• 24 اپریل, 2024

’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘ (حدیث نبویﷺ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں:۔
پس ہمیشہ ان شرائط کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے اس کا پابند رہنے کی کوشش کریں۔ اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں؟ اس کی مَیں مزید وضاحت کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ چوتھی شرط میں ایک احمدی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف نہیں دینی۔ یہ معیار انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پُر ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں حسدنہ کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بُغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ رکھو۔ اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا۔ اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘۔ فرمایا ’’کسی آدمی کے شر کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب البروالصلۃوالٓاداب باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…. حدیث: 6541)

آج آپ دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ جو ظلم ہو رہے ہیں، جو حقوق غصب کئے جا رہے ہیں، جو مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، جو ظلم و بربریت کے بازار ہمیں ہر طرف گرم ہوتے نظر آتے ہیں، اُن کی بنیاد یہی حسد ہے اور تقویٰ میں کمی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور انتہا پسندی سے بچے ہوئے ہیں۔ لیکن چھوٹے پیمانے پر ہمارے گھروں میں بھی، ہمارے ماحول میں بھی یہ بیماریاں موجود ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک حقیقت پسندی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جائزے لے تو خود اُسے نظر آ جائے گا کہ میں آپ کو یہ غلط باتیں نہیں کہہ رہا۔ بھائیوں بھائیوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ افرادِ جماعت میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ عورتوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ اس بات پر حسد شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کو فلاں خدمت کیوں سپرد ہو گئی ہے؟ میرے سپرد کیوں نہیں ہوئی؟ اگر ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ایک الٰہی جماعت ہے اور یقینا ہے تو پھر بجائے عہدہ کی خواہش رکھنے کے استغفار کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اگر کسی وقت بھی میرے سپرد یہ خدمت ہوئی تو میں اس کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکوں۔ عہدہ کی خواہش رکھنے والے کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو پھر عہدہ ہی نہ دو۔

(صحیح بخاری کتاب الأحکام باب مایکرہ من الحرص علی الامارۃ حدیث: 7149)

اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امانتوں کی حفاظت کرو تم اس بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ عہدے اور جماعتی خدمت بھی امانتیں ہیں۔ اگر انسان کے دل میں تقویٰ ہو تو وہ ہر وقت خوفزدہ رہے کہ جو خدمت میرے سپرد ہے اُس کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے میری جواب طلبی ہو گی اور کسی بندے کے سامنے جواب طلبی نہیں ہو گی جس کو باتوں میں چَرا کر دھوکہ دیا جا سکتا ہو بلکہ اُس عالم الغیب، علیم و خبیر خدا کے سامنے جواب دہی ہو گی جس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں، جسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔

پس اگر یہ بات سب عہدیدار بھی سامنے رکھیں اور عہدوں کی خواہش رکھنے والے بھی سامنے رکھیں تو نفسانی خواہشات کے بجائے تقویٰ کی طرف قدم آگے بڑھیں گے۔ پھر یہ تقویٰ کی کمی ہے جو معمولی باتوں پر رنجشوں کو بڑھاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے کہ فلاں کو دُکھ کس طرح پہنچایا جائے۔ فلاں کو نظامِ جماعت اور خلیفۂ وقت کے سامنے کس طرح گھٹیا اور ذلیل ثابت کیا جائے یا کم تر ثابت کیا جائے یا اُس کی کوئی کمزوری اُس کے سامنے لائی جائے۔ یہاں تک کہ مجالس میں اُس کے بیوی بچوں کو کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پورا خاندان بعض دفعہ اس میں involve ہو جاتا ہے۔

پس کجا تو اس شرط پر بیعت ہو رہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا بلکہ ہمدردی کے راستے تلاش کروں گا۔ فائدہ پہنچانے کی ترکیبیں سوچوں گا اور کجا یہ عمل ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں اپنے یہ جائزے لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ دن اس راہ کے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ مَیں یہ سب باتیں کسی مفروضے پر بنیاد کر کے نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقت میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جو میرے لئے پریشانی کا موجب ہوتے ہیں، شدید شرمندگی کا باعث بنتے ہیں کہ میں تو دنیا کو یہ بتاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ وہ جماعت ہے جو حقوق کی ادائیگی کی راہیں تلاش کرتی ہے۔ اُس مسیح موعود کو ماننے والی ہے جو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے کے لئے اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا اور ہمارے بعض افراد کی کیا حالت ہے۔ اُن کو دیکھ کر غیر کیا کہیں گے کہ تمہارے دعوے کیا ہیں اور تمہارے لوگوں کے عمل کیا ہیں؟

پس اگر ہم نے دنیا میں انقلاب کا ذریعہ بننا ہے تو پھر اپنی زندگیوں میں بھی، اپنی حالتوں میں بھی وہ انقلابی کیفیت طاری کرنی ہو گی جس کی زمانے کے امام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں ہم سے توقع کی ہے۔

(خطبہ جمعہ یکم جون 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ہیومینیٹی فرسٹ جرمنی کی ڈونیشن سے بلغاریہ میں ایک پراجیکٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2021