• 19 اپریل, 2024

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات (قسط دوم)

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات
اور نظریہٴ وحدت الوجود کا تدریجی ارتقاء
(قسط دوم)

افلاطون نے اپنی جس تھیوری کا آغاز غیر حسی دنیا سے شروع کر کے اسے مادی دنیا سے جوڑنے کی کوشش کی ارسطو نے اسے مادی یعنی حقیقی دنیا سے شروع کر کے مابعد الطبیعاتی دنیا تک پہنچایا۔ اٹلی کے شہر ویٹیکن میں پڑی Raphael کی ایک پینٹنگ اس کی بہترین عکاسی کرتی ہے جس میں افلاطون اپنی انگلی کے اشارے سے ہر چیز کا ماخذ غیر حسی دنیا کو قرار دیتا ہے جبکہ ارسطو اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس مادی دنیا کو حقیقت قرار دیتا ہے۔

فلاطینوس (Plotinus)
کا نظریہٴ وحدت الوجود

تیسری صدی عیسوی کا عیسائی مفکر فلاطینوس (جو مصر میں پیدا ہوا) مغربی تصور وحدت الوجود کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ فلاطینوس کو افلاطون اور ارسطو کے بعد سب سے اہم فلاسفر مانا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر فلاطینوس افلاطون سے متاثر تھا اور اسی کے نظریات کی بنیاد پر اس نے اپنا فلسفہ پیش کیا جسے Neoplatonism کا نام دیا گیا۔ اس کا تمام فلسفہ اس کے شاگرد Porphyry نے محفوظ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان تحریرات کو Enneads کہا جاتا ہے۔ فلاطینوس نے جو نظریہ پیش کیا اس نے خاص طور پر مسلم دنیا کے فکر و فلسفہ کو زہر آلود کیا۔ اس نے Emanation کو وحدت سے کثرت کی بنیاد قراد دیا جو اسلامی فلسفہ سے متضاد ہے۔ فلاطینوس کے نظریہ کے تین بنیادی اصول ہیں:

1-The Absolute One
2-The Intellect
3-The Soul

پہلے اصول کے مطابق وہ ذات جس سے کائنات کی ہر چیز ظہور پزیر ہوئی وہ واحد ہے یعنی کُلی واحد۔ اسے کسی بھی طور فکری احاطے میں نہیں لایا جا سکتا۔ نہ زمان و مکان کے حوالے سے اُس کی تعیین کی جاسکتی ہے وہ صرف واحد ہے اور ہر اچھائی کا منبع ہے۔ ہر چیز جو اس منبع سے نکلی ہے وہ بلا ارادہ ظہور پزیر ہوئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح سورج سے کرنیں اور روشنی سورج کے ارادہ سے نہیں بلکہ از خود نکلتی ہے یا جیسے ایک برتن جب لبالب بھر جاتا ہے تو اس میں سے جو مائع چیز برتن میں ہوتی ہے باہر چھلکنے لگتی ہے۔ اس میں برتن کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ اس نظریے کو Emanation Theory یا نظریہ فیضان کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نظریہ اسلامی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہر چیز خدا کی مرضی اور ارادہ سے ظہور میں آئی ہے اور یہ خدا کی صفت خالقیت کی مظہر ہے۔ Emanation کا فلسفہ خدا کے بالارادہ خالق ہونے سے انکار ہے۔

فلاطینوس کے مطابق وہ پہلی چیز جو Absolute One سے ظہور پزیر ہوئی وہ Intellect تھی یعنی عقل کل۔ Absolute One کے برعکس عقل کل میں سوچنے، سمجھنے اور بالارادہ Productivity کی صلاحیت تھی۔ اس کے اندر وہ تمام خاکہ موجود تھا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ یہ افلاطون کی تھیوری آف فارمز کی ایک واضح شکل تھی جو فلاطینوس نے پیش کی۔ اس عقل کل سے روح کی پیدائش ہوئی اور روح سے اجسام۔ فلاطینوس روح کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک بالائی روح اور ایک زیریں روح۔ بالائی روح اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں موجود ہے جبکہ زیریں روح میں اچھائی اور برائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے جس کا بالائی روح سے کوئی تعلق نہیں۔ جسم کے فنا ہونے کے بعد زیریں روح واپس اپنی بالائی روح میں جا کر ضم ہو جاتی ہے۔ اس طرح فلاطینوس نے روح کی ابدیت کا نظریہ پیش کیا۔

چوتھی صدی عیسوی کے عیسائی راہب St. Augustine نے نو افلاطونی فلسفے کا پرچار کرتے ہوئے اسے عیسائیت کے عقیدے سے قریب ترین قرار دیا۔ اس طرح نو افلاطونی فلسفہ عیسائی منادوں کے پسندیدہ فلسفے کے طور پر پروان چڑھا۔

ہندو فلاسفر آدی شنکر اچاریہ
کا نظریہ وحدت الوجود

آٹھویں صدی عیسوی کے ہندو مفکر اور فلاسفر آدی شنکر اچاریہ (Adi Shankar Acharya) نے فلکیات اور الہٰیات پر بڑا کام کیا۔ اس نے ہندؤوں کی الہامی کتاب وید اور اس کے صحیفوں Upanishads, Bhagvad Gita اور Brahma Sutra کی تفاسیر لکھیں۔

خدا اور کائنات کے بارہ میں ہندؤوں کا قدیم عقیدہ اور فلسفہ Dvaita کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے Dualism۔ یعنی خدا اور کائنات دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں ہیں اور دونوں ازلی اور ابدی ہیں۔ شنکر اچاریہ نے اس کے مقابل پر اپنا نظریہ Advaita پیش کیا جسے Non Dualism کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق خدا اور کائنات دو علیحدہ وجود نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔ اس کائنات کو شنکر ایک دھوکا، وہم اور سراب قرار دیتا ہے اس نے کہا یہ سب مایا ہے۔ اور روح کی آخری منزل برہما میں ضم ہو جانا ہے کیونکہ وہ ایک ہی ہیں۔ شنکر اچاریا کے فلسفے کو مختصرا یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

  1. برہما حقیقت ہے۔
    2. آتما (روح) برہما سے مختلف نہیں۔
    3. دنیا مایا ہے (دھوکا)۔

درحقیقت شنکر کے فلسفہ Advita میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ یونانی اور نو افلاطونی فلسفے کو ایک اور زاویے سے پیش کرنے کا نام ہے۔

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین
اور صوفیاء پر اثرات
مسلم فلاسفرز اور یونانی مابعد الطبیعات

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں یونانی فلسفہ کسی حد تک سریانی زبان سے ترجمہ ہو کر عرب علماء تک پہنچ چکا تھا اور وہ ارسطو اور افلاطون کے خیالات سے آگاہ ہو چکے تھے۔ مگر یونانی فلسفے کی اصل یلغار عباسی دور حکومت میں ہوئی جب عباسی خلفاء ہارون اور مامون الرشید نے یونانی، سریانی اور فارسی زبانوں سے کتابوں کے تراجم عربی زبان میں کروانے شروع کئے۔ اس دور کو اسلام کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ مامون الرشید نے اس پر عظیم الشان کام کیا اور 260ھ میں بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں بڑے مایہ ناز علماء کے سپرد تراجم کا کام کیا گیا۔ دو بڑے گروپ بنائے گئے۔ ان میں سے ایک حنین بن اسحاق اور دوسرا یعقوب الکندی کی سربراہی میں تراجم کا کام کرتا رہا۔ تمام بڑے علوم جن میں سائنس، فلسفہ، طب، فلکیات، الہٰیات اور دیگر علوم شامل تھے ان کے تراجم عربی زبان میں منتقل کئے گئے۔ الہٰیات ارسطو کا ترجمہ 266ھ میں ہوا جبکہ یہ ارسطو کی تصنیف ہی نہیں تھی بلکہ فلاطینوس (Plotinus) کے رسائل کی آخری تین کتابوں کا خلاصہ تھا جو Nemiah Amesvi نے لکھا۔ عربوں نے نو افلاطونی افکار کو ارسطو کی تعلیمات سمجھ کر قبول کر لیا۔ اس طرح فلاطینوس کے تصور الہٰیات کا پرچار ارسطو کے پردے میں ہوتا رہا۔

مسلمان مفکرین جنہیں قرآن مجید کی صورت میں علوم کے خزانے سے نوازا گیا تھا اور سنت رسول اور حدیث کے ذریعہ ان علوم کی تفسیر سے بہرہ ور کیا گیا بد قسمتی سے یونانی علوم کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔ ممتاز اور مایہ ناز مسلمان فلسفی یعقوب الکندی، ابو نصر فارابی، ابن سینا اور ابن رُشد کی شکل میں یونانی فلسفے کو وہ وکیل میسر آئے جن کی مثال یونان میں بھی نظر نہیں آتی۔ ان مسلمان مفکرین نے ارسطو کو وہ مقام دے دیا جو یونانی فلسفے میں شائد صرف واجب الوجود کو حاصل ہے۔ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی پر بھی افلاطون اور فلاطینوس کے نظریات کا رنگ چڑھا اور نتیجتاً اُس نظریے نے جنم لیا جسے نظریہٴ وحدت الوجود کے نام سے شہرت ملی۔ (ابن عربی کے عقیدت مند محققین اس بات سے قطعی منکر ہیں کہ ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود یونانی مفکرین کا چربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابن عربی نے فصوص الحکم یا فتوحات مکیہ میں کہیں بھی افلاطون یا فلاطینوس کا ذکر تک نہیں کیا۔

معتزلہ

دوسری صدی ہجری کے شروع میں مسلمانوں میں عقلیت پسندی کی ایک تحریک شروع ہوئی جسے معتزلہ کا نام دیا گیا۔ اس کا بانی حضرت حسن بصری کا شاگرد واصل بن عطا تھا۔ اس گروہ نے علم کی بنیاد عقل اور وحی و الہام کو قرار دیا مگر عقل کو الہام پر فوقیت دی اور کہا کہ خدا کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ ارسطو نے کہا تھا کہ خدا اور کائنات دونوں حقیقتیں ہیں اور ازلی اور ابدی ہیں۔ معتزلہ نے ارسطو کے اس الہٰی تصور کو رد کیا اور کہا کہ کائنات خدا کی تخلیق ہے مگر وجود میں آنے سے پہلے وہ خدا کے تخیل میں Potential حالت میں موجود تھی اور بعد میں خدا نے اسے وجود کی صفت عطا کی تو یہ Active حالت میں آ گئی۔ معتزلہ جو اپنے آپ کو اصحاب التوحید والعدل بھی کہتے تھے، نے اپنے افکار کی بنیاد اصول خمسہ کو قرار دیا (جن کی تفصیل اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے) اور بڑی سرعت سے بصرہ، بغداد اور دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ معتزلہ قرآن مجید کو خدا کا کلام کہنے کی بجائے اسے مخلوق سے تعبیر کرتے اور اس بارہ میں انہوں نے تشدد سے کام لیا حتی کہ امام احمد بن حنبل جیسی شخصیت کو بھی قید وبند کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔ معتزلہ کے مقابل دو بڑی شخصیات اُبھر کر سامنے آئیں۔ ان میں سے ایک بصرہ کے ابوالحسن اشعری تھے اور دوسرے سمرقند سے ابو منصور ماتریدی۔ اس طرح متکلمین کے دو گروہ بنے جو اشاعرہ اور ماتریدیہ کہلائے۔ امام غزالی اشاعرہ کے متبعین میں سے ایک معتبر نام ہے جبکہ امام فخر الدین رازی کا تعلق ماتریدیہ مکتبہء فکر سے تھا۔ معتزلہ کو عباسی خلفا کی سرپرستی حاصل تھی مگر دسویں عباسی خلیفہ المتوکل نے ان کا قلع قمع کر کے انہیں نیست ونابود کر دیا۔

یعقوب بن اسحاق الکندی

تاریخ اسلام میں یعقوب بن اسحاق الکندی کو پہلے عرب فلاسفر کی حیثیت حاصل ہے۔ مسلم دنیا میں فلسفیانہ مباحث کا آغاز الکندی کے ذریعہ ہوا۔ عقائد میں وہ معتزلہ کے پیروکار تھے جبکہ فلسفہ میں ارسطو کے نظریات کے داعی اور مبلغ تھے۔ الکندی عقل کے چار مدارج بیان کرتے ہیں اور عقل کی کسوٹی پر وحی و الہام کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق عقل و شعور کا ہی وہ بلند مقام ہے جہاں پیغمبروں کو وحی اور شاعروں کو آمد ہوتی ہے۔ الکندی نے فلسفہ اور مذہب میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ دونوں کی منزل ایک ہی ہے یعنی خدا تک پہنچنا مگر راستے الگ ہیں۔ ارسطو کی Metaphysics کے مقابل الکندی نے First Philosophy لکھی اور خدا کو اس کائنات کی علت اول قرار دیا یعنی وہی جسے ارسطو نے Prime Mover یا Unmoved Mover کہا تھا۔ البتہ الکندی نے ارسطو کے کائنات کے ازلی اور ابدی ہونے کے نظریے سے اختلاف کیا اور کہا کہ Infinity کا تصور ہی غلط ہے اس وجہ سے کائنات کو ازلی قرار دینا بھی غلط ہے۔

ابو نصر فارابی

الکندی کے بعد جس عظیم فلاسفر نے یونانی فلسفے کو آگے بڑھایا وہ ابو نصر فارابی (260۔ 339ھ) تھے۔ دنیائے اسلام میں ارسطو کو معلم اول اور ابو نصر فارابی کو معلم ثانی کہا جاتا ہے۔ مشائین (ارسطو کے پیرو کار) نے وحدت سے کثرت کی بنیاد اپنے نظریہ Emanation پر رکھی جسے ایک نظریے کی صورت فلاطینوس نے دی تھی مگر اسے ایک باقاعدہ مربوط نظام کی شکل میں ابو نصر فارابی نے پیش کیا۔

فارابی نے کہا کہ واجب الوجود سے جو پہلی چیز صادر ہوئی وہ عقل اول تھی اور یہ بلا ارادہ ظہور میں آئی یعنی اسے تخلیق نہیں کیا گیا۔ عقل اول سے عقل ثانی، عقل ثالث وغیرہ۔ اس طرح کل دس عقول صادر ہوئیں۔ دسویں عقل کو فارابی عقل فعال (Active Intellect) کہتے ہیں جو ہیولی (Hyle) کی اصل ہے۔ ہیولی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مادہ جو صورت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عقل فعال سے عناصر اربعہ ظاہر ہوئے یعنی آگ، ہوا، پانی اور مٹی۔ عناصر اربعہ سے معدنیات بنیں۔ معدنیات سے نباتات وجود میں آئے۔ نباتات سے حیوانات بنے اور حیوانات سے انسان وجود میں آیا۔ فارابی کے نزدیک The One جس سے عقول کا اخراج ہوا وہ خدا کی ذات ہے اور دسویں عقل یعنی عقل فعال دراصل جبریل علیہ السلام ہیں۔ باقی نو عقول کے بارہ میں بھی فارابی نے تفاصیل دی ہیں جن سے افلاک اور اجرام فلکی نے جنم لیا۔ یہ بنیاد ہے فارابی کے نزدیک وحدت سے کثرت کی جس میں تخلیق کا کوئی عمل شامل نہیں بلکہ یہ ایسے ہے جیسے بھرے ہوئے برتن سے اس میں موجود مادہ بہ نکلتا ہے۔ اسی طرح فارابی نے بھی ارسطو کی طرح اس کائنات کو ازلی اور ابدی قرار دے دیا۔

ابن سینا

اب آئیے ابن سینا کی طرف جنہیں بلاشبہ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے فلاسفر اور طبیب کا درجہ حاصل ہے۔ ابن سینا نے الٰہیات، فلکیات، طب، فلسفہ، کیمسٹری، فزکس غرضیکہ تمام مروجہ علوم پر لکھا۔ ان کی دو کتابیں Book Of Healing اور Canon Of Medicine سترھویں صدی کے وسط تک مغرب کی میڈیکل یونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی رہیں۔ بنیادی طور پر ابن سینا یونانی فلسفہ اور منطق کو استعمال کر کے خدا کی وحدانیت اور سچائی ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ ان کا سب سے بڑا کام Ontology یعنی وجود کی بحث پر ہے۔

افلاطون نے کہا تھا کہ اس کائنات میں پائے جانے والی تمام مادی اشیاء کی Forms یا امثال غیر حسی دنیا میں سانچوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔ ارسطو نے افلاطون کے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مادہ اور اس کی شکل دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ مادہ کے اندر ہی اس کی آخری شکل کا خاکہ موجود ہوتا ہے جو اندرونی اور بیرونی قوتوں کے اثر سے اپنی واضح شکل میں آ جاتا ہے۔ ابن سینا نے اس کے لئے Existence اور Essence کے الفاظ استعمال کئے یعنی وجود اور ماہیت۔ اور وہ بیرونی قوت جو Substance اور Essence کو اکٹھا کر کے اسے وجود (Being) کی شکل دیتی ہے ابن سینا نے اسے Agent Cause کا نام دیا یعنی وہ واجب الوجود ہے جو ممکن الوجود کو Existence عطا کرتا ہے اور وہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔ بنیادی طور پر یہ ارسطو ہی کا نظریہ ہے جسے ابن سینا نے آگے بڑھایا۔ ۔ مگر ارسطو نے یہ کہا تھا کہ مادہ کے ختم ہونے کے ساتھ اس کی صورت یا Form بھی ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے ابن سینا نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے Essence کو روح اور نفس کا نام دیا اور کہا کہ مادہ اور روح دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ وجود کے فنا ہونے سے روح فنا نہیں ہوتی۔ اسے ابن سینا نے ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا جسے Floating Man Argument کہا جاتا ہے۔ ابن سینا پر یونانی فلسفہ کے ساتھ ساتھ معتزلہ کی عقلیت پسندی کا بھی غلبہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیغمبروں کی وحی کو فلسفہ کے معیار پر پورا اترنا چاہئے۔ اسی بنیاد پر ابن سینا نے قیامت کے دن انسانوں کے اٹھائے جانے کا بھی انکار کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک فلسفی کو پیغمبر سے افضل قرار دیا۔ ابن سینا نے فلسفہ اور مذہب اور مابعد اطبیعات کی سچائی اور حقیقت جاننے کا معیار صرف اور صرف فلسفہ کو قرار دیا۔

ابو بکر محمد بن زکریا الرازی

تیسری صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہونے والے ابو بکر محمد بن زکریا الرازی کو طب اور فلسفہ میں ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ الرازی ایک مکمل عقلیت پسند انسان تھے اور یونانی فلسفہ کے حد سے زیادہ معتقد تھے۔ الرازی نے مسلمان متکلمین اور مقلدین پر سخت تنقید کی جو روحانی امور میں عقل کو ذیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ الرازی کا کہنا تھا کہ پیغمبروں کو ان کے پیغام کی سچائی کی وجہ سے ماننا چاہئے نہ کہ ان کی طرف منسوب کئے گئے معجزات کی وجہ سے۔ الرازی کے شدید ناقد ابو حاتم الرازی (اسماعیلی) نے زکریا رازی کو ملحد کا خطاب دیا (Al Razi The Heretic) اور انہیں مذہب دشمن کے طور پر پیش کیا۔ الرازی کا کہنا تھا کہ ہر چیز پر سوال اُٹھانا چاہئے جب تک عقل اُسے تسلیم نہ کر لے۔ اور ان کی یہ بات سقراط کے فلسفہ کے مطابق تھی کہ Doubt Is The Source Of Truth۔ الرازی کے فلسفہ کے مطابق چار چیزیں ازلی اور ابدی یعنی Eternal ہیں۔

1.خدا
2.مادہ
3.وقت
4.روح

الرازی بھی معتزلہ کی اس سوچ سے اتفاق رکھتے تھے کہ مادہ جس سے یہ کائنات بنی ہے ازلی اور ابدی ہے اور کائنات شروع میں بالقوہ (Potential) حالت میں موجود تھی جو بعد میں خدا کے ارادہ سے بالفعل (Active) حالت میں ظاہر ہوئی۔

اخوان الصفاء

عباسی دور خلافت میں عقلیت پسندی کی جو بڑی تحریکیں اُٹھیں ان میں ایک معتزلہ کی تحریک تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور دوسری اخوان الصفا کی تحریک تھی جو چوتھی صدی ہجری کے آخر پر شروع ہوئی۔ یہ فری میسن طرز کی ایک خفیہ تنظیم تھی جس کا آغاز بصرہ میں ہوا۔ اس تحریک کو یونانی اور نوافلاطونی فلسفے کا تسلسل کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد شریعت اسلامیہ اور فلسفہ کو ملا کر مختلف علوم کو سیکھنا اور آگے بڑھانا تھا۔ مسلمان حکمران اور روایتی مسلمان اس بات کے سخت خلاف تھے کہ شرعی نصوص کو چھوڑ کر علوم سیکھنے کے لئے فلسفہ کا سہارا لیا جائے۔ اخوان الصفا کے ممبران اس مخالفت اور عتاب کے ڈر سے اپنی سرگرمیوں کو خفیہ رکھتے تھے مگر انہوں نے باقاعدہ اجلاسات میں تمام دنیاوی علوم پر بحث مباحثہ اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے اخوان الصفا نے بڑا زبردست کام کیا اور تمام مروجہ علوم پر تحقیق کر کے باون (52) رسائل تحریر کئے جنہیں دنیا کا پہلا انسائکلو پیڈیا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بعد میں ان تمام رسائل کا خلاصہ ’’الجامعہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اخوان الصفا کے دانشوروں نے اپنے منشور میں لکھا۔

’’اسلامی شریعت جہالتوں اور گمراہیوں کی آمیزش سے گندی ہو گئی ہے اس کو صرف فلسفے کے ذریعے دھویا اور پاک کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے فلسفہ، اعتقادی علوم و حکمت اور اجتہادی مصلحتوں پر حاوی ہے۔ اب صرف فلسفہ یونان اور شریعت محمدیہ کے امتزاج سے کمال مطلوب حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘

مسلمان حکمران اس تحریک کو مذہب اور سلطنت کے خلاف سمجھتے تھے اس لئے ان رسائل پر پابندی لگا دی گئی جو انیسویں صدی تک برقرار رہی۔ رسائل اخوان الصفا کا دنیا کی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

ایک بڑا فتنہ جو فلسفے کے بد اثر کے نتیجے میں اس دور میں ابھرا وہ باطنیت کا فتنہ تھا۔ ان کے نزدیک قرآن کی آیات کے ایک ظاہری معنی ہوتے ہیں اور ایک باطنی۔ ظاہری معنی عوام الناس کے لئے جبکہ باطنی معانی کا علم اہل علم اور مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے اور باطنی معانی ہی قرآن کا اصل مفہوم اور تشریح ہے۔ اس فتنہ کے ایک بڑا لیڈر حسن بن صباح تھا۔ مولانا عبد الحلیم شرر کا مشہور ناول فردوس بریں فرقہ باطنیہ کی ریشہ دوانیوں کے بارہ میں ہے۔

امام غزالی اور تجدید دین:
دنیائے اسلام میں تجدید دین اور احیائے اسلام کے سلسلے میں ایک بہت بڑا اور معتبر نام امام غزالی کا ہے جو پانچویں صدی ہجری میں پیدا ہوئے اور اس دور میں پیدا ہونے والے فتنوں کا مقابلہ کر کے مسلمانوں کے قلب و ذہن میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کیا اور اسلام کی حقانیت کو دلوں میں راسخ کیا۔ بلاشبہ وہ مجدد وقت تھے۔ امام غزالی کو اپنے دور میں چار بڑے فتنوں کا سامنا تھا۔

  1. فلسفہ اور اس کے مسلمانوں پر بد اثرات
    2. معتزلہ کے افکار و نظریات
    3. اخوان الصفا
    4. فرقہ باطنیہ کی یلغار

امام غزالی سے قبل مسلمان علماء فلسفہ کے اثرات سے مرعوب ہو چکے تھے۔ ان میں کوئی عالم بھی ایسا نہ تھا جو فلسفہ اور علوم اسلامی پر بیک وقت دسترس رکھتا ہو اور فلسفیانہ موشگافیوں کا جواب دے سکے۔ امام غزالی نے جو قرآنی علوم پر دسترس رکھتے تھے فلسفہ کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا اور گہری تحقیق کے نتیجہ میں یونانی فلسفہ اور اس کے مسلمان وکیلوں کوجواب دینے کا فیصلہ کیا۔ غزالی نے اس تحقیق کو اپنی کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ میں بڑی محنت اور غیر جانبداری سے پیش کیا۔ ایک رسالہ ’’معیار العلم‘‘ کے نام سے تحریر کیا جو ارسطو کی منطق اور فلسفے کا صاف اور واضح خلاصہ تھا۔ ان دو ابتدائی تعارفی کتابوں کے بعد امام غزالی نے اپنی وہ شہرہ آفاق کتاب تحریر کی جسے ’’تہافت الفلاسفہ‘‘

(Incoherence of Philosophers)

کا نام دیا جس نے یونانی فلسفے کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔ غزالی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔ ’’پہلی دو کتابوں کی تصنیف کا مقصد وہ بنیاد تیار کرنا تھا جس سے ارسطو کے یا غالبا ً افلاطون کے ان افکار و نظریات کا رد کیا جا سکے جن کی تعبیر اسلام کے دو سب سے ممتاز اور قابل اعتماد فلاسفہ فارابی اور ابن سینا نے کی تھی۔‘‘

تہافت الفلاسفہ میں غزالی نے فلاسفہ کی وہ تمام منطق اور دلائل درج کر دئیے جن پر ان کی الہیات کی بنیاد ہے۔ یہ کل بیس نکات ہیں جن میں سے تین کا تعلق طبیعات سے اور باقی سترہ کا تعلق مابعد الطبیعات (Metaphysics) سے ہے۔ مگر وہ تین بنیادی مسائل جن پر امام غزالی نے فلسفہ کے دلائل کو بنیاد بنا کر انہیں رد کیا وہ یہ تھے:

  1. دنیا یا مادہ (Substance) کا ازلی اور قدیم ہونا۔
    2. خدا کا کلیات کا علم رکھنا اور جزئیات سے بے خبر ہونا۔
    3. قیامت کے دن حشر اجساد کا انکار۔

کتاب کی تمہید میں امام غزالی لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جن کو یہ زعم ہے کہ ان کا دل و دماغ عام آدمیوں سے ممتاز ہے۔ یہ لوگ مذہبی حدود و قیود کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے سقراط و بقراط، افلاطون و ارسطو کے پُر ہیبت نام سُنے اور ان کی شان میں ان کے مقلدوں کی مبالغہ آرائیاں اور قصیدہ خوانیاں سُنیں۔ ان کو معلوم ہوا کہ ریاضیات، منطقیات، طبیعات و الہیات میں اُنہوں نے بڑی موشگافیاں کی ہیں اور ان کا عقل و ذہن میں کوئی ہمسر نہ تھا۔ اس عالی دماغی اور ذہانت کے ساتھ وہ مذاہب اور ان کی تعلیمات کے منکر تھے اور ان کے نزدیک مذہب کے اصول وقواعد مصنوعی اور فرضی ہیں۔ پس انہوں نے بھی تقلید انکار مذہب کو اپنا شعار بنا لیا اور تعلیم یافتہ اور روشن خیال کہلانے کے شوق میں مذاہب کا انکار کرنے لگے تاکہ ان کی سطح عوام سے بلند سمجھی جائے اور وہ بھی علماء و عقلاء کے زمرے میں شمار ہونے لگیں۔ اس بنا پر میں نے ارادہ کیا کہ ان حکماء نے الہیات پر جو کچھ لکھا ہے اس کی غلطیاں دکھاؤں اور ثابت کروں کہ ان کے مسائل اور اصول بازیچہء اطفال اور ان کے بہت سے اقوال و نظریات حد درجہ کے مضحکہ خیز بلکہ عبرت انگیز ہیں۔‘‘

(تہافت الفلاسفہ صفحہ2 – 3)

یہ تحریر واضح طور پر اس امر کی دلیل ہے کہ امام غزالی فلسفہ سے مرعوب ہونے کی بجائے اور معذرت خواہانہ یا مدافعانہ لہجہ اپنانے کی بجائے جارحانہ انداز میں فلسفہ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے اور مذہب کی سچائی ثابت کرنے کا پختہ ارادہ لے کر اُٹھے اور درحقیقت وہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا کہ اس کے بعد یونانی فلسفے کا سحر باطل ہو کر رہ گیا۔ غزالی نے مسلمان فلا سفروں پر جو یونانی فلسفہ سے مرعوب اور اس کے وکیل بنے ہوئے تھے بڑی کاری ضرب لگائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد سے لے کر اب تک یونانی فلسفہ مسلمان ذہنوں پر کوئی گمراہ کن اثر ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ کے دندان شکن لب ولہجہ کا اثر تھا کہ قریباً ایک صدی تک اس کا کوئی معقول جواب لکھنے کی کسی میں جراٴت نہ ہوئی۔

مغربی مفکرین نے امام غزالی کو اسلامی دنیا میں سائنسی علوم کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حتی کہ پاکستان کے نامور سائنسدان اور ماہر تعلیم پرویز ہود بھائی نے اپنی کتاب Islam And Science: Religious Orthodoxy And The Battle For Rationality میں امام غزالی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں سائنس اور فلسفہ کا دشمن قرار دیا اور لکھا کہ غزالی نے سائنس کی قربانی دے کر رجعت پسندی کو بچا لیا اور تعقل پر مبنی فلسفہ کے خلاف منظم بغاوت کی جو کہ کامیاب ہوئی۔

بر صغیر کے معروف قانون دان اور جدید نظریات کے حامل اسکالر اور موٴرخ سید امیر علی نے بھی اپنی معروف کتاب The Spirit Of Islam میں امام غزالی کو اسلام میں سائنس اور عقلیت پسندی کے زوال کا سبب قرار دیا ہے۔ سید امیر علی اشعری اور غزالی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’یہ دونوں بزرگ سائنس اور فلسفہ کی مذمت کر کے اور اس پر زور دے کے کہ دینیات اور فقہ کے علاوہ کوئی علم قابل تحصیل نہیں، اسلامی دنیا کی ترقی کو مسدود کرنے میں سبقت لے گئے۔ ان کی مثال آج تک جہالت اور ذہنی جمود کے جواز میں پیش کی جاتی ہے۔‘‘

امام غزالی کے معتقدین کہتے ہیں کہ امام غزالی نے فلسفہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ مسلمان فلاسفہ (فارابی اور بو علی سینا) کے ان الہیاتی نتائج پر تنقید کی ہے جو اسلام کے بنیادی مقدمات سے متصادم ہو رہے تھے۔

ابن رُشد

چھٹی صدی ہجری کے ممتاز اور نامور مسلمان فلسفی ابن رُشد نے امام غزالی کی اس کتاب کے جواب میں ’’تہافت التہافت‘‘ لکھی اورغزالی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ابن رُشد کا کہنا تھا کہ غزالی نے ارسطو کو فارابی اور ابن سینا کے حوالے سے جانا اور اس کو غلط قرار دیا جبکہ ان دونوں نے خود ارسطو کے نظریات کو سمجھنے میں غلطی کی اور فلاطینوس (Plotinus) کے نظریات کو ارسطو کی طرف منسوب کر دیا۔ چنانچہ اس حوالے سے غزالی کی تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ابن رشد کا خیال تھا کہ جس طرح ارسطو کو وہ سمجھے ہیں دوسرا کوئی مسلم فلاسفر اس طرح نہیں سمجھا۔ ابن رشد نے ارسطو کے فلسفے پر بڑی زبردست (Commentaries) لکھیں۔ بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں یورپ کو ارسطو کے اصل کام سے متعارف کروانے میں ابن رشد کی یہی تفاسیر تھیں۔ اسی لئے یورپ میں ابن رُشد کو Averroes Thecommentator کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ الغزالی کی فلسفہ پر زبردست تنقید کے نتیجے میں کم ازکم عرب دنیا میں یونانی فلسفے کا اثر ٹوٹ گیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ابن رشد کے فلسفہ کی بھی مسلم دنیا میں زیادہ پزیرائی نہ ہوئی اور اس کے برعکس یورپ میں ان کی قدرو منزلت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ ارسطو نے مادہ کو ازلی اور ابدی (Eternal) کہا تھا اسی طرح ابن رشد نے بھی ارسطو کے اس فلسفہ سے اتفاق کیا۔

دوسری اہم بات ارسطو نے کہی تھی کہ انسان کی روح جسم کے مرنے کے ساتھ ہی مر جاتی ہے ابن رشد نے اس سے کسی حد تک اختلاف کیا۔ ابن رشد کا کہنا تھا کہ کسی انسان کے اندر کوئی انفرادی روح نہیں ہوتی بلکہ یہ عقل فعال (Active Intellect) کے ایک حصے کے طور پر ہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور روز قیامت کوئی روح انفرادی طور پر نہیں بلکہ تمام انسانوں کی ایک مجموعی روح کے طور پر خدا کی طرف واپس جائے گی۔

الغزالی اور ابن رُشد کے اس قضیے نے مسلم دانشوروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اور یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ اگر مسلم دنیا غزالی کی جگہ ابن رشد کو اپنا امام اور راہبر مان لیتی تو مسلمان کبھی اُس پستی کا شکار نہ ہوتے جس کا انہیں آج سامنا ہے۔ ابن رُشد کے چاہنے والے کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ غزالی نے تجدید دین کا کام کیا مگر اس کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیل دیا جبکہ ابن رُشد نے عقل و شعور اور دانش کے ساتھ فلسفے اور اسلام کے درمیان تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ان کی قدر نہ کی گئی۔ دوسری طرف امام غزالی کے معتقدین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غزالی نے صرف فلسفہ کو ہدف تنقید بنایا اور باقی دنیاوی علوم کے حصول اور ترقی کو کبھی غلط قرار نہیں دیا۔

ہمارے نزدیک دونوں شخصیات بہت محترم اور معتبر ہیں اور ہم دونوں کی علمی کاوشوں کے معترف ہیں۔ بہرحال امام غزالی کی فلسفہ پر تنقید کے نتیجے میں مسلم خصوصا عرب دنیا میں فلسفہ کے اثرات کمزور پڑ گئے اور اس کی جگہ صوفی ازم نے لے لی۔

شہاب الدین سُہروردی

چھٹی صدی ہجری کی ایک معروف شخصیت شہاب الدین سُہروردی المقتول (586ھ۔ 549ھ) ہیں جنہوں نے فلسفہ اشراق کی بنیاد رکھی۔ اس نظریے میں فلسفے اور تصوف کو عقلی استدلال اور باطنی مشاہدے کے ذریعے جمع کیا گیا ہے۔ اس نظریے کو حکمت اشراق بھی کہتے ہیں اور اس کے متبعین اشراقی کہلاتے ہیں۔ اشراقین کا کہنا ہے کہ وجود نور ہے جس کے کئی مراتب ہیں۔ اس کی حقیقت ایسا نورالانوار ہے کہ جس سے صرف نور ہی حاصل ہوتا ہے۔ شہاب الدین سہروردی نے نورالانوار سے حاصل ہونے والے پہلے نور کو ’’نور اقرب‘‘ کا نام دیا جس کا تعلق نورالانوار سے ایسا ہے جیسا سورج کے ساتھ اس سے نکلنے والی شعاؤں کا ہوتا ہے۔ اس طرح تمام موجودات اسی نور سے تخلیق پاتے ہیں جن میں نور کی شدت مختلف ہوتی ہے۔ سہروردی کے نزدیک ان انوار سے عالم مثال اور عالم روح صادر ہوتے ہیں اور پھر عالم حس کا صدور ہوتا ہے۔ یعنی کل تین عالم ہیں۔ عالم انوار، عالم مثال اور عالم حس۔ شہاب الدین سہروردی کا نظریہ قرآنی آیت اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ کی تفسیر کی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر درحقیقت اس میں نو افلاطونی نظریہ Emanation کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے کیونکہ تمام عالم کسی تخلیق کا نتیجہ نہیں بلکہ نورالانوار سے بغیر ارادہ اور قصد کے ظہور پزیر ہوئے ہیں۔

نظریہ وحدت الوجود اور مسلمان صوفیاء

یونانی فلسفے نے نہ صرف مسلمان مفکرین کے ذہنوں کو آلودہ کیا بلکہ صوفیا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے عہد (تیسری صدی ہجری) میں یونانی فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا تو عربوں میں اس کے اثرات نمودار ہوئے۔ اسلام کی پہلی دو صدیوں میں وحدت الوجود کے کسی فلسفے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے جن صوفیاء نے اس کا پرچار کیا ان میں جو نمایاں نام سامنے آئے وہ یہ تھے:

1. ذوالنون مصری

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پہلے بزرگ جن کی ذات سے نظریہ وحدت الوجود کے خیالات منسوب ہیں، ذوالنون مصری ہیں جن کی پیدائش 179 ھ میں اور وفات 245 ھ میں ہوئی۔ چونکہ Plotinus کا تعلق بھی مصر سے تھا اور اس کے نظریات کافی حد تک پھیل چکے تھے اس لئے ذوالنون مصری بھی اس کا شکار ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’اللہ سے جو محبت کی جاتی ہے وہ انسان کو انجام کار اس سے متحد کر دیتی ہے۔ انسان ذات خداوندی میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس کی ذات اپنی ذات نہیں رہتی بلکہ ذات خداوندی کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔‘‘

2. بایزید بسطامی

زمرہء صوفیاء میں بایزید بسطامی کو ایک بلند مقام حاصل ہے ان کی پیدائش 191ھ میں اور وفات 261 ھ میں ہوئی۔ ان کے بارہ میں جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ ہم میں ابو یزید کو وہ درجہ حاصل ہے جو ملائکہ میں جبریل کو حاصل ہے۔ بایزید بسطامی کے بارہ میں جو روایت ملتی ہے اس کے مطابق وہ فرماتے ہیں:۔
’’سانپ کی کینچلی اُتارنے کی مانند میں بایزید سے نکلا تو دیکھا کہ عاشق و معشوق ایک ہی ہیں۔ کیونکہ توحید کے عالم میں ایک ہی کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

’’بہت سے مقامات مجھے نظر آئے لیکن جب غور کیا تو اپنے آپ کو صرف اللہ کے مقام میں پایا۔‘‘

’’مدت تک میں خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہا لیکن جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ خود میرا طواف کرنے لگا۔‘‘

ایک دفعہ آپ نے عالم بے خودی میں کہہ دیا ’’سُبْحَانِی مَا اَعْظَمُ شَاْنِی‘‘ یعنی تعریف میری ہی ہے۔ کیا بڑی ہے شان میری۔

3. جنید بغدادی

آپ کی پیدائش 220ھ میں ہوئی۔ حضرت داتا گنج بخش نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں آپ کو ’’امام الا ئمۃ‘‘ لکھا ہے۔ آپ نے فرمایا! ’’معرفت خدا کی طرف مشغول ہونے کو کہتے ہیں۔ معرفت ایک گونہ امتحان ہے۔ یعنی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ عارف ہے وہ دھوکے میں ہے، اس لئے کہ عارف و معروف درحقیقت وہی ہے۔‘‘

’’علم ایک محیط چیز ہے اور معرفت بھی محیط ہے پھر خدا کہاں اور بندہ کہاں، پس عارف و معروف ایک ہے۔‘‘

(جاری ہے)

(ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر۔ موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2022