• 19 اپریل, 2024

اسموگ اور لندن

گذشتہ چند سالوں سے انڈیا اور پاکستان میں موسم سرما شروع ہوتے ہی دھند اورا سموگ کا خوف ستانے لگتا ہے ۔ ہر سال اس کا دائرہ، کثافت اور نقصان بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ کچھ دہا ئیاں پہلے تک اس کا کوئی تصور بھی ہمارے ملک میں نہ تھا ۔ لیکن اب یہ ہر سال کچھ عرصہ کے لئے کاروبار زندگی معطل کر دیتا ہے اور عوام خاص طور پر بچوں کی صحت پر انتہائی منفی اثرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

یہ اصطلاح اسموک اور فوگ کے الفاظ سے ماخوذ ہے ، یہ اصطلاح شاید پہلی بار سن 1905 میں استعمال ہوئی لیکن 1909 میں موسم خزاں کے دوران گلاسگو اور ایڈنبرا میں اسموگ کی وجہ سے ہونے والی ایک ہزار سے زیادہ اموات کے بارے میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے بعد یہ اصطلاح زیادہ مقبول ہوئی۔

اسموگ کی کم از کم دو مختلف اقسام کو تسلیم کیا گیا ہے

گندھک کاا سموگ ، ہوا میں سلفر آکسائڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ سلفر والے فوسل ایندھن، خاص طور پر کوئلے کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے ا س طرح کا اسموگ نمی اور ہوا میں معلق ذرات کے درجہ حرارت کی کمی بیشی کی وجہ سے بڑھتا ہے

فوٹو کیمیکل اسموگ یہ ان شہری علاقوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں گاڑیاں موجود ہوں۔ اس قسم کا دھواں گاڑیوں اور دیگر ذرائع سے خارج ہونے والے نائٹروجن آکسائڈز اور ہائیڈرو کاربن کی فضا میں موجودگی میں شروع ہوتا ہے ، جو اس کے بعد سورج کی روشنی میں فوٹو کیمیکل رد عمل سے گزرتا ہے ۔ انتہائی زہریلی گیس اوزون اور سورج کی روشنی میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعیں ہائیڈروکاربن کے ساتھ نائٹروجن آکسائڈ کا رد عمل پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں اسموگ کی ہلکی بھوری رنگت کی تہہ وجود میں آتی ہے جو موسم سرد ہونے پر زیریں فضا میں موجود رہتی ہے اور آنکھوں میں جلن اور سانس کی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔

برصغیر میں دونو ں قسم کا سموگ پیدا ہوتا ہےجس کی وجہ صنعتی اور گھریلو ضروریات کی خاطر بجلی پیدا کرنے کے لئے تھرمل بجلی گھروں پر انحصار ہے جن میں سے انڈیا میں اکثریت میں کوئلہ بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ سردیوں کے آتے ہی سرحد کے آر پار کھیتوں میں چاول کی مڈھی جلائی جاتی ہے جس سے پیدا ہونے والے کاربن کے ذرات، فوٹو کیمیکل اور گندھک کا یہ مکسچر کم درجہ حرارت میں فضا میں ایک دبیز زہریلی تہہ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ یہ تہہ تب تک فضا میں موجود رہتی ہے جب تک بارش نہ ہو ۔ بارش ہونے پر تیزابی بارش کی شکل میں یہ زہریلا کیمکل ہمارے ندی نالوں ، جھیلوں اور دریاوں میں شامل ہورہا ہے اور ہمارے ماحول اور حیاتیات کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف برصغیر ہی اس مسئلہ سے نبرد آزما ہے تو جواب نہیں میں ہے۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ یورپی اقوام اس دور سے گذر چکی ہیں اور اس کاحل بھی نکال چکی ہیں

آج سےتقریباً 200 سال پہلے یورپ اور برطانیہ کی فضا آلودہ ہونی شروع ہو چکی تھی اور ۱ٹھارویں صدی کے وسط میں موسم سرما میں لندن میں دھند عام تھی یہاں تک کہ انیسویں صدی میں یہ اس قدر زیادہ ہوچکی تھی کہ لندن کی شناخت ہی اس کی دھند آلودہ فضا سے کی جاتی تھی۔ 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں صنعتوں کی تیز ترقی کی وجہ سے فضا اس قدر کثیف ہو چکی تھی کہ سانس لینا مشکل ہوتا تھا۔ اس کا ذکر بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد لندن نے بھی اپنی یاد داشتوں میں کیا ہے کہ ایک دفعہ بازار سے مشن ہاوس واپس آتے ہوئے دن میں اچانک اتنی گہری دھند چھا گئی کہ راستہ کی پہچان ہی ختم ہوگئی اور کسی شخص کا ہاتھ پکڑ کر گھر تک پہنچ سکے۔ پھر 1952 میں وہ واقعہ ہوا جسے تاریخ میں گریٹ اسموگ آف لندن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس نے پالیسی بنانے والوں کو اس مسئلہ کا مستقل حل ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا۔

گریٹ اسموگ آف لندن

گریٹ اسموگ آف لندن یا 1952 کی زبردست دھند ، ہوا کی آلودگی کا ایک ایساشدید واقعہ تھا جس نے دسمبر 1952 کے اوائل میں برطانوی دارالحکومت لندن کو متاثر کیا تھا۔ سردی کے ایک وقفے نے ، ایک طوفان اور ہوا سے چلنے والی صورتحال کے ساتھ فضا میں موجود آلودگی کو جمع کیا جو کوئلے کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور شہر میں دھواں کی ایک موٹی پرت بن گئی۔ یہ جمعہ 5 دسمبر سے منگل 9 دسمبر 1952 تک جاری رہا ، اور حتیٰ کہ موسم بدلا تو یہ منتشر ہوا۔

اس اسموگ نے دیکھنے کی صلاحیت کو اتنا کم کردیا کی دڑائیونگ تقریباً ناممکن ہوگئی۔ لندن انڈ رگراونڈ کے علاوہ تمام پبلک ٹرانسپورٹ رک گئی حتیٰ کے ایمبو لینس سروس بھی روکنا پڑی۔ دھواں ملی دھند عمارتوں کے اندر بھی داخل ہو گئی یہاں تک کہ سینما گھروں میں فلمی نمائش اور کنسرٹ وغیرہ بھی بصری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے منسوخ کرنے پڑے۔ سرکاری طبی رپورٹوں کے مطابق ، 8 دسمبر تک سموگ کے براہ راست نتیجے میں 4،000 افراد کی موت ہوچکی تھی اور 100،000 مزید افراد سانس کی نالی پر اسموگ کے اثرات سے بیمار ہوگئے تھے حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بعد کے دنوں میں کل اموات کی کل تعداد تقریباً 12000 زیادہ تھی۔ بہت سے راہگیر راستوں میں گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ۔ کچھ لوگ گاڑیوں کے ساتھ حادثات کا شکار بھی ہوئے۔ گریٹ اسموگ کو برطانیہ کی تاریخ کا بدترین ہوا ئی آلودگی کا واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا واقعہ تھا جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے مہلک اثرات سامنے آئے اور دنیا کو اس مسئلہ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ۔ اس کے نتیجہ میں ماحولیاتی تحقیق ، حکومت کے ضوابط ، ہوا کے معیار اور صحت کے مابین تعلقات کے بارے میں عوامی شعور پر اس کے اثرات کے لحاظ سے متعدد تبدیلیاں آئیں ۔

آلودگی کے ذرائع

بعد میں ہونے والی تحقیقات نے ثابت کیا کہ لندن اور اس کے مضافات میں موجود کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر اس آلودگی کی بنیادی وجہ تھے۔ اس کے علاوہ خاص طور پر بھاپ کے انجن اور ڈیزل سے چلنے والی بسیں جنہوں نے حال ہی میں ترک کر دیئے گئے برقی ٹرام نظام کی جگہ لے لی تھی۔ اس کے علاوہ گھروں کو گرم کرنے کے لئے کوئلہ کا استعمال کیا جاتا تھا اور جنگ عظیم دوم کے بعد مارکیٹ میں عوام کے لئے دستیاب کوئلہ بہت ہی گھٹیا کوالٹی کا تھا جس میں سلفر کی بہت زیادہ مقدار تھی جبکہ بہتر کوالٹی کا کوئلہ صرف صنعتی استعمال کے لئے مہیا کیا جاتا تھا۔

لندن میں ماحولیاتی اثرات

ہلاکتوں کی تعداد نے جدید ماحولیات کے تحفظ کو ایک اہم محرک بنا دیا ، اور اس سے فضائی آلودگی پر ازسرنو غور و فکر ہوا ، کیونکہ اسموگ نے اپنی مہلک صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ صنعت میں گندے ایندھن کے استعمال اور سیاہ دھواں پر پابندی عائد کرتے ہوئے نئے ضوابط نافذ کیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ماحولیاتی قانون سازی ، جیسے سٹی آف لندن ایکٹ 1954 اور 1956 کے کلین ایئر ایکٹ کے نتیجے میں ہوا کی آلودگی میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ عوام کو آمادہ کیا گیا کہ وہ کوئلہ کا استعمال چھوڑ کرسنٹرل ہیٹنگ سسٹم پر منتقل ہوں اور اس کے لئے مالی معاونت کی سکیمیں بھی شروع کی گئیں۔ تمام صنعتیں اور بجلی گھرتدریجاً شہری آبادی سے دور منتقل کئے گئے اور نئی صنعتوں کے قیام کے لئے مخصوص علاقے مختص کئے گئے۔ ان تمام اقدامات نے ماحول میں مثبت تبدیلیاں مرتب کیں۔

آج جب ہم لندن کو دیکھتے ہیں تو باوجود اتنی گنجان آبادی اور ٹریفک کے، آلودگی میں جنوبی ایشائی ممالک کے مقابلہ میں سینکڑوں درجے بہتر نظر آتا ہے حالانکہ کچھ دیگر یورپی شہروں کی نسبت ابھی بہت کام باقی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ماحولیاتی قوانین اور ضابطوں پر نظر ثانی ہوتی ہے۔ اندرون شہر ڈیزل گاڑیوں کے استعمال پر اضافہ ٹیکس ہے اور اس کا دائرہ کارتدریجاً بڑھایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے آیندہ آنے والے کچھ سالوں میں لندن شہر میں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی لگادی جائے گی۔

(مرسلہ: عامر محمود ملک ۔ شیفیلڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2020