• 25 اپریل, 2024

مشورہ کی اہمیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’افسوس ہے کہ بعض لوگ پہلے مشورہ نہیں لیتے۔ مشورہ ایک بڑی بابرکت چیز ہے۔ اس پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالی خود اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ مشورہ کیا کرے تو پھر دوسروں کے لئے یہ حکم کس قدر زیادہ تاکیدی ہوسکتا ہے۔ جو اللہ کا رسول نہیں ہے خود جس کو اللہ تعالی براہ راست بھی ہدایت دیتا ہے، ایسا شخص کیسے مشورہ سے احتراز کرسکتا ہے۔ آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو مشورہ پوچھتے ہیں یا پوچھتے ہیں تو پھر مانتے نہیں۔ یہ بات میرے تجربے میں بھی آئی ہے۔ یہ نامناسب حرکت ہے یا تو مشورہ لیا ہی نہ کریں لیکن جب مشورہ لیا کریں تو اس کو قبول کرنا آپ کے لئے ضروری ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا ‘‘ تو پھر ایسی بات کی لوگ سزا بھی پاتے ہیں۔ ایسوں کے حالات سے زیادہ تر وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عبرت حاصل کریں ۔‘‘

(ملفوظات جلد5 ص532)

‘‘خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت ﷺ پر بولاگیا ہے۔ بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خَاتَمُ الْکُتُبْ۔ اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قدر قوت و شوکت اس کلام کی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہو ئی تھی۔ اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہو چکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے۔آپؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 26)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020