• 25 اپریل, 2024

قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے صبر کے معانی اور اس کی کیا کیا صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے یہاں میں مختصراً کچھ عرض کر دیتاہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صبر کے معنی کیا ہیں، الصَّبْرُ، صبر کے اصل معنی تو رکنے کے ہیں۔ مگر اس لفظ کے استعمال کے لحاظ سے اس کے مختلف معانی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنی تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰی لِغَیْرِاللّٰہِ یعنی جب کوئی مصیبت اور ابتلاء وغیرہ انسان کو پہنچے اور اس سے تکلیف ہو تو خداتعالیٰ کے سوا دوسروں کے پاس اس کی شکایت نہ کرنا صبر کہلاتا ہے، ہاں اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور اپنی بے کسی کی شکایت کرتا ہے تو یہ صبر کے منافی نہیں چنانچہ لغت کی کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے

اِذَا دَعَااللّٰہَ الْعَبْدُ فِی کَشْفِ الضُّرِّعَنْہُ لَایُقْدَحُ فِی صَبْرِہٖ جب بندہ خداتعالیٰ سے اپنی مصیبت کے دور کرنے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بے صبری دکھائی ہے۔ چونکہ صبر کے اصل معنی رکنے کے ہوتے ہیں اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عَلٰی مَا تَھْوِیْ وَ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَکْرَہُ یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آ جائے اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔

قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔ پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاصْبِرْ عَلٰی مَآاَصَابَکَ (لقمان:۱۸) تجھے جو بھی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر سے کام لے یعنی جزع فزع نہ کر۔ دوسرے یہ ہے کہ نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا۔ ان معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا (الدھر:۲۵) اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہگار اور ناشکرگزار کی اطاعت نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر احکام قرب الٰہی کے حصول کے لئے دئیے گئے ہیں ان پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اور تیسرے معنے اس کے بدی سے رکے رہنے کے ہیں یعنی برائی سے رکے رہنے کے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کہ وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے لئے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کر لیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۲۸۴)

یہ جو تیسری مثال دی گئی ہے آیت کی اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ لوگ آنحضرتﷺ کو گھر سے بلانے کے لئے اونچی آواز سے گھر سے باہر کھڑے ہو کر بلاتے تھے تو اس پر یہ فرمایاکہ جب ان کے پاس وقت ہو گا کوئی ایسی ایمرجنسی نہیں ہے باہر آ جائیں گے، تم بلاوجہ نبی کا وقت ضائع نہ کیا کرو۔ یہ بے ادبی کی بات ہے کہ باہر کھڑے ہو کے آوازیں دینا اور انتہائی نامناسب ہے موقع محل کے لحاظ سے بات کرنا بھی صبر میں شمار ہوتا ہے اور بے موقع اور بے محل بات کرنا بے صبری ہے اور گناہ ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021