• 18 اپریل, 2024

روزنامہ الفضل لندن، آن لائن ایڈیشن

حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک ہاتھ کا لگایا ہوا سدا بہار پودا، خلافت کی آواز اور جماعت احمدیہ کا آرگن
روزنامہ الفضل لندن ، آن لائن ایڈیشن
دورِخلافت ِ خامسہ میں 108سال پورے کرنے پر ایک نئے جذبہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کی خدمت میں مصروف عمل

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’روزنامہ الفضل‘‘ اپنی عمر کے 108 سال پورے کر چکا ہے۔ بر صغیر کا یہ قدیم اردو جماعتی اخبار اپنے دامن میں دور حاضرمیں جماعت کی ایک سو آٹھ سالہ تاریخ سمیٹے ہوئے ہے اور بے شمار معلوماتی مضامین اور بلند پایہ منظومات کا مرقع ہے۔ الفضل خلافت احمدیہ کی سو سالہ تجلیات اور جماعت کی والہانہ عقیدت کا آئینہ دار ہے اور اس کا ہر صفحہ اس دو طرفہ محبت کے عطر سے ممسوح ہے۔ اس تاریخی اخبار کا تعلق احباب جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت قریب کا ہے۔ یہ ہر گھر کے ایک فرد کی حیثیت رکھتا چلا آیا ہے۔ احباب اس سے حظ اٹھا کر ناشتہ سے لطف اٹھایا کرتے تھے۔ جونہی اس کو دہلیز پر دیکھتے تو پہلے پڑھنے کے لئے دوڑیں لگ جاتی تھیں۔ کوئی کہتا یہ تو میری روح کی غذا ہے اور کوئی اس کو پڑھے بغیر کھانا نہیں کھاتا تھا۔ الغرض الفضل نے جماعت کے احباب کو ایک لڑی میں پرو کر رکھ دیا تھا۔ یہ وحدت کا ایسا منفرد نظارہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جایا کرتی تھی۔ ہماری خبروں کا بڑا ذریعہ جماعت کا یہی آرگن ہوا کرتا تھا۔آئیے! آپ کو بھی بتاتے ہیں کہ اس کو ہر گھر کے ممبر کی حیثیت کیوں حاصل تھی۔ پڑھیے اور سر دھنیے؛ الفضل نے ہی ہمیں بتایا کہ خلافت ثانیہ کے آغاز پر فتنہ انکار خلافت نے کس طرح سر اٹھایا اور پسر موعودؓ نے کس طرح اسے کچل کر رکھ دیا۔ الفضل نے ہی اطلاع دی کہ بیرون پاکستان امریکہ ، افریقہ کے ممالک اور برطانیہ میں پہلے باقاعدہ مشن کا آغاز کیسے ہوا۔ مسجد فضل لندن کی بنیاد کن متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ رکھی گئی۔ الفضل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پہلے دورۂ یورپ سے لے کر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ جات تک خلفائے سلسلہ کے سفروں کی روئیداد کا حامل ہے۔ خلفاء نے کس طرح ایشیا،یورپ ، امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کو ہوشیار کیا گئےانہیں حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا۔ کس طرح اشاعت اسلام کے منصوبے بنائے گئے۔

آج دنیا کے 200 سے زائدممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا ہے۔ الفضل نے ہر ملک اورہر بڑے چھوٹے شہر میں پیغام حق پہنچانے کی تاریخ محفوظ کی ہے۔ مربیان و مبلغین کو کس طرح ملکانہ میں بھوکا پیاسا پھرنا پڑا۔ یورپ میں مشنوں کے اخراجات کس طرح پورے کئے گئے۔جماعتی ادارے کس طرح پروان چڑھے۔ تحریک جدید ، وقف جدید اور ذیلی تنظیموں نے کس طرح ارتقائی مراحل طے کئے۔ مجلس شوریٰ کے لئے خلفاء نے کس طرح محنت کی۔ اشاعت قرآن اور اشاعت لٹریچر کے لئے کیا جانفشانیاں کی گئیں۔ خدمت مخلوق کو کس طرح جماعت احمدیہ کے دل میں راسخ کیا گیا۔ نماز اور دیگر عبادات کے قیام کے لئے جو سرگرمیاں جاری رہیں یہ سب الفضل کے دامن کے خوبصورت پھول ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی ادبی خدمات کا یہ ناقابل فراموش اور درخشندہ پہلو آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ اس کی 1929ء سے 1931ء تک کی خصوصی اشاعتوں میں برصغیر کے متعدد مسلم مشاہیر کا نعتیہ کلام پہلی بار اس کی زیب و زینت بنا۔ان میں لسان الملک جناب ریاضؔ خیر آبادی،جناب سید علی آشفتہ لکھنوی مدیر ’’مبصر‘‘، لسان الہند جناب مرزا محمد ہادی عزیزؔ لکھنوی، جناب علامہ محمداقبال، لسان القوم جناب علی نقی زیدی صفی ؔ لکھنوی، جناب حکیم ضمیر حسن خاں دل شاہجہانپوری، جناب مولانا عبدالمجید سالک مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور، جناب سراج الحسن صاحب سراج لکھنوی، جناب نشتر جالندھری مدیر رسالہ ’’ادیب‘‘ پشاور اور جناب نواب سراج الدین احمد خاں سائلؔ دہلوی شامل ہیں ۔ برصغیر کے ان مشاہیر سخن کے صرف نام ہی دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہ پرکیف نظمیں خاصی طویل تھیں اور الفضل کے پورے پورے صفحہ پر محیط تھیں۔ المختصر بقول اسد اللہ غالب دہلوی:

؎ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

الفضل کی زندگی میں کئی دور آئے اور گزر گئے ۔ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا اورہر نشیب و فراز میں یہ ہمیشہ خلافت احمدیہ کی آواز بنا رہا۔ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں تو یہ نئے جوبن سے نکھر کر سامنے آیا ۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دیرینہ خواہش اور منظوری کے بعد ہم الفضل کے نئے دور میں داخل ہوئے۔ روزنامہ الفضل لندن آن لائن کا اجراء الفضل کی تاریخ کے 106سال پور ے ہونےپر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے دست مبارک سے فرمایا ۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ جدیدآن لائن ایڈیشن اِسی الفضل کا تسلسل ہے۔

آئیے! اپنے اس پیار ے روزنامہ اخبار کی سو سال سے زائدکی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔الفضل پر آنے والے مختلف ادوار اور مراحل کا مختصر جائزہ کچھ اس طرح ہے:
الفضل آغاز سے ہی ہفت روزہ تھا ۔ ایک سال کے بعد ہفتہ میں تین بار ہو گیا ۔ 1925ء میں ہفتہ میں دو بارشائع ہونا شروع ہوا۔ 8مارچ 1935ء کادن وہ مبارک دن تھا جب ہمیشہ کے لئے اخبار روزنامہ ہوگیا۔ 1953ء، 1984ء، 1990ء، 2005ء میں جبری بندش ہوئی اور اب دسمبر 2016ء سے پنجاب حکومت کی طرف سے اس کے چھپنے پر غیر قانونی پابندی لگا دی گئی ہے۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت اور منظوری سے محترم ابوسعید صاحب کی زیر ادارت اور نگرانی میں روزنامہ الفضل لندن کا آن لائن ایڈیشن لندن سے جاری ہے اور ترقیات کی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کے لگائے ہوئے اس پودے کو خلافت خامسہ میں ایک بھر پور تناور درخت بنا دے جس کے تلے احمدیوں سمیت دیگر اقوام پڑاؤ ڈالیں اور اس کی ٹھنڈی چھاؤں اور پھلوں سے مستفید ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز الفضل کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر اپنے پیغام میں فرماتے ہیں :
’’الفضل کا کام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا ، خلیفۂ وقت کی آواز ان تک پہنچانا نیز جماعتی ترقی اور روزمرہ کے اہم جماعتی حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہے۔ چنانچہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات اور ارشادات شائع ہوتے ہیں۔ خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات اور تقاریر وغیرہ شائع ہوتی ہیں اور یہ خلیفۂ وقت اور احباب جماعت کے مابین رابطے اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے جماعتی مراکز کی رپورٹیں چھپتی ہیں جن سے مبلغین اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کاپتہ چلتا ہے۔ الفضل میں مختلف موضوعات پر اہم اور مفید معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں جو احباب جماعت کی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی دینی، اخلاقی اور علمی تعلیم و تربیت کا سامان کرتے ہیں۔ الفضل کا مطالعہ بہت سی بھٹکی ہوئی روحوں کی ہدایت کا ذریعہ بھی ہے۔‘‘

(الفضل صد سالہ جوبلی سوونئیر 2013ء)

اگر ہم الفضل کے اجراء سے پہلے کی جماعتی کیفیات کا جائزہ لیں تو اس جریدہ کی بہت شدت سے ضرورت محسوس ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کا احساس حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ہوا۔حضور ؓ کا ارشاد پڑھیے۔ ایک موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے الفضل کے اجراء کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’بدر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا۔ الحکم اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلا ل کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں، بہت گراں گزرتا تھا۔ ریویو ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا، جان حاضر تھی، مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرما ئے، ان کی سستی کو جھاڑے، ان کی محبت کو ابھارے، ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بے تابی رنگ لائی امید برآنے کی صورت ہوئی۔‘‘

(یاد ایام۔ انوارالعلوم جلد8 ص369)

حضورؓ کی یہ پاکیزہ امید برآنے کی جو صورت ہوئی اور جو نہایت مکرم وجود اس کا باعث بنے ان کے گراں بار احسان سے جماعت احمدیہ تاقیامت سبکدوش نہیں ہوسکتی۔

حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بابرکت دورِخلافت میں جبکہ ایک طرف سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بیرونی مخالفت بڑھتی جارہی تھی اور دوسری طرف جماعت میں اندر ہی اندر ایک ایسا عنصر پیدا ہورہا تھا جو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی حقیقی اور پاک تعلیم سے جماعت کو دور لے جانے کی کوشش کر رہا تھا ایسے وقت میں سیدنا حضرت المصلح الموعود مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ جن کے بارےمیں الٰہی نوشتہ میں درج ہے کہ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ نے 1913ء میں اخبار الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کا نام الفضل عطا فرمایا۔ چنانچہ مذکورہ اخبار کی پہلی اشاعت 18جون 1913ء کو ہوئی ۔ اور اس کے پہلے ایڈیٹر خود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ تھے۔

الفضل کے اجراء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خدا تعالیٰ کے حضور جو التجائیں کیں اور جن پاک ارادوں، نیک خواہشات اور اعلیٰ عزائم کا اظہار فرمایا ان کا کسی قدر اندازہ ذیل کے الفاظ سے لگ سکتا ہے۔ حضورؓ نے لکھا:
’’خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے میں الفضل جاری کرتا ہوں اپنے ایک مقتدا اور رہنما، اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحر ناپید اکنار میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز و انکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖٮہَا وَ مُرۡسٰٮہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے۔ اے میرے قادر مطلق خدا! اے میرے طاقتور بادشاہ! اے میرے رحمان و رحیم مالک! اے میرے رب! میرے مولا! میرے ہادی! میرے رازق! میرے حافظ! میرے ستار! میرے بخشنہار! ہاں اے میرے شہنشاہ! جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اور جس کے اذن کے بغیر ایک ذرہ اور ایک پتہ نہیں ہل سکتا جو سب نفعوں اور نقصانوں کا مالک ہے جس کے ہاتھ میں سب چھوٹوں اور بڑوں کی پیشانیاں ہیں جو پیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے جو مارکر پھر جلائے گا اور ذرہ ذرہ کا حساب لے گا جو ایک ذلیل بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے۔ جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت اگاتا ہے۔ ہاں اے میرے دلدار! میرے محبوب خدا! تو دلوں کا واقف ہے اور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے میرے حقیقی مالک میرے متولی تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے۔ تو میرے ارادوں کا واقف ہے میری پوشیدہ باتوں کا رازدار ہے میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امیدوار ہوں۔‘‘

(الفضل 18 جون 1913ء)

پھر حضورؓ نے لکھا:
’’اے میرے مولیٰ! اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کراور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔‘‘

(الفضل 18 جون 1913ء)

الفضل کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضورحضرت مصلح موعودؓ نے مندرجہ بالا الفاظ میں نہایت درد اور کرب کے ساتھ دعائیں کیں جسے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خدا تعالیٰ نے دنیا کی رہنمائی کا منصب عطا فرمایا۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ الفضل کا اجراء نہایت ہی مبارک ہاتھوں سے ہوا وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیسی جامع، کس قدر وسیع اور کتنی دلگداز دعاؤں پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کی اشاعت کے آغاز کے پرچوں کے بارے میں کچھ معلومات پیش ہیں۔

الفضل کا پہلا پرچہ درمیانے سائز کا 16 صفحات پر نکلا اور ایک خاص پروگرام کے مطابق مضامین پر مشتمل ہفتہ وار شائع ہوا اور روز بروز مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ دسمبر 1913ء کے سالانہ جلسہ پر تین دن یعنی 26، 27 اور 28دسمبر اس کا روزانہ لوکل ایڈیشن شائع ہوا۔ 20مارچ 1914ء تک الفضل کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ایڈیٹر ہونے کا فخر حاصل رہا۔ چنانچہ الفضل کے سرورق پر حضور کا اسم گرامی بحیثیت ایڈیٹر شائع ہوتا رہا اور یکم دسمبر 1914ء تک کے پرچہ پر پروپرائیٹر، پبلشر اور پرنٹر کے طور پر بھی حضور ہی کا نام لکھا جاتا رہا مگر جب خدا تعالیٰ نے اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت آپ کو خلافت کے نہایت بلند اور عالی مرتبہ مقام پر متمکن فرماکر آپ کا حلقہ عمل نہایت وسیع کردیا اور آپ کی ذمہ داریوں میں بے حد اضافہ فرما دیا تو 21 مارچ 1914ء سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور ایڈیٹر شائع ہونے لگا۔ اور 3 دسمبر 1914ء کے پرچہ سے الفضل کا پرنٹر و پبلشر بننے کی سعادت حضور نے حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی ؓکو بخشی جو سوائے اس وقفہ کے جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ولایت گئے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس منصب پر سرفراز رہے۔

28 مارچ 1914ء سے الفضل عارضی طور پر ہفتہ میں تین بار شائع ہونے لگا اور اس کے تمام اخراجات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنی جیب سے عنایت فرماتے تھے جن کے مقابلہ میں آمد بہت کم تھی۔ اس لئے جون 1914ء میں جب الفضل کی دوسری جلد شروع ہوئی تو اخبار کا سائز 26×20/4 کی بجائے 22×18/4 کردیا گیا اور اس جلد کے 27 ؍اگست 1914ء تک کے پرچوں پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بطور ایڈیٹر چھپتا رہا۔ چونکہ اس زمانہ میں اخبار پر ایڈیٹر کا نام لکھنا ضروری نہ تھا۔ اس لئے اس کا لکھنا ترک کردیا گیا اور عملی طور پر یہ ذمہ داری حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ نے اٹھائی جو الفضل کے اجراء کے وقت سے ہی اس کے سٹاف کے ایک سرگرم رکن تھے اور جن کی الفضل سے متعلق خدمات کا ذکر ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایسے کریمانہ اور مشفقانہ انداز میں فرمایا کہ اس پر جس قدر بھی فخر کریں کم ہے۔ حضور نے تحریر فرمایا:
’’جب الفضل نکلا اس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت کا شائد مجھ سے بھی بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ہیں۔ اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے۔ اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو مجھ سے اس اخبار کا چلانا مشکل ہوتا۔ رات دن انہوں نے ایک کردیا تھا۔‘‘

(یاد ایام۔ انوارالعلوم جلد8 ص372)

حضرت قاضی صاحبؓ موصوف کے سپرد چونکہ الفضل کی مینیجری کے علاوہ اور کام بھی تھا اور الفضل کا حلقہ عمل روز بروز وسیع ہوتا جارہا تھا اس لئے ایک مستقل ایڈیٹر کی ضرورت محسوس کی گئی اور مکرم ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کو جو ایک عرصہ تک مختلف اخبارات میں کام کرچکے تھے، بلا لیا گیا۔ جنہوں نے جون 1915ء میں الفضل کی ایڈیٹری کا کام سنبھال لیا۔

الفضل کے بہت بڑے اخراجات کے لئے چونکہ اس کی آمدنی کافی نہ تھی اور اڑھائی سال کے عرصہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنے پاس سے قریبا ً پانچ ہزار روپے اس پر صرف فرما چکے تھے ادھر حالات بھی کچھ پُرسکون ہورہے تھے۔ خلافت حقہ کے خلاف جو طوفان اٹھا تھا وہ اپنا سارا زور صرف کرکے ڈھیلا پڑچکا تھا اورجماعت کا کثیر حصہ خلافت ثانیہ کی کامل اطاعت کا شرف حاصل کرچکا تھا اس لئے اس احتیاط کے ساتھ کہ الفضل جتنے صفحات تین بار شائع ہونے کی صورت میں ہفتہ وار دیتا تھا اتنے ہی دوبار شائع ہونے پر دے۔ اسے 10 نومبر 1915ء سے ہفتہ میں دوبار کردیا گیا۔ لیکن جب سالانہ جلسہ قریب آیا تو 8 دسمبر سے 28 دسمبر تک عارضی طور پر تین بار کیا گیا 11 جنوری 1916ء صحت کے بے حد کمزور ہونے کے سبب ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم الفضل کی ایڈیٹری کی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے۔ اس کے بعد کچھ دن جناب مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کے سپرد یہ کام رہا۔ اور پھر یہ ذمہ داری قاضی اکمل صاحب پر ڈالی گئی۔ 4 جولائی 1916ء تک یہی انتظام رہا اس کے بعد یہ ذمہ داری مکرم غلام نبی صاحب پر ڈالی گئی جسے موصوف نے نہایت خوش اسلوبی سے 1946ء تک ادا کیا۔

جون 1914ء سے جون 1924ء تک یعنی پورے دس سال الفضل ہفتہ میں دو بار شائع ہوتا رہا۔ 1920ء میں جبکہ ہفتہ میں دوبار شائع ہورہا تھا اسے روزانہ کرنے کی تحریک کی گئی۔ جولائی 1924ء میں خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ الفضل کو اس سائز پر شائع کیا جائے جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جاری کیا تھا اور جب حضورؓ ولایت تشریف لے گئے تو 31 جولائی 1924ء سے ہفتہ میں تین بار شائع ہونے لگا۔ جو 8 دسمبر 1925ء تک جاری رہا اور 11 دسمبر 1925ء سے دو بار کردیا گیا۔ 1927ء میں آریوں کی طرف سے دلآزار کتاب کی اشاعت اور اس کے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی وجہ سے جب مسلمانوں کے جذبات کو بے حد ٹھیس لگی اور ان میں سخت بے چینی پیدا ہوئی تو حضرت خلیفۃا لمسیح الثانیؓ نے ان ایام میں کچھ عرصہ کے لئے الفضل روزانہ کردیا۔ 1929ء میں پھر الفضل کو مستقل روزانہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 8 نومبر 1929ء سے حجم میں چار صفحات کے مزید اضافہ کے ساتھ 16 صفحہ کا شائع ہونے لگا۔ لیکن 1930ء میں جب مستریوں نے فتنہ اٹھایا اور اندرونی و بیرونی مخالفین نے ان کی امداد میں کھڑے ہو کر طوفان بے تمیزی برپا کردیا تو الفضل 15؍اپریل 1930ء سے ہفتہ میں چار بار شائع ہونے لگا۔ پھر 20 مئی سے ہفتہ میں تین بار اور 7 مارچ 1935ء تک سہ روزہ ہی رہا جیسا کہ 1934ء کے آخر میں احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فتنہ شروع کیا تھا اور جو روزبروز تمام سرکاری اور غیر سرکاری مخالفوں کی پوشیدہ اور کھلی امداد سے بڑھتا جارہا تھا اس کے انسداد کی ضرورت پیش آئی۔ اس کے مقابلہ کے لئے 5 فروری 1935ء کے پرچہ میں اخبار کو روزانہ کرنے کا اعلان کیا گیالیکن چونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب گورداسپور نے اجازت دینے میں غیر معمولی تاخیر کی اس لئے 8 مارچ 1935ء سے الفضل روزانہ کیا جاسکا۔ روزنامہ الفضل کا پہلا پرچہ 8 مارچ 1935ء کو چار صفحہ کا شائع ہوا ۔ اس وقت تجویز یہ تھی کہ سہ روزہ الفضل حسب معمول شائع ہوتا رہے اور تین دن چار صفحہ کا شائع ہو لیکن چند ہی روز کے بعد یعنی 26 مارچ 1935ء سے چار صفحہ کا پرچہ آٹھ صفحہ کا کردیا گیا۔ اگرچہ اس عرصہ میں بھی ضرورت کے مطابق بعض پرچے 24 صفحات تک کے بھی شائع کئے گئے اور خطبہ جمعہ کا پرچہ مستقل طور پر 16 صفحہ کا شائع کیا جاتا لیکن یکم جولائی 1936ء سے مستقل طور پر ہر پرچہ 12 صفحہ کا اور خطبہ جمعہ کا پرچہ کم از کم 16 صفحہ کا رنگدار شائع کیا گیا مگر باوجود اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ کرنے کے قیمت وہی رکھی گئی جو چار صفحہ کا روزانہ کرنے کے وقت تجویز ہوئی تھی یعنی پندرہ روپے سالانہ۔ آخر جب 1937ء میں جنگ کی افواہیں پھیلنے پر کاغذ اور دیگر سامان طباعت بہت گراں ہو گیا اور ادھر احرار کا فتنہ انتہا کو پہنچ کر ختم ہو گیا تو جماعت میں روزانہ اخبار کی ضرورت کا احساس کم ہونے لگا اور وہی الفضل جو فتنہ احرار کے زوروں پر ہونے کے ایام میں پانچ پانچ ہزار چھپا اور عام طور پر بھی اس کی اشاعت تین ہزار تک پہنچ گئی تھی دو ہزار سے کم رہ گیا تو اخراجات کی مشکلات سے مجبور ہو کر 20؍ اکتوبر 1937ء سے پرچہ 8 صفحہ کا کرنا پڑا۔ تاہم خطبہ جمعہ کا پرچہ 16 اور 20 صفحات پر ہی شائع کیا گیا۔ آخر اسے بھی 12 صفحہ کا کرنا پڑا۔

خلافت جوبلی کی مبارک تحریک پر الفضل کا شاندار جوبلی نمبر بھی شائع کرنے کا اللہ نے ادارہ الفضل کو موقعہ عطا فرمایا اور یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہر ایسے موقعہ پر جب جماعت کے خلاف کوئی فتنہ اٹھا الفضل سینہ سپر ہو کر پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں نکل آیا۔ الفضل کی خدمات کےمختلف اہم پہلویہ ہیں:
خلفاء کرام کے خطبات جمعہ خطبات عیدین خطبات نکاح اسی طرح درس القرآن اور تقاریر اور بالخصوص سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے مضامین بھی شائع کئے گئے اور کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام کے بعض قلمی عکس کی بھی اشاعت ہوئی۔ اسی طرح احمدیہ مشنوں کی رپورٹیں اس کے علاوہ صداقت احمدیت، مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جوابات، غیر مذاہب کے متعلق تحقیقی مضامین، فضیلت دین حق، دین تمدن کی برتری تاریخ دین حق علمی و تربیتی اور دینی مضامین بین الاقوامی اتحاد کے لئے کوشش پر مشتمل مضامین بوقت ضرورت مسلمانوں کی حمایت اور راہنمائی پر مشتمل مضامین کی اشاعت ہوتی چلی آرہی ہے۔ الفضل نے اپنے مضامین کے لحاظ سے طبقہ نسواں کی بھی بہت خدمت کی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1937ء بمقام قادیان کے ایک حصہ میں الفضل کی خریداری بڑھانے اور اخبار کے منتظمین کیلئے اہم ہدایات عطا فرمائیں۔ ان میں سے چند ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں فرماتے ہیں:
’’ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطون کا بھائی سمجھتے ہیں انہیں توفیق بھی ہوتی ہے اور اخبار کی خریداری کی استطاعت بھی رکھتے ہیں مگر جب کہا جاتا ہے کہ آپ ’’الفضل‘‘ کیوں نہیں خریدتے تو کہہ دیتے ہیں اس میں کوئی ایسے مضامین نہیں ہوتے جو پڑھنے کے قابل ہوں۔ ان کے نزدیک دوسرے اخبارات میں ایسے مضامین ہوتے ہیں جو پڑھے جانے کے قابل ہوں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کہ وہ انہیں سنیں اور ان کے پڑھنے کیلئے اخبار خریدیں ایسے لوگ یقیناً وہمی ہوتے ہیں اور ان میں قوت موازنہ نہیں پائی جاتی۔

میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آجاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو ۔۔۔ معلوم ہوتا ہے دوست میرے الفاظ کو رسمی سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ میں اخبار کی امداد کا اعلان کر رہا ہوں حالانکہ میں اخبار کے فائدہ کیلئے نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ایمانوں اور آپ کی نسلوں کے ایمانوں اور آپ کے ہمسایوں کے ایمانوں کے فائدے کیلئے کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ اخبارات خریدیں اور جو لوگ نہیں پڑھ سکتے وہ بھی اخبار خرید کر اپنے غیر احمدی ہمسایوں اور دوستوں کو دیا کریں تاکہ وہ پڑھیں اور سلسلہ کے قریب ہو جائیں ۔۔۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعتوں کے سیکرٹری اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اولین کوشش یہ کریں گے کہ اخبار کے خریداروں میں اضافہ ہو تاکہ الفضل بغیر کسی تکلیف کے چل سکے۔‘‘

آخر پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کے ایک بابرکت ارشاد سے لطف اٹھائیں، فرماتے ہیں:
’’لوگ کہہ دیتے ہیں الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہئے۔ میں بھی کہتا ہوں، الفضل کاہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں (بعض لوگ) کہ اگر الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا نہیں ہو گا تو اس کو لے کے پڑھنے کی کیا ضرورت۔ میں کہتا ہوں کہ اگر الفضل کا ایک مضمون بھی اعلیٰ پایہ کا ہے تو اسے لے کے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں اس سے بھی آگے جاتا ہوں میں کہتا ہوں اگر الفضل میں ایک ایسا مضمون ہے جس میں ایک بات ایسی لکھی ہے جو آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہے تو اس فائدہ کو ضائع نہ کریں آپ، اگر آپ نے بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ۔ 27دسمبر 1979ء۔ الفضل 24؍ فروری 1980ء)

(ابو سدید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جون 2021