• 19 اپریل, 2024

نماز تہجد پر اُ ٹھنے کے تیرہ طریق

بیان فرمودہ: حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی

حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی فرماتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تہجد پڑھنی تو ضرور چاہئے مگر رات کو اُٹھیں کیونکر؟ اس کا ایک ادنیٰ طریق میں پہلے بتا تا ہوں۔

اگرچہ اس میں نقصان بھی ہے مگر فائدہ بھی ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل الارم والی گھڑیاں مل سکتی ہیں ان کے ذریعہ انسان جاگ سکتاہے۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ یہ کوئی ایسا مفید طریق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کوبھروسہ ہوجاتاہے کہ وہ مجھے وقت پر جگا دے گی اس لئے رات کوا ٹھنے کی نیکی کی طرف جو توجہ اور خیال ہوناچاہئے وہ اس کو نہیں ہوتا۔ اگر اسے اٹھنے کا خیال ہوتا اور اسی خیال میں ہی اس کی آنکھ لگ جاتی تو گویا وہ ساری رات ہی عباد ت کرتا رہتا۔ اس کے علاوہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ اگر اٹھنے کو جی نہ چاہے تو انسان بجتے بجتے الارم کو بند کردیتاہے۔لیکن اگر نیت اورارادہ سے سوئے گا تو وقت پر ضرور اٹھ کھڑا ہوگا۔پھر ایسے لوگ جو گھڑی کے ذریعہ اٹھتے ہیں وہ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نماز میں نیند آتی ہے۔ اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ وہ گھڑی سے اٹھتے ہیں نہ کہ اپنے طورپر۔ اس لئے یہ طریق کوئی مفید نہیں ہے۔ ہاں ابتدائی حالت کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے وقت مفید ہوتاہے۔
میرے نزدیک وہ طریق جن سے رات کو اٹھنے میں مدد مل سکتی ہے تیرہ(13)ہیں۔ اگر کوئی شخص ان پر عمل کرے تومیں یقین رکھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ضرور کامیابی ہوگی۔ شروع میں تو ہر کام میں مشکلات ہوتی ہیں مگر آخر کار ضروران میں کامیابی ہوگی۔یہ سب باتیں جومیں بیان کروں گاوہ قرآن وحدیث سے ہی اخذ کی ہوئی بیان کروں گا نہ کہ اپنی طرف سے۔ مگر یہ خداتعالیٰ کا مجھ پرخاص فضل ہے کہ یہ باتیں مجھ پرہی کھولی گئی ہیں اوراَوروں سے پوشیدہ رہی ہیں۔ اگر وقت تنگ نہ ہوتا تومیں قرآن کریم کی وہ آیات اور حدیثیں بھی بیان کردیتا جن سے میں نے اخذکی ہیں مگر اب صرف نتائج ہی بیان کروں گا۔

پہلا طریق

پہلا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیچر (فطرت) میں قاعدہ رکھاہے کہ جس وقت میں کوئی چیز پیداہوئی ہے وہی وقت جب دوسری دفعہ آئے تو اس چیز میں پھر جوش پیدا ہوجاتاہے۔ اس کی مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔ مثلاً انسان کوجو بیماری بچپن میں ہووہی بیماری بڑھاپے میں جبکہ بچپن کی سی حالت ہو جاتی ہے، عُود کر آتی ہے۔ یہی بات درختوں اور پرندوں میں پائی جاتی ہے۔ اس قاعدہ سے رات کو اُٹھنے میں مد د مل سکتی ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ عرصہ ذکر ا لٰہی کرلے۔ اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ جتناعرصہ وہ ذکرکرے گا صبح اتناہی قبل اس کی آنکھ ذکرکرنے کے لئے کھل جائے گی ۔

دوسرا طریق

دوسرا طریق یہ ہے کہ عشاء کی نمازکے بعدکسی سے کلام نہ کرے ۔رسول کریم ﷺ نے بھی عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کلام کرنے سے روکا ہے۔گویہ بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپﷺ کلام کرتے رہے ہیں۔ مگر عام طورپر آپ نے منع فرمایا ہے۔ اس کا باعث یہ ہے کہ اگر عشاء کی نماز کے بعد باتیں شروع کردی جائیں تو انسان زیاد ہ جاگے گا اور صبح کو دیر سے اٹھے گا اور دوسرے یہ کہ اگر وہ باتیں دینی اور مذہبی نہ ہوں گی تو ان کی وجہ سے توجہ دین سے ہٹ جائے گی ۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عشاء کی نمازکے بعد بغیر کلام کئے سو جانا چاہئے تاکہ دینی خیالات پرہی آنکھ لگے اور سویرے کھل جائے ۔ دفتر کے کام یا اور کوئی ضروری فعل عشاء کی نمازکے بعد منع نہیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ سونے سے پہلے ذکر کر لے۔ یہ دوسرا طریق ہے۔

تیسرا طریق

تیسرا طریق یہ ہے کہ جب کو ئی عشاء کی نماز پڑھ کر آئے اور سونے لگے تو خواہ اس کا وضو ہی ہے تو بھی تازہ وضوکرکے چارپائی پر لیٹے۔ اس کا ا ثر قلب پر پڑتاہے اور اس سے خاص قسم کی نشاط پیدا ہوتی ہے اور جب کوئی تازہ وضوکی وجہ سے نشاط کی حالت میں سوئے گا تووہ آنکھ کھلتے وقت بھی نشاط میں ہی ہوگا۔ عام طورپر یہ دیکھا گیاہے کہ اگرکوئی روتا سوئے تو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہے اوراگر ہنستاسوئے تو اٹھتے وقت بھی اس کا چہرہ بشاش ہی ہوتاہے۔ اسی طرح جووضو کرکے نشاط سے سوتاہے وہ اٹھتا بھی نشاط سے ہی ہے اور اس طرح اس کو اٹھنے میں مدد ملتی ہے۔

چوتھا طریق

چوتھا طریق یہ ہے کہ جب سونے لگے تو کوئی ذکر کر کے سوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رات کو ذکر کرنے کے لئے پھراس کی آنکھ کھل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سونے سے پہلے یہ ذکر کیا کرتے تھے۔ آیت الکرسی ،پھر تینو ں قُل ایک ایک دفعہ پڑھ کراپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور ہاتھ سارے جسم پر پھیرتے اورایسا تین دفعہ کرتے تھے اورپھر دائیں طرف منہ کرکے یہ عبارت پڑھتے اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نفِسي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْري إِلَيْكَ، وَأَلَجَأْتُ ظَهرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لامَلْجِأَ وَلاَ مَنجٰي مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ، اٰمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنزَلْتُ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِيْ أَرسَلْتَ

(ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی الدعا)

اور اسی طرح ہرایک مومن کوچاہئے اور پھر چارپائی پر لیٹ کر دل میں ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِْ یاکوئی اور ذکر جاری رکھنا چاہئے حتیٰ کہ اس حالت میں آنکھ لگ جائے۔ کیونکہ جس حالت میں انسان سوتاہے عام طورپر وہی حالت ساری رات اس پر گزرتی رہتی ہے۔ اس لئے جو شخص تسبیح و تحمید کرتے سوئے گا گویا ساری رات اسی میں لگا رہے گا۔ دیکھو عورتیں یابچے اگر کسی غم اور تکلیف میں سوئیں توسوتے سوتے جب کروٹ بدلتے ہیں تو دردناک اور غمگین آواز نکالتے ہیں کیونکہ اس غم کا جوسوتے وقت ان کو تھا ان پر اثر ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی تسبیح کرتے سوئے گا تو جب کروٹ بدلے گا اس کے منہ سے تسبیح کی آوازہی نکلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتاہے کہ مومن وہ ہوتے ہیں کہ تتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ(السجدہ:17)

یعنی ان کے پہلو بستروں سے اٹھے رہتے ہیں اور وہ خوف اور طمع سے اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ بظاہر تو بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوتے تھے اور دوسرے سب مومن بھی سوتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ چونکہ تسبیح کرتے کرتے سوتے ہیں اس لئے ان کی نیند، نیند نہیں ہوتی بلکہ تسبیح ہی ہوتی ہے اور اگر چہ وہ سوتے ہیں مگر درحقیقت سوتے نہیں۔ ان کی کمریں بستروں سے الگ رہتی ہیں اوروہ خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں۔

پانچواں طریق

پانچواں طریق یہ ہے کہ سونے کے وقت کامل ارادہ کرلیا جائے کہ تہجد کے لئے ضرور اٹھوں گا۔ انسان کے اندرخداتعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ جب وہ زورسے اپنے نفس کوکوئی حکم کرتاہے تووہ تسلیم کرلیتاہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو تمام دانا مانتے آئے ہیں۔ پس تم سونے کے وقت پختہ ارادہ کرلو کہ تہجد کے وقت ضرور اٹھیں گے۔ اس طرح کرنے میں گو تم سو جاؤ گے مگر تمہاری روح جاگتی رہے گی کہ مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں وقت جگانا ہے اور عین وقت پر خود بخود تمہاری آنکھ کھل جائے گی۔

چھٹا طریق

چھٹا طریق ایسا ہے کہ جس کے کرنے کی صرف ایسے ہی شخص کو اجازت دیتا ہوں جو یہ دیکھتا ہو کہ میرا ایمان خوب مضبوط ہے اور وہ یہ کہ وتروں کو عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تہجد کے وقت پڑھنے کے لئے رہنے دے۔ عام طورپر یہ بات پائی جاتی ہے کہ انسان فرض تو خاص طورپر ادا کرتاہے مگر نفل میں سستی کر جاتاہے۔ پس جب نفلوں کے ساتھ واجب مل جائے گا تو اس کی روح کبھی آرام نہ کرے گی جب تک ا س کو ادا نہ کرےاور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نفس سستی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر وتر پڑھے ہوئے ہوں اورتہجد کے وقت آنکھ کھل بھی جائے تو نفس کہہ دیتاہے کہ وتر توپڑھے ہوئے ہیں، نفل نہ پڑھے تونہ سہی۔ مگر جب یہ خیال ہوگا کہ وتر بھی پڑھنے ہیں تو ضرور اٹھے گا اور جب اٹھے گا تو نفل بھی پڑھ لے گا۔ لیکن جیساکہ میں نے پہلے بتایاہے اس کے لئے شرط ہے کہ ایمان بہت مضبوط ہو۔ جب ایمان مضبوط ہوگا تو وتروں کے لئے ضروراٹھے گا ورنہ وتروں کے پڑھنے سے بھی محروم رہے گا۔

ساتواں طریق

ساتواں طریق بھی انہی لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ عشاء کی نمازکے بعد نفل پڑھنے شروع کردیں اور اتنی دیر تک پڑھیں کہ نماز میں ہی نیند آجائے اور اتنی نیند آئے کہ برداشت نہ کی جاسکے۔ اس وقت سوئے۔ باوجوداس کے کہ اس میں زیادہ وقت لگے گا مگر سویرے نیند کھل جائے گی۔ یہ روحانی ورزش ہوتی ہے۔

آٹھواں طریق

آٹھواں طریق وہ ہے جس کا ہمارے صوفیاء میں رواج تھا۔میں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر ہے مفید اور وہ یہ ہے کہ جن دنوں میں زیادہ نیند آئے اور وقت پر آنکھ نہ کھلے ان دنوں میں نرم بستر ہٹا دیا جائے۔

نواں طریق

نواں طریق یہ ہے کہ سونے سے کئی گھنٹے پہلے کھانا کھالیا جائے۔ یعنی مغرب سے پہلے یا مغرب کی نمازکے فوراً بعد۔ بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان کی روح چست ہوتی ہے مگر جسم سُست کر دیتاہے۔ جسم ایک طوق ہے جو روح کو چمٹا ہوا ہے۔
جب یہ طوق بھاری ہوجائے تو پھر روح کو دبا لیتاہے۔ اس لئے سونے کے وقت معدہ پُر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کا اثر قلب پر بہت پڑتاہے اور انسان کو سست کر دیتاہے۔

دسواں طریق

دسواں طریق یہ ہے کہ جب انسان رات کو سوئے تو ایسی حالت میں نہ ہوکہ جنبی ہو یا اسے کوئی غلاظت لگی ہو۔ بات یہ ہے کہ طہارت سے ملائکہ کا بہت بڑا تعلق ہے اور وہ گندے انسان کے پاس نہیں آتے بلکہ دور ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ کے سامنے جب ایک بُودار چیز کھانے کے لئے لائی گئی تو آپؐ نے صحابہؓ کو فرمایا کہ تم کھالو،میں نہیں کھاتا۔ صحابہؓ نے کہا ہم بھی نہیں کھاتے۔ آپؐ نے فرمایا تم کھالو میرے ساتھ تو فرشتے باتیں کرتے ہیں اس لئے میں نہیں کھاتاکیونکہ انہیں ایسی چیزوں سے نفرت ہے۔تو غلاظت کو ملائکہ بہت ناپسند کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھوئے بغیر سوگیا۔ رؤیا میں میں نے دیکھاکہ میرے بھائی صاحب آئے ہیں اور انہوں نے مجھے قرآن کریم دینا چاہا لیکن جب میں ہاتھ لگانے لگا تو کہا کہ ہاتھ نہ لگانا تمہارے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ توبدن کے صاف ہونے کا قلب پر بہت اثر پڑتاہے۔ صفائی کی حالت میں سونے والے کو ملائکہ آکر جگا دیتے ہیں۔ لیکن اگر صفائی میں فرق ہو تو پاس نہیں آتے۔ یہ طریق جسم کی صفائی کے متعلق ہے۔

گیارہواں طریق

گیارہواں طریق یہ ہے کہ بستر پاک و صاف ہو۔ بہت لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے مگر یاد رکھناچاہئے کہ بستر کی پاکیزگی روحانیت سے خاص تعلق رکھتی ہے اس لئے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

بارہواں طریق

بارہواں طریق ایساہے کہ عوام کو اس پر عمل کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتاہے۔ ہاں خاص لوگوں کے لئے نقصان دہ نہیں اور وہ یہ کہ میاں بیوی ایک بستر میں نہ سوئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے لیکن آپ کی شان بہت بلند و ارفع ہے۔ آپؐ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھا مگر دوسرے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ بات یہ ہے کہ جسمانی شہوت کااثر جتنا زیادہ ہو اسی قدر روحانیت کو بند کر دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے کہاہے کہ کھاؤ پیو مگر حد سے نہ بڑھو۔ کیوں نہ حد سے بڑھو؟ اس لئے کہ شہوانی جذبہ زیادہ بڑھ کر روحانیت کونقصان پہنچائے گا۔ پس وہ لوگ جو اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں وہ اگر اکٹھے سوئیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا مگر عام لوگوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور وہ لوگ جنہیں اپنے خیالات پر پورا پورا قابو نہ ہو ان کو اکٹھا نہیں سونا چاہئے۔ اس طرح ان کو شہوانی خیالات آتے رہیں گے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوتے سوتے جماع کرنے یا پیار کرنے لگ جاتے ہیں اس طرح روحانیت پربُرا اثر پڑتاہے اور اٹھنے میں سستی ہو جاتی ہے۔

تیرہواں طریق

تیرہواں طریق ایسا اعلیٰ ہے کہ جو نہ صرف تہجد کے لئے اٹھنے میں بہت بڑا ممد اور معاون ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے انسان اَور بدیوں اور برائیوں سے بھی بچ جاتاہے اور وہ یہ ہے کہ سونے سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ ہمارے دل میں کسی کے متعلق کینہ یا بُغض تو نہیں ہے۔ اگر ہو تو اس کو دل سے نکال دینا چاہئے۔ اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ روح کے پاک ہونے کی وجہ سے تہجد کے لئے اٹھنے کی توفیق مل جائے گی۔ خواہ اس قسم کے خیالات ان پر پھر قابو پا ہی لیں۔لیکن رات کو سونے سے پہلے ضرور نکال دینے چاہئیں اور دل کوبالکل خالی کر لیناچاہئے۔ اس میں حرج ہی کیاہے ۔اگر کوئی ایسے خیالات میں دنیاوی فائدہ سمجھتاہے تودل کو کہے کہ دن کو پھر یاد رکھ لینا۔ رات کو سونے کے وقت کسی سے لڑائی تو نہیں کرنی کہ ان کودل میں رکھا جائے۔ اول توایسا ہوگا کہ اگرایک دفعہ اپنے دل سے کسی خیال کی جڑ کا ٹ دی جائے گی تو پھر وہ آئے گا ہی نہیں۔ دوسرے اس قسم کے خیالات رکھنے سے جو نقصان پہنچنا ہوتا ہے اس سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ایک چیزجس قدر زیادہ عرصہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہے اسی قدر زیادہ اپنا اثر اس پرکرتی ہے۔ مثلاً اگر اسفنج کو پانی سے بھرکر کسی چیز پر جلدی سے پھیر کر ہٹایا جائے تو وہ بہت تھوڑی گیلی ہوگی۔ لیکن اگر دیر تک اس پر رکھا جائے تو وہ بہت زیادہ بھیگ جائے گی۔ اسی طرح جوخیالات انسان کودیر تک رہیں وہ اس کے دل میں بہت زیادہ جذب ہو جاتے ہیں اورسوتے وقت جن خیالات کو انسان اپنے دل میں رکھے ان کو اس کی روح ساری رات دہراتی رہتی ہے۔ دل میں اگر کوئی ایسا خیال ہو تو وہ اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا جتنا رات کے وقت کا۔ کیونکہ دن میں دوسرے کاروبار میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ بُھلا دیتا ہے۔ لیکن رات کو بار بار آتا رہے گا۔ پس سوتے وقت اگر کوئی بُرا خیال ہو تو اسے نکال دینا چاہئے تاکہ وہ دل میں گڑ نہ جائے۔ کیونکہ اگر گڑگیا تو پھر اس کا نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر اگر رات کوجان ہی نکل جائے تواس بدی کے خیال سے توبہ کرنے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔اس طرح نفس کو ڈرانا چاہئے اورجب ایک دفعہ خیال نکل جائے گاتو پھر اس سے نجات مل جائے گی۔ غرض سوتے وقت نفس میں بُرے خیالات نہیں رہنے دینے چاہئیں۔ جب اس طرح دل کو پاک وصاف کرکے کوئی سوئے گا تو تہجد کے وقت اٹھنے کی اسے ضرور توفیق مل جائے گی۔

(خطاب جلسہ سالانہ 1916ء از ذکر الٰہی ۔انوار العلوم جلد3ص 517۔511)

پچھلا پڑھیں

آپ کا اپنا اخبار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2019