• 24 اپریل, 2024

پلے گراؤنڈ

ایم ٹی اے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کا اسلام آباد میں پلے گراؤنڈ کا افتتاح دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی۔ آنکھوں کے سامنے وہ منظر آگیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں بچوں کے ساتھ کھیلتے اور ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت بھی کرتے جاتے۔ اور اپنے عمل سے معاشرے میں بچوں کی قدر اور اہمیت کا نمونہ قائم کیا۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بچوں کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا اور بچوں کی کوئی قدروقیمت اور حقوق نہیں تھے۔ ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ « لا تقتلو اولادکم من خشیة الاملاک « یعنی اپنی اولاد کو مالی تنگی کے ڈر سے قتل نہ کرو اور جبکہ بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میںکہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرو۔

یورپ کے بر اعظم میں جماعت کی طرف سے ایک اسلامی بستی میں پلے گراؤنڈ کے زریعے اسلام میں بچوں کی قدر اور بچوں کی اہمیت واضح ہو گی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں کو دی گئی حیثیت کے مطابق ہنستے کھیلتے صحتمند بچے ایک صحتمند اسلامی معاشرے کا حصہ ضرورت اور مستقبل ہیں۔ کھیل کا میدان بظاہر صرف کھیل کا میدان ہی نہیں ہوتا بلکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت پر اثر ڈال رہا ہوتا ہے۔ اور بچوں کی صحت مند نشو و نما اور شخصیت بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ پلے گراؤنڈ ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے اکھٹے ہو تے اور ملتے ہیں یہاں سے بچوں کی سوشل لائف کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ساتھ چھوٹے بہن بھائیوں اور ایک دوسرے کی فیملیوں سے تعارف ہوتا ہے۔

بھاگنے دوڑنے پھلانگنے اور اچھلنے کودنے سے بچوں کے جسمانی اندرونی و بیرونی اعضاء نشو و نما پاتے ہیں۔آنکھ کان ہاتھ پاؤں حواس اور اعضاء آپس کی تحریکوں سے حرکت کرنا سیکھتے ہیں اور دماغی ترقی بھی بچوں کے بڑھتے ماہ وسال کے ساتھ پروان چڑھتی ہے اگر خدانخواستہ کوئی جسمانی کمزوری ہو تو وہ بھی بروقت غیر قدرتی حرکات و سکنات کے ذریعے ظاہر ہوجاتی ہے بلکہ بر وقت علاج سے کسی غیر معمولی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ پکڑن پکڑائی، چھپن چھپائی،جھولے گھیسی، اونچ نیچ اور دیگر کھیلوں کے آلات سے مزے اٹھانے کے ساتھ ساتھ بچے گھاس، درخت اور ان پر موجود کیڑے مکوڑے اور جانوروں، زمین میں سوراخوں، کبھی گیلی اور کبھی خشک زمین اور بارش سے بننے والے چھوٹے چھوٹے جوہڑوں پر تجارب اور موسمی تبدیلیوں کی پہچان کے ذریعے فطرت کے بھی قریب آتے جاتے ہیں۔ یہاں بچے زبان اور بولنا سیکھتے ہیں،دوستیاں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔ جذبات اُبھرتے بکھر تے اور بنتے ٹوٹتے ہیں لڑائی جھگڑے کھینچاتانی اور صلح صفائی بھی ہوتی ہے جھولے گھیسی اور دوسرے کھلونوں پر باری کے انتظار میں لائن لگا کر کھڑے ہونا وغیرہ تہذیب کی بنیاد یں ڈالتے (جس سے لڑکیاں ذیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں) ہیں مثلا تم اتنی دیر سے پینگ جھول رہے ہو اب مجھے بھی دو میری باری کب آئے گی جو ذرا زیادہ طاقتور ہو (عموما لڑکے) وہ دھکا دیکر گرا بھی دیتے ہیں اور ناراضگی شروع دوستی ختم بُرا بھلا کہہ کر دھمکیاں دیکر پینگ پر قبضہ پھر کسی دوسری کھیل میں ساتھی کی ضرورت پڑی تو منتیں کرکے دوستی ہو گئی اور ساری ناراضگی ہوا میں اڑ گئی ۔ کھیل کھیل میں اپنے مطالب واضح کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے خدا جانے کہاں سے بچوں کو اتنی باتیں اور الفاظ کا ذخیرہ آجاتا ہے۔ بہر حال بچوں کے باغیچے میں بچوں کی باتوں کا مشاہدہ کرنا بے حد دلچسپ تجربہ ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات انسان اس ذریعے سے بہت کام کی باتیں بھی سیکھ جاتا ہےکھیل کے میدان میں بچوں کی ۔تخلیقی صلاحیتیں اور خیالات اجاگر ہوتے اور چیزوں کے بارے میں تجسس پیدا ہوتا ہے۔ غرضیکہ کہ کھیل کے میدان کے بچوں کی زندگی میں بےشمار فائدے ہیں اس لیے اس کی دیکھ بھال بھی ضروری ہے ۔بعض اوقات چھوٹے بچے مٹی یا پھول بوٹے توڑ کر منہ میں ڈال لیتے ہیں اس لئے پلے گراؤنڈ کے گھاس اور پودوں پر مختلف قسم کے سپرے وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہئے اور جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ وہاں کوئی زہریلی جڑی بوٹیاں اور پودے اور نہ ہی کانٹے دار جھاڑیاں اگیں ۔ کھیلوں کے آلات انٹیکٹ ہوں کوئی پیچ پرزے ڈھیلے نہ ہوں تاکہ بچے گرنے اور چوٹ لگنے سے محفوظ رہیں اور ایسے کھلونے ہوں جنکا بچوں کو شوق ہو اس باغ میں موجود کھلونے پینگ گھیسی، پھلانگنے والا رسیوں کا جال اور دیوار اور دیگر عموما بچوں کے پسندیدہ ترین آلات ہیں۔ کھیلوں میں بچے چونکہ ہلتے رہتے اور حرکت کرتے رہتے ہیں اس لئے کچھ دیر بعد تھک بھی جاتے ہیں اس لئے ایک بنچ کا کھیل کے باغ میں ہونا بھی ضروری ہے جہاں بیٹھ کر بچے کچھ دیر آرام کر سکیں ایسے ہی باغ کی صفائی بھی بچوں کی ذہنیت پر اچھا اور محبت بھرا اثر چھوڑ نے کے لئے بے حد ضروری ہے کوڑے کے بن بھی باغیچے کے کونون میں ہونے چاہیں تاکہ بچے گند ادھر ادھر پھینکے کی بجائے ان میں پھینکیں ۔ آجکل دنیا میں انوائیرینمینٹل تبدیلی یعنی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے حشرات الارض اور بیز یعنی شہد کی مکھیوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہو رہی ہے اس لئے بھی ہوٹلز اور انسیکٹ ہوٹلز یعنی کہ مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کے مصنوعی چھتوں کو پلے گراؤنڈ میں لگانا اور ان کی افزائش کا انتظام کرنا جہاں اس قدرتی نقصان کی تلافی کا کچھ مداوا کر سکتا ہے وہاں بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی ماحولیاتی ذمہ داری اجاگر کرنے کا باعث بھی بنتا ہے اس لئے کھیل کے میدان میں مناسب جگہوں پر یہ اقدامات بھی بچوں کی شخصیت مضبوط بنانے میں کار آمد ثابت ہو تے ہیں ۔ ایسے ہی بچوں کی موٹی موٹی لکھائی میں دعاوں کی تختیاں اور اشارے کھیل کے باغ کی دہلیز پر اور دیگر مناسب جگہوں پر آویزاں کرنے سے بچوں کی دینی تربیت اور دعا اور عبادت کیطرف توجہ مبذول کروانے کا موجب بنتی ہیں ۔ اللہ تعالی اپنے فضل سے اس پلے گراؤنڈ کو بچوں اور معاشرے کے لئے بے حد با برکت ثابت کرے۔ آمین۔

(صفورہ ممتاز۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2021