• 19 اپریل, 2024

قرآن کریم سے محبت اور خدمت دین بجالانے والی ہمہ جہت شخصیت

محترم مولانا بشیر احمد قمر مبلغ سلسلہ

بچپن میں جبکہ ہم مبلغ سلسلہ کے لفظ سے نا آشنا تھے اور عربی زبان کے تعارف سے نابلد تھے اس وقت جماعت احمدیہ گوجرہ میں ایک مبلغ سلسلہ کی تقرری ہمارے لئے ایک خوشگوارخبرتھی۔ جبکہ جماعت احمدیہ گوجرہ اپنے وسائل سے مربی سلسلہ کی رہائش اور دیگر سہولیات کی متکفل نہ تھی۔ اس وقت ایک مربی سلسلہ کا آنا ہمارے بچپن میں ایک منفرد واقعہ تھا۔ سفید لباس، شیروانی، پگڑی زیب تن کئے، ہاتھ میں چھڑی پکڑے، باریش اور مستعد اور متناسب وجود والے مربی سلسلہ تشریف لائے۔ ان کا نام مولانا بشیر احمد قمر تھا۔ یہ شخصیت مجھ پر ایک اثر چھوڑگئی۔ مکرم بشیر احمد قمرمربی سلسلہ کی آمد سے جیسے ہماری مسجد میں بہار آ گئی۔ نماز باجماعت، اخلاص و وفا کے جذبےمیں مزید نکھار آ گیا اور احباب جماعتی نظام کے ساتھ ایک خاندان کی طرح مزید مر بوط ہو گئے۔ نمازوں کی ادائیگی، نماز جمعہ، عیدین اور دیگر تقریبات کی انجام دہی میں انہوں نے تربیت کا منفرد انداز اپنایا اور احمدیوں کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ایک حقیقی خاندان میں ڈھالنے کی کوششیں شروع کر دیں تا کہ ایک اجتماعیت سے احمد ی اپنے فرائض کو ادا کر سکیں اور معاشرہ کے فعال اور نافع الناس وجود بن سکیں۔
تربیت کا انداز انتہائی پُر اثر اور پرخلوص تھا جس سے مبلغ سلسلہ کے دل سے نکلی آواز کو خدائی فضل نے اپنا رنگ دے دیا اور احباب جماعت گوجرہ کے دلوں میں نیکی کی لہر دوڑگئی تمام بزرگوں نے آپس کی ناراضگی، غلط فہمی یا بھول کو دل سے ایسے نکال دیا جیسا اس سے قبل کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے روشناس کروانے پر ان کا احترام مزید بڑھ گیا۔ نمازوں کی ادائیگی مسجد میں پہلے ہی جاری تھی اب اس میں دوام آ گیا مسجد کی رونق بڑھنے لگی نمازیوں میں اضافہ ہوگیا۔ نماز فجر کے بعد ترجمۃ القرآن کلاس کا ایک عجیب سماں ہوتا تھا۔ خاکساربھی اس میں حصہ لیتا تھا۔ آپ کو قرآن کریم سے بے حد محبت تھی۔ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے۔ آپ کا طرزتدریس انتہائی عالمانہ ہوتا تھا سیکھنے والے آپ کے طرز تدریس سے بہت خوش اور مطمئن ہوتے تھے۔ شاید اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ کی نظر شفقت ان پر بطور ناظرتعلیم القرآن اور وقف عارضی پڑی اور آپ کی خدمت کوقبول کرتے ہوئے ان کے جان سے عزیز شعبہ میں ان کا تقرر ہوگیا۔ نماز عشاء کے بعد درس حدیث بھی مجھے یاد ہے۔ آپ ایک علمی شخصیت کے ساتھ ساتھ فکروتدبر اور تحقیق و مطالعہ کی عادت رکھنے والے بزرگ تھے۔ نماز مغرب کے بعد درس ملفوظات بھی ان کا جاری کیا ہوا تھا۔ بچوں کی تربیت کے لئے ان کو نمازوں کی طرف رغبت دلائی نیز ترجمہ القرآن کی تلقین کی۔ آپ کے تربیت یافتہ بچے اندرون و بیرون ملک مختلف شعبہ جات میں خدمت دین میں مصروف اور ان کے لئے دعا گو ہیں۔
آپ کی طبیعت میں عاجزی، انکساری اور خاکساری کے ساتھ دھیما پن اوربے تکلفی بھی تھی۔ تبلیغ کے منفردطریق کی وجہ سے زیرتبلیغ افراد کی اکثریت ان کی مداح بن گئی اور جماعت احمدیہ کے عقائد کوسمجھ لیا تھا۔ اس زمانہ میں اتنی سہولتیں رسل ورسائل اور رابطے کی نہ تھیں اس لئے ربوہ سے واپسی پر احباب جماعت کی آگاہی کے لئے خلیفۃ المسیح کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ ضرور لاتے اور احباب کو سناتے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا نام انتہائی احترام اخلاص اور ادب سے لیتے۔ خلافت احمدیہ سے وارفتگی کا تعلق ان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ مرکز سلسلہ سے رابطہ اور خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق خطوط اور ملاقات کی طرف منفردطریق پرتوجہ دلاتے کہ خلافت سے وابستگی میں ہی ہماری فلاح ہے۔
واقف زندگی کی خدمت کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہوتا۔آپ نے پاکستان میں مختلف علاقوں کے علاوہ بیرون پاکستان بھی خدمت کی توفیق پائی۔اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1999ء میں ان کو ناظرتعلیم القرآن ووقف عارضی مقرر فرمایا۔ آپ سے جب بھی ملاقات ہوتی تمام حالات سے آگاہی حاصل کرتے اور سب کو یاد کرتے دعائیں دیتے۔ اسی دوران خاکسار کو بطور سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی ضلع شیخوپورہ کی خدمت کی توفیق ملی پھر ان کے زیرسایہ خدمت کے مواقع میسر آئے۔ ان کا تربیت اور احباب جماعت کو پیغام دینے کا طریق سادہ اور عام فہم ہوتا تھا۔ اس تربیتی طریقہ سے خوردو کلاں تمام امور سے آگاہی حاصل کرنے میں آسانی محسوس کرتے تھے۔ آپ کو قرآن حکیم سے بے انتہا محبت تھی قرآنی تعلیم کو عام کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے۔ تعلیم القرآن کلاس کو مؤثر رنگ میں احباب جماعت کی تربیت کے لئے استعمال کیا اور اس کے ذریعے سینکڑوں اساتذہ تیار کئے۔ اپنے پیچھے اساتذہ اور شاگردوں کی شکل میں ایسا قافلہ چھوڑ گئے ہیں جو انسانیت کوقرآن حکیم کے فیضان سے سیراب کرتا رہے گا ان شاء الله تعالیٰ۔ نظارت تعلیم القرآن وقف عارضی کو حسن عمل اور خوش اسلوبی سے ایسا فعال بنایا کہ اس کے واضح ثمرات احباب جماعت کے لئے باعث برکت ہیں۔ اپنے ذاتی نمونہ، تقاریب اور تحریروتقریر سے قرآنی تعلیم کو پھیلانے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔روزنامہ الفضل میں ان کے شائع ہونے والے ڈھیروں مضامین اس بات کے گواہ ہیں۔
خدمت انسانیت ایک ایسی نیکی ہے جس کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی کے محبوب اور پیاری مخلوق خدا کے لئے ایک رحمت ہوتے ہیں۔ کسی کی دل آزاری ان کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ ہمدردی اورغمگساری ان کے من میں رچی بسی ہوتی ہے ۔ انسانی ہمدری میں بھی آپ کا کر دار احباب جماعت کے ساتھ ساتھ غیراز جماعت کے لئے بھی ایک نمونہ ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے قیام گوجرہ کے دوران کئی سفید پوش گھرانوں کے بچوں کو طفولیت سے لے کر برسر روزگار ہونے تک اپنی نگرانی میں رکھا اور ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کی چنداں کوشش کی۔
ترجمۃ القرآن سے محبت، قرآنی تعلیم سے عشق اور تفسیر میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ قرآنی تعلیم کو اپنی حرز جان بنانے اور ترجمۃالقرآن سیکھنے کے لئے ہر وقت احباب جماعت کو تلقین کرتے۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ خود بھی کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ عائلی معاملات میں بھی ایک نمونہ تھے۔ خَیۡرُکُم خَیۡرُکُم لِاَھۡلِہٖ کی عملی تصویر تھے۔ بچوں کی احسن رنگ میں تربیت کی۔ ان کی اہلیہ نے بھی ان کے ساتھ بھرپور ساتھ دیا۔ اسلامی روایتوں کے امین ہوتے ہوئے ہر وقت تلقین و عمل کا سلسلہ جاری رکھا۔ رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات مثالی تھے۔ باریک بینی سے تمام امور کا جائزہ لے کر عمل اور نصیحت کرتے۔
وقف زندگی ایک انتہائی مشکل اور کٹھن راہ ہے جس پر چلنا استقامت اور دوام کے ساتھ قربانی مانگتا ہے نظام سلسلہ کے تمام امور میں اطاعت سے سرشار ہو کر ان تمام مراحل کو طے کرکے اور تا دم واپسیں اس بات پر قائم رہنا ایک خدائی فضل کے ساتھ ذاتی ضبط کی اہم مثال ہے۔ آپ اس بارہ میں اپنی مثال آپ تھے اور تمام امور میں اپنے نمونہ کو اس رنگ میں پیش کرتے کہ واقف زندگی کا وقار اور مقام متاثر نہ ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی دی گئی ہدایات کو احباب جماعت پر واضح کرنا اور اس عمل کی نگرانی کرنا اور اس کے باثمر نتیجہ حاصل ہونے تک کوشش جاری رکھنا واقف زندگی کا بنیادی وصف ہوتا ہے جس کو مربی صاحب نے کماحقہ تمام
زندگی بھر پور طور اپنے کردارو اخلاص سے لوگوں کو راہ مستقیم دکھائی۔آپ نے چار خلفاء سلسلہ کی سرپرستی میں کام کیا اور ان کی دعاؤں سے بھرپور حصہ لیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ مربیان و مخلصین میں آپ کی تدفین ہوئی۔ حضور انور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10۔اکتوبر 2008ء میں ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
“ہمارے مولانا بشیر احمدصاحب قمرجو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے۔ ان کی کل 9۔اکتوبر کو وفات ہوئی ہے، آپ کی عمر 74سال تھی اور آخروقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی، کچھ عرصہ پہلے یا چند دن پہلے ان کو انفیکشن ہوا۔ اس کے بعد نمونیہ ہو گیا تھا جو وفات کی وجہ بنا۔ آپ نے 1950ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی۔ 1958ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اور پھر پاکستان میں، غانا میں، فجی میں خدمت کی توفیق پائی۔آپ کو 1999ء میں ناظر تعلیم القرآن مقرر کیا گیا تھا۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے، بہت سادہ مزاج تھے، افریقہ میں میرے ساتھ بھی رہے ہیں، مَیں نے دیکھا کہ افریقن لوگوں کے ساتھ بڑا پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ بڑے انتھک محنتی اور اکیلے رہے اور کوئی شکوہ نہیں اور خود ہی کھانا پکا بھی لیتے تھے، مختصر سی خوراک ، بڑے دعا گو، نیک اور متقی انسان تھے۔ وفات سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھے اپنی صحت کے بارہ میں مختصر خط لکھا بڑے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں اور ساتھ لکھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک، مددگار اورتعاون کرنے والے لوگ ہمیشہ مہیا فرماتا رہے۔ بڑا درد تھا، بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور بے نفس ہو کر خدمت کرنے والے انسان تھے”

بچپن میں جبکہ ہم مبلغ سلسلہ کے لفظ سے نا آشنا تھے اور عربی زبان کے تعارف سے نابلد تھے اس وقت جماعت احمدیہ گوجرہ میں ایک مبلغ سلسلہ کی تقرری ہمارے لئے ایک خوشگوارخبرتھی۔ جبکہ جماعت احمدیہ گوجرہ اپنے وسائل سے مربی سلسلہ کی رہائش اور دیگر سہولیات کی متکفل نہ تھی۔ اس وقت ایک مربی سلسلہ کا آنا ہمارے بچپن میں ایک منفرد واقعہ تھا۔ سفید لباس، شیروانی، پگڑی زیب تن کئے، ہاتھ میں چھڑی پکڑے، باریش اور مستعد اور متناسب وجود والے مربی سلسلہ تشریف لائے۔ ان کا نام مولانا بشیر احمد قمر تھا۔ یہ شخصیت مجھ پر ایک اثر چھوڑگئی۔ مکرم بشیر احمد قمرمربی سلسلہ کی آمد سے جیسے ہماری مسجد میں بہار آ گئی۔ نماز باجماعت، اخلاص و وفا کے جذبےمیں مزید نکھار آ گیا اور احباب جماعتی نظام کے ساتھ ایک خاندان کی طرح مزید مر بوط ہو گئے۔ نمازوں کی ادائیگی، نماز جمعہ، عیدین اور دیگر تقریبات کی انجام دہی میں انہوں نے تربیت کا منفرد انداز اپنایا اور احمدیوں کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ایک حقیقی خاندان میں ڈھالنے کی کوششیں شروع کر دیں تا کہ ایک اجتماعیت سے احمد ی اپنے فرائض کو ادا کر سکیں اور معاشرہ کے فعال اور نافع الناس وجود بن سکیں۔
تربیت کا انداز انتہائی پُر اثر اور پرخلوص تھا جس سے مبلغ سلسلہ کے دل سے نکلی آواز کو خدائی فضل نے اپنا رنگ دے دیا اور احباب جماعت گوجرہ کے دلوں میں نیکی کی لہر دوڑگئی تمام بزرگوں نے آپس کی ناراضگی، غلط فہمی یا بھول کو دل سے ایسے نکال دیا جیسا اس سے قبل کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے روشناس کروانے پر ان کا احترام مزید بڑھ گیا۔ نمازوں کی ادائیگی مسجد میں پہلے ہی جاری تھی اب اس میں دوام آ گیا مسجد کی رونق بڑھنے لگی نمازیوں میں اضافہ ہوگیا۔ نماز فجر کے بعد ترجمۃ القرآن کلاس کا ایک عجیب سماں ہوتا تھا۔ خاکساربھی اس میں حصہ لیتا تھا۔ آپ کو قرآن کریم سے بے حد محبت تھی۔ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے۔ آپ کا طرزتدریس انتہائی عالمانہ ہوتا تھا سیکھنے والے آپ کے طرز تدریس سے بہت خوش اور مطمئن ہوتے تھے۔ شاید اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ کی نظر شفقت ان پر بطور ناظرتعلیم القرآن اور وقف عارضی پڑی اور آپ کی خدمت کوقبول کرتے ہوئے ان کے جان سے عزیز شعبہ میں ان کا تقرر ہوگیا۔ نماز عشاء کے بعد درس حدیث بھی مجھے یاد ہے۔ آپ ایک علمی شخصیت کے ساتھ ساتھ فکروتدبر اور تحقیق و مطالعہ کی عادت رکھنے والے بزرگ تھے۔ نماز مغرب کے بعد درس ملفوظات بھی ان کا جاری کیا ہوا تھا۔ بچوں کی تربیت کے لئے ان کو نمازوں کی طرف رغبت دلائی نیز ترجمہ القرآن کی تلقین کی۔ آپ کے تربیت یافتہ بچے اندرون و بیرون ملک مختلف شعبہ جات میں خدمت دین میں مصروف اور ان کے لئے دعا گو ہیں۔
آپ کی طبیعت میں عاجزی، انکساری اور خاکساری کے ساتھ دھیما پن اوربے تکلفی بھی تھی۔ تبلیغ کے منفردطریق کی وجہ سے زیرتبلیغ افراد کی اکثریت ان کی مداح بن گئی اور جماعت احمدیہ کے عقائد کوسمجھ لیا تھا۔ اس زمانہ میں اتنی سہولتیں رسل ورسائل اور رابطے کی نہ تھیں اس لئے ربوہ سے واپسی پر احباب جماعت کی آگاہی کے لئے خلیفۃ المسیح کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ ضرور لاتے اور احباب کو سناتے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا نام انتہائی احترام اخلاص اور ادب سے لیتے۔ خلافت احمدیہ سے وارفتگی کا تعلق ان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ مرکز سلسلہ سے رابطہ اور خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق خطوط اور ملاقات کی طرف منفردطریق پرتوجہ دلاتے کہ خلافت سے وابستگی میں ہی ہماری فلاح ہے۔
واقف زندگی کی خدمت کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہوتا۔آپ نے پاکستان میں مختلف علاقوں کے علاوہ بیرون پاکستان بھی خدمت کی توفیق پائی۔اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1999ء میں ان کو ناظرتعلیم القرآن ووقف عارضی مقرر فرمایا۔ آپ سے جب بھی ملاقات ہوتی تمام حالات سے آگاہی حاصل کرتے اور سب کو یاد کرتے دعائیں دیتے۔ اسی دوران خاکسار کو بطور سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی ضلع شیخوپورہ کی خدمت کی توفیق ملی پھر ان کے زیرسایہ خدمت کے مواقع میسر آئے۔ ان کا تربیت اور احباب جماعت کو پیغام دینے کا طریق سادہ اور عام فہم ہوتا تھا۔ اس تربیتی طریقہ سے خوردو کلاں تمام امور سے آگاہی حاصل کرنے میں آسانی محسوس کرتے تھے۔ آپ کو قرآن حکیم سے بے انتہا محبت تھی قرآنی تعلیم کو عام کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے۔ تعلیم القرآن کلاس کو مؤثر رنگ میں احباب جماعت کی تربیت کے لئے استعمال کیا اور اس کے ذریعے سینکڑوں اساتذہ تیار کئے۔ اپنے پیچھے اساتذہ اور شاگردوں کی شکل میں ایسا قافلہ چھوڑ گئے ہیں جو انسانیت کوقرآن حکیم کے فیضان سے سیراب کرتا رہے گا ان شاء الله تعالیٰ۔ نظارت تعلیم القرآن وقف عارضی کو حسن عمل اور خوش اسلوبی سے ایسا فعال بنایا کہ اس کے واضح ثمرات احباب جماعت کے لئے باعث برکت ہیں۔ اپنے ذاتی نمونہ، تقاریب اور تحریروتقریر سے قرآنی تعلیم کو پھیلانے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔روزنامہ الفضل میں ان کے شائع ہونے والے ڈھیروں مضامین اس بات کے گواہ ہیں۔
خدمت انسانیت ایک ایسی نیکی ہے جس کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی کے محبوب اور پیاری مخلوق خدا کے لئے ایک رحمت ہوتے ہیں۔ کسی کی دل آزاری ان کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ ہمدردی اورغمگساری ان کے من میں رچی بسی ہوتی ہے ۔ انسانی ہمدری میں بھی آپ کا کر دار احباب جماعت کے ساتھ ساتھ غیراز جماعت کے لئے بھی ایک نمونہ ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے قیام گوجرہ کے دوران کئی سفید پوش گھرانوں کے بچوں کو طفولیت سے لے کر برسر روزگار ہونے تک اپنی نگرانی میں رکھا اور ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کی چنداں کوشش کی۔
ترجمۃ القرآن سے محبت، قرآنی تعلیم سے عشق اور تفسیر میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ قرآنی تعلیم کو اپنی حرز جان بنانے اور ترجمۃالقرآن سیکھنے کے لئے ہر وقت احباب جماعت کو تلقین کرتے۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ خود بھی کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ عائلی معاملات میں بھی ایک نمونہ تھے۔ خَیۡرُکُم خَیۡرُکُم لِاَھۡلِہٖ کی عملی تصویر تھے۔ بچوں کی احسن رنگ میں تربیت کی۔ ان کی اہلیہ نے بھی ان کے ساتھ بھرپور ساتھ دیا۔ اسلامی روایتوں کے امین ہوتے ہوئے ہر وقت تلقین و عمل کا سلسلہ جاری رکھا۔ رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات مثالی تھے۔ باریک بینی سے تمام امور کا جائزہ لے کر عمل اور نصیحت کرتے۔
وقف زندگی ایک انتہائی مشکل اور کٹھن راہ ہے جس پر چلنا استقامت اور دوام کے ساتھ قربانی مانگتا ہے نظام سلسلہ کے تمام امور میں اطاعت سے سرشار ہو کر ان تمام مراحل کو طے کرکے اور تا دم واپسیں اس بات پر قائم رہنا ایک خدائی فضل کے ساتھ ذاتی ضبط کی اہم مثال ہے۔ آپ اس بارہ میں اپنی مثال آپ تھے اور تمام امور میں اپنے نمونہ کو اس رنگ میں پیش کرتے کہ واقف زندگی کا وقار اور مقام متاثر نہ ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی دی گئی ہدایات کو احباب جماعت پر واضح کرنا اور اس عمل کی نگرانی کرنا اور اس کے باثمر نتیجہ حاصل ہونے تک کوشش جاری رکھنا واقف زندگی کا بنیادی وصف ہوتا ہے جس کو مربی صاحب نے کماحقہ تمام
زندگی بھر پور طور اپنے کردارو اخلاص سے لوگوں کو راہ مستقیم دکھائی۔آپ نے چار خلفاء سلسلہ کی سرپرستی میں کام کیا اور ان کی دعاؤں سے بھرپور حصہ لیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ مربیان و مخلصین میں آپ کی تدفین ہوئی۔ حضور انور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10۔اکتوبر 2008ء میں ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ہمارے مولانا بشیر احمدصاحب قمرجو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے۔ ان کی کل 9۔اکتوبر کو وفات ہوئی ہے، آپ کی عمر 74سال تھی اور آخروقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی، کچھ عرصہ پہلے یا چند دن پہلے ان کو انفیکشن ہوا۔ اس کے بعد نمونیہ ہو گیا تھا جو وفات کی وجہ بنا۔ آپ نے 1950ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی۔ 1958ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اور پھر پاکستان میں، غانا میں، فجی میں خدمت کی توفیق پائی۔آپ کو 1999ء میں ناظر تعلیم القرآن مقرر کیا گیا تھا۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے، بہت سادہ مزاج تھے، افریقہ میں میرے ساتھ بھی رہے ہیں، مَیں نے دیکھا کہ افریقن لوگوں کے ساتھ بڑا پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ بڑے انتھک محنتی اور اکیلے رہے اور کوئی شکوہ نہیں اور خود ہی کھانا پکا بھی لیتے تھے، مختصر سی خوراک ، بڑے دعا گو، نیک اور متقی انسان تھے۔ وفات سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھے اپنی صحت کے بارہ میں مختصر خط لکھا بڑے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں اور ساتھ لکھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک، مددگار اورتعاون کرنے والے لوگ ہمیشہ مہیا فرماتا رہے۔ بڑا درد تھا، بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور بے نفس ہو کر خدمت کرنے والے انسان تھے‘‘

(روزنامہ الفضل 2دسمبر2008ء)

الله تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے ان کے لواحقین کا حامی و ناصر ہو اور ان کے اوصاف حمیدہ کو اپنی اگلی نسل میں جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(عبدالباسط بٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلان

اگلا پڑھیں

آپ کا اپنا اخبار