• 19 اپریل, 2024

علم فلکىات قرآن کرىم کى روشنى مىں

1609ء میں دوربین (Telescope) کی اہم ایجاد ہوئی ۔ اس ایجاد کا آج کی ترقی یافتہ دنیا میں فلکیات کے مطالعہ میں ایک اہم کردار ہے۔ اگرچہ اب جدید ڈیجیٹل دور بینیں بن چکی ہیں جو اپنی پہلی صورت سے کئی گنا بہتر اور تیز ہیں۔ انہیں زمین پر بھی بڑی بڑی Observatories میں نصب کیا جاتا ہے اور خلاء میں بھی نصب کیا گیا ہے۔ Hubble Telescope زمین کی فضا سے باہر نصب ایک ایسی ہی دوربین کا نام ہے جس نے حیرت انگیز کائنات کا مطالعہ کرنے اور اس کے ان گنت راز فاش کرنے میں علم فلکیات کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ سورۃ الکہف کی آیت 110 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’وہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے یہ ایجادات کی ہیں اور اتنے علوم دریافت کئے ہیں اور کائنات کا راز دریافت کرنے کے قریب ہیں۔ فرماتا ہے اے محمد ﷺ تو ان سے کہہ دےکہ تمہارا راز کائنات کودریافت کرنے کی کوشش کرنا ہمیشہ روز اول ہی رہے گا اور باوجود اس قدر کوششوں کے تم کولہو کے بیل کی طرح وہیں کے وہیں کھڑے رہو گے اور وہ قوتیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں پیدا کی ہیں۔ ان میں سے اس قدر بھی دریافت نہ کرسکو گے جس قدر سمندر کے مقابل پر ایک قطرہ کی حیثیت ہوتی ہے۔

قرآن اور علم فلکیات

قرآن کریم کی متعدد آیات نے علم فلکیات کا احاطہ کیا ہوا ہے اور پھر ان آیات میں خداتعالیٰ نے اپنی مخلوق کو علم فلکیات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں بہت سے دلائل اور براہین ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعہ خدائے واحد جیسی لطیف ہستی کو پاسکیں۔ نمونۃً چند آیات پیش خدمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ آل عمران آیات 192,191 میں فرماتا ہے:
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے یقینا کئی نشان (موجود) ہیں۔ (وہ عقلمند) جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے (رہتے) ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غوروفکر سے کام لیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے اس (عالم) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ پھر سورۃ ق آیت 7 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو کیسا بنایا ہے اور اسے زینت دی ہے اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے۔
آنحضرتﷺ پر جب سورۃ آل عمران کی آیات اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض … نازل ہوئیں تو آپؐ ان آیات کو پڑھتے ہوئے رات کے آخری حصہ میں آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے۔
فلکیات کے حوالے سے قرآن مجید میں زمین و آسمان کی پیدائش کو اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے بیان کیا گیا ہے (الروم:23) زمین اور سورج کے حرکت میں یا ساکن ہونے کے متعلق بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ سورۃ نمل آیت:89 میں پہاڑوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ جن پہاڑوں کو تم ساکن خیال کرتے ہو وہ بھی درحقیقت بادلوں کی طرح حرکت کررہے ہیں۔ اسی طرح سورۃ ملک آیت 17 میں بیان کیا گیا ہے کہ زمین چکر لگا رہی ہے۔
قرآن مجید میں یہ بھی واضح ذکر ہے کہ سورج بھی مسلسل سفر کررہا ہے۔ چنانچہ سورۃ لقمان آیت 30، سورۃ فاطر آیت 14 اور سورۃ یٰس آیت 39 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ سورج اپنی جگہ پر رکا نہیں ہوا بلکہ مسلسل چل رہا ہے بعد کی تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا کہ سورج اپنے سیاروں کو ساتھ لئے ہوئے اس کہکشاں (Galaxy) کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ سورج کی یہ ایک گردش 22 کروڑ 25 لاکھ سال میں مکمل ہوتی ہے۔

(The Guiness Book of Astronomy by Patrick Moove. P-5)

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جو Galaxy جتنی دور ہے اتنی ہی زیادہ تیز رفتاری سے دور ہورہی ہے۔ کائنات کا یہ پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ شروع میں یہ سب کچھ کسی ایک مقام پر اکٹھا تھا اور وہاں سے اب چاروں طرف پھیل رہا ہے۔ یہ بھی Big Bang کا ایک ثبوت ہے۔
اس موضوع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں بھی روشنی ڈالی ہے۔ حضور اپنی کتاب کے صفحہ 261 پر قرآن کریم اور کائنات کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’یاد رہے کہ ایسی کائنات کا تصور جو مسلسل پھیلتی چلی جارہی ہے صرف قرآن کریم میں ہی مذکور ہے۔ کسی اور آسمانی صحیفہ میں اس کا دور کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ دریافت کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے انہیں کائنات کی تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز یہ دریافت تخلیق کائنات کی مرحلہ وار اور اس طرح وضاحت کرتی ہے جو بگ بینگ (Big Bang) کے نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ قرآن کریم اس سے بھی آگے بڑھ کر کائنات کے آغاز، انجام اور پھر ایک اور آغاز کے مکمل دور کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم کائنات کی پیدائش سے پہلے کا جو نقشہ پیش کرتا ہے، بگ بینگ کا نظریہ ہوبہو اس کے مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کردیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ (الانبیاء :31) یہاں معنی خیز بات یہ ہے کہ اس آیت میں بالخصوص غیرمسلموں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ مذکورہ بالا راز سے پردہ غیرمسلموں نے اٹھانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہ امر قرآن کریم کی صداقت کا ایک زندہ نشان بن کر ان کے سامنے آجائے۔

قرآن کریم اور نظام شمسی

نظام شمسی کے حوالے سے قرآن کریم فرماتا ہے۔
ہم نے تمہارے اوپر سات بہت مضبوط آسمان بنائے ہیں اور ہم نے ایک تیز چمکتا ہوا چراغ بنایا ہے۔(النبا:14,13)
حضرت ملک غلام فرید صاحب کے انگریزی ترجمہ وتفسیر میں سَبْعاً شِدَاداً کے بارے میں یہ نوٹ دیا گیا ہے۔ یعنی سَبْعاً شِدِاداً سے مراد نظام شمسی کے سات بڑے Planets ہیں یا انسان کے سات روحانی مدارج ہیں جن کا سورۃ المومنون میں ذکر کیا گیا ہے۔ گو ہماری زمین بھی نظام شمسی کے بڑے Planets میں سے ایک ہے لیکن قرآن مجید نے فَوْقَکُمْ تمہارے اوپر فرما کر زمین کو سَبْعاً شِدَاداً میں شامل نہیں کیا۔ زمین کا ذکر اس سے قبل ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟(النبا: 7)
نظام شمسی کامرکز سورج ہے۔ اس کا ذکر سِرَاجاً وَّھَّاجَا یعنی تیز چمکتا ہوا چراغ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ سورج کی روشنی سے ہی سارے نظام شمسی کے ستارے منور ہیں۔ الغرض سورۃ النبا میں نہایت حسین انداز میں نظام شمسی کا ذکر ہے۔
ہم آسمان پر نظر ڈالیں تو بہت سے ستارے نظر آتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے ان میں سے پانچ نمایاں ستاروں سے لوگ واقف تھے۔ یہ Planets یہ تھے۔ عطارد، زہرہ،مریخ، مشتری، زحل۔ یہ پانچوں بغیر دوربین کے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگرسورج اور چاند کو بھی شامل کرلیا جائے جو آسمان پر سب سے زیادہ نمایاں ہیں تو 7 اجرام بن جاتے ہیں۔ بعدازاں بیسویں صدی میں ان پانچ سیاروں کے علاوہ دو اور سیارے Uranus اور Neptune دریافت ہوئے اور یوں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ان کی تعداد 7 ہوگئی۔ حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:۔
واضح رہے کہ اس سورۃ (فاتحہ) کی آیات سات ہیں اور مشہور ستارے بھی سات ہیں۔ان آیات میں سے ہر آیت ایک ستارے کے مقابل پر ہے تاکہ وہ سب کی سب شیطان کے لئے رجم کا موجب ہوں۔
حضرت مسیح موعود نے سات مشہور ستاروں کا جو ذکر فرمایا ہے۔ غالباً وہ مذکورہ سات بڑے Planets ہیں۔ Mercury، Venus، Mars، Jupiter، Saturn، Uranus، Neptune ان سات ستاروں کے علاوہ بیشمار چھوٹے اجرام بھی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔

قرآن کریم میں کہکشاؤں کے اسرار

ایک ماہر فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری کہکشاں Milkyway پنکھے کے پروں کی طرح اپنے محور کے گردگھوم رہی ہے۔ اٹامک دوربین کے ذریعے اس کے اندر ابھی تک 200 بلین سورج دیکھے جاچکے ہیں۔ اس سے بڑی کہکشاؤں میں ٹریلین یعنی کھربوں ستارے ہیں۔ ہر ستارے کے گرد اس کے سیارے اور چاند گھوم رہے ہیں۔ اس لئے ہماری کہکشاں کا شمار درمیانے درجہ کی کہکشاؤں میں آتا ہے۔ ملکی وے (Milky-Way) کا دہکتا ہوا محور
(Core) ہماری زمین سے صرف 25 ہزار نوری سالوں کے فاصلہ پر ہے۔ بعض کہکشاؤں کے محور اپنے ستاروں سے 6 تا10 کھرب نوری سالوں کے فاصلوں پر ہوتے ہیں۔ ماہر فلکیات David Freedman میگزین Discover نومبر 1998ء میں لکھتا ہے۔ 1959ء میں اپنی کہکشاں ملکی وے کے وسط سے ریڈیو آواز سنی گئی۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ بلیک ہول Sagittar کی سمت سے آرہی ہے۔ کھربوں برس قبل ایک بہت بڑا ستارہ پھٹا جو Super Nova بننے کے بعد بلیک ہول SGR-A بن گیا۔ تجربات سے پتہ چلا کہ کہکشاں کے گیس بادل اور ستارے جو قریب ہیں۔ صرف گھوم ہی نہیں رہے بلکہ وہ انتہائی تیز رفتاری سے محو پرواز ہیں۔ ماہر فلکیات Morris لکھتا ہے کہ کہکشاں کی طرح ہر گلیکسی میں بلیک ہول ہوتا ہے۔ ہبل Space دور بین سے دیکھا گیا ہے کہ جو ستارے کہکشاں کے محور کے قریب ہوتے ہیں وہ زیادہ تیزی سے گھومتے ہیں اور بہت قریب ستارے تو 900 میل فی سیکنڈ کے حساب سے گھومتے ہیں۔ کہکشاں کے محور کے قریب بعض ستارے یا سورج ہمارے سورج کی نسبت 10 ملین گنا زیادہ روشنی پہنچا رہے ہیں۔ گلیکسی Core کے گرد ہائیڈروجن گیس دیکھی گئی ہے۔ Black Hole کے قریب درجہ حرارت 10 بلین سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس لئے کہ بلیک ہول کے اندر لاکھوں تباہ شدہ سورجوں کا ملبہ پڑا ہے۔
ایک ماہر فلکیات نے کہکشاں ملکی وے کے قریب ستاروں کا ایک جھرمٹ دیکھا جس میں 2.5 ملین کی تعداد میں سورج ہیں۔ کہکشاں کے Black Hole میں اتنی طاقت ہے کہ وہ قریب سے گزرتے ہوئے سورج کو آدھا نگل لے اور آدھے کو جانے دے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔
’’اور آسمان کو ہم نے اپنی قدرت سے بنایا اور بلاشبہ ہم ہی وسعت پیدا کرنے والے ہیں۔‘‘

(الذاریات: 27)

اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے آفتاب ہے کہ وہ اپنے ٹھکانہ کی طرف چلتا رہتا ہے اور یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس خدا نے جو زبردست (یعنی قادر ہے اور) علم والا ہے اور ایک نشانی چاند ہے کہ اس کی چال کے لئے منزلیں مقرر کیں سورج اور چاند دونوں ایک ایک دائرے میں حساب سے اس طرح چل رہے ہیں جیسے تیر رہے ہیں۔

(یٰس:39تا41)

حضرت مصلح موعود نے تیرنے سے مراد مدار میں چکر لگانے کے لئے ہیں۔
نومبر 2003ء Discovery میگزین میں سائنسدان اور ماہر فلکیات Robert Kunzig کا سورج کی زندگی پر مضمون شائع ہوا جس میں لکھا ہے کہ یہ کائنات 13.7 بلین سال قبل بننا شروع ہوئی۔ ہمارا سورج 4.6 بلین سال قبل پیدا ہوا جب ہائیڈروجن ایٹم Helium گیس میں تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ آج سے تقریباً 5 بلین سالوں بعد سورج کا ایندھن ختم ہو جائے گا۔ اس طرح سورج کی موت قریب ہوگی۔ پھر وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ہماری کہکشاں جس میں قریباً 200 بلین سورج ہیں۔ ہر ماہ ایک سورج مرتا ہے۔ یعنی اس سورج کے ساتھ اس کے سیارے بھی خاکستر ہو جاتے ہیں۔ ہوتا ایسے ہے کہ سورج اپنی موت کے وقت نہایت خوبصورت رنگ کی گیس خارج کرتا ہے جسے Plenetary Nebula کہتے ہیں۔
سائنسدانوں کے خیال میں ہماری زمین پر قیامت 5 بلین سالوں بعد آئے گی ابھی بہت وقت ہے۔ اس طویل دور میں انسان کئی ارتقائی منازل طے کر جائے گا۔ اب تو سائنسدان بھی اس حقیقت کو مان گئے ہیں کہ قیامت آئے گی۔ مغرب کے نامور سکالر اور مؤرخ Will & Durant لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن زمین پر صرف انسان کو احساس ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے۔

(عطاء النور)

پچھلا پڑھیں

آپ کا اپنا اخبار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2019