• 25 اپریل, 2024

بیّن الحقیقت اور ظاہر الوجود باتوں کو مان لینا ایمان نہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
فلسفیوں کا طریقہ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ سے بہت مختلف ہے نبیوں کے طریق کا اصلِ اعظم یہ ہے کہ ایمان کا ثواب تب مترتب اور بارور ہوگا کہ جب غیب کی باتوں کو غیب ہی کی صورت میں قبول کیا جائے اور ظاہری حواس کی کھلی کھلی شہادتیں یا دلائل ہندسیہ کے یقینی اور قطعی ثبوت طلب نہ کئے جائیں کیونکہ تمام و کمال مدار ثواب اور استحقاقِ قرب وتوصل الٰہی کا تقویٰ پر ہے اور تقویٰ کی حقیقت وہی شخص اپنے اندر رکھتا ہے جو افراط آمیز تفتیشوں اور لمبے چوڑے انکاروں اور ہرہر جزئی کی موشگافی سے اپنے تئیں بچاتا ہے اور صرف دور اندیشی کے طور سے ایک راہ کی سچائی کا دوسری راہوں پر غلبہ اور رجحان دیکھ کر بحسن ظن قبول کرلیتا ہے۔ اسی بات کا نام ایمان ہے اور اسی ایمان پر فیوض الٰہی کا دروازہ کھلتا ہے اور دنیا و آخرت میں سعادتیں حاصل ہوتی ہیں جب کوئی نیک بندہ ایمان پر محکم قدم مارتا ہے اور پھر دعا اور نماز اور فکر اور نظر سے اپنی حالت علمی میں ترقی چاہتا ہے تو خدائے تعالیٰ خود اس کا متولی ہوکر اور آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر درجہ ایمان سے درجۂ عین الیقین تک اس کو پہنچا دیتا ہے۔

(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2 حاشیہ صفحہ84-85)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021