• 18 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 17)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط17

ارشاد برائے پنجاب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
میں اپنی جماعت کونصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان نادان، تنگ خیال اور سفلہ مزاج ملاؤں سے نفرت اور پرہیز کریں جو بغاوت پسندہیں اورناحق خون کر کے غازی بنتے ہیں۔ میری جماعت کے ہر فرد کو لازم ہے کہ وہ گورنمنٹ کی قدر کریں اور پوری اطاعت اور وفاداری کے ساتھ اس کے احسانات کے شکر گزار ہوں اور یقیناً سمجھ لیں کہ جوشخص مخلوق کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ تعالےٰ کا شکر گذاربھی نہیں ہوسکتا۔

غرض اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے ان کو گورنمنٹ انگلشیہ کی حکومت میں قائم کیا جو آزادی پسند اور امن دوست گورنمنٹ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے یہ دوسرا احسان ہے کہ اس نے اس سلسلہ کو پنجاب میں قائم کرنا پسند فرما یا اور اس سرزمین کو اس کے لئے منتخب کیا۔ ہندوستان بھی توتھا پھر کیا وجہ ہے اور اس میں کیاحکمت ہے کہ پنجاب کو ترجیح دی؟ اس میں جو حکمت ہے وہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب کی زمین نرم ہے اور اس میں قبول حق کا مادہ ہندوستان کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ مجھے کئی مہینے تک دلّی اور دوسری جگہ رہنے کا اتفاق ہوا ہے مگر انہوں نے قبول نہیں کیا اور برخلاف اس کے پنجاب میں لوگوں نے مجھے اس وقت قبول کیا جب دوسروں نے نہیں کیا۔ حالانکہ میں نے ان کو اپنے دعویٰ کے دلائل سنائے۔ قرآن اور حدیث کو ان کے سامنے پیش کیا۔ نشانات پیش کئے۔ مگر انہوں نے نہیں مانا (اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ)۔ پس یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس ملک میں اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا۔ علاه بریں یہ ملک حق رکھتا تھا کہ یہ سلسلہ قائم ہو۔ کیونکہ چالیس پچاس برس تک سکھوں کا دھکا کھا چکا تھا۔ بچوں کو توان دکھوں اور تکلیفوں کی خبر نہیں اور میں بھی اس وقت بچہ تھا۔ اس لئے پورا علم تونہیں مگر جس قدر علم مجھے ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا رؤیت کا علم ہوتا ہے۔ اس وقت اگر بانگ دی جاتی تو اس کی سزابجزاس کے اور کچھ نہیں ہوتی تھی کہ بانگ دینے والاقتل کیا جاوے۔ حالانکہ یہ لوگ جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب وہ سنکھ وغیرہ بجاتے ہیں تو ہم کبھی ان کے مزاحم نہیں ہوتے اور نہ انہیں تکلیف دیتے ہیں مگربانگ سے انہیں ایسی ضد تھی کہ جونہی کسی نے دی وہ قتل کیا گیا۔ جس جگہ میں اس وقت کھڑا ہوں۔ یہ کار داروں کی جگہ تھی اور دارالحکومت نہیں بلکہ دارالظلم تھا۔ جب انگریزی عدالت کا شروع شروع میں دخل ہوا۔ اس وقت یہاں ایک کاردار رہتا تھا۔ اس کا ایک سپاہی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گیا۔ اس نے ملاں کو کہا کہ بانگ دے۔ مگر ملاں نے بہت ہی آہستہ آہستہ ہانگ کہی۔ سپاہی نے کہا کہ اونچی آواز سے بانگ کیوں نہیں دیتا جو دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ ملاں نے کہا میں اونچی آوازسے بانگ کیونکر دوں کیا میں پھانسی چڑھوں اس پرسپاہی نے کہا کہ نہیں تو کوٹھے پر چڑھ کر بہت اونچی آواز سے بانگ دے کیونکہ وه جانتا تھا کہ سلطنت کی تبدیلی ہوچکی ہے۔ آخر جب ملاں نے سپاہی کے کہنے سے بلندآواز سے اذان دی تو ایک شورمچ گیا اور کاردار کے پاس جاکر شکایت کی کہ ہمارے آٹے بھرشٹ ہوگئے اور ہم اور ہمارے بچے بھوکے رہے۔ ہم پرظلم ہوا۔ اس پرکاردار نے کہا کہ اچھا پکڑ لاؤ۔ ملاں کو پکڑ کر لے گئے۔ وہ نیک بخت سپا ہی بھی ملاں کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب ملاں کاردار کے سامنے گیا تو کاردار نے اس سے پوچھا کہ تونے بانگ دی ہے؟ سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہیں دی بانگ تومیں نے دی ہے۔ جب کاردارنے یہ سنا تو اس نے شکایت کرنے والوں کوکہا کہ اندر جا کر بیٹھو۔ لاہور میں تو گائے ذبح ہوتی ہے۔

اذان بھی ایک اسلامی دعوت ہے اور اس حالت میں اسلام کی اجمالی دعوت ہے حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کا کیا مطب ہے؟ یہی کہ مسلمان ہوجاؤ۔ مگر یہ لوگ اسلام کے دشمن تھے۔ اس لئے بانگ کے دشمن تھے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ136-138ایڈیشن 1984ء)

ارشادات برائے نصیبین

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
منجملہ ان کے ایک یہی مسئلہ ہے جو مسیح کے آسمان پر جانے کے متعلق ہے اور جس میں بد قسمتی سے بعض مسلمان بھی ان کے شر یک ہو گئے ہیں۔ اسی ایک مسئلے پر عیسائیت کا دارومدار ہے کیونکہ عیسائیت کی نجات کا مداراسی صلیب پر ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ مسیح ہمارے لئے مصلوب ہوا اور پھر وہ زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا، جو گویا اس کی خدائی کی دلیل ہے۔

جن مسلمانوں نے اپنی غلطی سے ان لوگوں کا ساتھ دیا ہے وہ یہ تو نہیں مانتے کہ مسیح صلیب پر مر گیا مگر وہ اتنا ضرور مانتے ہیں کہ وہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ لیکن جو حقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحؑ ابن مریم اپنے ہمعصر یہودیوں کے ہاتھوں سخت ستایا گیا۔ جس طرح پر راستباز اپنے زمانہ میں نادان مخالفوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں اور آخران یہودیوں نے اپنی منصو بہ بازی اور شرارتوں سے یہ کوشش کی کہ کسی طرح پر ان کا خاتمہ کر دیں اور ان کو مصلوب کرادیں۔ بظاہر وہ اپنی ان تجاویز میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ حضرت مسیح ؑ ابن مریم کو صلیب پر چڑھائے جانے کا حکم دیا گیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے راستبازوں اور ماموروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ ان کو اس لعنت سے جو صلیب کی موت کے ساتھ وابستہ تھی بچا لیا اور ایسے اسباب پیدا کر دیئےکہ وہ اس صلیب پر سے زندہ اتر آئے۔ اس امر کے ثبوت کے لئے بہت سے دلائل ہیں جو خاص انجیل ہی سے ملتے ہیں، لیکن اس وقت اس کا بیان کرنا میری غرض نہیں، ان واقعات کو جو صلیب کے واقعات ہیں انجیل میں پڑھنے سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ حضرت مسیحؑ ابن مریم صلیب پر سے زنده اتر آئے اور پھر یہ خیال کر کے کہ اس ملک میں ان کے بہت سے دشمن ہیں اور دشمن بھی دشمنِ جان اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں۔ جس سے ان کی ہجرت کا پتہ ملتا تھا کہ انھوں نے ارادہ کر لیا کہ اس ملک کو چھوڑ دیں اور اپنے فرض رسالت کو پورا کرنے کے لیے وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلے اور نصیبین کی طرف سے ہوتے ہوئے افغانستان کے راستہ کشمیر میں آ کر بنی اسرائیل کو جو کشمیر میں موجود تھے، تبلیغ کرتے رہے اور ان کی اصلاح کی اور آخر ان میں ہی وفات پائی۔ یہ امر ہے جو مجھ پر کھولا گیا ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ303-304 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اگر چہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سفر جو تجویز کیا گیا ہے۔ اگر نہ بھی کیا جاتا، تو بھی خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لیے دید یئے ہیں، جن کو مخالف کا قلم اور زبان توڑ نہیں سکتی، لیکن مومن ہمیشہ ترقیات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پیاسا ہوتا ہے۔ کبھی ان سے سیرنہیں ہوتا۔ اس لیے ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ جس قدر ثبوت اور دلائل اورمل سکیں وہ اچھا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ تقریب پیش آئی ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو نصیبین کی طرف بھیجتے ہیں۔ جس کے متعلق ہمیں پتہ ملا ہے کہ وہاں کے حاکم نے حضرت مسیح کو (جبکہ وہ اپنی نا شکر گزار قوم کے ہاتھ سے تکلیفیں اٹھارہے ہیں) لکھا تھا کہ آپ میرے پاس چلے آئیں اور واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد اس مقام پرپہنچ کر انہوں نے بدقسمت قوم کے ہاتھ سے نجات پائی۔ وہاں کے حاکم نے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ میرے پاس آجائیں گے تو آپ کی خدمت کی سعادت حاصل کروں گا اور میں بیمار ہوں میرے لیے دعا بھی کریں اگر چہ یہ ایک انگریزی کتاب سے ہمیں معلوم ہوا ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ روضۃ الصفا جو ایک اسلامی تاریخ ہے۔ اس قسم کا مفہوم اس سے بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ یقین ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نصیبین میں ضرور آئے اور اسی راستہ سے وہ ہندوستان کو چلے آئے ہیں۔ سارا علم تو الله تعالیٰ کوہے، لیکن ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ اس سفر میں ان شاء اللّٰه حقیقت کھل جائے گی اور اصل معاملہ صاف ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس سفر میں ایسی تحریریں پیش ہو جاویں یا ایسے کتبے نکل آویں، جومسیح علیہ السلام کے اس سفر کے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالنے والے ہوں یا حواریوں میں سے کسی کی قبرکا کوئی پتہ چل جاوے یا اور اس قسم کے بعض امورنکل آویں، جو ہمارے مقصد میں مؤید ثابت ہوسکیں، اس لئے میں نے اپنی جماعت میں سے تین آدمیوں کو اس سفر کے لئے تیار کیا ہے۔ ان کے لئے ایک عربی تصنیف بھی میں کرنی چاہتا ہوں، جو بطور تبلیغ کے ہو اور جہاں جہاں وہ جا ویں اس کو تقسیم کرتے رہیں۔ اس طرح پراس سفر سے یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ہمارے سلسلہ کی اشاعت بھی ہوتی جاوے گی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ305-306 ایڈیشن 2016ء)

ارشادات برائے ہندوستان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
چنانچہ اس زمانہ میں دیکھ لو کہ کتنا بڑا دجل ہورہا ہے۔ ہر طرف سے اسلام پر نکتہ چینیاں اور اعتراض کیے جاتے ہیں۔ اور عیسائیوں نے تو حد کر دی ہے۔ میں نے ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے، جو عیسائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں۔ ان کی تعداد تین ہزار تک پہنچی ہے اور جس قدر کتابیں اور رسالے اور اشتہار آئے دن ان لوگوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضوں کی شکل میں شائع ہوتے ہیں ان کی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ گو یا ہندوستان کے مسلمانوں میں سے ہر ایک آدمی کے ہاتھ میں یہ لوگ کتاب دے سکتے ہیں۔ پسں سب سے بڑا فتنہ یہی نصاریٰ کا فتنہ ہے اور اَلدَّجَّال کا بروز ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ 402 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت کی تاریخ پڑھو تو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کی کیا حالت تھی۔ خدا تعالیٰ کی پرستش دنیا سے اٹھ گئی تھی اور توحید کانقش پا مٹ چکا تھا۔ باطل پرستی اور معبودان باطلہ کی پرستش نے اللہ جل شانہ کی جگہ لے رکھی تھی۔ دنیا پر جہالت اور ظلمت کا ایک خوفناک پردہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا کے تختہ پر کوئی ملک، کوئی قطعہ، کوئی سرزمین ایسی نہ رہ گئی تھی جہاں خدائے واحد، ہاں حی و قیوم خدا کی پرستش ہوتی ہو۔ عیسائیوں کی مردہ پرست قوم تثلیث کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی اور ویدوں میں توحید کا بیجا دعویٰ کرنے والے ہندوستان کے رہنے والے 33 کروڑ دیوتاؤں کے پجاری تھے۔ غرض خود خدا تعالیٰ نے جونقشہ اس وقت کے حالت کا ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فیِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) یہ بالکل سچا ہے اور اس سے بہتر انسانی زبان اورقلم اس حالت کو بیان نہیں کرسکتی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ208 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس زمانہ میں خدانے بڑ افضل کیا اور اپنے دین اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھا کر ایک انسان کو جوتم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف ان کو بلائے۔ اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کےمحو کرنے کے واسطے جس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھامگر اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں قو میں لگی ہوئی ہیں۔ مجھے یاد ہے اور براہین احمدیہ میں بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر۔ اگر اس زیادہ تعداد کو جو اب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت نہ ہوتا اور اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ (الحجر: 10) اس کا وعده صادق نہ ہوتا تو یقینا ًسمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ خدا کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ مجھے افسوس اور رنج اس امر کا ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ناطے بیاہ کے برابربھی تو اسلام کی فکر نہیں کرتے اور مجھے اکثر بار پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ عیسائی عورتوں تک مرتے وقت لکھو کھ ہارو پیہ عیسائی دین کی تر ویج اور اشاعت کے لئے وصیت کر مرتی ہیں اور ان کا اپنی زندگیوں کو عیسائیت کی اشاعت میں صرف کرنا تو ہم روز دیکھتے ہیں۔ ہزارہا لیڈی مشنر یز گھروں اور کوچوں میں پھرتی اور جس طرح بن پڑے نقد ایمان چھینتی پھر تی ہیں۔ مسلمانوں میں سے کسی ایک کونہیں دیکھا کہ وہ پچاس ہزار روپیہ بھی اشاعت اسلام کے لئے وصیت کر مرا ہو۔ ہاں شادیوں اور دنیاوی رسوم پرتو بے حد اسراف ہوتے ہیں اور قرض لے کر بھی دل کھول کے فضول خرچیاں کی جاتی ہیں۔ مگر خرچ کرنے کے لئے ہیں تو اسلام کے لئے نہیں۔ افسوس! افسوس!! اس سے بڑھ کر اور مسلمانوں کی حالت قابل رحم کیا ہوگی؟

(ملفوظات جلد1 صفحہ62-63 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

تحریکات خلفائے احمدیت (قسط 13)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2022