• 23 اپریل, 2024

نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک دفعہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو صحابیوں کے بارے میں سناتے تھے۔ ایک صحابی بازار میں گھوڑا بیچنے کے لئے لایا۔ دوسرے نے اس سے قیمت دریافت کی۔ اس نے کچھ بتائی لیکن خریدنے والے نے کہا نہیں اس کی قیمت یہ ہے اور جو اس نے بتائی وہ بیچنے والے کی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ تھی۔ لیکن بیچنے والا کہے کہ مَیں وہی قیمت لوں گا جو مَیں نے بتائی ہے اور خریدنے والا یہ کہہ رہا تھا کہ میں وہی قیمت دوں گا جو مَیں نے قرار دی ہے۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو صحابہ کا ایک معمولی واقعہ ہے۔ ان کی دیانت کا، ایمانداری کا یہ معیار تو ایک معمولی واقعہ ہے۔ وہ لوگ تو ہر ایک نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے تھے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو۔ اگر ایک دین کا کوئی کام کرے تو تم کوشش کرو کہ اس سے بھی بڑھ کر کرو اور دوسرے کے مقابلے میں اپنے نفس کو قربان کرو۔‘‘

(مأخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ445)

اگر ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو جائے کہ بجائے اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے وہ نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ سچائی پر قائم رہنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں تو جہاں یہ بات ہماری اپنی تربیت کے لئے، اپنے ثواب پہنچانے کے لئے فائدہ مند ہو گی ہماری نسلوں کی تربیت کرنے والی بھی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی جماعت کی ترقی کا بھی باعث بنے گی۔ پس یہ ایمانداری کے معیار ہیں جو ہمیں قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک اور اہم بات جس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے، یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ تمام خوبیوں کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی طرح کسی کو ہدایت دینا بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد ایک کام کیا ہے کہ ہدایت کی اشاعت کرو۔ پیغام پہنچاؤ۔ لیکن ہدایت دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمیں جس حد تک ممکن ہو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے اور نتائج پھر اللہ تعالیٰ خود عطا فرماتا ہے۔ یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اگر فلاں شخص ہدایت پا جائے اور احمدی ہو جائے تو جماعت ترقی کرے گی۔ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص احمدی ہو جائے تو یہ احمدیت کی ترقی ہو گی اور ہم بھی احمدی ہو جائیں گے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آتے اور کہتے کہ ہمارے گاؤں میں فلاں شخص ہے اگر وہ احمدی ہو جائے تو ہم گاؤں کے لوگ احمدی ہو جائیں گے حالانکہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ شخص مان بھی لے تب بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نہیں مانتے اور تکذیب سے باز نہیں آتے۔ چنانچہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تین مولوی تھے وہاں کے لوگ کہتے تھے کہ اگر ان میں سے کوئی مرزا صاحب کو مان لے تو ہم سب کے سب مان لیں گے۔ ان میں سے ایک نے بیعت کر لی۔ (اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور اس نے بیعت کر لی) تو سب لوگوں نے کہہ دیا کہ ایک نے مان لیا تو کیا ہؤا۔ اس کی تو عقل ماری گئی ہے۔ ابھی دو نے نہیں مانا۔ دوسرے دو تو ایسے ہی ہیں ناں جنہوں نے نہیں مانا۔ یہ تین ہمارے ایسے بزرگ ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اگر یہ مان لیں تو مانے جائیں گے۔ ایک نے مانا ہے تو کیا پتا اس کی عقل ماری گئی ہو۔ پھر ایک اور نے بیعت کر لی۔ پھر مخالفین نے یہی کہا کہ ان دونوں مولویوں کا کیا ہے، یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ ایک نے ابھی تک بیعت نہیں کی اس لئے ہم نہیں مانتے۔ تو ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن جن لوگوں کا تجربہ وسیع نہیں ہوتا وہ اسی دُھن میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں شخص مان لے تو سب لوگ مان لیں گے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

(مأخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 451-450)

پس ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی طرف ہونی چاہئے۔ ہمارا انحصار اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے اور جو کام ہم نے کرنا ہے اس کو کرنا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف ہم نظر رکھیں۔ بہت سارے لوگ ہیں جن پر بعض لوگ بعض دفعہ انحصار کرتے ہیں لیکن وہ جن پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے وہ خود ہی بعض دفعہ مشکل اور ابتلا میں آجاتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس کے لئے یہ شرائط کہی ہیں۔ اس کے لئے دعا کریں کہ اس کی یہ شرطیں پوری ہو جائیں تو وہ احمدی ہو جائے گا اور جب وہ احمدی ہو جائے گا تو ہمارے علاقے میں انقلاب آ جائے گا۔ حالانکہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ جماعت کو عطا فرمائے جو اخلاص و وفا میں بڑھنے والے ہوں اور دینی ترقی میں آگے قدم بڑھانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو انسانیت کو گمراہی سے بچانے کے لئے کتنا درد تھا اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک اَن پڑھ اور ادنیٰ عورت آئی۔ وہاں ہندوستان میں تو ذاتوں کا بڑا دیکھا جاتا ہے۔ تو بڑی ادنیٰ ذات کی عورت تھی اور کہنے لگی کہ حضور میرا بیٹا عیسائی ہو گیا۔ آپ دعا کریں کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ آپ نے فرمایا تم اسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سنا کرے۔ وہ بیمار تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ قادیان میں تھا تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے علاج کروا رہا ہے۔ اس کو میرے پاس بھی بھیج دیا کرو۔ آپ فرماتے ہیں اس لڑکے کو سِل کی بیماری تھی (یعنی ٹی بی کی بیماری تھی۔) چنانچہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتا تو اسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے لیکن عیسائیت اس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اثر اس کے دل پر ہونے لگا تو اس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ ہو جاؤں۔ چنانچہ ایک رات وہ اپنی ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا۔ رات کو گھر سے، قادیان سے دوڑ گیا۔ اور بٹالہ میں جہاں عیسائیوں کا مشن تھا وہاں چلاگیا۔ جب اس کی ماں کو پتا لگا تو وہ راتوں رات بٹالہ پیدل گئی اور اسے پکڑ کر پھر قادیان واپس لے آئی۔ حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ عورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پَیروں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں مجھے اسلام پیارا ہے۔ میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو جائے پھر بیشک مر جائے۔ جو بیماری ہے اس سے اگر نہیں بچتا تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس عورت کی التجا قبول کر لی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد (بیچارہ) فوت بھی ہو گیا۔

(مأخوذ از الفضل 10فروری 1959ء صفحہ3 جلد48/13 نمبر35)

اس عورت کو بھی یہ پتا تھا کہ اگر دین میں واپس لانے کے لئے کوئی آخری حیلہ، انسانی وسیلہ ہو سکتا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں کیونکہ انہی میں اسلام کا حقیقی درد ہے اور وہی حقیقی درد کے ساتھ دوسرے کو پیغام بھی پہنچا سکتے ہیں، تبلیغ بھی کر سکتے ہیں، قائل بھی کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصلاح کے طریق کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ اب اصلاح میں بھی بعض لوگ بعض دفعہ غلط رنگ میں ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ لوگ بجائے اصلاح کے بگڑ جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ’’حضرت صاحب کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب تھا۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا۔ اس کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ وہ باتوں باتوں میں یہ بیان کرنے لگا کہ اس کمی کی وجہ سے ریلوے ٹکٹ میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں اور وہ طریقہ شاید کچھ غلط طریقہ تھا۔ آپ نے ایک روپیہ اس کو دے دیا (اس زمانے میں روپے کی بڑی ویلیو تھی) اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ امید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ اس کو یہ بھی سمجھا دیا کہ جو جائز چیز ہے اس کو ہمیشہ کرنا چاہئے۔

(مأخوذ ازجماعت قادیان کو نصائح۔ انوار العلوم جلد4 صفحہ23)

(خطبہ جمعہ 30؍ اکتوبر 2015ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2020