• 19 اپریل, 2024

دل کا برتن نیکیوں سے خالی نہ رہے

رمضان کا مبارک مہینہ آیا اور دیکھتے دیکھتے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات دلانے والےعشرے بھی گزر گئے۔ایک حقیقی مسلمان یہ کوشش کرتا رہا کہ ہر جہت سے اس مبارک مہینے سے استفادہ حاصل ہو۔کیا ہماری یہ عبادت، استغفار اس مبارک مہینہ تک سمٹ کر رہ جائیں گی اور ہم نے جو نیکوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کا آغاز کیا تھا وہ دھیمی پڑجائیں گی؟نہیں بلکہ ہم نے اس سلسلے میں اور کوشش کرنی ہے کیونکہ ہمارے پیارے خدا نے فرمایا ہے کہ جو کوشش کرتے ہیں ان کے لئے ہم راستہ ہموار کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

وَالَّذِِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا

(العنکبوت: 70)

اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور اُنہیں اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔

پس اس کوشش کو ہمیں جاری رکھنا ہے اور جو دل کے برتن کو ہم نے نیکیوں سے بھرا ہے اس کو کبھی خالی نہ ہونے دیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزایک مقام پر فرماتے ہیں:۔

’’پس یہ مغفرت اور بخشش کے دن تبھی ہمیں فائدہ دیں گے جب ہم ان دنوں کے فیض کواپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے استغفار سے اُن کا علاج کرتے رہیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حلقے میں رہیں۔ ورنہ جس طرح بعض بیماریاں انسانی جسم میں علاج کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ ڈورمنٹ (Dormant) ہو جاتی ہیں یعنی بظاہر ان کے اثرات نہیں لگتے لیکن کسی وقت دوبارہ ایکٹو (Active) ہو کر وہ بیماریاں پھر اُبھر آتی ہیں۔ جب کوئی بیماری آئے، جسم کمزور ہو تو ایسی سوئی ہوئی بیماریاں پھر جاگ اٹھتی ہیں اور حملہ کرتی ہیں، اسی طرح انسان کی نفسانی، روحانی، اخلاقی بیماریاں ہیں۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مکمل چلنے کی کوشش نہ کرتا رہے، استغفار اور توبہ سے اپنی ان حالتوں کو، ان بیماریوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے دبائے نہ رکھے تو پھریہ اپنے اثرات دکھا کر انسان کو پہلی حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19 ستمبر 2008ء)

پس اپنی کمزوریوں پر ہمیشہ نظر رکھتے ہوئے توبہ اوراستغفار سے ان کا علاج کرتے رہنا ہوگا تاکہ ہم اللہ کے قریب تر ہوتے چلے جائیں اور ہمارا خدا تو وہ خدا ہے جو اپنے بندے سے بہت محبت کرنے والا ہے جیسا کہ حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:۔

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوجاتا ہوں۔ جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑے ہوئے جاتا ہوں۔‘‘

(مسلم کتاب الذکر والدعا،باب فضل الذکر)

یہ ہے اسلام کا رحیم خدالیکن انسان کمزور ہونے کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی بعض دفعہ برائیوں کی طرف گامزن ہوجاتاہے اور پھردل کا برتن نیکیوں سے خالی ہوجاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں خطبہ جمعہ 19ستمبر 2008ء میں فرماتے ہیں۔

’’اب یہ تو ہو نہیں سکتاکہ بشری کمزوری کبھی ظاہر نہ ہو۔ انسان ہے، بشر ہے کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ شیطان ہر وقت حملے کی تاک میں ہے۔ جب انسان روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے تو شیطان فوراً حملہ کرتا ہے۔ اس لئے شیطان سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب مسلسل انسان استغفار کرتا رہے اور مسلسل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں رہے۔ تبھی اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقہ میں ایک انسان رہ سکتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ ایک جگہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ شیطان تو انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے جہاں کمزوری آئی شیطان نے حملہ کیا۔’’

ہمارے پیارے امام نے اپنے اس اقتباس میں اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں ایک انسان کو ہمیشہ رہنے کے لئے 2 چیزوں کی ضرورت کاذکر فرمایا۔

  1. مسلسل استغفار
  2. مسلسل خدا تعالیٰ کی رضاء کے حصول کی کوشش

یہ اللہ کا محض فضل واحسان ہے کہ ماہ ِرمضان میں اس نے استغفار اور خدا تعالیٰ کی رضاء کے حصول کا موقعہ دیا ۔یہ دونوں چیزیں آگے کس طرح قائم رہے اس کے لئے اپنی روحانی قوت کے ساتھ ہمیں بہت کوشش کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو کہ دو چیزیں اس اُمّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 348)

پس رمضان میں ان دونوں چیزوں میں ہم نے جو قوت حاصل کی ہے اس حاصل کردہ قوت کو اب پورے سال بھر خدا تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ، اس کے پاک مسیح موعودؑ اور اس کے خلفاء کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عملی جامہ پہنانے کا اب وقت آگیا ہے۔

استغفار

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا

(النساء:111)

یعنی جو شخص (بھی) کوئی بدی کرے گا اور اپنے نفس پر ظلم کرےگا اس کے بعد اللہ سےمعافی چاہے گا (تو) وہ اللہ کو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا پائے گا۔

خداتعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی طرف بہت جلد راغب ہو جاتا ہے اور اس بشری کمزوری اور فطری تقاضے کی لپیٹ میں ایک عام آدمی تو آتا ہی ہے جو دنیاوی دَھندوں میں پڑا ہوا ہے لیکن نیک لوگ بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے حتی کہ انبیاء بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔

حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ ’’بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الدعوات، باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللّیلۃ)

اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں لہٰذا وہ دعا کرتے ہیں کہ یا الہٰی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 607 ،الحکم 18؍ مئی 1908ء)

مندرجہ بالا قرآنی آیت، حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’تو جب انبیاء کی یہ حالت ہو کہ وہ ہر وقت استغفار کرنے، ہر وقت اپنے رب سے اس کی حفاظت میں رہنے کی دعا کرتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کو کس قدر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سے جو روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں غلطیاں ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں ان سے بچنے کے لئے یا ان کے بداثرات سے بچنے کے لئے استغفار کرے۔ اور اگر پہلے اس طرف توجہ ہو جائے تو بہت سی غلطیوں اور گناہوں سے انسان پہلے ہی بچ سکتا ہے۔ پس اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے، ان کی بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مغفرت کے مضمون کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے۔ کہیں دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ تم یہ دعائیں مانگو تو بہت سی فطری اور بشری کمزوریوں سے بچ جاؤ گے۔ کہیں یہ ترغیب دلائی ہے کہ اس طرح بخشش طلب کرو تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ کہیں بشارت دے رہا ہے، کہیں وعدے کر رہا ہے کہ اس اس طرح میری بخشش طلب کرو تو اس دنیا کے گند سے بچائے جاؤ گے اور میری جنتوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔ کہیں یہ اظہار ہے کہ میں مغفرت طلب کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں۔ غرض اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے پیار، محبت اور مغفرت کے سلوک پر اللہ تعالیٰ کا تمام عمر بھی شکر ادا کرتا رہے تو نہیں کر سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 14مئی 2004ء)

پس یہ ہے وہ طریق جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں رہنے کے لئے ایک نیا موقعہ دیتاہے کہ ہم بار بار اس رحیم خدا سے اپنی بخشش کا طلب گار ہوں۔

حدیث میں آتا ہےکہ
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت کے گناہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے اور دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہو۔

(مسلم کتاب التوبۃ باب قبول التوبۃ من الذنوب)

اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 450)

اس لئے ہمیں اس رمضان کے بعد مسلسل استغفار کے ذریعہ اپنے دل کے برتن میں نیکیوں کو جمع کرنا ہوگا تاکہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں رہتے چلے جائیں۔

خدا تعالیٰ کی رضاء کے حصول کی کوشش

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ

(الحدید:21)

ترجمہ: اے لوگو! جان لو کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل ہے اور دل بہلاوا ہے اور زینت حاصل کرنے اور آپس میں فخر کرنے اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں بڑائی جتانے کا ذریعہ ہے۔ اس کی حالت بادل سے پیدا ہونے والی کھیتی کی سی ہے جس کا اُگنا زمیندار کو بہت پسند آتا ہے اور وہ خوب لہلہاتی ہے مگر آخر تُو اس کو زرد حالت میں دیکھتا ہے پھر اس کے بعد وہ گلا ہوا چُورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں ایسے دنیاداروں کے لئے سخت عذاب مقرر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضائے الٰہی مقرر ہے اور وَرلی زندگی صرف ایک دھوکے کا فائدہ ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسا کام بتائیے جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ مجھے چاہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ہو جائے اور بندے بھی مجھے پسند کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے یعنی دنیاوی مال و متاع۔ اس کی خواہش چھوڑ دو۔ لوگوں کی طرف حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگوں کے مالوں کو حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4102)

گویا خالص دنیاداروں کے لئے آخرت میں سخت عذاب مقرر ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور اس کی رضاء چاہتے ہوئے اس کے قرب پانے والے ہوں گےکیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے تحت بعض لوگ اپنی بعض نیکیوں میں محنت اور کوشش کی وجہ سے اس کی رضاء حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں۔جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’دنیوی امتحانوں کے لئے تیاری کرنے والے، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے اَنت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 161۔162)

اس لئے رضاء الہٰی کے حصول کے لئے ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے دنیا سے بالکل ہی کٹ جائیں یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضرور فرماتا ہے کہ ان دنیاوی چیزوں کے حصول میں اتنا نہ ڈوب جاؤ کہ تمہیں دینی فرائض اور اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہی نہ رہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 5 مئی 2017ء)

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش اوراس کےحصول کے تعلق سے اگر کوئی سُستی کرتا ہے تو پھر وہ خدا کے فیض سے دور رہتا ہے جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لاپرواہی سے سُستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفید ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈھتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ نمبر566حاشیہ نمبر11)

ایک جگہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کی حالت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مثال دی ہے۔ فرمایا

’’جو لوگ کوشش کرتے ہیں انجام کار رہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بِدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا ہے بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یادنہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا !ہماری مدد کر تو فضلِ الٰہی واردنہیں ہو گا۔ اور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے۔‘‘

(الحکم جلد8 نمبر38،39مورخہ 10/17نومبر 1904ء صفحہ 6کالم نمبر3)

پھرآپؑ فرماتے ہیں۔
’’لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پا سکتا ہے؟ خدا یابی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گر اور اصول ہے۔ انسان کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں۔ نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ نمبر181،182)

گویا خدا تعالیٰ کی مدد اور ہماری کوشش ہی ہے جو ہمیں خداتعالیٰ کی رضاء کو حاصل کرنے کے لئے مُمد اور معاون بنا سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے کا طریق کیا ہے۔ اس تعلق سے حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھنے کی باتیں سنیں، دعاؤں اور عبادات کی طرف توجہ ہو اور اس کے حصول کے طریقے بھی سیکھیں۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 6 جولائی 2012ء)

پس مندجہ بالا ہدایت کی روشنی میں اس رمضان میں ہم نے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کی باتیں براہ راست حضور انور سے سنی،وہ پروگرام جو ایم ٹی اے پے نشر ہوئے اور ہم نے دیکھے، وہ تقاریر و اقتباسات جو الفضل آن لائن لندن میں سے پڑھی، وہ قرآنی آیات وحدیث جو الفضل انٹرنیشنل سے اخذ کئے یا پھر وہ روحانی خزائن جو اخبار بدر سے لئے ایسا ہی وہ بہترین مضامین جو الحکم میں شائع ہوئے اور ہم نےاس میں غوطے لگائے ان کو آگے بھی جاری رکھنے والے بنیں۔ اسی طرح حقوق اللہ کے تحت عبادات میں جو قدم آگے بڑھے اللہ کرے وہ قدم آگے بڑھتے چلے جائیں نیز حقوق العباد کے تحت جو غریبوں کی مدد، ہمسایوں کی خبر گیری، اپنے بھائیوں کے ساتھ وہ پیار بھری سحری وافطاری کا رنگ جو ہم نے اس وبائی مرض کے دنوں میں بھی بذریعہ آن لائن دیکھا اور ہیومینیٹی فرسٹ کے ذریعہ غرباء کے خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے مسیح آخر زمان کے رنگ میں رنگین ہوئے جس نے فرمایا تھا کہ

مرا مقصود ومطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

پھرحضور انور فرماتے ہیں کہ
’’اللہ کرے ہم میں سے ہر ایک اس روح کو سمجھنے والا ہو اور ہماری کوششیں ہر آن آگے بڑھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنا عہد پورا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف لے جا رہی ہوں۔ اپنے عہدوں میں کمزوری دکھا کر اور اپنی کوششوں میں کمی کر کے ہم کبھی اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عہدنبھانے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی توفیق دیتا چلا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 3 ستمبر 2010ء)

اوریہ رنگ جو رمضان کے آمد کی وجہ سے ہمارے اوپر چڑھا ہے اس رنگ کو اترنے نہ دیں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے رمضان کے بعد بھی ان برکات سے فائدہ حاصل کرنے والے بنتے رہیں کیونکہ اگر کسی چیز میں ثباتِ قدمی نہیں تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑایک مقام پر فرماتے ہیں کہ

’’عبد بننے کی طرف توجہ اور ثباتِ قدمی کی طلب کے بعد پھر وہ کونسی اہم چیز ہے جو ایک مومن میں ہونی چاہئے۔‘‘

(کرامات الصادقین،روحانی خزائن جلد7، خطبہ جمعہ 26؍ اگست 2011ء)

اس فقرہ کی تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ ارشاد کرتا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:۔

’’اگر ہم نے نمازوں میں باقاعدگی صرف رمضان کی وجہ سے اختیار کی ہے اور بعد میں ہم نے پھر سُست ہو جانا ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے جمعوں میں باقاعدگی صرف رمضان کے مہینے تک ہی رکھنی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کو صرف رمضان کے لئے ہی ضروری سمجھا ہے اور بعد میں اس کی طرف توجہ نہیں دینی تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چلنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے درود اور ذکر کو صرف رمضان تک ہی محدود رکھنا ہے تو صرف یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں چاہتا۔ اگر ہم نے اپنے اخلاق اور دوسری نیکی کی باتوں کو صرف رمضان تک ہی مجبوری سمجھ کر کرنا ہے تو یہ تو اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں چاہتا۔ رمضان تو ایک ٹریننگ کیمپ کے طور پر آتا ہے۔ رمضان تو اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرض کیا ہے کہ جن نیکیوں کو تم بجا لا رہے ہو اس میں مزید ترقی کرو اور ہر آنے والا رمضان جب ختم ہو تو ہمیں عبادات اور نیکیوں کی نئی منزلوں اور بلندیوں پر پہنچانے والا ہو اور ہم پھر عبادتوں اور نیکیوں کے نئے اور بلند معیار قائم کرنے والے بن جائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23جون 2017ء)

اس لئے آپ نے یہ تاکیدی طور پر فرمایا کہ اپنے اعمال کو ہمیشہ مستقل مزاجی کے ساتھ بروئے کار لاتے رہو تاکہ رمضان کے بعد بھی سال بھر اس روحانی مائدہ سے ہم استفادہ حاصل کرتے رہیں تا کہ یہ طریق ساری زندگی کی سلامتی کا باعث بن جائے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔

’’اصل میں ایک رمضان کوآپ سلامتی سے گزار لیں تو گویا اگلا سال سلامتی سے گزر گیا اور جب ہر دو رمضان کے درمیان سال سلامتی سے گزر ے تو دوسرے معنوں میں ساری زندگی سلامتی سے گزر جائے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23جنوری 1998ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانکنے کی جو قوت عطا کی ہے، جن گناہوں کو دُور کرنے کی توفیق بخشی ہے، استغفار کرتے ہوئے اپنے دل کو ایک انسان نے گناہوں سے جو خالی کیا ہے تو فوری طور پر انہیں نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی جائیں۔ ورنہ اگر دل کا برتن نیکیوں سے خالی رہا تو شیطان پھر اسے انہیں غلاظتوں سے دوبارہ بھر دے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19 ستمبر 2008ء)

(حلیم خان شاہد۔قادیان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2020

اگلا پڑھیں

عالمی اپڈیٹ Covid-19