• 28 مارچ, 2024

سبزیاں اُگائیں۔ صحت مند رہیں

سبزیاں اُگائیں۔ صحت مند رہیں
اور اس کے ذریعے بھی تبلیغ میں فائدہ اٹھائیں

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ایک میٹنگ کے دوران عہدیداران احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن لاہور سے سوال کیا کہ ان نئی ایجادات میں سب سے زیادہ نقصان ابھی تک انسان کو کس چیز سے پہنچا ہے۔ جس پر مختلف جوابات دیئے گئے۔ آخر میں حضورؒ نے فرمایا کہ مصنوعی کھاد نے اس وقت تک انسان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

(روزنامہ الفضل 16 مئی 2012ء صفحہ3)

یہ بات بالکل درست ہے۔ اس وقت ہر قسم کی غذائیت خواہ وہ اجناس سے تعلق رکھتی ہو خواہ پھلوں سے یا سبزیوں سے۔ اس کی افزائش مصنوعی طریقے سے کی جارہی ہے۔ ہر جگہ ہر چیز کے فارمز بن چکے ہیں۔ گوشت، دودھ، سبزی، انڈے، مچھلی، مرغی کی افزائش قدرتی طریقے کی بجائے مصنوعی طریق سے ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ انسانی صحت پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔

پھلوں کو لے لیں وہ مزا اور ذائقہ ہی نہیں رہا۔ حالانکہ ہر قسم کا پھل اب ہر قسم کے کے سیزن اور موسم میں دستیاب ہے اور حجم میں پہلے سے کہیں بڑھ کر لیکن وہ مزا ہی نہیں ہے۔ اب تو زمین بھی پیداوار نہیں دیتی جب تک اس میں مصنوعی کھاد نہ ڈالا جائے۔ مصنوعی کھاد ڈالنے سے زمیندار سمجھتا ہے کہ اس کی فصل پہلے سے دوگنی یا تگنی یا چوگنی ہو گئی ہے۔ مگر نہ ہی اس کا مزا رہا ہے اور نہ ہی اس کا وہ فائدہ جو اصل سے حاصل ہوتا تھا۔ اس میں گندم، چاول، مکئی، گنا سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

پھر سبزیوں کی طرف آتے ہیں۔ سبزیوں کا بھی یہی حال ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اگرچہ ہر قسم کی سبزی ہر موسم میں مل جاتی ہے مگر اسکا بھی وہی حشر ہو رہا ہے جو باقی چیزوں کا ہے۔

کھیرا، کدو، مرچ، بیگن، مولی، شلجم وغیرہ سب کچھ دستیاب ہے لیکن ایک تو حجم میں زیادہ دوسرے وہ مزا کسی بھی چیز کا اس طرح نہیں ہے جس طرح ہوتا تھا۔ خاکسار زراعت کے شعبے کا کوئی ماہر شخص نہیں ہے۔ صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بات پڑھ کر اس طرف توجہ ہوئی ہے کہ اگرچہ ہم اپنے محدود ذرائع کی وجہ سے ہر قسم کی اجناس، پھلوں اور سبزیوں کو تو نہیں اگا سکتے لیکن ایک محدود پیمانے پر ایسا ضرور کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت کی خداتعالیٰ کے فضل سے ہر شعبہ میں راہنمائی فرمائی ہے۔ ربوہ میں اور قادیان میں تو صدر انجمن احمدیہ میں ایک ’’ناظر زراعت‘‘ کا شعبہ ہے۔ اسی طرح تحریک جدید میں ’’وکیل الزراعت‘‘ کا ایک شعبہ ہے ۔ جس کے تحت اندرون ملک (پاکستان) اور بیرون ملک ہر دو شعبے راہنمائی کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو اس شعبہ کے بھی ماہر ہیں۔ آپ جب گھانا تشریف لے گئے تو وہاں پر گندم اگانے کا تجربہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔

میرے کہنے اور لکھنے کی اصل غرض یہ ہے کہ جماعت کے افراد کو گھروں میں از خود سبزیاں اور پھل اگانے چاہئیں جو قدرتی ہوں اور جو مصنوعی کھاد سے پاک ہوں اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے۔ بہت آسان کام ہے۔ خاکسار کو 8 سال افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی اور 34 سال سے امریکہ میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ (گھانا میں بھی، سیرالیون میں بھی اور پھر امریکہ میں بھی) خاکسار نے سبزیاں اگائی ہیں اور اس سے نہ صرف خود فائدہ اٹھایا بلکہ جماعت کے احباب میں بھی تقسیم کیں اور ہمسایوں کو بھی جو کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

میرے خیال میں تو یہ تبلیغ کا بھی ایک اچھا ذریعہ ہے۔ اس کا بھی میں ذکر کروں گا۔ اب میں اس ضمن میں کچھ تجربات اور فوائد کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ خاص طو رپر ایک مبلغ، مربی اور واقف زندگی کے لئے یہ کس قدر ضروری ہے کہ وہ سبزیاں خود اگائے اور خود کو فائدہ تو ہونا ہی ہے اس سے دیگر احباب کو بھی فائدہ ہو گا۔

خاکسار نے یہاں امریکہ میں تو متعدد مرتبہ درسوں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور خداتعالیٰ کےفضل سے کئی لوگوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہے اور جو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں خاکسار ان کے ساتھ اپنے سبزی کے گارڈن اور سبزیوں کی تصاویر بھی تبادلہ کرتا ہے۔ جس سے ایک خوشی بھی ہوتی ہے۔ الحمدللہ

پاکستان میں رہتے ہوئیے تو انسان گھر میں کھانے پینے کے معاملہ میں ہر قسم کے نخرے کرتا ہے اور گھر والے اسے برداشت بھی کر لیتے ہیں۔ مثلاً گھر میں کوئی یہ کہے کہ میں نے یہ نہیں کھانا تو اس کے لئے والدہ یا بیوی یا بہن کوئی دوسری چیز مہیا کر دے گی۔ لیکن اگر باہر کے ممالک مثلاً افریقہ میں چلا گیا ہے۔ جہاں فیملی بھی نہیں اور اپنی من پسند کی چیز بھی پکانے کو نہیں مل رہی تو اس وقت کچھ مشکل زیادہ ہو جاتی ہے۔ خاکسار جب گھانا گیا تو وہاں کے معاشی حالات بہت بدتر تھے۔ اول تو چیزیں ملتی ہی نہ تھیں۔ اگر مل جاتیں تو بہت مہنگی۔

اس سے ایک اور بات یاد آئی کہ اس مہنگائی کی وجہ سے خاکسار نے ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں گھانا سے خط لکھا آپ اس وقت ناظم ارشاد وقف جدید تھے۔ اس میں ہر قسم کی سبزی لکھ کر ساتھ ہی اس کی قیمت بھی لکھ دی اور لکھا کہ یہاں پر مہنگائی بہت کمر توڑ ہے۔ آپ نے اس کا جواب اپنے ہاتھ سے لکھا کہ تمہارا خط ملا جو تم نے لکھا ہے کہ کمرتوڑ مہنگائی ہے۔ بے شک ایسا ہی ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ تمہاری کمر اتنی کمزور نہیں ہے کہ اس مہنگائی سے ٹوٹ جائے۔

گھانا میں سبزی اگانے کا تجربہ

جیسا کہ خاکسار اوپر لکھ چکا ہے کہ گھانا کے معاشی حالات اور مہنگائی اور پھر ایسی چیزوں کا نہ ملنا جس کو طبیعت چاہتی ہے کی وجہ سے خاکسار نے خیال کیا کہ یہاں پر اپنے لئے سبزی اگائی جائے۔ میرا مشن ہاؤس کوفوریڈوا میں تھا اور یہ ایک کرائے کا مکان تھا جو صرف 3 -4 کمروں اور پختہ برآمدہ پر مشتمل تھا۔ اس کا نہ ہی صحن تھا اور نہ ہی اس میں کوئی چھوٹی سے جگہ جس میں کہ خاکسار سبزی اگا سکتا۔

مالک مکان لینڈ لارڈ ایک عیسائی تھا۔ جو بہت شریف النفس انسان تھا۔ خاکسار نے اس سے پوچھا کہ میں آپ کے گھر کے سامنے (اس کے گھر کے سامنے کافی زمین تھی جس پر وہ خود سبزی اور پھل بیچنے کے لئے اگاتا تھا) کچھ بیج دوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟ وہ کہنے لگا کیا بیجنا چاہتے ہو۔ مجھے اس وقت کہیں سے 3-4 بیج مولیوں کے ملے تھے میں نے کہا (Redish) کہنے لگا وہ سامنے کیلے کا درخت ہے اس کےساتھ اگا لو۔ میں نے وہ 3-4 بیج وہیں اگا دیئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ سارے کے سارے بیج اُگ آئے اور بڑی بڑی لمبی 3-4 مولیاں ہو گئیں۔

پاکستان میں سنا تھا کہ گھروں میں مولی اور پالک کا سالن بناتے ہیں۔ اور میں نے کبھی مولی کا سالن پاکستان میں نہیں کھایا تھا۔ خیر جب مولی قریباً ایک ایک فٹ کی ہو گئی تو ایک دن ایک مولی زمین سے نکال کر اسے پتوں سمیت پکا لی اور دو تین دن اس طرح سالن کھایا۔ پھر اسی طرح دوسری دو تین مولیوں کے ساتھ بھی کیا۔ پالک وغیرہ ملنا مشکل تھا اس لئے مولی کے پتے ہی ڈال کر سالن بنا لیا ۔

ایک دفعہ گھاناہی میں مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب فرخ جو سویڈرو ہسپتال میں ہوتے تھے اکرا میں ہسپتال کے لئے دوایاں خریدنے کے لئے آئے۔ میں بھی ان دنوں آیا ہوا تھا کسی میٹنگ کے لئے۔ چنانچہ ہم اپنے میزبان ( مکرم مولوی غلام احمد صاحب خادم مربی سلسلہ۔ حال یوکے) کے ساتھ شہر میں گئے۔ وہاں ان دنوں ہندوستانیوں کے دو بڑے سٹور چیلا رام اور کنگزوے ہوتے تھے۔ ہم ہردو سٹورز پر گئے کہ شاید کوئی کھانے پینے کی اشیاء مل جائیں اور ہم خرید لیں۔ دونوں میں سے صرف ایک سٹور پر ثابت مونگ کی دال کے 3 پیکٹ ملے جو ایک ایک پاؤنڈ کے تھے۔ وہ ہم تینوں نے اٹھا لئے۔ مکرم غلام احمد صاحب خادم نے تو اسی دن ہماری اسی دال سے مہمان نوازی کر دی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ خاکسار بھی اپنا مونگ کی دال کا پیکٹ ساتھ لے آیا۔ خاکسار نے اس میں سے ایک دفعہ تو پکا لی۔ پھر خیال آیا کہ یہ تو ختم ہوجائے گا دو تین دفعہ میں کیوں نہ اسے بو دیا جائے۔ میرے لئے مسئلہ وہی تھا کہ جگہ نہ تھی۔ خاکسار اپنے مالک مکان کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے اپنے لئے کچھ اگانا ہے کوئی جگہ بتاؤ۔ کہنے لگا ٹھیک ہے اور اس نے مجھے قریباً ایک مرلہ جگہ مشن ہاؤس کے ساتھ ہی دے دی کہ تم یہاں اپنی سبزی اگا لیا کرو۔ خاکسار نے بقیہ ثابت مونگ جو اس غرض کے لئے بچائے گئے تھے وہ اگالئے اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت رکھ دی۔ اس کے دو سال بعد میرا تبادلہ 1982ء میں گھانا سے سیرالیون ہوا تو خاکسار 19 پونڈ ثابت مونگ گھانا سے سیرالیون بھی ساتھ لے کر گیا۔ اس خیال سے کہ پتہ نہیں سیرالیون میں کیا حالات ہیں؟ اس کے علاوہ خاکسار دیگر دوستوں کو بھی یہ تحفہ دیتا رہا۔ اس وقت دال کا ملنا کسی نعمت سے کم نہ ہوتا تھا۔

سیرالیون میں

جب خاکسار 1982ء میں سیرالیون آیا تو خاکسار کا تقرر مگبور کا میں ہوا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کےفضل سے بہت پرانی جماعت ہے اور ایک مشن ہاؤس بھی ہے۔ مشن ہاؤس بہت چھوٹا سا تھا، چھوٹے چھوٹے 2 کمروں پر مشتمل، ایک کھلا برآمدہ، اس کے پیچھے تھوڑی سے کھلی جگہ تھی۔ وہ جگہ اپنی نہ تھی لیکن تھی ایک احمدی کی۔ خاکسار نے مشن ہاؤس کی چار دیواری بنوانا چاہی۔ اس لئے صحن کے لئے 4-5 فٹ سے زائد جگہ نہ رہی۔ پھر اس مکان میں پانی کی بھی مشکل تھی۔ یہاں پانی نہ تھا۔ پانی باہر سے لانا پڑتا تھا۔ ساتھ ہی نصف میل پر ایک نہر تھی اور کچھ لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں پانی کے نل لگوائے ہوئے تھے۔ ایک آدھ کنواں بھی تھا، وہاں سے لوگ پانی لے آتے تھے۔ خاکسار نے گھر کی چار دیواری بنانے کے بعد اندر جو جگہ تھی وہ تو صحن کے لئے بھی ناکافی تھی مگر اس کے باوجود خاکسار نے وہاں پپیتے کے درخت اگائے اور لکڑی کے چوکٹھے بنوا کر ان کے اندر مٹی بھر لی اور ٹماٹر، کریلے اور اروی لگا لی۔ اس طرح یہاں پر بھی خداتعالیٰ کے فضل سےسب سبزی لگائی اور استعمال کی جو مفید تجربہ رہا۔ اروی خاکسار نے ایک بنگالی غیرازجماعت دوست سے لی تھی، جسے اگایا گیا۔ کامیاب تجربہ رہا۔ الحمد للہ

خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ پانی نہ تھا۔ عموماً برسات کے دنوں میں بارش کا پانی جمع کر لیا جاتا تھا۔ ان دنوں پانی کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی مگرجب بارشوں کا سیزن نہ ہو اس میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی۔ خاکسار نے محترم امیر صاحب (اس وقت مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری یہاں سیرالیون کے امیر تھے) کی اجازت سے مشن کے باہر ایک کنواں کھدوا لیا۔ اس وقت غالباً 80 لیون لاگت آئی تھی۔ اس کا فائدہ نہ صرف ہمیں ہوا بلکہ اور لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ الحمدللہ

افریقہ کے متعلق ایک غلط تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ افریقہ ریگستان ہی ریگستان ہے، صحرا ہے۔اور یہ کہ وہاں صرف گرمی ہی ہوتی ہے اور دور دراز تک پانی نہیں ملتا۔ پتوں پر گزارہ ہوتا ہے وغیرہ۔

افریقہ کے بہت سے ممالک سرسبز اور شاداب ہیں ۔بارشوں کا سیزن بھی ہوتا ہےاور زمین تو بہت زرخیز ہے۔ ہاں پانی کی کمی ضرور ہے۔ آپ جو چاہے وہاں اگائیں۔ ہر چیز Organic ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں وہاں خود رو بھی ہیں۔ افریقہ کے ممالک میں یہ چیزیں وافر مقدا رمیں مل جاتی ہیں۔ مثلاً پپیتا بہت ہی میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتاہے۔ یہ خود رو بھی ہے اور آپ اگا بھی سکتے ہیں۔ مالٹا بہت مقدار میں ہوتا ہے۔ اسی طرح آم بھی ملتا ہے۔ انناس بھی ۔ ملیریا میں عام طور پر لوگ مالٹے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ہوتا بھی میٹھا ہے۔ کیلا بھی عام مل جاتا ہے جو بہت اچھا ہوتا ہے۔ لوگ اگاتے بھی ہیں۔ بازار میں سبزیوں میں سے عموماً بھنڈی، توری، ٹماٹر، مرچیں مختلف قسم اور رنگ کی، بینگن تین چار رنگ اور اقسام کے، مختلف قسم کے Beans (بینز) جنہیں ہم دالیں کہہ سکتے ہیں لیکن ہماری دالوں سے بہت مختلف، یام، کوکویام (یہ اروی کی طرح ہوتا ہے) شکرقندی، پھلیاں وغیرہ۔ اُس زمانے میں سفید آٹا (میدہ) ملتا تھا جو غالباً امریکہ سے آتا تھا۔ اسی طرح گندم کا دلیہ بھی تھا۔ (یہ بھی امریکہ سے آتا تھا) خشک دودھ یہ بھی امریکہ سے ہی آتا تھا۔ عموماً لوگ یہ لے کر استعمال کرتے تھے۔

جیسا کہ خاکسار نے لکھا ہے کہ افریقہ کے اکثر ممالک خداتعالیٰ کے فضل سے بہت زرخیز ہیں اس لئے ہمارے مبلغین کرام کو اس بات کا بھی تجربہ کرنا چاہئے کہ وہ وہاں پر جہاں جہاں مشن ہاؤس ہیں، سبزیاں خود اگایا کریں اور اپنی پسند کی اگا سکتے ہیں۔یہ ورزش کاذریعہ بھی ہے اور Organic بھی ہوں گی جو صحت کے لئےضروری ہے۔ بعض ملکوں میں صرف وہاں کی لوکل چیزیں ہی ملتی ہیں۔ اس لئے وہ دوست مبلغ واقفین زندگی جو لوکل چیز نہ کھا سکیں انہیں ضرور اس میدان میں مشق کرنی چاہئے۔ یہ بہت آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔

امریکہ میں

خاکسار 1987ء میں امریکہ آیا تو پہلی تقرری ڈیٹن میں ہوئی۔ یہاں پر مسجد تو خداتعالیٰ کے فضل سے تھی اور امریکہ میں بنائی جانے والی پہلی مسجد تھی لیکن مربی ہاؤس نہ تھا۔ چنانچہ خاکسار نے یہاں پر 1988ء میں اس وقت کی لاگت کے مطابق 24 ہزار ڈالر کا ایک مکان مسجد کےساتھ ہی خریدا۔

اس میں بھی تھوڑی سی جگہ تھی جہاں خاکسار نے اروی، ٹماٹر وغیرہ اگائے۔ اگرچہ خداتعالیٰ کےفضل سے یہاں ہر چیز بآسانی میسر ہے تاہم خود اگا کر کھانے کا مزہ بالکل الگ ہے اور خاکسار کو یہ پسند ہے کہ سبزی اگانی بھی چاہئے۔ اس لئے باوجود تھوڑی جگہ ہونے کے پھر بھی خاکسار کی یہی کوشش رہی کہ سبزی اگائی جائے۔

ہیوسٹن

اس کے بعد 1992ء میں خاکسار ہیوسٹن گیا۔ وہاں پر کافی وسیع حصہ میں مشن کے ساتھ جگہ تھی اور موسم بھی وہاں کا اچھا تھا۔ یہاںپر بھی خاکسار نے طبع آزمائی کی اور خاص طور پر اروی، کریلے، ٹماٹر، مرچ اور دیگر سبزی اگانے کا تجربہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔ یہ علاقہ بھی زرخیز ہے اور موسم بھی یہاں کچھ اتنا ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ سال کے 12 مہینوں میں بھی آپ سبزی لگا سکتے ہیں۔

ڈیٹن میں تو سردی بہت زیادہ ہوتی تھی، برفباری بھی، اس لئے صرف مئی سے اکتوبر تک کے مہینوں میں ہی آپ کچھ لگا سکتے ہیں اس کے بعد نہیں۔ سردی کی وجہ سے ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں سال کے 12 مہینوں میں آپ کچھ نہ کچھ لگا سکتے ہیں اور ہر قسم کی سبزی ہو سکتی ہے۔

میری لینڈ

1996ء میں خاکسار کا تبادلہ ہیوسٹن سے میری لینڈ میں سلور سپرنگ مسجد بیت الرحمٰن میں ہوا۔ یہاں پر بھی کافی جگہ میسر آئی جس میں سبزیاں اگائی جا سکتی تھیں۔ مگر وہ جگہ بہت سخت تھی اور گھاس اگا ہوا تھا۔ قریباً ایک کنال جگہ تھی۔ خاکسار نے یہاں پر ہر قسم کی سبزی اگائی۔ جس میں کریلے، بھنڈی، سبز توری، کدو، ٹماٹر، بینگن، مرچیں، اروی، کھیرے ، سکوائش وغیرہ شامل ہیں۔

مسجد کے ہمسایہ میں ایک امریکن رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر کے باہر اپنا ایک فارم بنایا ہوا تھا جس میں وہ ہر قسم کی سبزی اور مکئی اگاتا تھا۔ خاکسار نے اس کے ساتھ دوستی لگائی اور اس نے اپنے ٹریکٹر کے ساتھ میری زمین کو نرم کر دیا۔ صرف یہ نہیں بلکہ وہاں پر باہر سے کسی اور جگہ سےا صل گوبر والی کھاد کے ٹرک بھی ڈال دیئے ۔اور یہاں چونکہ ہرن بھی وافر مقدار میں گھومتے پھرتے ہیں اور سبزی کو خراب کر دیتے ہیں، اس نے میری زمین کے اردگرد بیٹری کےساتھ وائر لگادی جو ہرنوں سے حفاظت کا کام کرتی تھی۔

یہاں پر قریباً 8 سال اس طرح سبزی اگائی اور وافر مقدار میں اگائی اور نیزوافر مقدار میں پھل بھی اُگایا جو جماعت کے دوستوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ خاکسار نزدیکی غیرمسلم ہمسایوں کو بھی دیتا تھا۔ جس کا بہت اچھا اثر ہوتا تھا۔

لاس اینجلس

یہاں پر آٹھ سال خدمت کے بعد 2004ء میں خاکسار لاس اینجلس کے شہر چینو (مسجد بیت الحمید) کیلیفورنیا میں متعین ہوا۔ یہاں پر 5 ایکڑ کے رقبہ پر محیط مسجد اور مشن ہاؤس ہے۔ الحمدللہ۔ یہاں کا موسم بھی کاشتکاری کے لئے بہت اچھا ہے۔ سال کے 12 مہینوں میں آپ ہر چیز اگا سکتے ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر پھل اگائے جاتے ہیں۔ خاکسار نے مشن ہاؤس میں انار، امردو، مالٹا، لیموں، انجیر کے کافی درخت لگائے ہیں جو خداتعالیٰ کے فضل سے اس وقت بھرپور پھل دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں پر مشن ہاؤس میں خاکسار نے گنا بھی اگایا جواس وقت تک موجود ہے۔ جماعت کے افراد نےوافر مقدار میں اس سے فائدہ اٹھایا اور اب بھی جلسہ کے دنوں میں (دسمبر) وہاں پر احمدی احباب کو اس خاکسار کے اگائے ہوئے گنے کو چوستے دیکھا ہے (دو سال قبل) الحمد للہ۔

اس کے علاوہ یہاں پر سبزیوں میں مرچ، ٹماٹر، اروی، بھنڈی، کدو، کھیرے وغیرہ لگائے جاتے رہے۔ یہاں پر ایک جانور گوفر ہوتا ہے وہ زمین کے اندر ہی اندر جڑوں کو کھا جاتا ہے۔ مجھے اس کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے کچھ سبزی ہر سال ضائع ہو جاتی رہی ہے۔

مشن کے ساتھ ہی یہاں پر ایک عیسائی شخص مسٹر جارج نامی رہتے تھے وہ بھی زمیندار تھے۔ ان کے اپنے فارمز تھے۔ جس میں فصل کے علاوہ بکریاں، مرغیاں، انڈے وغیرہ کا بزنس بھی کرتے تھے۔ خاکسار نے ان کے ساتھ دوستی لگائی ہوئی تھی اور انہوں نے کافی تعاون کیا۔ وہ بھی بہت اچھے شریف النفس انسان تھے۔ امام ہونے کی وجہ سے وہ بہت عزت کے ساتھ بھی پیش آتے تھے۔ ان سے تعلقات بننے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے اپنے گھر کےسامنے سپینش زبان میں ایک بورڈ لگایا ہوا ہے جس پر بکرے اور بھیڑ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ یہ چیزیں دستیاب ہیں۔ کیونکہ وہ ان چیزوں کا بزنس کرتے ہیں۔ خاکسار نے انہیں فون کیا اور ملنے کا وقت لیا اور عیدالاضحیہ کے موقع پر قربانی کے لئے ایک بکرا خریدا۔ اس علاقے میں آپ خود ذبح کر سکتے ہیں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

اس طرح خاکسار کو جب بھی ضرورت پڑتی تو ان سے جا کر بکرا وغیرہ خرید لیتا۔ بعض اوقات خاکسار پاکستانی کھانا بھی ان کے گھر دے آتا۔ جس کو وہ خوشی سے قبول کرتے اور انجوائے کرتے۔ پھر میرا معمول بن گیا کہ جب بھی گھر میں اچھا کھانا پکتا میں ان کے گھر جا کر کھانا دے کر آتا۔

ایک دن میں گھر آیا تو پتہ لگا کہ مسٹر جارج آئے تھے اور ایک بکرا ذبح کر کے اور اس کا گوشت بنا کر گھر دے گئے ہیں۔ میں نے رقم دینا چاہی مگر انہوں نے نہ لی کہ آپ میرے ہمسائے ہیں اور یہاں مسجد کے امام ہیں۔ اور پھر وہ اکثر ایسا کرتے رہتے تھے۔ میرا اب بھی یہاں سے ان کےساتھ تعلق ہے فون پر بات ہو جاتی ہے۔

شکاگو

2014ء میں خاکسار شکاگو میں متعین ہوا۔ یہاں پر تو مشن ہاؤس نہ تھا بلکہ مبلغین کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے 5 ایکڑکی زمین پر مسجد بنی ہوئی ہے بہت اچھی اور خوبصورت۔ مکرم فلاح الدین شمس صاحب کافی لمبا عرصہ یہاں کے صدر رہے ہیں۔ ان کے زمانے میں یہ مسجد بنی تھی۔ آج کل آپ امریکہ کے نائب امیر ہیں۔

خاکسار نے یہاں تو قریباً 3۔4 ماہ مسجد کے دفتر میں ہی رہائش رکھی کیونکہ کرایہ پر موزوں مکان مسجد کے ساتھ مل نہیں رہا تھا۔ اس وجہ سے خاکسار نے محترم امیر صاحب یہ درخواست کی کہ یہاں پر مربی ہاؤس ہونا چاہئے جس کی انہوں نے اجازت دے دی اور لوکل فنڈ اکٹھا کیا گیا اور اگلے تین چار ماہ میں اللہ تعالیٰ کےفضل سے مسجد کے بالکل ساتھ ہی 5کمروں پر مشتمل قریباً پونے پانچ لاکھ ڈالر میں گھر خرید لیا گیا۔ مسجد کا پارکنگ لاٹ اور مکان کا صحن ملحق تھے۔ اس مشن ہاؤس میں کافی جگہ تھی۔ خاکسار نے یہاں بھی زمین کو ٹھیک کر کے سبزیوں کے اگانے کا بندوبست کیا اور اللہ تعالیٰ کےفضل سے قریباً 4 سال یہاں پر منجملہ فرائض کے فارغ وقت میں سبزیاں بھی اگائی جاتی رہیں۔ سبزی خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی ہوتی تھی کہ جماعت کےاکثر لوگ شام کے وقت مغرب کی نماز یا عشاء کی نماز پر جب آتے تو انہیں دے دی جاتی تھی۔ یہاں پر بھی ٹماٹر، بھنڈی، کریلے، سکائش، کدو، مرچ، اروی اور گنا لگایا گیا۔

یہاں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ امریکہ میں بھی ایک عرصہ سے نیشنل اور لوکل لیول پر سیکرٹری زراعت کا انتخاب ہوتا ہے۔ جب خاکسار شکاگو آیا اس وقت نیشنل سکرٹری زراعت مکرم ناصر ملک صاحب آف ہیوسٹن بنے۔ وہ تو ایگریکلچر کے ماہر تھے۔ وہ سارا سال اپنی خود کاشت بھی کرتے ہیں یعنی سبزیاں لگاتے ہیں اور دوسرے بھی ان کی سبزیوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

وہ چونکہ اس میں Expert ہیں اور ان کی اسی کام میں ڈگری بھی ہے تو جب وہ نیشنل لیول پر سیکرٹری زراعت تھے انہوں نے بہت خدمت کی۔ اپنے گھر میں گرین ہاؤس بنایا ہوا تھا جس میں کافی سبزیوں کے پودے وقت سے پہلے لگا دیتے تھے اور پھر شوریٰ کے موقعہ پر وہ لے آتے تھے جو دوست اس کام میں دلچسپی رکھتے تھے ان کو مفت میں سبزیوں کی پنیری کی سپلائی مل جاتی تھی۔ خاکسار نے بھی ان سے کافی فائدہ اٹھایا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء

اس کےعلاوہ میری لینڈ کے علاقہ میں ایک واہلہ فیملی ہے۔انہیں بھی اس کا بہت شوق تھا۔ مکرم شوکت چوہدری واہلہ صاحب نے بھی اپنا بہت بڑا سبزیوں کا فارم بنایا ہوا ہے۔ اور ہم ایک دوسرے سے بیجوں کا تبادلہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ الحمدللہ

بہت اچھی سبزی پیداہوئی۔ خاکسار اپنے عیسائی ہمسایوں کو بھی دیتا تھا اور وہ بڑی خوشی سے لیتے کہ Organic سبزی ہے۔ اس سے تعلقات بھی بن جاتے ہیں۔ ابھی بھی خاکسا ر ان عیسائی ہمسایوں کو فون کرتا ہے اور وہ بھی مجھے فون کر لیتے ہیں بلکہ اس طور پر جب ان سے تعلق بنے تو تبلیغ میں بھی کام آئے۔ شکاگو میں میری ہمسائیگی میں ایک بوڑھے شخص اور ان کی بیوی سے رابطہ بڑھا تو انہوں نے اپنے پادری کو کہہ کر مجھے اپنے چرچ میں بھی بلایا ۔ جہاں میں نے کئی مرتبہ جا کر تقریریں کیں اور چرچ کی پادری میرے گھر بھی آئیں۔ بلکہ جب بھی میرے ہمسایہ کے گھر وہ وزٹ کرتیں تو وہ مجھے بھی بلا لیتے تھے۔
وہاں پر ایک متعصب قسم کی ہمسایہ بھی تھی۔ اسے بھی جب سبزی دی گئی تو اس کا تعصب آہستہ آہستہ دور ہوا۔ الحمد للہ

ڈیٹرائٹ

خاکسار اکتوبر2017ء میں شکاگو سے ڈیٹرائٹ میں خدمت کے لئے آیا۔ اکتوبر کے مہینہ میں یہاں سردی شروع ہو جاتی ہے اس لئے اس سال تو کچھ نہ بیج سکا۔ لیکن اگلے سال کے آنے سے پہلے اس کی بھی تیاری شروع کر دی۔ یہاں پر مربی ہاؤس ہے اور بہت اچھا ہے۔ جگہ بھی تھی مگر ہر جگہ گھاس اگی ہوئی تھی جس کو اکھیڑنا یاہل چلانا بڑا مشکل تھا۔ خاکسار نے اس کا حل یہ نکالا کہ جتنی جگہ پر سبزیوں کا گارڈن بنانا تھا اتنی جگہ پر مٹی کا ایک ٹرک لا کر ڈال دیا جس سے گھاس نیچے دب گئی اور اوپر تازہ مٹی آگئی اور 2018ء سے اب تک قریباً 3 سال سے یہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدہ تازہ سبزی مل جاتی ہے۔ یہاں پر سردی زیادہ ہوتی ہے بعض اوقات سبزی دیر سے بوئی جاتی ہے اور جلدی ہی سردی آنے کی وجہ سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔

عام طور پر مئی کے وسط میں یہاں سبزیاں اور پھل لوگ بو دیتے ہیں اس سال سردی زیادہ لمبا عرصہ چلی اس لئے وسط جون میں جا کر کچھ سبزی بوئی گئی۔ سبزیوں میں اس سال بھی خاکسار نے بھنڈی، کالی توری، کدو، ٹماٹر، اروی، گنا، کریلے، مختلف اقسام کی مرچیں ، کھیرے، ککڑی، بیگن وغیرہ لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں پر بھی جب میں آیا تو ہمسایوں سے ملا۔ یہاں بھی میں نے محسوس کیا کہ جس گلی میں مشن ہاؤس ہے ،کچھ لوگ مسلمانوں سے تعصب رکھتے ہیں اور ہماری مسجد کا پارکنگ لاٹ اس گلی کے بہت سے مکانوں کےساتھ ملحق ہے اور انہیں بعض اوقات بغیر وجہ کے بھی شکایات رہتی ہیں۔ خاکسار سب سے ملا سب کو اپنا تعارف کرایا جس سے تعصب کا احساس ہوا۔

خاکسار گزشتہ 3 سالوں سے ان سب کے گھر سبزی دیتا ہے اور اب آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کے فضل سے ان کا تعصب دور ہو رہا ہے اس کے علاوہ خداتعالیٰ کے فضل سے سبزی وافر مقدار میں پیداہوتی ہے جو خاکسار جماعت کے دوستوں میں ہی تقسیم کر دیتا ہے۔ اس سے سب خوش ہوتے ہیں۔ اس سارے مضمون کو لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ چونکہ آج کل دنیا کے معاشی حالات بھی ایسے ہی ہیں اور مہنگائی کے علاوہ چیزیں بھی خالص نہیں ملتیں اور مصنوعی کھاد کی وجہ سے افزائش میں جو ترقی ہے وہ صحت کے لئے بھی مضر ہے۔ اس لئے اگر تھوڑی سی محنت کی جائے اور دلچسپی لی جائے تو آپ بہت عمدہ تازہ سبزی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو بھی فائدہ ہو گا ،جماعت کو بھی اور بعض جگہ یہ تبلیغ کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔

دوسرے آپ کی ورزش بھی ہو جاتی ہے جو کہ صحت کے لئے ازبس ضروری ہے۔ جب آپ اپنے تربیتی و تبلیغی کاموں سے تھک جائیں تو گارڈننگ کریں۔ جس کے فوائد میں اوپر لکھ چکا ہوں۔

میں یہاں پر فخر کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عاجز حضرت سید میر داؤد احمد صاحب کا ایک ادنیٰ شاگرد ہے۔ اللہ تعالیٰ کےفضل اورخلیفہ وقت کی رہنمائی میںآپ نے جو طلباء جامعہ کی تربیت کی ہے اس کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ کسی کام میں بھی مبلغ کو یا واقفِ زندگی کو عار محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ بعض لوگ شاید سبزی اگانے کو پسند نہ کرتے ہوں کہ کون مٹی میں ہاتھ ڈالے پسینہ سے شرابور ہو۔ لیکن یہ ہماری ٹریننگ کا ایک حصہ بھی ہے۔ مکرم چوہدری منیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سید میر داؤد صاحب مرحوم پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ نے فرمایا:
’’میں جامعہ کے طالب علموں کو ہرفن مولا بنانا چاہتا ہوں اور میں تو دوسرے اداروں سے کہتا ہوں کہ تم اپنے طلباء کےساتھ میرے جامعہ کے طلباء کا جس چیز میں مرضی مقابلہ کروالو ان شاء اللہ میرے طلباء ہی جیتیں گے۔ پھر فرمانے لگے کہ کسی طالب علم کو بھی کسی کام کرنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ ہر کام میں حصہ لینا چاہئے۔ میں گلی ڈنڈا کھیلتا رہا ہوں اور اب بھی کھیل سکتا ہوں۔ اگر مجھے کہا جائے ڈھول بجاؤ تو میں ڈھول بجا سکتا ہوں۔ اگر مجھے گدھے دیئے جائیں اور کہا جائے کہ ہانکو تو میں گدھے ہانک سکتا ہوں اس پر مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

(سیرت داؤد صفحہ 105)

اسی طرح ایک اور موقعہ کے متعلق مکرم بشارت محمود صاحب لکھتے ہیں: ’’ایک واقعہ جو میر صاحب کی خلافت سے از حد عقیدت اور حددرجہ وابستگی کی دلیل ہے، مجھے یاد رہے گا۔ جب حضورؒ (حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ) نے ربوہ میں کثرت سے درخت لگانے کا ارشاد فرمایا اور ہم طلباء جامعہ اس غرض کے لئے گڑھےکھود رہے تھے تو آپ معائنہ کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کی کہ ہمیں گڑھے کھودنے کے لئے کسّیاں مہیا کی گئی ہیں۔ اس کے لئے تو کھرپوں کی ضرورت ہے کسّی سے اس کا کھودنا مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’حضور کا حکم ہے اس لئے تم نے یہ گڑھا بہرحال کھودنا ہے، خواہ کسی طرح کھودو، چاہے مٹی دانتوں سے کاٹو یا ناخنوں سے اسے کھودو۔‘‘

(سیرت داؤد صفحہ 172)

اب خاکسارکچھ پودوں کی تصاویر اور ان کے اگانے کا طریق بھی ذیل میں لکھ دیتا ہے۔

یورپ اور امریکہ کے علاقوں میں جہاں سردی پڑتی ہے۔ اور برفباری ہوتی ہے عموماًمئی کے وسط میں ہر قسم کی سبزی بیج دی جاتی ہے اور اس کا سیزن اکتوبر تک یا زیادہ سے زیادہ نومبر تک چلتا ہے کیوں کہ پھر سردی شروع ہو جاتی ہے اور پودا ختم ہو جاتا ہے۔

افریقہ کے ممالک اور وہ ممالک جہاں گرمی یا بہار کا موسم رہتا ہے وہاں پر سبزی کسی وقت بھی اُگائی جاسکتی ہے۔ عموما سردیوں کی سبزی اور ہوتی ہے اور گرمیوں کی اورلیکن ہو جاتی ہے۔

جہاں تک اِن کی نگہداشت کا تعلق ہے۔ توہر چیز نگہداشت چاہتی ہے۔ جب پودا زمین سے باہر نکل آئےتو اُسکی جڑ کو نرم کیا جاتا ہے۔ اور زائد جڑی بوٹیوں کو جو وہاں نکل آئی ہوتی ہیں انہیں تلف کر دینا چاہیے تاکہ پودے کی جڑ کو زیادہ پھیلنے کا موقعہ ملے۔ جب پودا بڑا ہو گا اسی حساب سے اس کو پھل لگنے کی بھی توقع ہے۔

پانی دینا بہت ضروری ہے۔ افریقہ کے ممالک میں تو جب بارشوں کا موسم رہتا ہےتو اس وقت بارشوں کے موسم کی وجہ سے پانی خود بخود کھیت کوسیراب کر دیتا ہے۔ جب بارشوں کا موسم نہ ہو تو پھر دیکھنا پڑتا ہےکہ مٹی کس قسم کی ہے۔ریتلی زمین ہے تو بےشک روزانہ پانی دے دیں کیونکہ دن میں گرمی کی شدت کے بعد پانی خشک ہو جاتا ہے اور اگر زمین ٹھیک ہےتوبہ ایکدو دن تک پودے کی جڑ کو تر رکھ سکتا ہے۔ بہرحال دیکھ لیں پتہ لگ جاتا ہےکہ کب پانی کی ضرورت ہے۔ بیج آپ حکومت کے محکمہ زرات سے حاصل کر سکتے ہیں یا پھر Amazon سے آرڈر کرسکتے ہیں۔ یا جہاں حکومت کی طرف سے اجازت ہو تو پھر پاکستان انڈیا کے ممالک سے بھی اپنی پسند کی سبزیوں کے بیج منگوائے جاسکتے ہیں۔

کچھ سبزیوں کی پنیری لوکل بھی مل جاتی ہے، اس سے فائدہ حاصل کریں۔ مثلا یہاں امریکہ میں نرسری میں انڈین کھیرے، مرچ، وغیرہ آسانی کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ پس ہر پودے کی جڑ کو نرم رکھنا، وقت پر پانی دینا، پھر وقت پر پھل اتارنا بھی ضروری ہے۔

خاکسار آخر میں مکرم برادرم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان کی تحریک پر یہ مضمون لکھا گیا۔ خاکسار نے جیسا کہ ایک جگہ مضمون میں ذکر کیا ہے کہ کئی صاحب ذوق دوستوں کو خاکسار نے اپنے سبزی کے گارڈن اور تازہ سبزیوں کی تصاویر بھیجیں تو انہوں نے اسے سراہا اور کہنے لگے کہ اس پر مضمون لکھیں بہت ممکن ہے کہ بعض مبلغین اس سے میدان عمل میں فائدہ اٹھائیں۔ اس لئے یہ مضمون خالصۃً اس مقصد کے لئے ہی لکھا گیا ہے کہ شاید کسی کے کام آجائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے، خدمت کی توفیق دے اور احسن رنگ میں کام کی توفیق ملے۔ آمین.

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مربی سلسلہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2020