• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک فرمودہ مؤرخہ 17؍دسمبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 17؍دسمبر 2021ء بمقام بیت المبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

ابوقُحافہ نے اُن سے کہا کہ اَے میرے بیٹے مَیں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رَہے ہو، اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تاکہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں۔۔۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اَے میرے پیارے باپ! مَیں تو محض الله عزّوجل کی رضا چاہتا ہوں۔

یہ غلام جو رسولِ کریمؐ پر ایمان لائے ، مختلف اقوام کے تھےاِن میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ، رومی بھی تھے جیسے صُہیبؓ، پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جُبیرؓ اور صُہیبؓ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمّارؓ۔

حضرت ابوبکرؓ نے کہا! میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پِھروں اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہوں۔۔۔تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اُسے نکالا جانا چاہیئے تم تو وہ خوبیاں بجا لاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلۂ رحمی کرتے ہو، تھکے ہاروں کے بوجھ اُٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائبِ حقّہ پر مدد کرتے ہو۔ ۔۔ مَیں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں، واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے ربّ کی عبادت کرو۔

آج مَیں افغانستان کے اَحمدیوں کے لیئے دعا کے لیئے بھی کہنا چاہتا ہوں، بہت تکلیف میں گزر رَہے ہیں، بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ عورتیں ، بچے بڑےپریشان ہیں گھروں میں اپنے۔ جو باہر ہیں مرد ، جو گرفتار نہیں ہوئے وہ بھی بے گھر ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ گرفتاریاں نہ ہو جائیں۔ الله تعالیٰ اُن کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے اور اُن کو اِس مشکل سے نکالے۔ پھر پاکستان کے اَحمدیوں کے لیئے بھی دعا کریں وہاں بھی عمومی طور پر حالات خراب ہی ہوتے ہیں۔۔۔ اِسی طرح مجموعی طور پر بھی دعا کریں الله تعالیٰ دنیا کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر شرّ کو ختم کرے اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے ذکر میں اُن کا غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر چل رہاتھا اُس میں سے کچھ مزید واقعات ہیں۔

مَیں تو محض الله عزّوجل کی رضا چاہتا ہوں

اِس ضِمن میں حضرت ابوبکرؓ کے بنو عبدالدّار کی ایک عورت کی لونڈیوں نہدیہؓ اور اُن کی بیٹی نیز بنو مؤمل (بنو عدی بن کعب کا ایک قبیلہ) کی ایک مسلمان لونڈی خریدنے اور آزاد کرنے کا تذکرہ نیز بیان ہؤا! ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقُحافہ نے اُن سے کہا کہ اَے میرے بیٹے مَیں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رَہے ہو، اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تاکہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں۔۔۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اَے میرے پیارے باپ! مَیں تو محض الله عزّوجل کی رضا چاہتا ہوں۔

درج ذیل آیات الله تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کی شان میں نازل فرمائیں

 چنانچہ بعض مفسّرین علامہ قرطبیؒ اور علامہ آلوسیؒ وغیرہ کہتے ہیں کہ درج ذیل آیات الله تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کےاِسی عمل کی وجہ سے آپؓ کی شان میں نازل فرمائی ہیں۔

فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ

وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی ۙ وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ؕ وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡهُ مَا لُهُٓ اِذَا تَرَدّٰی ؕ اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡھُدٰی ۖ وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی۔ فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ۚ لَا یَصۡلٰٮھَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی ۙ الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ؕ وَ سَیُجَنَّبُھَا الۡاَتۡقَی ۙ الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی ۚ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓی ۙ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ۚ وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی۔

(الّیل: 6تا22)

پس وہ جس نے (راہِ حقّ میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بہترین نیکی کی تصدیق کی تو ہم ضرور اُسے کشادگی عطاء کریں گے اور جہاں تک اُس کا تعلق ہے جس نے بخل کیا اور بے پروائی کی اور بہترین نیکی کی تکذیب کی تو ہم اُسے ضرور تنگی میں ڈال دیں گے اور اِس کا مال جب تباہ ہو جائے گا اُس کے کسی کام نہ آئے گا۔ یقینًا ہدایت دینا ہم پر بہرحال فرض ہے اور یقینًا انجام بھی لازمًا ہمارے تصرّف میں ہے اور آغاز بھی۔ پس مَیں تمہیں اِس آگ سے ڈراتا ہوں ہوں جو شعلہ زن ہے ، اِس میں کوئی داخل نہیں ہو گا مگر سخت بدّ بخت، وہ جس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیر لی جبکہ سب سے بڑھ کر متّقی اُس سے ضرور بچایا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے پاکیزگی چاہتے ہوئے اور اُس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ جس کا (اُس کی طرف سے) بدلہ دیا جا رہا ہو۔ (یہ) محض اپنے ربِّ اعلیٰ کی خوشنودی چاہتے ہوئے (خرچ کرتا ہے) اور وہ ضرور رَاضی ہو جائے گا۔

حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک حضرت خَبَّاب ؓبن اَرَتْ

حضرت المصلح الموعودؓ حضرت خَبَّابؓ بن اَرَتْ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ایک اور صحابیؓ جو غلام بھی تھے اُنہوں کے ایک دفعہ نہانے کے لیئے کُرتا اُتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا اُس نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا اُوپر سے ایسا سخت اور کُھردرا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے، وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اُنہیں کہنے لگا! تمہیں کب سے یہ بیماری ہے، تمہاری پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسا جانور کی کھال ہوتی ہے یہ سُن کر وہ ہنس پڑے (حضرت خَبَّابؓ) اور کہنے لگے بیماری کوئی نہیں جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزاء دے چنانچہ تپتی دھوپ میں ہمیں لِٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو نہیں مانتے، ہم اُس کے جواب میں کلمۂ شہادت پڑھ دیتے ۔ اِس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اور جب اُس طرح بھی اُس کا غصّہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا۔۔۔عرب میں کچے مکانوں کو پانی سے بچانے کے لیئے مکان کے پاس ایک قسم کا پتھر ڈالتے دیتے ہیں جسے پنجابی میں کھنگر کہتے ہیں، یہ نہایت سخت، کُھردرا اَور نوکدار پتھر ہوتا ہے اور لوگ اُسے دیواروں کے ساتھ صرف اِس لیئے لگا دیتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ سے اُنہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔۔تو صحابیؓ کہنے لگے جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اور لوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہمیں ٹانگوں میں رسّی باندھ کر اُن کُھردرے پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا اور وہ جو کچھ تم دیکھتے ہو اِسی مار پیٹ اور گھسیٹنے کا نتیجہ ہے، غرض سالہا سال تک اُن پر ظلم ہؤا ، آخر حضرت ابوبکرؓ سےیہ بات برداشت نہ ہو سکی اور اُنہوں نے اپنی جائداد کا بہت سا حصّہ فروخت کر کے اُنہیں آزاد کرا دیا۔

پھر حضرت ابوبکرؓ کے غلاموں کو آزاد کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیحِ الثّانیؓ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ یہ غلام جو رسولِ کریمؐ پر ایمان لائے ، مختلف اقوام کے تھے اِن میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ، رومی بھی تھے جیسے صُہیبؓ، پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جُبیرؓ اور صُہیبؓ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمّارؓ۔ بلال ؓ کو اُس کے مالک تپتی ریت پر لِٹا کر اُوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کُودنے کے لیئے مقرر کر دیتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کواُن کی قیمت ادا کر کے اُنہیں آزاد کروا دیا۔

حضرت ابوبکرؓ کا ایک دفعہ ہجرتِ حبشہ کا اِرادہ

اِس بارہ میں آتا ہے کہ جب مسلمان بڑھ گئے اور اسلام ظاہر ہو گیا تو کفّارِ قریش اپنے اپنے قبائل میں سےاُن لوگوں کو سخت اذیّتیں اور تکلیفیں دینے لگے جو اُن میں سے ایمان لا چکے تھے، اُن کا مقصد یہ تھا کہ وہ اُنہیں دین سے پِھرا دیں، اِس پر رسول اللهؐ نےمؤمنوں سے فرمایا کہ تم لوگ زمین میں بکھر جاؤ، یقینًا الله تم لوگوں کو اکٹھا کر دے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا! ہم کس طرف جائیں؟ آپؐ نے فرمایا! اِس طرف اور آپؐ نے اپنے ہاتھ سے حبشہ کی سرزمین کی طرف اشارہ فرمایا۔ یہ رجب سن 5؍ نبویؐ کی بات ہے، آنحضرتؐ کے ارشاد پر گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایذاء پہنچائی گئی جس پر اُنہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا اِرادہ کیا۔

مَیں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پِھروں اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہوں

چنانچہ اِس بارہ میں بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمانوں کو تکلیف دی گئی تو حضرت ابوبکرؓ ہجرت کرنے کی غرض سے حبشہ کی طرف چل پڑے جب وہ برك الغماد مقام پر پہنچے ۔۔۔ تو اُنہیں ابن الدّ غنہ مِلا اور وہ قارہ قبیلہ کا سردار تھا ۔اُس نے پوچھا، اَے ابوبکر! کہاں کا قصد ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا! میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پِھروں اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہوں۔ ابن الدّغنہ نے کہا! تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اُسے نکالا جانا چاہیئے تم تو وہ خوبیاں بجا لاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلۂ رحمی کرتے ہو، تھکے ہاروں کے بوجھ اُٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائبِ حقّہ پر مدد کرتے ہو ۔۔۔ پھر اُس نے کہا! مَیں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے ربّ کی عبادت کرو۔ ابن الدّغنہ بھی چل پڑا اَور حضرت ابوبکرؓ کےساتھ مکّہ میں آیا۔ ابن الدّغنہ کے کفّار قریش سے ملنے اور حضرت ابوبکرؓ کے مذکورہ بالا مناقبِ عالیہ کے اُن سے تذکرہ پر قریش نے اُس کی پناہ منظور کر لی اور حضرت ابوبکرؓ کو امن دیا نیز ابن الدّغنہ سے کہا، ابوبکر سے کہو کہ وہ اپنے ربّ کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے، وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے پڑھے لیکن ہمیں اپنی عبادت اور قرآن پڑھنے سے تکلیف نہ دے اور بلند آواز سے نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے بیٹوں اور ہماری عورتوں کو گمراہ کر دے گا۔ ابن الدّغنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے یہ کہہ دیا توحضرت ابوبکرؓ اپنے گھر سے ہی اپنے ربّ کی عبادت کرنے لگے اوراپنے گھر کے سواء کسی اور جگہ نماز اور قرآن اعلانیہ نہ پڑھتے۔

ہم تو ابوبکر کو کبھی بھی اعلانیہ عبادت نہیں کرنے دیں گے

 پھر کچھ عرصہ کے بعدحضرت ابوبکرؓکو خیال آیا تو اُنہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد یعنی نمازپڑھنے کی جگہ بنا لی اور کھلی جگہ میں نکلے، وہیں نماز بھی پڑھتے اور قرآنِ مجید بھی اور اُن کے پاس مشرکوں کی عورتیں اور بچےجھمگٹا کرتے، وہ تعجب کرتے۔۔۔ اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے کہ وہ بہت ہی رونے والے آدمی تھے، جب قرآن پڑھتے تواپنے آنسوؤں کو نہ تھام سکتے۔ اِس کیفیّت نے قریش کے مشرک سرداروں کو پریشان کر دیا اور اُنہوں نے ابن الدّغنہ کو بُلا بھیجا، وہ اُن کے پاس آیا اور اُنہوں نے اُس سے کہا! ہم نے تو ابوبکر کو اِس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہے لیکن اُنہوں نے اِس شرط کی پرواہ نہ کی اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی ہے اور نماز اور قرآن اعلانیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے لڑکوں اور ہماری عورتوں کو آزمائش میں ڈال دے گا۔ تم اِس کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کرے کہ اپنے گھر کے اندر ہی رہ کر اپنے ربّ کی عبادت کرے تو کرے ورنہ اگر اعلانیہ پڑھنے پر مُصرّ رَہے تو اُسے کہو کہ تمہاری اَمان کی ذمّہ داری تمہیں واپس کر دے کیونکہ ہمیں یہ بُرا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری ذمّہ داری توڑیں اور ہم تو ابوبکر کو کبھی بھی اعلانیہ عبادت نہیں کرنے دیں گے۔

مَیں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور الله ہی کی پناہ پر راضی ہوں

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ابن الدّغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو اِس شرط کا علم ہی ہے جس پر مَیں نے آپ کی خاطر یہ عہد کیا تھا، اِس لیئے یا تو آپ اِس حد تک محدود رَہیں ورنہ میری ذمّہ داری مجھے واپس کر دیں کیونکہ مَیں پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ بات سُنیں کہ جس شخص کو مَیں نے پناہ دی تھی اُس سے مَیں نے بدّ عہدی کی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا! مَیں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور الله ہی کی پناہ پر راضی ہوں۔

اسلام میں بنائی گئی پہلی مسجد

حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صحن میں جو مسجد بنائی تھی اِس کے بارہ میں صحیح بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ یہ مسجد گھر کی دیواروں تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔

یہی حال آجکل اَحمدیوں سے بعض مُلکوں میں ہو رہا ہے

اِسی طرح حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکوہ بالا واقعہ حضرت المصلح الموعودؓ کے الفاظ میں بھی پیش کیا نیز کفّار کے خدشہ کہ قرآنِ کریم اور حضرت ابوبکرؓ کی رقّت بھری آواز سُن کر لوگ بے دین ہو جائیں گے ، اِس حوالہ سے ارشاد فرمایا! یہی حال آجکل اَحمدیوں سے بعض مُلکوں میں ہو رہا ہے خاص طور پر پاکستان میں کہ اگر قرآن پڑھتے اور نماز پڑھتے دیکھ لیا اَحمدیوں کو تو بے دین ہو جائیں گے، اِس لیئے بڑی سخت سزائیں ہیں اَحمدی کو نماز اور قرآن پڑھنے پے۔

شعبِ ابی طالب میں بھی حضرت ابوبکرؓ رسولِ کریمؐ کے ہمراہ تھے

قریشِ مکّہ نے توحید کے پیغام کو روکنے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی مگر جب اُنہیں ہر طرف سے ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا تو اُنہوں نے ایک عملی اقدام کے طور پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ قطعٔ تعلقی کا فیصلہ کیا چنانچہ اِس بارہ میں سیرت خاتم النّبّین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ نے لکھا ہےاِس طرح کہ قریش نے ایک عملی قدم کے طور پر باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ آنحضرتؐ اور تمام افراد بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے جاویں اور اگر وہ آنحضرتؐ کی حفاظت سے دستبردار نہ ہوں تو اِن کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کر دیا جاوے، چنانچہ محّرم سات؍ نبویؐ میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندانِ بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ اُن کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا، نہ اُن سے کچھ خریدے گا اور نہ اُن کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اور نہ اُن سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا۔اِس کی بابت حضور انور ایّدہ الله بنصرہ العزیز نے بیان فرمایا! یہ بھی آجکل بعض اَحمدیوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے بعض جگہوں پے۔۔۔۔جب تک کہ وہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے الگ ہو کر آپؐ کو اُن کے حوالہ نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ جس میں قریش کے ساتھ قبائل بنو کنعانہ بھی شامل تھے باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اُس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ آنحضرتؐ اور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب، کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرتؐ کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شعبِ ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درّہ کی صورت میں تھا محصور ہو گئے اور اِس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکّہ کی تمدنی زندگی سے عملًا بالکل منقطع ہو گئے اور شعبِ ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی درّہ تھا ،قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے۔ چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اُس وقت مکّہ میں موجود تھے وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔

اِن مشکل ترین حالات میں بھی حضرت ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ کا ساتھ نہ چھوڑا

چنانچہ شاہ ولی اللهؒ فرماتے ہیں کہ جب قریش آنحضرتؐ کی اِیذاء رسانی پر متفق ہو گئے اور اُنہوں نے ایک دستاویز لکھی تو حضرت صدّیقؓ اُس تنگی کے زمانہ میں آنحضرتؐ کے شریکِ حال رہے لہٰذا اِس واقعہ کے بارہ میں ابو طالب نے یہ شعر کہا ہے؂

وَ ھُمْ رَجَّعُوْا سَہْلَ ابْنَ بَیْضَاءَ رَاضِیًا
فَسُرَّ اَبُوْ بَکْرٍ بِھَا وَ مُحَمَّدٍ

اور اُنہوں نے سہل بن بیضاء کو خوش کرتے ہوئے واپس بھیجا تو اِس پر ابوبکرؓ اور محمدؐ خوش ہو گئے۔یعنی جب قریش مکّہ نے آخر کار بائیکاٹ کا یہ معاہدہ ختم کر دیا تو اِس پر حضرت ابو طالب نے جو اشعار کہے اُن میں سے یہ ایک مذکورہ بالا شعر تھا کہ بائیکاٹ ختم ہونے پر آنحضرتؐ اور حضرت ابوبکرؓ دونوں مسرور ہو گئے۔

غُلِبَتِ الرُّوْم کی پیشگوئی اور اِس پر حضرت ابوبکرؓ کا شرط لگانا

اِس بارہ میں بھی ذکر آتا ہے، حضرت ابنِ عبّاسؓ سے الله تعالیٰ کے ارشاد الٓـمّٓ ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ (الرّوم: 2تا4) کے بارہ میں روایت ہے، اُنہوں نے کہاکہ غُلِبَتْ اور غَلَبَتْ۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرکین پسند کرتے ہیں کہ اہلِ فارس، اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بُت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم، اہلِ فارس پر غالب آ جائیں اِس لیئے کہ وہ اہلِ کتاب تھے۔ اُنہوں نے اِس کا ذکر حضرت ابوبکرؓ سے کیا اور حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللهؐ سے اِس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا! وہ ضرور غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اِس کا ذکر اُن سے کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدّت مقرر کر لو( یعنی مخالفین سے ؍مشرکین سے)۔ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارے لیئے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آ گئے تو تمہارے لیئے یہ اور یہ ہو گا (یعنی شرط لگائی اُس پے) تو اُنہوں نے پانچ سال کی مدّت رکھی اور وہ غالب نہ آ سکے، اُنہوں نے اِس کا ذکر نبیٔ کریمؐ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اِس سے زیادہ کیوں نہ رکھ لی! راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپؐ کی مراد دسّ تھی۔ یہ ترمذی کی تفسیر کی روایت ہے۔

رسولِ کریمؐ کی چار ایسی پیشگوئیوں کا ذکر جو بڑی شان کے ساتھ پوری ہو ئیں

صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسولِ کریمؐ کی چار ایسی پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ بڑی شان کے ساتھ پوری ہو ئیں، اِن پیشگوئیوں میں غلبۂ روم والی پیشگوئی بھی ہے۔چنانچہ مسروق روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللهؓ بن مسعود کے پاس تھے ، اُنہوں نے کہا کہ نبی ؐ نے جب دیکھا کہ لوگ روگردانی کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا! اَے الله سات سالہ قحط جیسا حضرت یوسفؑ کے وقت میں سات سالہ قحط ڈالا تھا اِن پر بھی ایسا ہی قحط نازل کر، سو اُن پر ایسا قحط پڑا جس نے ہر ایک چیز کو فناء کر دیا یہاں تک کہ آخر اُنہوں نے کھال اور مُردار اَور بدبُو دار لاشیں بھی کھائیں اور اُن میں سے کوئی جو آسمان کی طرف نظر کرتا تو بھوک کے مارے اُسے دُھواں ہی نظر آتا تھا ۔۔۔ ابوسفیانؓ آپؐ کے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپؐ تو الله کی فرمانبرداری اور صلۂ رحمی کا حکم کرتے ہیں اور یہ دیکھیں آپؐ کی قوم ہلاک ہو گئی ہے، الله سے اُن کے لیئے دعا کریں، الله تعالیٰ نے فرمایا تھا! پس انتظار کر اُس دن کا جب آسمان ایک واضح دُھواں لائے گا ، ضرور تم اِنہی باتوں کا اِعادہ کرنے والے ہو جس دن ہم بڑی گرفت کریں گے۔

 پس یہ بڑی گرفت بدر کے دن ہوئی چنانچہ دُھویں کا عذاب اور سخت گرفت اور لِزَامًا والی پیشگوئی اور روم کی پیشگوئی یہ سب باتیں ہو چکی ہیں۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

بِضۡعٌ تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے

اِس حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدّین عینیؒ غلبۂ روم والی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اہلِ فارس اور اہلِ روم کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمان اہلِ فارس پر اہلِ روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کہ کیونکہ وہ اہلِ روم، اہلِ کتاب تھے جبکہ قریش اہلِ فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہلِ فارس مجوسی تھے اور کفّار ِ قریش بھی بُتوں کی عبادت کرتے تھے پس اِس بات پر حضرت ابوبکرؓ اور ابو جہل کے درمیان شرط لگ گئی یعنی اُنہوں نے کسی چیز پر آپس میں چند سال کی مدّت مقرر کر لی تو رسول اللهؐ نے فرمایا !۔۔۔کہ بِضۡعٌ تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے پس مدّت کو بڑھا دو۔ پھر اُنہوں نے (حضرت ابوبکرؓ) نے ایسا ہی کیا پس اہلِ روم غالب آ گئے۔ مزید اِس ضِمن میں ارشادِ باری تعالیٰ؍ سورۂ الرّوم کی آیات 2 تا 6 نیز اُن کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد بیان کیا گیا کہ شعبیؒ کہتے ہیں کہ اُس وقت شرط لگانا حلال تھا۔بایں ہمہ اِس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ اور حضرت المصلح الموعودؓ کے ارشادات بھی پیش کیئے گئے۔

بِضۡعِ سِنِیۡنَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوۃ والسّلام فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآنِ شریف کی وہ پیشگوئی مدارِ شرط رکھی کہ

الٓـمّٓ ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ھُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہھِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ فِیۡ بِضْعِ سِنِیۡنَ

(الرّوم: 2تا5)

اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپؐ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دُور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لیئے ابوبکر صدّیقؓ کو فرمایا اور فرمایا کہ بِضۡعِ سِنِیۡنَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے۔

نبیٔ کریمؐ کا قبائل کے سامنے اپنے آپؐ کو پیش کرنا (یعنی اپنا دعویٰ پیش کرنا) اور حضرت ابوبکرؓ کا آپؐ کے ساتھ ساتھ ہونا

جب الله تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے نبیؐ کو عزت و اِکرام عطاء فرمانے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا اِرادہ کیا تو رسول اللهؐ حج کے ایّام میں باہر نکلے اور انصار کے قبائل اوس اور خزرج سے ملاقات کی، آپؐ نے حج کے ایّام میں اپنے آپؐ کو پیش کیا جیسا کہ آپؐ ہر سال حج کے ایّام میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں مذکور ہے، حضرت علیؓ بن ابوطالب بیان کرتے ہیں کہ جب الله تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپؐ کو قبائلِ عرب کے سامنے پیش کریں تو مَیں اور حضرت ابوبکرؓ آنحضرتؐ کے ہمراہ منٰی کی طرف نکلے یہاں تک کہ ہم عربوں کی ایک مجلس کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے اور آپؓ حسب و نسب میں مہارت رکھتے تھے، اُنہوں نے پوچھا آپ لوگ کس قوم سے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ ربیعہ قبیلہ سے، حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا! ربیعہ کی کس شاخ سے؟ اُنہوں کے کہا! ذُھل سے۔ پھر حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ہم اوس اور خزرج کی مجلس میں گئے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللهؐ نے انصار کا نام دیا تھا کیونکہ اُنہوں نے آپؐ کو پناہ اور مدد دینا قبول کیا تھا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ہم نہیں اُٹھے یہاں تک کہ اُن لوگوں نے نبیٔ کریمؐ کی بیعت کر لی۔

اِن کی قوم میں اِس سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہیں

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان فرمایا کہ جب الله تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپؐ کو عرب قبائل کے سامنے پیش کریں تو آپؐ اِس غرض سے نکلے، مَیں اور حضرت ابوبکرؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ ہم ایک مجلس میں پہنچے جس میں سکینت اور وقار تھا ، وہ لوگ بلند مقدرت والے اور ذی وجاہت تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُن سے پوچھا! تم لوگ کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا! ہم بنو شیبان بن ثعلبہ میں سے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے رسولِ کریمؐ کی طرف متوجہ ہو کر کہا! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! اِن کی قوم میں اِس سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہیں، اِن لوگوں میں مفروق بن عَمرو، مُثَنّٰی بن حارثہ، ہانی بن قبیصہ اورنعمان بن شریک تھے۔رسول اللهؐ نے اُن کے سامنے یہ آیت پڑھی

 قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِهٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاھُمۡ ۚ وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِهٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ

(الانعام: 152)

تو کہہ دے کہ آؤ مَیں پڑھ کرسناؤں جو تمہارے ربّ نے تم پر حرام کر دیا (یعنی) یہ کہ کسی چیز کو اِس کا شریک نہ ٹھہراؤ اَور (لازم کر دیا ہے) کہ والدین کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ اَور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اَولاد کو قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور اُن کو بھی اور تم بے حیائیوں کے جو اُن میں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپی ہوئی ہوں (دونوں کے) قریب نہ پھٹکو اور کسی ایسی جان کو جسے الله نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حقّ کے ساتھ، یہی ہے جس کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

الله کی قسم! آپؐ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے

اِس پر مفروق نے کہا کہ یہ کلام زمین والوں کا نہیں، اگر یہ اُن کا کلام ہوتا تو ہم ضرور جان لیتے۔ پھر رسول اللهؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی!

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡھٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ

(النّحل: ۹۱)

یعنی یقینًا الله عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطاء کی طرح عطاء کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔

یہ کلام سننے کے بعد مفروق نے کہا! اَے قریش بھائی، الله کی قسم! آپؐ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے۔ یقینًا ایسی قوم سخت جھوٹی ہے جس نے آپؐ کی تکذیب کی اور آپؐ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی۔ مُثَنّٰی نے کہا! ہم نے آپؐ کی بات سنی، اَے میرے قریش بھائی! آپؐ نے بہترین گفتگو کی اور جو باتیں آپؐ نے کہیں اُنہوں نے مجھے متعجب کیا لیکن ہماراکسریٰ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ نہ ہم کوئی نیا کام کریں گے اور نہ کوئی نیا کام کرنے والے کو ہم پناہ دیں گے اور غالبًا جس چیز کی طرف آپؐ ہمیں بُلا رہے ہیں یہ اُن میں سے ہے جسے بادشاہ بھی ناپسند کرتے ہیں۔ اگر آپؐ چاہتے ہیں کہ عرب کے قرب و جوار کے لوگوں کے مقابلہ میں ہم آپؐ کی مدد کریں اور آپؐ کی حفاظت کریں تو ہم ایسا کریں گے۔ اِس پر رسول اللهؐ نے اُن سے فرمایا! تمہارے جواب میں کوئی بُرائی نہیں ہے کیونکہ تم لوگوں نے وضاحت کے ساتھ سچائی کا اظہار کر دیا ہے، الله کے دین پر وہی قائم رہ سکتا ہے جس کو الله نے ہر طرف سے گھیرے میں لیا ہو۔ پھر رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور اُٹھ کر روانہ ہو گئے۔

خدا کی قدرت دیکھیں کہ آنحضرتؐ کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی

ایک روایت ہے کہ آپؐ نے یہ فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی سی مدّت میں الله تعالیٰ تمہیں اِن یعنی کسریٰ کی سرزمین اور مُلک کا وارث بنا دے اور اُن کی خواتین تمہارے قبضہ میں آ جائیں تو کیا تم الله کی تسبیح و تقدیس کرو گے؟ یہ سُن کر اُس نے کہا! اِلٰہی ہم تیار ہیں (یعنی قسم کھائی)۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ آنحضرتؐ کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور وہی مَثنّٰی جو اُس وقت کسریٰ کی طاقت سے اتنا مرعوب تھا کہ اُس کی ناراضگی کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اِسی کسریٰ سے مقابلہ کرنے والی اسلامی فوج کے سپۂ سالار یہی حضرت مُثَنّٰی بن حارثہ ہی تھے جنہوں نے کسریٰ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور آنحضرتؐ کی بشارتوں کے مصداق بنے۔

باقی اِن شاء الله! آئندہ ذکر ہو گا

اِسی طرح ایک حج کے موقع کی روایت یوں ہے کہ جب قبیلہ بکر بن وائل حج کے لیئے مکّہ آیا تو رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اُن لوگوں کے پاس جائیں اور مجھے اُن کے سامنے پیش کریں (یعنی تبلیغ کریں، آپؐ کا دعویٰ پیش کریں)۔ حضرت ابوبکرؓ اُن لوگوں کے پاس گئے اور نبی کریمؐ کو اُن کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اُن کو اسلام کی تبلیغ کی۔مزیدحضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس حوالہ سے عندیہ دیا کہ باقی اِن شاء الله! آئندہ ذکر ہو گا۔

افغانستان اور پاکستان کے اَحمدیوں نیز مجموعی طور پر دنیا کے لیئے دعائیہ تحریک

بعد ازاں ارشاد فرمایا! آج مَیں افغانستان کے اَحمدیوں کے لیئے دعا کے لیئے بھی کہنا چاہتا ہوں، بہت تکلیف میں گزر رہے ہیں، بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ عورتیں، بچے بڑے پریشان ہیں گھروں میں اپنے۔ جو باہر ہیں مرد ، جو گرفتار نہیں ہوئے وہ بھی بے گھر ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ گرفتاریاں نہ ہو جائیں۔ الله تعالیٰ اُن کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے اور اُن کو اِس مشکل سے نکالے۔ پھر پاکستان کے اَحمدیوں کے لیئے بھی دعا کریں وہاں بھی عمومی طور پر حالات خراب ہی ہوتے ہیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے، جو لوگ اَحمدیوں کو تکلیفیں دے رہے ہیں۔ اِسی طرح مجموعی طور پر بھی دعا کریں الله تعالیٰ دنیا کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر شرّ کو ختم کرے اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحومین کا تذکرۂ خیر

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ ذیل پانچ مرحومین کے ذکرِ خیر کیا نیز بعد اَز نمازِ جمعتہ المبارک اُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

الحاج مکرم عبدالرّحمٰن اینن صاحِب آف گھانا؍ سابق سیکریٹری امورِ عامہ و افسر جلسہ سالانہ ؛ مکرم ازیاب علی محمد الجبالی صاحِب آف اُردن؛ مکرم دین محمد شاہد صاحِب حال مقیم کینیڈا؍ ریٹائرڈ مُربّیٔ سلسلہ؛ مکرم میاں رفیق احمد صاحِب آف ربوہ؍ کارکن دفتر جلسہ سالانہ (ناظم ٹیکنیکل امور) موصوف کے بارہ میں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ذاتی مشاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرمایا! یہ مَیں نے بھی دیکھا ہے اِن میں انتہائی شریف النّفس انسان، بڑی عاجزی سے ہر کام کرنے والے اور وفا کے ساتھ اپنا بیعت کا حقّ ادا کرنے والے تھے۔؛ مکرمہ قانتہ ظفر صاحِبہ آف امریکہ؍ اہلیہ مکرم احسان الله ظفر صاحِب (سابق امیر جماعت امریکہ)

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

جلسہ سالانہ