• 24 اپریل, 2024

سود کی ممانعت

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سؤر کھانے کی تو بھوک کی حالت میں، اضطرار کی حالت میں جب انسان بھوک سے مر رہا ہو، اجازت ہے لیکن سود کی تو بالکل اجازت نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو سود پر قرض لینے والوں کو بھی اس زمرہ میں رکھا ہے جو خدا سے جنگ کرتے ہیں اور سود پر قرض دینے والا تو کھڑا ہی خدا کے حکم کے خلاف ہے۔

بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہو گا۔ تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے۔ یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سود کی جو تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا یا کسی کو رقم دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے، تو فائدہ مقرر کرنایا منافع مقرر کرنا سود کی شکل ہے۔ آپؑ نے فرمایا“یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 160)

پس اس تعریف کے لحاظ سے منافع رکھ کر یعنی پہلے سے منافع معین کرکے کسی کو قرض دینا یا رقم دینا یا تجارت میں لگانا، یہ سب چیزیں سود ہیں۔ نفع نقصان پہ جو آپ لگاتے ہیں جو اسلام کا حکم ہے وہ ٹھیک ہے، وہ جائز ہے، وہ تجارت ہے۔ تو ایسے لوگ جو تجارت اور سود کو ایک ہی طرح سمجھتے ہیں، قرآن نے ان کو سخت غلطی خوردہ بتایا ہے اور ایسے لوگوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرہ:276) کہ وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہو جسے شیطان نے اپنے مس سے حواس باختہ کر دیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقیناً تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پس جس کے پاس اس کے ربّ کی طرف سے نصیحت آ جائے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا رہے گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ پس یہ نقشہ ہے سُود لینے والوں کا کہ مفت کی کمائی سے ان کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ دوسرے کے جذبات کا خیال نہیں رہتا۔ اگر ایک غریب کسان یا مزدور اپنی فصل خراب ہونے کی وجہ سے یا گھر کے بعض غیر معمولی اخراجات ہونے کی وجہ سے قرض واپس نہیں کر سکا تو ایسے شخص کو اس غریب کا کوئی خیال نہیں ہوتا جس کا سُود لینے پر دل سخت ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کو صرف اپنے پیسے سے غرض ہوتی ہے اور اگر نہیں ادا کر سکتے تو پھر اس رقم پر سُود دَر سُود چلتا چلا جاتا ہے اور غریب پستا چلا جاتا ہے۔

پس قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے یہ جو حکم ہے کہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ اسلام مواخات کے ذریعے سے، بھائی چارے کے ذریعہ سے امن اور سلامتی پھیلانا چاہتا ہے اور مواخات کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب غریب کا خیال رکھا جائے، اس پر بلاوجہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے، بلکہ آسان شرائط پر اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ بلکہ زیادہ مستحسن یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کا پیسہ پڑا رہتا ہے وہ اپنے پیسے کو رکھنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ جن میں کاروباری صلاحیت ہو، کاروبار میں لگائیں۔ بعض مسلمان ملکوں میں اب غیر سودی قرض کی سہولتیں دی جا رہی ہیں بلکہ یہاں بھی اسلامک بینکنگ (Islamic Banking) کے نام سے غیر سودی قرضے متعارف ہو رہے ہیں (گو ابھی اس کی ابتدا ہی ہے) اور ہمارے احمدی، احمد سلام صاحب، جو ڈاکٹر سلام صاحب کے بیٹے ہیں، انہوں نے بلا سودی بینکاری پر کافی کام کیا ہے۔ تو ان مغربی ممالک میں بھی ایسے احمدی جن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ بنک کی شرائط پوری کرتے ہیں اور کاروبار بھی کرنا جانتے ہوں یا ان کے کچھ کاروبار ہوں توانہیں اپنے کاروبار اس طرح کے قرض لے کر بنانے اور بڑھانے چاہئیں۔ اس طرح جہاں وہ سود سے پاک کاروبار کریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو سمیٹنے والے بھی ہوں گے اور اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے والے بھی ہوں گے۔ ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی استطاعت بھی بڑھے گی۔ اگر ایسا کاروبار ہو گا جس میں ملازمین رکھنے کی گنجائش ہے تو ملازمین رکھ کر چند بے روزگاروں کو روزگار بھی مہیا کر رہے ہوں گے۔ یہاں اب اس طرف کافی توجہ پیدا ہو رہی ہے، شاید یورپ اور اور جگہوں میں بھی ہو، اس لئے احمدیوں کو بھی اس طرف کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 15جون2007ء)

پچھلا پڑھیں

مکرمہ مسرت ماجد میری پیاری امی اہلیہ مکرم شیخ عبدالماجد کاتب

اگلا پڑھیں

دُنیا بھر میں کورونا میں مبتلا احمدیوں کے لئے دُعا کی تحریک