• 16 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 8)

ارشاداتِ نور
قسط 8

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

وقت معین کی قدر کرو

فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال بد پر پکڑنے لگے تو کوئی ایک جاندار بھی زمین پر باقی نہ رہے۔ کُل چرند و پرند جو انسان ہی کے لیے خادم پیدا کیے گئے تھے وہ بھی ساتھ ہی نیست کر دئیے جاویں۔ یہ اس کا بڑا فضل ہے کہ ایک وقت معین تک مہلت دی گئی ہے اس کی قدر کرو۔ جب اجل مقدر آ پہنچے گی تو کیا معلوم کہاں پہنچائے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ ہی خبیر و بصیر ہے کہ کیا معاملہ اس کے ساتھ ہو گا۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ10)

دعا اور استخارہ کرنے کی تحریک

فرمایا۔ انسان بالطبع سکھ اور آرام کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ کوئی نوکری کرتا ہے تو اپنے آرام کو نوکری کے متعلق سوچ لیتا ہے۔ نکاح کرتا ہے تو نکاح میں بھی سکھ و آرام کو سوچ لیتا ہے۔ لڑکے مڈل تک ہی تعلیم میں جب پہنچتے ہیں تو دل میں کیا کیا خیال کر لیتے ہیں کہ ہم کیا کیا ہو جائیں گے۔ کوئی تو یوں سمجھ لیتا ہے کہ میں ڈپٹی کمشنر ہو جاؤں گا۔ یہ سب خیالی خوشیاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، معلوم نہیں کہ کس کام میں ہمیں سکھ ملے گا اور کس کام میں دکھ۔ پس چاہئے کہ کثرت سے دعاؤں اور استخارات کو کیا کرو۔ ملازمت کرو تو کثرت سے استخارات پہلے کر لو۔ تجارت کرو تو پہلے استخارات کر لو۔ حقیقی سکھ اور دکھ کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ12)

کلیاتِ خمسہ

فرمایا۔ مومن کو چاہئے کہ ہر وقت کلیا تِ خمسہ کا پابند رہے۔ ایمان کی حفاظت، نفس کی حفاظت، مال کی حفاظت، عزت کی حفاظت، عقل کی حفاظت۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ13)

نصیحت کی بجائے دعا

فرمایا۔ بعض لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں۔ کہ ہم کو یہ بدکار سمجھتے ہیں۔ ایک وقت مجھے خیال ہوا کہ کسی شخص کو بہت نصیحت کروں۔ مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا معلوم ہوا کہ اس کو نصیحت نہ کی جائے اگر یہ نہ مانے گا تو تجھے جوش آ جائے گا اور اسے ندامت ہو گی۔ البتہ دعا کر، ہمارا اختیار ہے چاہیں تو قبول کریں گے یا نہیں۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ13)

گناہ سے نفرت کس طرح ہو؟

ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا طریق بتلائیں جس سے گناہ سے قطعی نفرت ہو جاوے۔

فرمایا نیکوں کی صحبت اختیار کرو اور موت کو یاد رکھو۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ53)

بنی اسرائیل کون ہے؟

فرمایا۔ قرآن شریف میں جہاں اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ مثلاً یَا بَنِیٓ اِسْرَآئِیْلَ۔ اے بنی اسرائیل۔ وہاں مخاطب کون ہے؟ کیا ہمارے قرآن سنانے کے وقت کوئی یہودی سامنے ہے یا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہود جمع رہتے تھے؟ نہیں بلکہ وہاں تو اکثر صحابہ ہی جمع رہتے تھے۔ پس ان الفاظ کے مخاطب بھی ہم ہی ہیں۔ یہ بھی عرب میں بیان کا ایک طریقہ تھا۔ شاعر کسی پڑوسن کا نام لے کر کچھ بات کرتا اور اصل مطلب محبوبہ کو مخاطب کرنا ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صاف روایت ہے کہ مَضَوْا۔ وہ قوم چلی گئی اب تم مراد رکھے گئے ہو۔ اسرائیل کے معنی ہیں خدا کا بہادر سپاہی۔ تم بہادر سپاہی کی اولاد ہو بہادر بنو۔ ان نعمتوں کو یاد کرو جو خدا نے تم پر کیں۔ خدا کے عہد کو پورا کرو۔ مجھے تو ان آیات کو پڑھ کر بہت حیرانی اور دکھ ہوتا ہے کہ مسلمان ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ58)

حضرت علیؓ کی انصاف پسندی

فرمایا۔ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ اور ایک یہودی کا آپس میں مقدمہ تھا جو حضرت عمرؓ کے پاس دائر ہوا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ ابو الحسن اٹھو اور بیان دو۔ غرض یہ کہ وہ اٹھے اور انہوں نے بیان دیا۔ جب فیصلہ ہو چکا تو حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو پوچھا کہ آپ کو برا تو نہیں لگا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں برا تو لگا ہے۔ حضرت عمرؓ نے خیال کیا کہ شاید کھڑا ہونے کو برا مانا ہے۔ مگر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ مجھے یہ برا لگا ہے کہ آپ نے مجھے تو ابو الحسن کر کے پکارا اور اعزاز دیا اور میرے مدعی کو یہودی نام لے کر پکارا۔ یہ عدل نہیں ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ60)

تکرار مضامین قرآنی کی حکمت

فرمایا۔ بعض لوگ نادانی سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں بار بار ایک ہی مضمون کیوں ہے۔ دیکھو! یہ انسان کی فطرتی بات ہے جس طرح بار بار سانس لینے کی، کھانے کی، پینے کی، ضروری حاجات کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح قرآن پاک کی نصائح سے سیاہی دل کی دور ہوتی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ68)

متقی کی تین صفات

فرمایا۔ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) میں جو دعا ہے اگر مقبول ہو جاوے تو انسان متقی بن جاتا ہے۔ متقی کی تین صفتیں ہیں۔

متقی وہ ہے جو غیب سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔

جس طرح ہو سکے نماز قائم رکھے اور اسے سنوار کر ادا کرتا رہے۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے۔ دینی چندہ دینے میں سست نہ ہو۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ71)

نبی اور رسول کو پہچاننے کا معیار

فرمایا۔ نبی اور رسول کو سچا پہچاننے کا پختہ معیار یہ جان لینا چاہئے کہ اوّل تو یہ لوگ اگلے نبیوں کی ہدایات پر قائم رہتے ہیں۔ ان کی تعلیم ایک ہی ہوتی ہے یعنی خداوند کریم کو ایک مانو، اس کے احکام پر چلو۔ دوم۔ یہ لوگ مخلوق کے بہت خیر خواہ ہوتے ہیں۔ کوئی انہیں ستائے، مارے، تکلیفیں دے مگر ان کے لیے دعائے نیک مانگتے ہیں۔ ہاں کوئی سخت تکالیف دینے میں حد سے گزر جائے تو معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ سوم۔ اس شہر کے امیر لوگ ان کی پرواہ نہیں کرتے، غریب لوگ ساتھ دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا نہ ہو تو پھر اسے بر خلاف جاننا چاہئے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ81)

(مرسلہ: فائقہ بُشریٰ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2022