• 19 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 25؍ دسمبر 2020ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ دسمبر 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے؟
آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جنگِ جمل، جنگِ صفین اور جنگ نہروان میں پیش آمدہ حالات و واقعات کا بیان

پاکستان میں رہنے والے احمدی خاص طور پر نوافل اور دعاؤں پر زور دیں۔ ان دعاؤں میں رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ بہت پڑھیں۔ استغفار اور درود کی طرف بھی توجہ دیں۔ نوافل بھی ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی دے اور جلد وہاں کے حالات بھی درست فرمائے۔ آمین

پانچ مرحومین مکرمہ حمُدیٰ عباس صاحبہ اہلیہ مکرم عباس بن عبدالقادر صاحب خیرپور سندھ،مکرم رضوان سید نعیمی صاحب عراق،
مکرم ملک علی محمد صاحب آف ہجکہ ضلع سرگودھا ،مکرم احسان احمد صاحب لاہور اور مکرم ریاض الدین شمس صاحب کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

الجزائر کی دو عدالتوں میں جھوٹے الزام میں ملوّث بہت سارے احمدیوں کی براءت

پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو نوافل پڑھنے اور دعائیں کرنے کی تحریک

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُِؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور باغیوں کا ذکرہوا تھا اور اس بارے میں حضرت علی ؓکی کیا کوششیں تھیں یا اب جو آگے حضرت علیؓ کے واقعات آئیں گے، اس بارے میں ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’چونکہ تم لوگ بھی صحابہؓ کے مشابہ ہو اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تاریخ سے بیان کروں کہ کس طرح مسلمان تباہ ہوئے اور کون سے اسباب ان کی ہلاکت کا باعث بنے۔ پس تم ہوشیار ہو جاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئیں ان کے لیے تعلیم کا بندوبست کرو۔‘‘ یعنی تربیت صحیح ہونی چاہیے۔ ان کی دینی تعلیم ہونی چاہیے۔ ’’حضرت عثمانؓ کے وقت جو فتنہ اٹھا تھا وہ صحابہؓ سے نہیں اٹھا تھا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابہؓ نے اٹھایا تھا ان کو دھوکا لگا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ کے مقابلے میں بہت سے صحابہؓ تھے اور معاویہ کے مقابلہ میں بھی لیکن میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے بانی صحابہؓ نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو بعد میں آئے اور جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہ ہوئی اور آپؐ کے پاس نہ بیٹھے۔ پس میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے‘‘ اس وقت آپؓ قادیان میں تھے کہ کثرت سے ’’قادیان آؤ اور بار بار آؤ تا کہ تمہارے ایمان تازہ رہیں اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے۔‘‘

(انوار خلافت ، انوار العلوم جلد 3صفحہ 171)

یعنی تمہارا مرکز سے تعلق بھی رہے اور خلافت سے تعلق بھی رہے۔ یہ رہے گا تو صحیح تربیت بھی رہے گی۔ آج کل اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی صورت مہیا فرمائی ہے۔ خطبات ساری دنیا میں سنے جاتے ہیں، دکھائے جاتے ہیں، سنائے جاتے ہیں۔ اور پروگرام دکھائے جاتے ہیں اور سنائے جاتے ہیں۔ اس لیے تربیت کے لیے بہت ضروری ہے کہ علاوہ اس کے کہ خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ ایم ٹی اے کے ساتھ بھی تعلق رکھیں اور خاص طور پر جمعے کے خطبات ضرور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سنا کریں تاکہ خلافت سے تعلق قائم رہے اور بہتر ہوتا رہے اور بڑھتا رہے۔

جنگ ِجمل کے واقعہ کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ جنگِ جمل حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان 36؍ ہجری میں ہوئی تھی۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے۔ حضرت عائشہؓ میدانِ جنگ میں ایک اونٹ پر سوار تھیں اسی وجہ سے اس جنگ کا نام جنگ جمل مشہور ہے۔ حضرت عائشہؓ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکّہ گئی ہوئی تھیں۔ وہ وہیں قیام پذیر تھیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ملی۔ جب عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئیں تو راستے میں مقام سَرف پر عُبَید بن ابو سلمہ نے اطلاع دی کہ حضرت عثمان ؓکو شہید کر دیا گیا ہے اور حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں ہنگامہ برپا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ راستے ہی سے مکّہ واپس ہو گئیں اور لوگوں کو حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے اور فتنے کے خاتمہ کے لیے اکٹھا کیا۔ حضرت عائشہ ؓحضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کی سرکردگی میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور یہ قافلہ وہاں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ حضرت علیؓ نے بھی یہ دیکھ کر بصرہ کا رخ کیاکہ یہ قافلہ ادھر جا رہا ہے۔ بصرہ پہنچ کر حضرت عائشہؓ نے اہل شہر کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی۔ اہل شہر کی ایک بڑی تعداد حضرت عائشہؓ کے ساتھ شامل ہو گئی لیکن ایک جماعت نے حضرت علیؓ کے مقرر کردہ بصرہ کے عامل عثمان بن حُنیف کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس دوران دونوں جماعتوں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کے لشکر کے قریب پڑاؤ کیا۔ حضرت علیؓ کا یہ لشکر بھی پہنچ گیا اور انہوں نے قریب پڑاؤ کیا۔ دونوں طرف سے مصالحت کی طَرح ڈالی گئی، کوشش کی گئی اور مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے مگر عین رات کے وقت وہ گروہ جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھا اور اس کا ایک حصہ حضرت علی ؓکے لشکر میں بھی شامل تھا۔ اس نے حضرت عائشہؓ کے لشکر پر حملہ کر دیا جس سے جنگ کا آغاز ہو گیا۔ حضرت عائشہ ؓاونٹ پر سوار تھیں۔ جاںنثار یکے بعد دیگرے اونٹ کی مہار پکڑتے اور شہید ہوتے جاتے تھے۔ حضرت علیؓ نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت عائشہؓ جب تک اونٹ پر سوار رہیں گی جنگ ختم نہیں ہو گی۔ اس لیے آپؓ نے جنگجوؤں کو حکم دیا کہ اس اونٹ کو کسی نہ کسی طرح مار گراؤ کیونکہ جنگ کا خاتمہ اس کے گرنے پر منحصر ہے۔ اس پر ایک شخص نے آگے بڑھ کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور وہ بلبلا کر بیٹھ گیا۔ حضرت علی ؓکی فوج نے اونٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ حضرت عائشہ ؓکا اونٹ گر جانے پر اہلِ جمل منتشر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے اعلان کرا دیا کہ ہتھیار ڈالنے یا گھر کا دروازہ بند کرنے والا امن و امان میں ہے۔ کسی کا تعاقب نہ کیا جائے۔ کسی کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر دست درازی نہ کی جائے۔ حضرت علیؓ کی فوج نے اس حکم کی تعمیل کی۔ حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت طلحہؓ اسی جنگ میں شہید ہوئے۔

(ماخوذ از الكامل فی التاريخ از ابن الاثير جلد 3 صفحہ 99 تا 149 دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2003ء)

اس کا ایک حصّہ ابن اثیر کی تاریخ سے خلاصہ لیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھے حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہؓ کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے لشکر میں جنگ ہوئی۔‘‘ یعنی حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ تو حضرت عائشہؓ کے لشکر میں تھے۔ حضرت علیؓ کا اور حضرت عائشہؓ کا جو مین (main) لشکر تھا ان کی جنگ ہوئی۔ ’’جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیرؓ ، حضرت علیؓ کی زبان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی۔ دوسری طرف حضرت طلحہؓ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کر لیا۔‘‘ پہلے بھی گذشتہ خطبے میں اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ ’’کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو؟ اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے۔ اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علیؓ کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علیؓ کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں۔ غرض باقی صحابہؓ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہؓ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صِفِّیْنہوئی۔‘‘

(خلافتِ راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ 485-486)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقع مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپ کے ارد گرد حضرت عثمانؓ کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے اس لیے ان کو الزام لگانے کا عمدہ موقع حاصل تھا۔ چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی اس نے حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہؓ کو اپنی مدد کے لیے طلب کیا۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے۔ انہوں نے جلدی کے جو معنیٰ سمجھے تھے وہ حضرت علیؓ کے نزدیک خلاف مصلحت تھے۔ ان کا خیال تھا‘‘ حضرت علی ؓکا خیال تھا ’’کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے کیونکہ اول مقدم اسلام کی حفاظت ہے۔ قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی ہرج نہیں۔ اسی طرح قاتلوں کے تعین میں بھی اختلاف تھا۔ جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علیؓ کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علیؓ کو بالطبع شبہ نہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں، دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے‘‘ حضرت علیؓ کو ان پر شبہ نہیں تھا لیکن باقی کچھ لوگوں کو شبہ تھا۔ ’’اس اختلاف کی وجہ سے طلحہؓ اور زبیرؓ نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علیؓ نے پوری نہ کی تھی اس لیے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہؓ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جا ملے اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے۔ بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہؓ اور زبیرؓ نے صرف اکراہ سے‘‘ مجبوری سے ’’اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علیؓ کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب حضرت علیؓ کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کی طرف بھیجا ۔ وہ آدمی پہلے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے۔ اس کے بعد اس شخص نے طلحہؓ اور زبیرؓ کو بھی بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لیے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہاں۔‘‘ یعنی کہ اصلاح کی وجہ سے۔ ’’اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ تو فساد ہے۔ اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور ان کا مقابلہ کریں گے تو اَور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔‘‘ پس یہ تو سلسلہ چلتا جائے گا۔ ’’پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اَور فتنہ ڈلوانا ہے۔ حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی۔‘‘ پہلے حکومت قائم ہو جائے پھر وہ سزا دے گی۔ ’’یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علیؓ کا یہی عندیہ ہے تو وہ آ جائیں، ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں۔ اس پر اس شخص نے حضرت علیؓ کو اطلاع دی اور طرفین کے قائمقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں، صلح ہونی چاہئے۔ جب یہ خبر سبائیوں کو (یعنی جو عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمانؓ تھے) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لیے اکٹھی ہوئی۔ انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہوجانی ہمارے لیے سخت مضر ہو گی کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمانؓ کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے۔ اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہیں۔‘‘ کہیں بھی ہمارا ٹھکانہ نہیں ہو گا۔ ’’اس لیے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی پہنچ گئے اور آپؓ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپ کی‘‘ یعنی اس علاقے میں اور آپ کی ’’اور حضرت زبیرؓ کی ملاقات ہوئی۔ وقت ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی۔ کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا۔ اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی۔ جب کوئی نئی بات پیدا ہی نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے؟ اس پر حضرت طلحہؓ نے کہا، وہ بھی حضرت زبیرؓ کے ساتھ تھے کہ آپ نے حضرت عثمانؓ کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں۔ پھر حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم! تُو علیؓ سے جنگ کرے گا اور تُو ظالم ہو گا‘‘ یعنی حضرت زبیر ؓکو فرمایا تھا۔ ’’یہ سن کر حضرت زبیرؓ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قَسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی۔ جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہو گی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی‘‘ جنہوں نے فساد پیدا کرنا تھا قدرتی بات ہے انہیں گھبراہٹ ہونی تھی۔ ان کو گھبراہٹ ہونے لگی ’’اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا اور جو ان کے لشکر میں تھے۔‘‘ انہوں نے جو دوسرے لشکر میں تھے ’’انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شب خون مار دیا۔‘‘ دونوں طرف جو منافق تھے، بٹ کر شامل ہوئے تھے ناں،حضرت عائشہؓ کی طرف بھی اور حضرت علی ؓکی طرف بھی۔ دونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کر دیا۔ خود آپس میں نہیں لڑے ’’جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا۔ جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علیؓ نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہؓ کو اطلاع دے۔ شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے۔ چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا۔ مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی۔ حضرت عائشہؓ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کیے۔ حضرت عائشہؓ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے۔ چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہؓ کے ارد گرد جمع ہوا تھا ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور اُمّ المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے‘‘ مخالف لشکر پر حملہ آور ہو گئے۔ ’’اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا۔ صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی۔ حضرت زبیرؓ تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جا کر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا۔ حضرت طلحہؓ عین میدان جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہو گی جب تک حضرت عائشہؓ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے۔ بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دئیے اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علیؓ کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا۔ جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہؓ کی نعش ملی تو حضرت علیؓ نے سخت افسوس کیا۔ ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہؓ کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلان عثمانؓ کی ہی تھی اور یہ کہ طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت علیؓ کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علیؓ کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی۔‘‘

(انوار خلافت ،انوا رالعلوم جلد 3صفحہ 198تا 201)

جنگ جمل کے اختتام پر حضرت علیؓ نے حضرت عائشہ ؓکے لیے تمام سواری اور زادِ راہ تیار کیا اور حضرت عائشہ ؓکو چھوڑنے کے لیے خود تشریف لائے اور حضرت عائشہؓ کے ہمراہ جو لوگ جانا چاہتے تھے ان کو روانہ کیا۔ جس دن حضرت عائشہؓ نے روانہ ہونا تھا حضرت علیؓ حضرت عائشہ ؓکے پاس تشریف لائے اور آپ کے لیے کھڑے ہوئے اور تمام لوگوں کی موجودگی میں حضرت عائشہؓ لوگوں کے سامنے نکلیں اور کہا کہ اے میرے بیٹو! ہم نے تکلیف پہنچا کر اور زیادتی کر کے ایک دوسرے کو ناراض کر دیا۔ آئندہ ہمارے ان اختلافات کے باعث کوئی شخص بھی ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور خدا کی قسم! میرے اور حضرت علیؓ کے درمیان شروع سے کبھی کوئی اختلاف نہ تھا سوائے اس کے جو مرد اور اس کے سسرالی رشتہ داروں کے درمیان عام طور پر بات ہوا کرتی ہے۔ یعنی چھوٹی موٹی باتیں ہیں اور حضرت علیؓ میری نیکیوں کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: اے لوگو !حضرت عائشہ ؓنے اچھی اور سچی بات کہی ہے۔ میرے اور حضرت عائشہؓ کے درمیان محض یہی اختلاف تھا۔ حضرت عائشہؓ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ حضرت علیؓ حضرت عائشہؓ کو چھوڑنے کے لیے کئی میل ساتھ تشریف لے گئے اور حضرت علیؓ نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت عائشہؓ کے ہمراہ جائیں اور ایک دن کے بعد واپس آ جائیں۔

(تاریخ الطبری جلد3 صفحہ60-61 باب تجھیز علی علیہ السلام عائشة من البصرةدارالکتب العلمیة بیروت 1987ء)

یہ طبری کا حوالہ تھا جو میں نے ابھی پڑھا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت طلحہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈرحضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے۔ آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہئے تا کہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو۔ بعد میں ہم اِن لوگوں سے بدلہ لے لیں گے۔ اِس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے الزام لگایا کہ علیؓ ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے اور حضرت علیؓ نے الزام لگایا کہ‘‘ (جو یہ کہتے ہیں کہ فوری بدلہ لیا جائے۔) ’’اِن لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں۔ اسلام کا فائدہ ان کے مدّنظر نہیں ہے۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔ آپ اونٹ پر چڑھ کر لوگوں کو لڑواتی تھیں اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اِس لڑائی میں شامل تھے۔ جب دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ طلحہؓ! تمہیں یاد ہے فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ طلحہؓ! ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اَور لشکر میں ہوگے اور علیؓ اَور لشکر میں ہوگا اور علیؓ حق پر ہوگا اور تم غلطی پر ہو گے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سنا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں! مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے۔ جب وہ لڑائی چھوڑ کر جار ہے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اِس خیال سے‘‘ یعنی جو حضرت طلحہ کا قاتل تھا اس خیال سے ’’کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا اے امیرالمومنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ کون دشمن؟ اس نے کہا۔ اے امیرالمومنین! میں نے طلحہؓ کو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! میں بھی تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تُو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا (جبکہ طلحہؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی بیٹھا ہوا تھا) کہ اے طلحہؓ! تُو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذِلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔‘‘

(آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی…، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 149-150)

پھر جنگ صِفِّین ہوئی تھی۔ اس کے واقعات میں لکھا ہے کہ یہ جنگ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان 37؍ ہجری میں ہوئی تھی۔ صِفِّین شام اور عراق کے درمیان ایک مقام ہے۔ حضرت علی ؓکوفہ سے فوج لے کر چلے اور جب صفین پہنچے تو دیکھا کہ شامی لشکر امیر معاویہ کی سرکردگی میں پہلے سے پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور ان کی ایک جماعت دریائے فرات کے گھاٹ پر قابض تھی۔ حضرت علیؓ نے یقین دلایا کہ ہم لڑنے نہیں آئے بلکہ امیر معاویہ سے تصفیہ کرنے آئے ہیں تاہم امیر معاویہ تصفیہ پر رضا مند نہ ہوئے۔ شامی لشکر نے حضرت علیؓ کے لشکر کو دریائے فرات سے پانی لینے سے روک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح حضرت علی ؓکی فوج شامی فوج کو پسپا کرنے اور اپنے لیے دریا تک کا راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ حضرت علیؓ نے شامیوں کو فرات سے پانی لے کر جانے کی کھلی اجازت بھی دے دی۔ شامیوں نے تو حضرت علی ؓکو منع کیا تھا، پانی لینے سے روک دیا تھا لیکن آپ نے جب دریا پہ قبضہ کر لیا تو آپ نے ان کو پانی لینے سے نہیں روکابلکہ اجازت دی۔ امیر معاویہ کا اصرار تھا کہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمان کو ان کے حوالے کر دیں۔ ایک دفعہ جب لڑائی چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو دونوں طرف کے صلح پسندوں نے روک تھام کروا دی۔ جنگ کا آغاز صفر 37؍ ہجری میں شروع ہوا۔ جنگ سے قبل جھڑپیں ہوتی رہیں لیکن دونوں فریق عام جنگ کے مہلک نتائج سے خائف ہونے کے باعث گریز کرتے رہے۔ صلح کے ہر امکان کی گنجائش باقی رکھنے کی غرض سے فریقین اس پر متفق ہو گئے کہ حرمت والے مہینوں میں عارضی صلح کر لی جائے لیکن یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہوئی۔ چنانچہ آغاز صفر میں دوبارہ جنگ کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ جب لڑائی کچھ مدت تک بغیر حتمی فیصلہ کے ہوتی رہی تو امیر معاویہ کی ہمت پست ہو گئی۔ اس خطرناک حالت میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں مشورہ دیا کہ قرآن مجید کے نسخے نیزوں کے سروں پر بندھوائیں اور کہیں کہ اس کتاب کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ کے متبعین میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ ایک بڑی تعداد نے یہ کہہ دیا کہ اللہ سے فیصلہ چاہنے کی استدعا مسترد نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح حضرت علیؓ نے ہراول دستے کو واپس بلا لیا اور لڑائی رک گئی۔ حضرت علی ؓکی فوج کی اکثریت نے امیر معاویہ کی تجویز مان لی کہ دونوں فریق ایک ایک حَکم کا انتخاب کریں اور یہ دونوں حَکم مل کر قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق کسی فیصلہ پر پہنچ جائیں۔ کتب تاریخ میں اس واقعہ کو ‘تحکیم’ کہا جاتا ہے۔ بہرحال شامیوں نے حضرت عمرو بن عاصؓ کا انتخاب کیا اور حضرت علیؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکو نامزد کیا اور اقرار نامہ پر دستخط کے بعد فوجیں منتشر ہوگئیں۔ یہ ابن اثیر کی تاریخ کا حوالہ ہے۔

(ماخوذ از الكامل فی التاريخ از ابن الاثير جلد 3 صفحہ 161 تا 201 دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2003ء)
(لغات الحدیث جلد دوم صفحہ 608 زیر لفظ صفین)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس بارے میں اس طرح تحریر فرمایا ہے، بیان فرمایا ہے کہ
’’اس جنگ میں حضرت معاویہؓ کے ساتھیوں نے یہ ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اٹھا دیے اور کہا کہ جو کچھ قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کے لیے حکم مقرر ہونے چاہئیں۔ اس پر وہی مفسد جو حضرت عثمانؓ کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معاً بعد اپنے بچاؤ کے لیے حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے انہوں نے حضرت علیؓ پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں۔ آپ فیصلہ کے لیے حَکم مقرر کر دیں۔ حضرت علیؓ نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے اور کچھ ان کمزور طبع لوگوں نے جو اُن کے اس دھوکا میں آ گئے تھے حضرت علیؓ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حکم مقرر کریں۔ چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری حکم مقرر ہوئے ۔ یہ تحکیم دراصل قتلِ عثمانؓ کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہو گا۔‘‘ اور یہ حَکم اس لیے مقرر کیے گئے تھے کہ حضرت عثمانؓ کا جو قتل ہے اس واقعہ کے بارے میں فیصلہ ہو گا اور یہ تھا کہ قرآن کریم کے مطابق جو بھی قاتل ہیں ان کو سزا دینے کے لیے یا ان کو پکڑنے کے لیے فیصلہ ہو گا۔ ’’مگر عمرو بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو ان کی امارت سے معزول کر دیں۔‘‘ تحکیم تو اس لیے تھی، اس لیے حَکم مقرر کیے گئے تھے کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کے بارے میں فیصلہ کریں لیکن یہاں دونوں حَکمینجو مقرر کیے گئے تھے انہوں نے یہ ایک فیصلہ کر دیا کہ دونوں کو پہلے معزول کیا جائے پھر بعد میں بات ہو گی ’’کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو رہے ہیں‘‘ یہ ان دونوں کا خیال تھا ’’اور پھر آزادانہ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تاکہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں حالانکہ وہ اس کام کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے۔‘‘ یہ تو بات ہی غلط تھی جس کے بارے میں ان حَکمین نے سوچنا شروع کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کام کے لیے مقرر نہیں کیے گئے تھے ’’مگر بہرحال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے لیے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں، بعد میں مَیں اعلان کر دوں گا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علیؓ کو خلافت سے معزول کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابوموسیٰ نے حضرت علیؓ کو معزول کر دیا ہے اور مَیں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علیؓ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہؓ کو مَیں معزول نہیں کرتا بلکہ اس کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں (حضرت عمرو بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت…‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’…مَیں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا) اس وقت بہرحال وہ باوجود اس نیکی کے وہاں کسی طرح لوگوں کی باتوں میں آ گئے یا کیا ہوا؟یہ ایک علیحدہ مضمون ہے اس لیے اس بحث میں نہیں پڑتا لیکن بہرحال ان کا فیصلہ غلط تھا۔ ’’اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو لوگ حَکم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علیؓ کی بجائے معاویہؓ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے مگر حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حَکم اس غرض کے لیے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے۔ اس پر حضرت علیؓ کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حکم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حَکم مقرر ہی کیوں کیے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حَکم ہو ہی نہیں سکتا۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اول تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہو گا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی۔‘‘ کہ قرآن کے مطابق فیصلہ ہوا ہی نہیں۔ ’’دوسرے حَکم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے‘‘ مقرر کیے گئے تھے یا ’’مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حَکم کیوں مقرر کیا؟ (یہ جو باغی تھے جو منافق تھے) انہوں نے کہا ہم نے جَھک مارا تھا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ ہماری غلطی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں مانی۔ اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہگار ہو گئے اور آپ بھی۔‘‘ برابر ہو گئے دونوں۔ ’’ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی۔ اب ہم نے تو اپنی غلطی سے توبہ کرلی ہے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ بھی توبہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے۔ اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلافِ اسلام فعل کیا ہے اس لیے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا‘‘ اگر علیؓ نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ خلافِ اسلام فعل کیا ہے اس لیے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ ’’اور کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جو شخص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ حضرت علیؓ نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ جس امر کے متعلق میں نے حکم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حَکم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز ہے۔ باقی میں نے حَکم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تب میں اسے منظور کروں گا ورنہ ’’نہیں‘‘ میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا۔ انہوں نے چونکہ اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا اور نہ جس غرض کے لیے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لیے میرے لیے ان کا فیصلہ کوئی حجت نہیں۔ مگر انہوں نے حضرت علیؓ کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجب الاِطاعت خلیفہ کوئی نہیں۔ کثرتِ مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہوا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیر واجب الاطاعت ماننا لَاحُکْمَ اِلَّا لِلّٰہِ کے خلاف ہے۔‘‘

(ماخوذ ازخلافتِ راشدہ انوار العلوم جلد 15 صفحہ 486 تا 488)

جنگِ نہروان 38؍ ہجری میں ہوئی تھی۔ نہروان بغداد اور وَاسِط کے درمیان واقع ہے۔ اس مقام پر حضرت علیؓ اور خوارج کے درمیان جنگ لڑی گئی تھی۔

(معجم البلدان جلد5 صفحہ375 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ابن اثیر کی تاریخ میں یوں لکھا ہے کہ جنگ صفین کے تصفیہ کے لیے حضرت علی ؓکی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور امیر معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص حَکم مقرر ہوئے۔ تاریخ میں اس واقعہ کو ’تحکیم‘ کہتے ہیں۔ تحکیم کے معاملے میں حضرت علیؓ سے ان کے لشکر کے ایک گروہ نے اختلاف کیا اور بغاوت کرتے ہوئے علیحدہ ہو کر خوارج کہلایا۔ ان خوارج نے تحکیم کو گناہ قرار دے کر حضرت علیؓ سے توبہ کرنے اور خلافت سے معزولی کا مطالبہ کیا تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ کیوں انکار کیا یہ وضاحت پہلے آ چکی ہے۔ حضرت علی امیر معاویہ کے خلاف دوبارہ شام کی طرف پیش قدمی کی تیاری میں مصروف تھے کہ خوارج نے فسادی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے عبداللہ بن وَہَب کو اپنا امام بنایا اور کوفہ سے نہروان کی طرف چلے گئے۔ خوارج نے بصرہ میں بھی اپنا جتھا جمع کیا جو بعد ازاں نہروان میں عبداللّٰہ بن وَہَب کے لشکر سے جا ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عبداللہ بن خَبَّابْ کو حضرت علی ؓکی طرفداری پر قتل کر دیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کر کے نہایت بیدردی سے اسے بھی قتل کر دیا اور قبیلہ طَے کی تین عورتوں کو بھی قتل کر دیا۔ حضرت علیؓ تک جب یہ حالات پہنچے تو آپ نے تحقیق کے لیے حارث بن مُرَّة کو سفیر کے طور پر بھیجا ۔ جب وہ ان کے پاس گئے تو خوارج نے انہیں بھی قتل کر دیا۔ یہ حالات دیکھ کر حضرت علیؓ نے شام جانے کا ارادہ ترک کیا اور تقریباً پینسٹھ ہزار کا لشکر جو شام کے لیے تیار کیا تھا اسے لے کر خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے۔ جب آپ نہروان مقام پر پہنچے تو خوارج کو صلح کی دعوت دی اور حضرت ابوایوب انصاری ؓکو جھنڈا دیا کہ جو اس کی پناہ میں آ جائے گا اس سے جنگ نہیں کی جائے گی۔ یہ اعلان سن کر خوارج جن کی تعداد چار ہزار تھی ان میں سے ایک سو حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے اور ایک بڑی تعداد کوفہ کو لَوٹ گئی۔ صرف ایک ہزار آٹھ سو افراد عبداللّٰہ بن وَہَب خارجی کی سرکردگی میں آگے بڑھے اور حضرت علی کے پینسٹھ ہزار کے لشکر سے جنگ ہوئی جس میں تمام خوارج مارے گئے۔ ایک روایت کے مطابق خوارج کی معمولی تعداد جو کہ دس سے بھی کم تھی بچ سکی۔ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے سات آدمی شہید ہوئے۔

(ماخوذ از الكامل فی التاريخ از ابن الاثير جلد 3 صفحہ 212 تا 223 دار الکتب العلمیة بیروت لبنان 2003ء)
(تاریخ المسعودی حصّہ دوم صفحہ 342نفیس اکیڈمی اسٹریچن روڈ کراچی نومبر1985ء)

حضرت عَمْرَہ بنت عبدالرحمٰنؓ نے بیان کیا کہ جب حضرت علیؓ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو الوداعی ملاقات کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ ؓکی خدمت میں آئے۔ انہوں نے فرمایا آپ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں جائیں یعنی حضرت علی ؓکو کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں جائیں۔ خدا کی قسم! یقینا ًآپ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کے ہمراہ چلتی لیکن اللہ کی قسم! تاہم میں اپنے بیٹے عمر کو آپ کے ساتھ روانہ کرتی ہوں جو میرے نزدیک سب سے افضل ہے اور وہ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 129 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث نمبر4611مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

بہرحال یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ آئندہ اگلے ہفتے بھی چلے گا۔ اِن شاء اللہ۔

آج بھی مَیں پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کے لیے دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ الجزائر کی تو ایک خوش کن خبر ہے کہ گذشتہ دو تین دنوں میں دو مختلف عدالتوں نے جھوٹے الزام میں ملوّث بہت سارے احمدیوں کو بری کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان منصف مزاج ججوں کو جزا دے اور باقی انتظامیہ اور عدلیہ کو بھی انصاف سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے جو جھوٹے مقدمے احمدیوں پر قائم کر رہے ہیں۔

پاکستان کے بعض افسران اور منصف جو انصاف سے دور ہٹ رہے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے کہ اپنے دلوں کے بغض اور کینےکو نکال کر معاملے کو دیکھنے والے ہوں۔ جن لوگوں کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقدر نہیں اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے سامان جلد فرمائے اور احمدیوں کے لیے پاکستان میں بھی امن و سکون کے سامان پیدا فرمائے۔

پاکستانی احمدی، پاکستان میں رہنے والے احمدی خاص طور پر نوافل اور دعاؤں پر زور دیں۔ ان دعاؤں میں رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ بھی بہت پڑھیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ بھی بہت پڑھیں۔ استغفار کی طرف بھی توجہ دیں۔ درود کی طرف بھی توجہ دیں۔ آج کل اس کی بہت ضرورت ہے۔ نوافل بھی ادا کریں جیسا کہ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی دے اور جلد وہاں کے حالات بھی درست فرمائے۔

آج بھی میں نمازوں کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا جن میں سے پہلا جنازہ مکرمہ حُمدیٰ عباس صاحبہ کا ہے جو مکرم عباس بن عبدالقادر صاحب شہید خیر پور کی اہلیہ تھیں۔ 29؍ دسمبر کو 91 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے والد ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھائی کے دوران 1926ء میں اپنے احمدی کلاس فیلو سے متاثر ہو کر اپنی اہلیہ کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت قبول کی تھی۔ مئی 1951ء میں لاہور میں حُمدیٰ صاحبہ کی پروفیسر عباس بن عبدالقادر صاحب کے ساتھ شادی ہوئی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولانا عبدالماجد صاحب کے پوتے تھے اور حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بھائی پروفیسر عبدالقادر صاحب کے بیٹے تھے۔ 1974ء میں ان کے شوہر پروفیسر عباس بن عبدالقادر صاحب کو خیر پور میں شہید کر دیا گیا تھا تو بڑے کمال صبر کے ساتھ انہوں نے کام لیا۔ کوئی بے صبری نہیں دکھائی اور اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی ہوئیں۔ آپ کے شوہر کی شہادت پر آپ کے غیر از جماعت خالہ زاد بھائی نے تعزیت کے خط میں لکھا کہ عباس بہت اچھے انسان تھے۔ کاش کہ ان کا انجام بھی راہ ہدایت پر ہوتا تو حُمدیٰ صاحبہ نے ان کو جواب لکھا کہ مجھے فخر ہے کہ جس راہ پر میرے شوہر نے جان دی ہے وہ ہدایت کی راہ ہے۔

پھر سکول کے زمانہ میں حُمدیٰ صاحبہ کی ایک گہری سہیلی شفیقہ صاحبہ تھیں جو اتفاق سے پاکستان کے جنرل ضیاء الحق صاحب کی اہلیہ بنیں۔ انہوں نے ایک دفعہ اپنے شوہر ضیاء الحق صاحب کے صدر بننے کے بعد کہا کہ سب لوگ مجھے ملنے آتے ہیں مگر حُمدیٰ نہیں آتی۔ حُمدیٰ صاحبہ کو یہ پتہ لگا تو آپ نے یہ سن کے کہا کہ ایک ایسے شخص کی بیوی سے ملنے کی مجھے کوئی خواہش نہیں جو میرے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت سے دشمنی رکھتا ہے۔ اور پھر اس سے کبھی نہیں ملیں۔

آپ بےشمار خوبیوں کی مالک تھیں۔ بےحد نفاست پسند تھیں۔ سلیقہ شعار تھیں۔ بہت نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ نماز اور روزے کا ہمیشہ بہت التزام کرتی تھیں۔ بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالی۔ چندہ ادا کرنے میں بہت جلدی کرتیں۔ خیرات کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ رمضان کے مہینے میں بہت سے لوگوں کے لیے اپنے گھر پہ روزانہ روزہ کھلوانے کا انتظام کرتیں۔ خلافت سے بے انتہاتعلق اور عشق اور محبت تھی۔ اپنے ہاتھ سے باقاعدہ مجھے خط لکھا کرتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا اکثر مطالعہ کرتیں اور سلسلہ کی دوسری کتب اور الفضل آخر وقت تک مطالعہ کرتی رہیں۔ 2006ء میں ان کی چھوٹی بیٹی ڈاکٹر عامرہ ٹریفک حادثے میں دو بچوں کے ساتھ وفات پا گئیں تو اس صدمےکو بڑے حوصلے سے برداشت کیا اور صبر کا ایک مثالی نمونہ دکھایا۔ سب عزیز رشتے دار اور ملنے جلنے والے آپ کی بےشمار خوبیوں کی وجہ سے آپ سے محبت کرتے تھے۔ غیر احمدی رشتے داروں کا بھی آپ سے بہت محبت کا تعلق تھا۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں جو کہ امریکہ ،کینیڈا اور ناروے میں رہائش پذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو، ان کی اولاد کو اور ان کی اولاد کی نسل کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ رضوان سیّد نعیمی صاحب عراق کا ہے جو 13؍ نومبر کو 70 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے بیٹے مصطفی ٰنعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے رؤیا میں خود کوحضرت سید عبدالقادر جیلانی صاحب کے پاس دیکھا جنہوں نے والد صاحب کو اپنا جوتا عطا فرمایا۔ والد صاحب نے یہ کہتے ہوئے اسے لینے میں جھجک محسوس کی کہ میری کیا اوقات کہ میں سید عبدالقادر جیلانی کا جوتا پہن سکوں لیکن سید عبدالقادر جیلانی نے اصرار کیا تو والد صاحب نے جوتا پہن لیا اس کے بعد سید عبدالقادر جیلانی نے ایک شخص اور اس کی جماعت کی طرف اشارہ کر کے والد صاحب کو ان میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد رضوان نعیمی صاحب کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی ہوئی۔ چند سال بعد ایم ٹی اے کے ذریعہ ان کا جماعت سے تعارف ہوا تو رضوان صاحب نے کہا کہ انہیں خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو زیارت ہوئی تھی اس سے مراد آپؐ کے خادم صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت تھی اور دوسری رؤیا میں جس شخص اور اس کی جماعت کی طرف شیخ عبدالقادر جیلانی نے اشارہ کر کے ان میں شامل ہونے کا کہا تھا اس سے مراد خلیفۃ المسیح اور ان کی جماعت ہے۔ چنانچہ انہوں نے 2012ء میں بیعت کر لی۔

مرحوم بڑے نیک صالح اور اپنے رشتے داروں اور غریبوں کی مدد کرنے والے تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا ۔کمزور صحت اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود اپنے علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ اپنے خاندان کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہتے تھے کہ وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوں۔ ان کے بیٹے اور اہلیہ اور اہلیہ کے بھائی نے بھی اب بیعت کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ثبات قدم عطا فرمائے اور ان لوگوں کو مرحوم کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات اللہ تعالیٰ بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم ملک علی محمد صاحب ہجکہ ضلع سرگودھا کا ہے جو محمد افضل ظفر صاحب مربی سلسلہ کینیا کے والد تھے۔ 20؍ اگست کو 90سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1974ء میں آپ کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ سلسلے کے کارکنان، واقفین زندگی، مربیان اورمعلمین کی بےحد عزت کیا کرتے تھے۔ مرحوم تہجد گزار، صوم و صلوٰة کے پابند، بہت مہمان نواز تھے۔ غریب پرور تھے۔ صابر اور شاکر تھے۔ صلہ رحمی سے کام لینے والے تھے۔ ایک نیک اور مخلص انسان تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے تھے اور آپ کومتعدد بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی بھی توفیق ملی۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور گیارہ پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ مکرم محمد افضل ظفر صاحب مربی سلسلہ کینیا جیسا کہ میں نے کہا ان کے بیٹے تھے جو کہ آج کل وہاں کینیا میں میدان عمل میں تھے اس وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ احسان احمد صاحب لاہور کا ہے جو شفقت محمود صاحب کے بیٹے تھے۔ 27؍ جولائی کو 35 سال کی عمر میں کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مولوی نورالدین اجمل صاحب آف گولیکی ضلع گجرات صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے اور ارشاد احمد صاحب گوجرانوالہ کے نواسے تھے۔ گذشتہ دو سال آپ کو حلقہ رچنا ٹاؤن لاہور میں بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ دہلی گیٹ امارت میں بطور سیکرٹری نومبائعین خدمت کی توفیق پائی۔ تبلیغ کا بےحد شوق تھا۔ خدا کے فضل سے آپ کو آٹھ افراد کو بیعت کروانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے عزیزم حنان احمد مسرور عمر6سال اور عزیزم مبین احمد طاہر عمر3سال اور ایک بیٹی عزیزہ سائرہ احمد 5سال کے علاوہ والد، والدہ اور تین بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان بچوں کا خود کفیل ہو اور ان کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم ریاض الدین شمس صاحب کا ہے جو مولانا جلال الدین شمس صاحب کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 27؍مئی کو وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم کے خاندان کا تعارف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت میاں محمد صدیق صاحبؓ کے پڑپوتے، حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ کے پوتے، حضرت خواجہ عبیداللہ صاحبؓ کے نواسے اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے بیٹے تھے۔ یہ تمام صحابہ تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ پہلے فوت ہو گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو، ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ اور مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے بھائی منیر الدین شمس صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ نمازوں کے پابند تھے۔ بچوں کو ہمیشہ نماز کی تلقین کرتے تھے۔ خلافت سے بےحد محبت تھی۔ گھر میں ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہاں بیماری کے دنوں میں بھی گذشتہ دو سال ہوئے مجھے ملنے کے لیے آئے اور باوجود بیماری کے بڑے صبر اور حوصلے سے اور خوش مزاجی سے باتیں کرتے رہے۔ فکر تھی تو اپنے بچوں کی۔ اپنی کوئی فکر نہیں تھی۔ ان کے متعلق سبھی کا یہ تاثر ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں مسکراتے رہنااور ہر ایک کے ساتھ مل جل کر رہنا اور دکھ سکھ میں ساتھ دینا ان کی خوبیوں میں شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرماتا رہے اور درجات بلند فرمائے۔

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021