مولانا عبد المالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ نے بیان کیا کہ آپ کراچی میں بطور مربی تعینات تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے ایک صاحب کو آپ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھجوایا کہ ان صاحب کو حج پربھجوانے کا انتظام کریں۔ ان دنوں حج پر جانے کے لئے بحری جہاز کے ذریعہ سفر کیا جاتاتھا ۔چنانچہ آپ متعلقہ دفتر میں حاضر ہوئے۔اپنا مدعا بیان کیا تو آپ کو بتایا گیا کہ بحری جہاز کی تمام سیٹیں بُک ہو چکی ہیں بلکہ بیس مسافر چانس پر بھی بکنگ کروا چکے ہیں۔اس لئے درخواست دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مکرم مولانا صاحب نے متعلقہ افسر سے درخواست کی کہ جیسے آپ پہلے بیس زائد درخواستیں لے چکے ہیں ایسے ہی ایک اور درخواست لے لیں۔ آپ کے اصرار پر جب آپ کے ساتھی کی حج پر جانے کی درخواست جمع ہو چکی تو آپ نے متعلقہ افسر کو بتایا کہ اس سال کوئی اور فرد حج پر جائے یا نہ جائے مگر یہ شخص ضرور حج پر جائے گا۔ کیونکہ اس کو حج پر خلیفہ ٔ وقت نے بھجوایا ہے۔ اگرآپ اس کو حج پر بھجوانے میں مدد دیں گے۔ تو خدا آپ کو بھی برکتوں سے نوازے گا۔
چنانچہ آپ مربی ہاؤس واپس آکر روانگی کے دن کا انتظار کرنے لگے۔روانگی کے دن آپ کو فون آیاکہ بحری جہاز روانہ ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے ایک مسافر اچانک بیماری کے باعث سفر نہیں کرسکتا۔ چانس پرٹکٹیں لینے والے دیگر لوگ دورہیں اس لئے آپ کے لئے موقع ہے اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ اپنے ساتھی کو بندر گاہ پر لے آئیں تو وہ حج پر جاسکتا ہے آپ تو پہلے ہی اس یقین کے ساتھ تیا ر بیٹھے تھے کہ خلیفۂ وقت کا بھجوایا ہوا شخص ضرور حج پر جائے گا۔ چنانچہ آپ نے موصوف کو فوراً بندر گاہ پہنچایا۔ جو خلیفۂ وقت کی توجہ اوردعا کی وجہ سے حج کے لئے روانہ ہو گئے۔ جو کہ بظاہر ناممکن معلوم ہوتا تھا۔
(الفضل 22مئی 2009ء)