اس علاقے کے ڈی پی او، ایڈمنسٹریٹو ہیڈ ہیں، اُن کو جب مسجد کا افتتاح ہوا ہے تو بلایا ہوا تھا اور وہ آئے ہوئے تھے۔ بہر حال جب معاملہ اُن تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ اب تو یہ لوگ چلے گئے ہیں آئندہ یہ آئیں تو مجھے اطلاع کرنا اور میں اِن کے خلاف مقدمہ درج کروں گا اور گرفتار کروں گا۔ تو یہ لوگ توہر جگہ اپنی کوششیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی ہوا چلائی ہے کہ جہاں بیعتیں کروا رہا ہے وہاں دوسروں کے دلوں میں جو ابھی تک شامل نہیں ہوئے نرمی بھی پیدا کر رہا ہے۔ پس یہ لوگ جن کو کہا جاتا ہے کہ افریقہ میں رہنے والے ہیں اور جو دنیاوی تعلیم سے اتنے آراستہ نہیں لیکن ان کے دل اللہ تعالیٰ نے نورِ یقین سے بھر دئیے ہیں، وہ اپنے ایمان میں مضبوط ہیں۔ وہ ان نام نہاد علماء کے بھرّے میں آنے والے نہیں۔ ایمان سے پھیرنا تو شیطان کا کام ہے اور یہی اُس نے کہا تھا کہ اے اللہ! تیرے خالص بندے ہی ہیں جو میرے قابو میں نہیں آئیں گے۔ باقیوں کو تو مَیں ہر راستے سے ورغلانے کی کوشش کروں گا۔ پس جو ان ورغلانے والوں کا کام ہے وہ یہ کرتے چلے جائیں لیکن جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق پیدا ہو چکا ہے، جن لوگوں کو راستی دکھائی دے چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بن چکے ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایمانوں پر قائم رہیں گے اور یہی اظہار ہر جگہ ہمیں نظر آ رہا ہے۔

اب مَیں کچھ اور واقعات پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بعض لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے بلکہ حیران کن طور پر رہنمائی فرماتا ہے۔

قرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں: آرتر (Artur) صاحب نے گزشتہ رمضان المبارک میں بیعت کی تھی۔ وہ ایک دینی جماعت کے ممبر تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میرے اساتذہ نے مجھے برائیوں سے بچنے کے لئے اور سیدھے راستے پر چلنے کے لئے ایک دعا سکھائی۔ اس دعا کو سیکھے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا لیکن میں نے وہ دعا نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں کہ تین چار روز قبل میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا مانگی کہ اپنے فضل سے مجھے سیدھی راہ دکھا۔ اس دعا کے تین چار روز بعد مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور وہاں سے آگے کئی اور چوٹیاں ہیں۔ مَیں ایک چوٹی سے پھلانگ کر دوسری چوٹی پر جا رہا ہوں۔ اس دوران آگے سے دو بندر نکلے ہیں اُن میں سے ایک بندر میرے بائیں طرف لپٹ گیا ہے جبکہ دوسرا سیدھا میری طرف آ رہا ہے۔ اس دوران ایک دیو ہیکل کوئی چیز آتی ہے اور اُس نے طاقت سے اُس بندر کو مجھ سے علیحدہ کر دیا اور میری جان بچائی۔ کہتے ہیں اس خواب کے بعد مَیں بیدار ہو گیا اور میں حیران تھا کہ یہ کیا خواب ہے۔ اس کے چند دن بعد میرا جماعت احمدیہ سے رابطہ ہو گیا اور مجھے جماعت کے بارے میں معلومات دی گئیں۔ مَیں نے چند کتب پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں مجھے اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوئی کہ بمطابق حدیث اس دَور کے بگڑے ہوئے علماء دراصل بندر ہی ہیں اور جماعت احمدیہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے۔

(خطبہ جمعہ 8؍ جولائی2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2021

اگلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام ڈاک