• 25 اپریل, 2024

الفضل اخبار کی چند خوبصورت یادیں

آج میں قارئین کرام کی خدمت میں جماعت احمدیہ کے مؤقر جریدہ الفضل کے بارے میں، اپنی چند خوبصورت یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

الفضل کیا ہے؟۔ یہ اس کے نام نامی سے ہی ظاہر ہے۔ الفضل، کنا ہی پُر مغز اور روح پرور نام ہے۔یہ نام جس بزرگ نے اسے دیا تھااس کے علم و معرفت اور روحانی مقام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے از خود خبردے رکھی ہے۔اس لئے یہ اخبار درحقیقت اسم با مسمی ہے۔

قدیم مخلص اور وفادار دوست

جب ابن آدم دنیا میں آ نکھ کھولتا ہے۔ کہتے ہیں پہلے بچہ دنیا کے رنگوں سے نہ آشنا ہوتا ہے۔ پھر ایک خاص عمر میں پہنچ کر اسے رنگوں کی شناخت ہوتی ہے۔ پھر اسے اپنے والدین، عزیزواقارب اور ماحول میں کچھ چیزوں کا ادراک ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر ان چیزوں کی یاد ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے۔ اس وقت جن چیزوں سے میری ابتدائی آشنائی اور شناسائی ہوئی تھی ۔ان میں سے ایک ہمارا مؤقر جریدہ الفضل اخبار بھی ہے۔جس کی میرے ساتھ رفاقت سات دھائیوں پر محیط ہے۔ کیونکہ یہ ایسا اخبار ہےجو باقاعدگی سے ہمارے گھر آتا تھا۔میرے گھر میں میرے دادا جان اور پھر امی جان اور دیگر افراد خانہ بھی اس اخبار کو بڑے ہی انہماک کے ساتھ پڑھتے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ الفضل اخبار میرا بہت ہی پرانا،مخلص اور وفادار رفیق ہے۔ جو ہر موقع پر دلجوئی اور رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے نوازے۔ آمین

علم ومعرفت کا خزانہ

یہ ایسا اخبار ہےجس میں رقم شدہ ہر لفظ معنی دارد۔ قرآنی آیات اور ان کی جامع تفاسیر، احادیث شریفہ، ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء کرام کے بارے میں تازہ ترین خبریں، اداریہ جو مبالغہ آمیزی اور حاشیہ آرائی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ جو ہر خاص و عام کے لئے یکساں مفید اور سبق آموز ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں خلفاء کرام کے روح پرور خطبات،ان کے ملکی و غیر ملکی دورہ جات اوران کے شیریں ثمرات اور دیگر مصروفیات سے احباب جماعت کو باخبر رکھتا ہے۔یہ الفضل اخبار ہی ہے جو ہمیں جماعت کی روزمرہ ترقیات سے آگاہ رکھتا ہے۔ اس کے مندرجات میں کہیں ہمیں روحانیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ کہیں ہماری علمی تشنگی کو سیراب کرتا نظر آتا ہے۔ کہیں اس کے مضامین میں، جن میں تاریخ جغرافیہ، سیر و سیاحت اور سیاسی امور اور صحت کے بارے میں بہت ہی مفید مضامین پڑھنے کو ملتےہیں۔ اس میں اطلاعات اور اعلانات کے صفحات بھی ہوتے ہیں۔ جوپوری جماعت کو غمی و خوشی میں شامل رکھتے ہیں۔

تعلیم وتربیت کا مؤثر ذریعہ

پاکستان میں سب جماعتوں میں باقاعدہ روزانہ الفضل آیا کرتا تھا۔ احباب جماعت اپنے گھروں میں اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مجھے یاد ہے، جمعہ کے روز، الفضل اخبار میں مطبوعہ حضرت خلیفۃ المسیح کے فرمودہ خطبہ جمعہ کو ہی بیان کیا جاتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں تو امام صاحب بفضل تعالیٰ اتنے ماہر تھے کہ اخبار ہاتھ میں اٹھا لیتے اردو کے صفحات کو دیکھ اسے مقامی جماعت کے ذوق اور علمی حیثیت کے مطابق پنجابی میں خطاب فرمایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نماز مغرب کے وقت اسی اخبار سے درس ملفوظات بھی مساجد میں دیا جاتا تھا۔

الفضل ایک حسین گلدستہ۔ایک منفرد مقام

دنیا میں ہزارہا رسائل وجرائد شائع ہوتے ہیں۔ جو اپنی کسی خصوصیت کی وجہ سے بڑا مقام رکھتے ہیں۔ جن کی ظاہری زیب وزینت کمال کی پُرکشش ہوتی ہے۔ ان سب جرائد کے مقابل پر ہمارا الفضل بھی ہے، جو ایک غریب دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔لیکن اس کے مضامین ایسے دلچسپ اور ایمان افروز ہوتے ہیں۔ جو ہر قاری کی روحانی تشنگی کی سیرابی، علمی ترقی، سیاسی بصیرت کو جِلا بخشنے میں مہمیز ثابت ہوتے ہے۔ یہ ایک ایسا حسین گلدستہ ہے۔ جو باوجود بظاہر بہت ہی سادہ مگر پُروقار اخبار ہے۔ یہ ایک حسین و جمیل گلدستہ ہے جس میں ہر پھول کی الگ رنگت اور ہر پھول کی جداجدا خوشبو ہے۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر قاری الفضل کے ہر پرچہ سے، کسی نہ کسی رنگ میں اپنے ایمان، روح اور ذوق کے مطابق اس معلوماتی خزانہ سے حظ عظیم اٹھاتا ہے۔

الفضل ماشھدت بہ الاعداء

ایک دفعہ میں کسی کام کے سلسلہ میں پاکستان ایمبیسی میں گیا۔ انتظار گاہ میں ایک پاکستانی دوست سے ملاقات ہوگئی۔ علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ دوست ڈاکار شہر میں ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے، جس پر ان کے چہرے پرکچھ نا خوشگوار سے جذبات پیدا ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ دوست تشریف لے گئے۔ اگلے روز اتفاق سے ان کے ساتھ سر بازار پھرملاقات ہوگئی۔ علیک سلیک ہوئی۔ میں انہیں بڑی گرم جوشی سے ملا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں گیمبیا میں ہوتا ہوں۔ اکثر سینیگال آتا ہوں۔ گیمبیا میں پاکستانی کھانے پینے کی اشیاء مل جاتی ہیں جو سینیگال میں دستیاب نہیں ہیں۔ اگر کبھی ضرورت ہو تو بتادیا کریں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے بعض دالیں اور اچار لانے کی درخواست کی۔ کچھ عرصہ کے بعد میں دوبارہ ڈاکار آیا تو اپنے ساتھ کچھ دالیں اور اچار ان کے لئے لایا۔ اور سامان لے کران کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے بعد ہماری دوستی کا آغاز ہوگیا۔ اس نے مجھے کہا بھائی صاحب اب جب بھی آپ ڈاکار آئیں گے، میرے ہاں ہی قیام کریں گے۔ اس کے بعد میں جب بھی ڈاکار آتا انہی کے گھر قیام کرتا اور انہی کے ہاں کھانا وغیرہ کھاتا۔ وہ مجھے بڑے بھائی کی طرح جانتے۔ ہر کام میں مشورہ کرتے۔ اپنے گھریلو امور میں بھی مجھ سےرہنمائی لیتے۔

اس کے کچھ عرصہ بعد میں مرکزی ارشاد کی تعمیل میں ڈاکار میں ہی منتقل ہوگیا۔ اکثر وہ میرے گھر آجاتے۔ خاص طور پر عید وغیرہ میرے ساتھ ہی منالیتے۔ایک دن مجھے کہنے لگے بھائی میں اکیلا ہوتا ہوں۔کوئی اردو کی کتاب ،اخبار یا رسالہ دے دیا کریں۔ جس سے میرا دل بہل جائے۔ میں نے کہا میرے پاس تو اردو رسائل نہیں ہیں۔ ہاں ہمارا جماعتی اخبار الفضل آتا ہے۔ شاید آپ کو پسندآئے یا نہ آئے۔ کہنے لگا۔ بس مجھے آپ دے دیں۔ کچھ تو پڑھنے کو مل جائے گا۔

میں نے کچھ اخبارات اس کو دے دئے۔ چند دن کے بعد وہ میرے پاس آیا۔ کہنے لگا بھائی یہ تو کمال کا اخبار ہے۔ پھر وہ باقاعدہ الفضل اخبار مجھ سے لے کر مطالعہ کرتے رہے۔

الفضل اخبار۔ بحری جہاز

ایک دفعہ ایک بحری جہاز کسی فنی خرابی کے باعث سینیگال ڈاکار کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا۔ جس کی مرمت کے لئے کئی مہینے درکار تھے۔ اس بحری جہاز پر کافی ملازمین پاکستانی تھے۔ جب ڈاکار میں موجود پاکستانی حضرات کو ان کی آمد کاعلم ہوا تو وہ بھی پاکستانی ہونے کے ناطہ اور خیرسگالی کے طور پر ان کو ملنے لئے جہاز پر تشریف لے گئے۔ علی صاحب بھی ان میں شامل تھے ۔سینیگال میں موجود پاکستانی نوجوانوں نے ان بحری جہاز کے ملازمین سے کہا ،آپ ہمارے مہمان ہیں۔ کسی قسم کی ضرورت ہو تو بتائیں۔انہوں نے کہا ہم اپنے بحری سفروں کی وجہ سے کافی عرصہ سے پاکستان سے دور ہیں جس کی وجہ سے دل بہت اداس ہے۔ اگر آپ کے پاس اردو زبان میں کتب ورسائل ہوں تو ہمیں دے دیں۔ اس پر علی صاحب کہنے لگے۔ میرے پاس تو اردو زبان میں کوئی خاص مواد نہیں ہے۔ ہاں میرے پاس احمدیہ جماعت کے کچھ اخبارات ہیں۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو وہ میں آپ کو دے سکتا ہوں۔ جس پر انہوں نے کہا ،کچھ بھی دے دیں۔ جس پر علی صاحب کافی سارے پرانے الفضل اخبار ات انہیں دے آئے۔ بعد میں انہوں نے مکرم علی صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا۔ کہ ان اخبارات کے ذریعہ سے ہمیں بہت معلومات ملی ہیں اور ہمارا وقت بہت اچھا گزرا ہے۔ الحمدللہ

الفضل ایک نعمت عظمٰی

۱۹۸۳ کی بات ہے۔ خاکسار پہلی بار بطور مبلغ گیمبیا پہنچا۔نئے لوگ نیا ماحول، زبان سے ناآشنا ،ابتدا میں تو یہ سب بہت عجیب لگتا تھا۔ صرف ایک ہی چیز تھی۔ جس سے گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔ یہ الفضل اخبار ہوتی تھی۔ جس کے ذریعے سے ہمیں جماعتی اور ملکی خبروں کا ادراک ہوتا تھا۔ ایک ہفتہ کےاخبارات بنڈل کی صورت میں اکٹھے ہی ملا کرتے تھے۔ جب ملتے تو پھر ان اخبارات کو ہم لوگ بار بار پڑھتے۔ الفضل کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس کا حقیقی احساس بیرون ملک جاکر کچھ زیادہ ہی ہوا۔

ایک سال کے بعد الفضل مل گئی

عام طور پر اخبارات کے بنڈل ہمیں گیمبیا میں دو تین ہفتے کے بعد ہی پہنچا کرتے تھے۔ کیونکہ پاکستان سے گیمبیا کی کوئی ڈائریکٹ فلائٹ نہ تھی۔ پاکستان سے ڈاک نہ جانے کن کن ممالک سے ہو کر گیمبیا پہنچا کرتی تھی۔ پھر گیمبیا پہنچ کر بھی امیر صاحب کے آفس پہنچتی۔پھر اگر کوئی آدمی اتفاق سے اندرون ملک جارہا ہوتا تھا پھر اس کی وساطت سے یہ ڈاک ہمارے پاس پہنچتی تھی۔

ایک دفعہ گیمبیا میں ایک پاکستانی دوست محکمہ ڈاک کے نگران مقرر ہوگئے۔ جس سے ہمیں یہ خوش فہمی پیدا ہوگئی۔ شاید اب اس محکمہ میں کوئی انقلاب رونما ہونے والا ہے۔ انہی دنوں میں ایک روز میں بصے میں ڈاکٹر نصیرا لدین صاحب کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ہماری پوسٹ آگئی۔ فوراً الفضل کی جانب ہاتھ بڑھے۔ اس اخبار پر اسی مہینہ بلکہ اسی ہفتے کی تاریخ تھی۔ جس پر میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ،ڈاکٹر صاحب کمال ہوگیا ہے۔ اس قدر جلدی ڈاک آگئی ہے۔ محکمہ ڈاک میں تو ایک انقلاب آگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ مربی صاحب ذرا غور سے سال بھی دیکھ لیں ۔دراصل یہ ایک سال پہلے کے اخبار ہمارے پاس ایک سال تاخیر کے ساتھ پاس پہنچے تھے۔

الفضل تبلیغ کا ایک ذریعہ

تبلیغ کے میدان میں الفضل ایک بہت بڑا ہتھیا ر ہے۔ پڑھے لکھے احمدیوں کے علاوہ کم تعلیم یافتہ احمدی بھی اپنا تبلیغی شوق الفضل اخبار کے ذریعہ پورا کرلیا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ میرے جامعہ احمدیہ کے کلاس فیلو مکرم عبدالرشید یحییٰ صاحب حال مبلغ سلسلہ کینیڈا، میرے گاؤں مجھے ملنے کے لئے تشریف لائے۔ ہم لوگ کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے برآمدہ میں میری والدہ محترمہ ہمارے محلہ کی ایک غیر از جماعت خاتون کو الفضل اخبار میں سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ افریقہ کے ایمان افروز واقعات سنارہی تھیں۔ یحییٰ عبد الرشید صاحب یہ باتیں سن کربہت محظوظ ہو ئے اور بے اختیار کہنے لگے، جس جماعت کی بزرگ خواتین اس قدر ذوق وشوق سے پیغام حق پہنچانے والی ہوں۔اس کی ترقی کون روک سکتا ہے۔

الفضل اخبار کا یہ طویل سفرجو 107/108سال پر محیط ہے،کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہا ،اس کے بد خواہ دشمنوں اور حاسدین نے ہمیشہ ہی اس کی ترقی کی راہ میں کانٹے پھیلائے ہیں لیکن ان مشکلات کے باوجود اس کا روحانی سفر ہمیشہ ہر دن ایک نئی کامیابی کا سورج لے کر ہی طلوع ہوتا رہا ہے اور انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اپنے موقر جریدہ سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آخر میں سیدی وامامی حضرت امیرالمؤمنین کے اس دعائیہ اقتباس پر آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔

’’میری دعا ہے کہ الفضل ہمیشہ ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کرتا چلا جائے اور یہ بھی خلیفہ وقت کے لئے ایک حقیقی سلطانِ نصیر کا کردار ادا کرنے والا بنے۔ آمین‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی توقعات اور خواہشات پر الفضل، اس کے کارکنان اور قارئین کرام کو پورا اُترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(منور احمد خورشید۔مربی سلسلہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2021