• 18 اپریل, 2024

قرآن کریم کی روحانی اور مادی تاثیرات

قسط7 آخر

تسلسل کےلئے دیکھئے15مئی2020

اور سورہ اخلاص،سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُلَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْوَلَمْ یَكُنْ لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ  اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنیوالا ، بِن مانگے دینے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔تو کہہ کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں (اور وہ کسی کا محتاج نہیں) نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہےاور (اس کی صفات میں) اس کا کوئی شریک کار نہیں۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِمِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِوَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَاللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنیوالا، بن مانگے دینے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے۔تو کہہ کہ مَیں مخلوقات کے ربّ سے ( اُ س کی ) پناہ طلب کرتا ہوں۔ اُس کی ہر مخلوق کی (ظاہری وباطنی) بُرائی سے بچنے کے لئے اور اندھیرا کرنے والے کی ہر شرارت سے (بچنے کے لئے) جب وہ اندھیرا کر دیتا ہے اور تمام ایسے نفوس کی شرارت سے (بچنے کے لئے بھی)جو (باہمی تعلقات کی) گرہ میں (تعلق تڑوانے کی نیّت سے) پھونکیں مارتے ہیں اور ہر حاسد کی شرارت سے (بھی) جب وہ حسد پر تل جاتا ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِمَلِكِ النَّاسِ اِلٰهِ النَّاسِمِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِاَلَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُوْرِ النَّاسِمِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۔اللہ کے نام کے ساتھ جو بےانتہا رحم کرنیوالا،بن مانگے دینے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔تو کہہ کہ میں تمام انسانوں کے رب سے (اس کی) پناہ طلب کرتا ہوں (وہ رب) جو تمام انسانوں کا بادشاہ (بھی) ہے۔اور تمام انسانوں کا معبود (بھی) ہے (میں اس کی پناہ طلب کرتا ہوں)ہر وسوسہ ڈالنے والے کی شرارت سے جو(ہر قسم کے وسوسے ڈال کر)پیچھے ہٹ جاتاہے۔(اور)جو انسانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیتا ہے۔خواہ وہ(فتنہ پرداز) مخفی رہنے والی ہستیوں میں سے ہو۔ خواہ عام انسانوں میں سے ہو۔

الغرض رسول کریمﷺ نے آسیب زدہ شخص کی بیماری کے علاج کے لئے مذکورہ بالا آیات کا انتخاب فرمایا جو شرک سے بیزاری اور توحید کے مضمون پر قرآن شریف سےایک بہترین اور اعلیٰ درجہ کا انتخاب ہے۔اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ آسیب اور جادو وغیرہ فی الحقیقت کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان ویقین اور اس سے دعا کے ذریعہ مدد طلب کرنے کے نتیجہ میں انسان کی بیماریاں، کمزوریاں دُور ہوسکتی ہیں۔

سورۃالانعام میں شفاکی تاثیر

حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے ایک بیمار پر ساری رات سورۃالانعام کی تلاوت کی تو صبح تک اُسے شفا ہوگئی۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص436)

سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کااثر

حضرت ابن عباسؓ سے مرفوع روایت ہے کہ یہ آیت چوری سے امان کا ذریعہ ہے۔ قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا (بنی اسرائیل:111)تو کہہ دے کہ خواہ اللہ کو پکارو خواہ رحمان کو۔جس نام سے بھی تم پُکارو سب اچھے نام اُسی کے ہیں اور اپنی نماز نہ بہت اُونچی آواز میں پڑھ اور نہ اُسے بہت دھیما کر اور اُن کے درمیان کی راہ اختیار کر۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص437)

سورۃ الکہف کی آیات کی برکت

حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے سورۃ الکہف کی پہلی تین آیات تلاوت کیں وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔

(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ الکہف)

حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات یاد کیں وہ دجال سے بچایا جائےگا۔

(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین باب فضل سورۃ الکہف)

یاد رہے کہ سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیات میں توحید کے ثبوت، شرک کے ردّ اور عیسائیت کے عقائد کفارہ اور الوہیت مسیح کی تردید ہے۔اس علاج سے ظاہر ہے کہ دجال کی بیماری سے مُراد دراصل عیسائیت کا مذہبی فتنہ اور اس کے بَداثرات سے بچاؤ ہے۔

سورہ الانبیاء کی آیت کی تاثیر

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ مچھلی والے(حضرت یونسؑ) نے مچھلی کے پیٹ کے اندھیرے میں جو پُکار کی تھی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (الانبیاء:88) کہ کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔تُو پاک ہے۔یقیناً میں ہی ظالموں میں سے تھا۔

کوئی مسلمان کسی معاملہ میں یہ دُعا کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرماتا ہے۔

(مستدرک حاکم کتاب الدعاجلد1ص684۔تفسیر قرطبی جلد11ص334)

دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ (دُعا) کاعلم ہے اگرکوئی مصیبت زدہ وہ پڑھے تو اس کی مصیبت دُور کی جاتی ہے اور وہ میرے بھائی حضرت یونسؑ کی دُعا ہے۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (الانبیاء:88)کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر تُو۔تُو پاک ہے۔مَیں ظالموں میں سے ہوں۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص438)

سورۃالشعراء کی آیت131 وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ کا اثر

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم گرفت کرتے ہوتوزبردست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہو۔ قرآن شریف میں مشرکین کو خطاب کی صورت میں یہ آیت محل ذمّ میں ہے۔لیکن جب حقیقی مومن خدا کی ذات میں گم ہوکر دُعا کی توجہ سے دیگر صفاتِ الہٰیہ کے ساتھ اس صفت جبار کو بھی اختیار کرتا ہے تو وہ لازماً اپنا اثر دکھاتی ہے۔اس آیت کی مادی تاثیر کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑنے یہ دلچسپ سچی کہانی بیان فرمائی ہے۔

“ڈاکٹر برنی آر نے اپنے سفرنامہ کشمیر میں پیر پنجال کی چڑھائی کی تقریب بیان پر بطور ایک عجیب حکایت کے لکھا ہے جو ترجمہ کتاب مذکور کے صفحہ 80 میں درج ہے کہ ایک جگہ پتھروں کے ہلانے جلانے سے ہم کو ایک بڑا سیاہ بچھو نظر پڑا جس کو ایک نوجوان مغل نے جو میری جان پہچان والوں میں سے تھا، اُٹھا کر اپنی مٹھی میں دبالیا اور پھر میرے نوکر کے اور میرے ہاتھ میں دے دیا مگر اُس نے ہم میں سے کسی کو بھی نہ کاٹا۔اُس نوجوان سوار نے اس کا باعث یہ بیان کیا کہ مَیں نے اس پر قرآن کی ایک آیت پڑھ کر پھونک دی ہے اور اسی عمل سے اکثر بچھوؤں کو پکڑلیتا ہوں اور صاحب کتاب فتوحات و فصوص جو ایک بڑا بھارا نامی فاضل اور علوم فلسفہ وتصوف میں بڑا ماہر ہے وہ اپنی کتاب فتوحات میں لکھتا ہے کہ ہمارے مکان پر ایک فلسفی اور کسی دوسرے کی خاصیت احراق آگ میں کچھ بحث ہوکر اس دوسرے شخص نے یہ عجیب بات دکھلائی کہ فلسفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کوئلوں کی آگ میں جو ہمارے سامنے مجمر میں پڑی ہوئی تھی ڈال دیا اور کچھ عرصہ اپنا اور فلسفی کا ہاتھ آگ پر رہنے دیا۔ مگر آگ نے ان دونوں ہاتھوں میں سے کسی پر ایک ذرا بھی اثر نہ کیا اور راقم اس رسالہ نے ایک درویش کو دیکھا کہ وہ سخت گرمی کے موسم میں یہ آیت قرآنی پڑھ کر وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ زنبور کو پکڑلیتا تھا اور اس کی نیش زنی سے بکلّی محفوظ رہتا تھا اور خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جل شانہٗ معلوم ہوتے ہیں۔”

(سرمۂ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد2ص100)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں اپنایہ ذاتی تجربہ بھی بیان فرمایا۔

“اب یہ جو واقعہ ہے اس کو ہم نے خودبچپن میں تجربہ کرکے دیکھا ہےاورحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خاص طور پر مجھے یہ ترکیب بتائی کہ اگر یہ آیت وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ پڑھ کر بھونڈ جن کے اندر ابھی ڈنک ہوتا ہےان کو پکڑلیا جائے تو وہ کاٹتےنہیں ہیں اوربار بار میں نے ایسا کیا ہے۔ایک دفعہ نہیں بہت مرتبہ۔کس طرح ان بھونڈوں کو پکڑا اور اُنہوں نے کاٹانہیں۔تو یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے کرشمے ہیں۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12۔اپریل2002ء)

سورۂ الٓمٓ السّجدہ اور سورہٴ ملک کی برکت

سورۂ الٓمٓ السّجدہ اور سورہٴ ملک کی برکت

حضرت جابر سے روایت ہے کہ سونے سے قبل آنحضرت ﷺسورۂ الٓمٓ السجدہ اور سورہٴ ملک کی تلاوت کرتے تھے۔

( ترمذی کتاب الدعوات باب 22)

حضرت خالد بن معدانؓ سے منقول ہے کہ اُنہوں نے فرمایا۔ (رات کے ابتدائی حصہ میں) اس سورۃ کو پڑھا کرو جو (قبر و حشر کے) عذاب سے نجات دینے والی ہے اور وہ سورۃ الٓمٓ تنزیل ہے کیونکہ (صحابہؓ سے) مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص تھا جو یہی سورۃ پڑھا کرتا تھا وہ اس سورۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تھااور وہ شخص بہت زیادہ گنہگار تھا، چنانچہ جب اُس شخص کا انتقال ہوا تواس سورت نے اُس پر اپنے بازو پھیلا دئیے اور فریاد کی کہ اے میرے پروردگار! اس شخص کی بخشش فرما کیونکہ یہ مجھے بہت زیادہ پڑھا کرتا تھا۔ اللہ نے اُس شخص کے حق میں اس سورت کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کے نامہ اعمال میں اس کے ہر گناہ کے بدلہ نیکی لکھ دو اور اس کے درجات بلند کر دو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ بے شک یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے قبر میں جھگڑتی ہے کہ یا الٰہی! اگر مَیں تیری کتاب (قرآن کریم) میں سے ہوں جو لوح محفوظ میں لکھا ہے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اگر میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس میں سے مٹا دے۔ نیز حضرت خالدؓ نے فرمایا یہ سورت قبر میں ایک پرندہ کی مانند آئے گی اور اس پر اپنے بازو پھیلا کر اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کرے گی۔ حضرت خالد ؓنے سورۃ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ کے بارہ میں بھی یہی کہا ہے کہ اس سورۃ کی بھی یہی تاثیر اور برکت ہے حضرت خالدؓ کا معمول یہ تھا کہ وہ یہ دونوں سورتیں پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔

(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فی فضل سورۃ تنزیل السجدہ)

سورۂ یٰسٓ

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ مرنے والے کے پاس جب سورۂ یٰسٓ پڑھی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جان کنی آسان کردیتا ہے۔

(سبل السلام کتاب الجنائز جلد2ص91۔الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص438)

حضرت سعید بن جبیرؓ نے ایک مریض پر سورۂ یٰسٓ پڑھی تو وہ اچھا ہوگیا۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص438)

براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کے کام میں حضورؑ نے اپنی صحت کے خیال سے بے نیاز ہو کر جان کی بازی لگا دی تھی۔اس مسلسل جہاد کے بعد1880ءمیں ہی آپ “قولنج زحیری”سے سخت بیمار ہوگئے۔ یہ تکلیف وباء کی صورت میں علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور لوگ پیٹ کی اس مہلک بیماری کی وجہ سے ہلاک ہورہے تھے۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی اس بیماری سے شفا پانےکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

“ایک مرتبہ مَیں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورۂ یٰسین سنائی۔ جب تیسری مرتبہ سورۂ یٰسین سنائی گئی تو مَیں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دُنیا سے گزر بھی گئے۔ دیواروں کے پیچھے بےاختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دمبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔سولہ دن برابر ایسی حالت رہی اور اسی بیماری میں میرےساتھ ایک اور شخص بیمارہوا تھا۔وہ آٹھویں دن راہی ملک ِ بقا ہوگیا۔حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔جب بیماری کا سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلّی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورۂ یٰسین سنائی گی اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دُعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دُعا سکھلائی اور وہ یہ ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّد۔اور میرےدل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریاکے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینے اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ تو اس سے شفا پائے گا۔چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور مَیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرےایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بےاختیار طبعیت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو۔مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہےجس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ بیماری بکلّی مجھے چھوڑ گئی اور مَیں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15ص209,208)

سورہ ص کی آیت کی تاثیر

احمد بن سھل بن بویہ الھروی کہتے ہیں کہ مَیں بکار بن قتیبہ کے گھرکے قریب ٹھہرا ہوا تھا۔مجھےاُن کے گھر سے سورہ ص کی اس آیت کی تلاوت کی آواز سنائی دی یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ(ص:27)یعنی اے داؤد!یقیناً ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایاہے۔پس لوگوں کے درمیان حق کےساتھ فیصلہ کراور میلانِ طبع کی پیروی نہ کر ورنہ وہ(میلان)تجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کردے گا۔یقیناً وہ لوگ جو اللہ کے رستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب(مقدر)ہے بوجہ اس کے کہ وہ حساب کا دن بھول گئے تھے۔

چنانچہ مَیں کافی دیر تک کھڑا ان کی تلاوت سنتا رہا۔یہاں تک کہ مَیں نے محسوس کیا کہ مجھ پر جادوکردیا گیاہے۔

(تاریخ دمشق جلد10ص370)

سورۃالزمر اور بنی اسرائیل

سونے سے قبل تلاوت کے حوالہ سےحضرت عائشہؓ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ سور ۃالزمر اورسورۂ بنی اسرائیل کی بھی تلاوت کرتے تھے۔

( مسند احمد جلد6ص68)

سورۃالمؤمن اور آیۃ الکرسی

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کسی نے صبح کے وقت سورۃ المؤمن کی ابتدائی آیات اور آیۃ الکرسی پڑھی۔شام تک اُس کی حفاظت کی جائے گی اور جس نے شام کو اُنہیں پڑھا تو صبح تک اُس کی حفاظت کی جائے گی۔سورۃ المؤمن کی وہ آیات یہ ہیں۔بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِحٰمٓتَنْزِیلُ الْكِتَابِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِغَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ إِلَیْهِ الْمَصِیْرُاللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنیوالا،بن مانگے دینے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔ صاحبِ حمد،صاحبِ مجد۔اس کتاب کا اتارا جانا اللہ،کامل غلبہ والے(اور)کامل علم والے کی طرف سےہے۔جو گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا،پکڑ میں سخت اور بہت عطا اور وسعت والا ہے۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔

(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
“روحانی اور جسمانی ہرقسم کے امراض کے لئے دُعاؤں کی ضرورت ہے…………آنحضرتﷺ نے جو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو یہ آیات پڑھے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔تو آیات صرف پڑھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون پر غور کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے…………اگر یہ باتیں ہوں گی تو پھر انسان خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی حفاظت میں رہے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔” آمین

(خطبہ جمعہ مؤرخہ2فروری2018ء)

سورۃ الواقعہ کی مادی تاثیر

حضرت ابن مسعودؓ سے مرفوع روایت ہے کہ جس نے ساری رات سورہ ٔ واقعہ پڑھی اسے کبھی فاقہ نہیں پہنچے گا۔

(الترغیب والترھیب کتاب الذکر والدعا جلد2ص294)

سورۃ الحدید، الحشر، الصف، الجمعہ، التغابن اور الاعلیٰ کی برکات

حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت کے مطابق رسول کریم ﷺرات بستر پرجاتے ہوئے وہ سورتیں پڑھتے تھے جو اللہ کی تسبیح کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں(یعنی الحدید، الحشر، الصف، الجمعہ، التغابن اور الاعلیٰ) اور فرماتے تھے ان میں ایک ایسی آیت بھی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے۔

(مسند احمد جلد4ص128)

سورۃالکافرون ، النصر،اللھب، الاخلاص،الفلق، الناس کی برکات

حضرت خباب کا بیان ہے کہ رسول کریمﷺ بستر پر جانے سے قبل سورہٴ کافرون سے لے کر آخر تک تمام سورتیں (النصر،اللھب، الاخلاص،الفلق، الناس)پڑھ کر سوتے تھے۔

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد10ص166)

سورۃالکافرون و معوّذتین

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنماز پڑھ رہے تھے کہ اُن کو بچھّو نے کاٹ لیا ۔آپؐ نے پانی اور نمک منگوایا اور اُس پر لگانے لگے اور ساتھ سورۃ الکافرون ،الفلق اور سورۃ الناس پڑھتے جاتے تھے۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص439)

معوّذتین کی برکات

جیسا کہ سورۂ فاتحہ کے حوالہ سے ذکر ہوچکا ہے کہ قرآن کا آغاز بھی ایک کامل وبابرکت دُعاسے ہے ۔ اسی طرح اس کا آخر بھی نہایت عمدہ اور مفید مقبول دُعاؤں پر مشتمل ہے۔حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریمﷺ معوّذتین کی تلاوت کر کے ہاتھوں میں پھونکتے اور اپنے جسم پر پھیر کر سوجاتے۔

(بخاری کتاب الدعوات باب التعوذوالقراءۃ عندالنوم)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺدَم اور دُعا سے بھی علاج فرماتے تھے۔اپنی بیماری کے دنوں میں قرآن کی آخری دو سورتیں (معوّذتین) پڑھتے تھے۔

(بخاری کتاب الطب باب الرقى بالقرآن والمعوذات )

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسورۃ الفلق اور آیۃ الکرسی کی مادی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
“رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا کہ آپ جس وقت بستر پر تشریف لے جاتے تھے تو سورۂ اخلاص اور سورۂ فلق اور سورۃ الناس کو پڑھ کر دونوں بانہوں پر پھُونکتے اور جسم پر جہاں جہاں تک ہاتھ جاسکتا تھا ہاتھ پھیر لیتے اور ایسا ہی تین دفعہ کرتے اور اس کے ساتھ اور بھی بعض دُعائیں ملاتے تھے اور آیت الکرسی بھی پڑھتے تھے۔ یہ اس شخص کا دستور العمل تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور جس کے لئے خدا کی حفاظت ہر طرف سے قائم تھی۔ اس سے خیال کر سکتے ہو کہ اَور لوگوں کے لئے ایسا کرنا کس قدر ضروری ہے۔جو لوگ یہ دُعا نہیں پڑھتے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اُن کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے مگر وہ لوگ اس سے واقف نہیں۔ اگر جانتے تو ضرور پڑھتے لیکن مَیں آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے ہمیں مصائب و آفات سے بچنے کا یہ گُر بتادیا ہے اور اس سورۃ میں تمام جسمانی آفتوں کا ذکر ہے اور ان سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا گیا ہے۔ رُوحانی آفات اور ان سے بچنے کا ذکر اگلی سورۃ میں ہے……………

مَیں نے جو آج یہ سورۃ پڑھی ہے اس کی خاص غرض ہے اور وہ یہ کہ جیسا کہ مختلف اخبارات سے معلوم ہو رہا ہے پچھلے دنوں میں جو مرض پھیلا تھا وہ آج کل پھر بعض مقامات پر پھُوٹ رہا ہے اور یورپ میں تو اس دفعہ قیامت کا نمونہ بنا ہوا ہے”

(خطبات محمود جلد6ص182خطبہ جمعہ فرمودہ 21مارچ1919ء)

قرآن کی تلاوت کرنے اور سننے سے ذہنی تناؤ کم ہوجاتا ہے اور جدید تحقیق

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

(الرعد:29)

یہاں ذکر سے اول مراد تو قرآن کریم ہی ہے۔جیسا کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحَافِظُوْنَ۔

(الاعراف:10)

یہ آیت دلوں کی شفاء والے مضمون کی بھی تصدیق کرتی ہے۔نفسیاتی امراض کا علاج بھی قرآن کریم میں ہے۔تاہم اس کے لئے اس پر یقین ضروری ہے۔علامہ زرکشی کے مطابق قرآنی شفا سے وہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو اللہ کے لئے اپنے دل اور نیت کو خالص کرلے۔

(دراسات فی علوم القرآن۔ص60)

ایک امریکن یونیورسٹی نے قرآن کریم کی تلاوت کے موضوع پر ماہرین کی مدد سے جائزہ تیار کروایا۔ذہنی امراض کے ہسپتال کے ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر رجب عبدالحکیم بریسالی جو سعودی نیشنل گارڈ ہسپتال میں میڈیکل کمپنی کے رکن بھی ہیں کہ عربی زبان نہ جاننے والے ایک گروپ کو آڈیو کیسٹ کے ذریعے قرآن کریم کی آیات سنائی گئیں۔اس موقع پر اُن افراد کے ذہن پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ مشینوں کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا۔نتائج سب کیلئے حیران کن ثابت ہوئے۔قرآن کریم ایسے افراد کو سنایا گیا تھا جو نہ تو عربی سے واقف تھے اور نہ اُنہوں نے کبھی قرآن کریم سنا تھا۔وہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار تھےاور دماغی حالت بھی ٹھیک نہ تھی۔تاہم قرآن کریم کی تلاوت سننے کے بعدان کا ذہنی تناؤ ختم ہوگیا اور اُن کے دماغ پر تازگی چھا گئی۔

(روزنامہ قدرت اسلام آباد 7مئی2017ء)

(حافظ مظفراحمد)

پچھلا پڑھیں

حروفِ مقطعات کی تفسیروتشریح ازحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ

اگلا پڑھیں

واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت