لبوں پہ آئی ہے بات جس کی بیاں کروں کیا صفات اس کی
ہے واحد و لاشریک وہ ہی، یگانہ دائم ہے ذات اس کی
ہے لب پہ ذکرِ حبیب ہر دم، تبھی ہے دل میں سکون ہر دم
میں جپتی رہتی ہوں جس کی مالا یہ دن بھی اس کا، یہ رات اس کی
دکھائی دیتے ہیں محوِ گردش یہ کہکشاں، مہر و ماہ و انجم
اسی کے کن کا کرشمہ ہے یہ حسین سی کائنات اس کی
یہ چار دن جو ملے ہیں ہم کو تو کبر کیسا، غرور کیسا
سنوار لیں عاقبت کو اپنی، یہ دنیا ہے بے ثبات اس کی
کتابِ قسمت کو کھول دے گی دعا جو اس کے حضور ہوگی
نصیب وہ ہی سنوارتا ہے، قلم بھی اس کا، دوات اس کی
مصیبتوں سے نکالتا ہے، جو گر پڑیں تو سنبھالتا ہے
اسی کی رہ میں نہ کیوں لٹائیں جو دی ہوئی ہے حیات اس کی
تری پناہوں میں آنا چاہوں، تری محبت کو پانا چاہوں
بنا ہے دشمن یہ نفس میرا، ترے کرم سے ہو مات اس کی
(منصورہ فضل منؔ۔ قادیان)