• 20 اپریل, 2024

نمائندگان شوریٰ کی ذمہ داری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوریٰ بھی ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کرکے اس پر توجہ دلائیں۔ نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہدیدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتاًفوقتاً مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے، خلیفۂ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے۔پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں۔ بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر باوجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں دیتے اور اپنے دوسرے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور شوریٰ کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوریٰ کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں۔ اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں… پھر شوریٰ کے نمائندگان اور عہدیداران کو چاہے وہ مقامی جماعتوں کے ہوں یا مرکزی انجمنوں کے ہوں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی نظر میں آپ جماعت کا ایک بہترین حصہ ہیں جن کے سپرد جماعت کی خدمت کا کام کیا گیا ہے۔ اور آپ لوگوں سے یہ امید اورتوقع کی جاتی ہے کہ آپ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہو گا اور ہونا چاہئے۔ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو، عبادت کرنے کی طرف توجہ دینے کے بارے میں ہو، یا بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو،یا خلیفہ وقت سے تعلق اور اطاعت کے بار ے میں ہو۔اس لئے نمائندگان اور عہدیداران کواس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں…پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوریٰ کے لئے آتے ہیں…

ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی… نمازیں پڑھنی ہیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہرنمائندے کو،ہر عہدیدار کو،باقاعدہ نماز باجماعت کا عادی ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیں،اپنا محاسبہ کریں، دین کی سربلندی کی خاطر آپ کے سپرد بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں۔ اگران میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے۔ جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہوسکتے…

ایک بات میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، شوریٰ کے ممبران کے لئے دوبارہ یاددہانی کروا رہا ہوں کہ شوریٰ کی بحث کے دوران جب اپنی رائے دینا چاہتے ہیں تو رائے دینے سے پہلے اس تجویز کے سارے اچھے اور برے پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے دیں نہ کہ کسی دوسرے کی رائے دینے والے کے فقرہ کو اٹھا کر جوش میں آ جائیں۔سمجھ بوجھ رکھنے والی شرط بھی اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے رائے دیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اظہار رائے کے وقت کسی کے جوشِ خطابت سے متاثر ہو کر اس طرف نہ جھک جائیں۔ یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی رائے سن کر اس پر صاد نہ کر دیں، اس کی بات نہ مان لیں۔ بلکہ رائے کو پرکھیں اور اگر معمولی اختلاف ہو تو بلاوجہ کج بحثی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر واضح فرق ہو، آپ کے پاس زیادہ مضبوط دلیلیں ہوں یا دوسرے کی دلیل زیادہ اچھی ہو تو ضروری نہیں وہاں کسی رائے دینے والے سے تعلق کا اظہار کیا جائے…پھر میں کہتاہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کریں، اس کو سمجھیں اور خدا سے مدد مانگتے ہوئے شوریٰ کے دنوں میں اپنے اجلاس کے اوقات …بھی اور فارغ اوقات …بھی دعاؤں میں گزاریں۔ اور جب اپنی جماعت میں جائیں تو وہاں بھی آپ میں اس تبدیلی کا اثر مستقل نظر آتا ہو۔ یاد رکھیں کہ ہوشیاری، چالاکی یا علم سے نہ احمدیت کا غلبہ ہونا ہے، نہ کوئی انقلاب آنا ہے۔ اگر دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا ہونی ہے تو وہ دعاؤں سے اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہونی ہے جواللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہو گی… اللہ سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ 24مارچ 2006ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020