• 24 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 32)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 32)

اردو لنک کی اشاعت 23 فروری تا یکم مارچ 2007ء صفحہ6 پر خاکسار کے مضمون بعنوان ’’اسلام مین عورت کی عظمت، احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی نویں قسط مع خاکسار کی تصویر کے شائع ہوئی۔ اس قسط میں خاکسار نے ’’عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ کی تشریح بھی کی ہے اور بیویوں سے حسن سلوک کی تاکید۔ جس میں علامہ ابن کثیر کی تفسیر سے چند واقعات بھی درج کئے ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کا اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی مثالیں ہیں۔ یہ حدیث بھی درج کی گئی ہے کہ تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔

سب سے پہلے آپ ﷺ نے عورت کے ورثہ کا حق قائم کیا۔ پھر خاوند کو حق نہیں کہ بیوی کے مال میں سے خرچ کرے۔ عورت اپنے مال کے خرچ کرنے میں پوری مختار ہے۔ آنحضرت ﷺ امہات المومنین سے بعض امور میں مشورہ بھی فرماتے تھے۔ سفر میں آپ اپنی کسی بیوی کو ساتھ رکھتے۔ ایک دفعہ سواریوں کے بدکنے کی وجہ سے آپ بھی سواری سے گر گئے اور خواتین بھی۔ ایک صحابی جو یہ دیکھ رہے تھے فوراً آپؐ کی طرف لپکے۔ لیکن اس موقعہ پر آپ نے فرمایا ’’مجھے چھوڑدو اور عورتوں کی طرف جاؤ‘‘ آنحضرت ﷺ نے وفات کے وقت جو وصیت فرمائی تھی اس میں بھی یہ بات تھی کہ عورتوں سے ہمیشہ حسن سلوک کرنا۔

آپ ﷺ کو عورتوں کے جذبات کا بھی بہت خیال رہتا تھا آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے جو لوگ باہر سفر پر جاتے ہیں انہیں جلدی گھر واپس آنا چاہئے تاکہ ان کے بیوی بچوں کو تکلیف نہ ہو۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خاوند کو بیوی کی دلداری اور عظمت کے لئے حکم ہے کہ اگر تم اس کو ناپسند کرتے ہو تو یاد رکھو کہ بسااوقات جن چیزوں کو تم ناپسند کرتے ہو لیکن خدا اس میں تمہارے لئے بھلائی رکھ دیتا ہے۔

یہ حسن سلوک اور مروت اور اخلاق عالیہ ہی تھے جن سے حضرت خدیجہؓ گرویدہ ہوئیں اور آنحضرت ﷺ کی شان میں وہ گواہی دی جو رہتی دنیا تک سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ کہ اے میرے پیارے فکر نہ کریں خداتعالیٰ ہرگز آپ کو ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپ اخلاق و مروت کا سرچشمہ ہیں۔ غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔

عورت بھلا کب یہ گواہی دے سکتی ہے اگر اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہو۔ حضرت معاویہ بن ہندہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ ہم میں سے کسی کی عورت کا اس پر کیا حق ہے؟

فرمایا: ’’جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے اور جب تو لباس پہنے اسے بھی پہنائے اور اس کے منہ پر نہ مار اور نہ اس سے یہ کہہ کہ اللہ تجھے قبیح کرے اور نہ اس سے قطع تعلقی کر۔‘‘ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر درج ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 9 مارچ 2007ء صفحہ25 پر ہماری ایک خبر اس عنوان کے ساتھ دی ہے

Inter-Faith meeting discusses Salvation

یعنی انٹرفیتھ میٹنگ میں ’’نجات‘‘ کے بارہ میں گفتگو ہوئی۔

اس خبر کے ساتھ جو کہ نصف سے زائد صفحہ پر ہے دو تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ایک تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ امام شمشاد سوالوں کا جواب دے رہے ہیں۔ دوسری تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ یہودی ازم، عیسائیت اور اسلام کے مقررین (دائیں طرف ربائی یوناہ، درمیان میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر اور آخر میں عیسائی مقرر بریٹ کرنچکل)

انڈیا پوسٹ سروس کے حوالہ سے اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہودی ازم، عیسائیت اور اسلام کےنمائندوں نے 70 کے قریب لوگوں کو اپنی اپنی مذاہب کے نمائندگی میں ’’نجات‘‘ کے بارے میں بتایا۔ یہ میٹنگ احمدیہ مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ہال میں 22 فروری 2007ء کو ہوئی۔

انتصار ملہی صاحب نے میٹنگ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ اس کے بعد اعجاز سید نے جو کہ احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس کی آرگنائیزیشن کے صدر ہیں نے سب کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ سب مذاہب کا ’’نجات‘‘ کے بارے میں ایک نظریہ ہے جسے ہم سننے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے یہودی ازم کے نمائندہ ربائی یوناہ نے اس بارہ میں اپنے خیالات بیان کئے۔ عیسائی نمائندہ بریٹ نے گناہ اور کفارہ کا عقیدہ پیش کیا۔ اسلام کی نمائندگی میں امام شمشاد ناصر نے کہا کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض و غایت خدا سے محبت اور اس کی عبادت ہے۔ جس سے انسان خدا کا قرب حاصل کرے۔ نجات اور کامیابی ایک ہی چیز ہے۔ اسلام کامیابی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ ’’مومن فلاح پا گئے‘‘ اور پھر اس کے آگے مومنین کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے (اس حصہ کو اخبار نے ہائی لائٹ بھی کیا ہے)

اس کے لئے مسلمانوں کی مذہبی کتاب میں کامیابی اور فلاح حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی نمازیں جو خشوع و خضوع سے ادا کی جائیں، بے ہودہ اور لغو کاموں سے بچنا۔ اپنی عفت اور حیا اور پاکدامنی کی حفاظت اور اپنی امانتوں کی حفاظت وغیرہ۔ تقاریر کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے۔ خاموش دعا پر میٹنگ کا ختتام ہوا۔ احمدیہ مسلم طلباء کی آرگنائیزیشن کی طرف سے سب کو ریفریشمنٹ بھی پیش کی گئی۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی اشاعت 2 تا 8 مارچ 2007ء صفحہ6 ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کے مضمون بعنوان ’’اسلام میں عورت کی عظمت، احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی دسویں قسط خاکسار کی تصویر اور نام کے ساتھ شائع کی۔ اس قسط میں زیادہ تر خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نصائح لکھی ہیں۔

حسن معاشرت کے تحت حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس شروع میں درج کیا گیا ہے جہاں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہادی کامل رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدوکوب کرے…… اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘

اس کے بعد چند احادیث نبویہ کا اندراج ہے۔ مثلاً ایک حدیث یہ ہے۔ آنحضرت ﷺ سفر پر جارہے تھے اور ایک انجشہ نامی اونٹوں کو ہانک رہا تھا (حُدی خوانی کر رہا تھا) اس لئے اونٹ تیز چلنے لگے تھے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے انجشہ! ذرا ٹھہر کر اور آہستہ حدی خوانی کرو تاکہ اونٹ زیادہ تیز نہ چلیں۔ کیونکہ اونٹوں پر شیشے اور آبگینے ہیں۔ یعنی نازک مزاج عورتیں سوار ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھبرانے لگیں اور ان کے نازک دل خوف محسوس کریں۔

ایک عزیز کے نام خط سے بھی ایک اقتباس درج کیا گیا ہے اور آخر پر حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک اور اقتباس ملفوظات سے درج کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ’’مرد کی نیکی اور بدی کا اثر عورت پر‘‘۔

فرمایا: ’’مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے۔ قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ عورت تو درکنار اور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے۔

اگر مرد کوئی کجی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے۔ اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں۔ غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بناتا ہے۔ اسی لئے لکھاہے۔

اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ

(نور: 27)

اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزار ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا۔ جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے۔ بھلا جب خاوند رات کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے روتا ہے تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متاثر ہو گی۔ عورت میں متاثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں۔ ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کر سکتا۔ خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے۔ خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہں ہوتا۔

خدا نے مرد عورت دونوں کا ایک ہی وجود فرمایا ہے۔

یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں۔ ان کو چاہئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکریں مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے۔

مرد اپنے گھر کا امام ہوتاہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے۔ مرد کو چاہئے کہ اپنے قویٰ کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ156-157)

اردو لنک کی اشاعت 9تا15 مارچ 2007ء میں صفحہ3 پر ہماری ایک خبر شائع ہوئی۔ 4تصاویر کے ساتھ۔ جس کا عنوان ہے۔
’’یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مذہبی مفکرین کے درمیان سیر حاصل گفتگو‘‘ تینوں مذاہب کے مطابق ’’نجات‘‘ کا تصور کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ ’’نجات یا بخشش کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان کس قدر اپنی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوتا ہے۔‘‘ امام سید شمشاد احمد ناصر

اخبا ر لکھتا ہے کہ کیلیفورنیا (پ ر) 25 فروری 2007ء یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائین کے ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں تین بڑے مذاہب عالم میں ’’نجات‘‘ کے تصور پر گفتگو ہوئی۔ اس موقعہ پر ربائی Yonah Brookstein نے یہودیت کا، راہب Bret Kunckle نے عیسائیت کا اور مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے اسلام کا موقف پیش کیا۔ اس تقریب کا اہتمام یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اروائن کے مسلمان طلباء کی ایسوسی ایشن (احمدی) (AMSA) نے کیا تھا۔ سامعین میں زیادہ تعداد یونیورسٹی کے طلباء کی تھی۔ AMSA کے زیر انتظام ہونے والی یہ دوسری ایسی تقریب تھی جس میں اسلام کے موقف کو پیش کرنے کا اعلیٰ موقعہ مہیا ہوا۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور پھر ِAMSA کے پریذیڈنٹ اعجاز احمد سید نے مہمانوں کو خطاب کیا، انہوں نے شرکت کرنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ ہر مذہب کا بنیادی مقصد اسے اپنے ماننے والوں کو نجات کی راہ سکھاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تینوں بڑے مذاہب کے نمائندگان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اس تصور کی وضاحت کریں۔ ربائی نے بتایا کہ یہودیت میں نجات کا تصور نجات کے لفظی معنوں کے حوالوں کی بجائے بچا لینے یا چھڑا لینے کے حوالہ سے ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی ایک ڈوبتے ہوئے شخص کو اچانک اچک لے کر خشکی پر ڈال دے۔ اس کے بعد عیسائیت پادری نے عیسائیت کا موقف بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے بتایا کہ ان کے نزدیک نجات عیسیٰؑ کی صلیبی موت میں مضمر ہے۔ آخر پر امام مسجد بیت الحمید شمشاد احمد ناصر نے اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کی پیدائش کا مقصد، خداتعالیٰ کا پیار اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا نجات یا بخشش کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان کس قدر اپنی پیدائش کے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے گر سکھاتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ: ایمان لانے والے یقیناً کامیاب ہیں۔

پھر قرآن ہمیں ایمان لانے والوں کی خصوصیات بتاتا ہے یعنی ایمان لانے والوں کی عبادت میں انکساری ہوتی ہے وہ برائیوں سے بچتے ہیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اوراپنی پاکیزگی کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے وعدوں اور معاہدوں کا پاس رکھتے ہیں، انہوں نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کی روشنی میں اور بانی اسلام ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں فلاح کے بارے میں اس مضمون کو واضح کیا۔ نماز کے حوالہ سے یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کی کہ مومن نہ صرف خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں بلکہ نمازوں پر دوام اختیار کر کے ان کی حفاظت کرتے ہیں اس لئے پانچ وقت کی اذان میں صرف نماز کے لئے نہیں بلکہ فلاح کی طرف بلایا گیا ہے جہاں موذن کہتا ہے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح۔ کامیابی کی طرف آؤ۔ تقریب کے اختتام پر سوالات بھی تھے۔ مہمانوں کی ہلکی پھلکی ریفرشمنٹ کے ساتھ بھی تواضع کی گئی۔ 4 تصاویر بھی ہیں ایک میں ربائی اور ایک میں خاکسار تقریر کر رہا ہے۔ ایک سامعین کی ہے۔ جبکہ ایک تصویر میں خاکسار سوالات کے جوابات دے رہا ہے۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 9 سے 15 مارچ 2007ء صفحہ6 پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کے مضمون بعنوان ’’اسلام میں عورت کی عظمت، احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی 11 ویں قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔ یہ مضمون اخبار کے نصف سے زائد صفحہ پر محیط ہے۔

اس قسط میں خاکسار نے ’’بیوی کے فرائض بیان کئے ہیں‘‘ جس میں احادیث نبویہ سے وضاحت کی گئی ہے مثلاً آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی سے دیکھ بھال کرنےو الی اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی اجر اور ثواب ملے گا جو خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے۔

خاکسار مندرجہ بالا حدیث مفصل طور پر لکھ کر اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر دو یعنی خاوند اور بیوی کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ مرد کا کام ہے باہر جا کر کمائے۔ (آجکل مغربی معاشرہ میں تو مرد گھروں میں اپنی جاب اور بزنس کرتے ہیں یہ ٹھیک ہے) باہر جا کر کمانے سے مراد صرف یہ ہے کہ مرد کی ذمہ داری کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لئے نان و نفقہ مہیا کرے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ گھر پر رہ کر بچوں کی اور اس کے گھر کی حفاظت کرے۔ اس طرح ثواب کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔

پھر اس سوال کا بھی جواب اس مضمون میں دیا گیا ہے کہ کیا عورت اور مرد دونوں برابر ہیں؟ کیونکہ مغرب کی خواتین خاص طور پر اسے اسلام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں کہ اسلام میں دونوں برابر نہیں ہیں بلکہ مرد کو فوقیت ہے اور بیچاری عورت تھرڈ کلاس سیٹیزن۔

خاکسار نے جواب میں لکھا کہ اگر عورت اور مرد کی ڈیوتی کو سمجھ لیا جائے تو یہ مسئلہ بڑی آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے۔ مغربی معاشرہ کی خاتون اس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی اور اعتراض بھی کرنا چاہتی ہے اور ان کے اثر سے متاثر ہو کر ہماری تعلیم یافتہ نسل بھی اپنے دل میں شکوک پیدا کر رہی ہے کہ کیا واقعی اسلام عورتوں پر ظلم کرتا ہے کہ انہیں مساوی حقوق نہیں دیتا۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ مغربی میڈیا اور پریس افغانستان کی عورتوں کی وہاں کے مخصوص برقعہ میں ملبوس تصاویر شائع کرتا ہے حالانکہ اسلام تو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ تم عورتوں کو اس طرح قید کرو۔

خاکسار نے مساوات کے سلسلہ میں ایک زبردست اور دلچسپ واقعہ حضرت خلیفہ اول کا مرقات الیقین سے بھی درج کیا ہے۔ جو افادہ عام کے لئے یہاں لکھتا ہوں۔

’’ایک ڈاکٹر جو کشمیر میں گورنر تھا وہ عورتوں مردوں کی مساوات کا بڑا ہی قائل تھا۔ وہ ایک خیمہ میں بیٹھا ہو اعورت مرد کی مساوات کے متعلق بہت زور دے کر تقریر کر رہا تھا۔ میں وہاں اتفاقاً چلا گیا۔ وہ اس وقت تک مجھ کو پہچانتا نہ تھا۔ میں نے آہستگی سے پوچھا کہ حضور کا کوئی بیٹا ہے؟ اول تو اس کو میرا لباس وغیرہ دیکھ کر تعجب ہو اکہ یہ کون وحشی سا آدمی ہے جو باقاعدہ انٹروڈیوس ہوئے بدون مخاطب ہے۔ مگر اس نے آخر کہہ دیا کہ ہاں میرے ایک بیٹا ہے۔ میں نے کہا وہ آپ کی بیوی کے پیٹ سے ہی پیدا ہوا ہو گا؟ اب اس کو اور بھی تعجب ہوا مگر اس نے کہہ دیا کہ ہاں۔ میں نے بڑی جرأت کےساتھ فوراً اٹھ کر خوب زور سے اس کی چھاتیوں کو پکڑ کر مروڑا۔ میں جانتا تھا کہ وہ جسم میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں۔ اب تو وہ بہت گھبرایا لیکن میری جرأت کو دیکھ کر حیران بھی تھا۔ مجھے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا اب تو آپ کی باری ہو گی کہ بچہ جنیں۔ میں یہ دیکھتا ہوں کہ آپ کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا یا نہیں؟ اور کچھ بچہ کا سامان شروع ہے یا نہیں؟ اس نے اس امیر سے جس کے خیمہ میں آیا ہوا تھا۔ پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے کہا یہ بڑے آدمی ہیں۔ میں کیا بتاؤں یہ خود ہی بتا دیں گے۔ اب تو وہ اور بھی زیادہ حیران ہوا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ آپ اپنا نام بتا دیں، میں نے کہا ہم فقیر آدمی ہیں۔ جب اس نے باصرار کہا تو میں نے کہا کہ میرا نام نور الدین ہے۔ نام میرا وہ چونکہ خوب جانتا تھا، کہنے لگا آپ تو بڑے عالم ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے ساری علمیت کا زور عورت مرد کی مساوات میں صرف کیا۔ میری دلیل کا بھی آپ کوئی جواب دے سکتے ہیں؟ کہا آپ کی دلیل کا تو کوئی جواب نہیں دے سکتا۔‘‘

(مرقاۃ الیقین صفحہ241-242)

خاکسار نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ صاحب کی کتاب سیرت خاتم النبیین سے عورت و مرد کی مساوات کے بارے میں یہ حصہ بھی مضمون میں لکھا:
’’مرد و عورت میں حقوق کی مساوات: پھر مساوات کی بحث میں مرد عورت کی مساوات کا سوال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی جہاں آجکل ایک طبقہ عورت کو نعوذ باللہ جوتی کی طرح اپنے پاؤں کے نیچے رکھنا چاہتا ہے تو وہاں دوسرا طبقہ اسے ایسی آزادی دینے پر تُلا ہوا ہے کہ گویا وہ انتظامی لحاظ سے بھی خاوند کی نگرانی سے باہر ہو گئی ہے اور پھر یورپ کا ایک طبقہ تو اسلام کی طرف یہ تعلیم بھی منسوب کرتے ہوئے نہیں شرماتا کہ اسلام عورت میں روح تک کو تسلیم نہیں کرتا۔ گویا وہ صرف مشین کی طرح کا ایک جانور ہے جس کی زندگی اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ مگر قرآن شریف ان سارے باطل خیالات کی تردید فرماتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مرد عورت اپنےا عمال کی جدوجہد اور ان کے نتائج کے حصوں میں برابر ہیں اور سب کے اعمال کا نتیجہ یکساں نکلنے والا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔

اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ

(آل عمران: 196)

یعنی اے لوگو! میں جو تمہارا خالق و مالک ہوں مَیں تم میں سے کسی عمل کرنےو الے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ کیونکہ تم سب ایک ہی نسل کے حصے اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہو۔

اور خاوند بیوی کے مخصوص حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ

(البقرۃ: 229)

یعنی جس طرح خاوندوں کے بعض حقوق بیویوں کے ذمہ ہیں اسی طرح بیویوں کے بعض حقوق خاوندوں کے ذمہ بھی ہیں۔

اس قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اور ذمہ داریوں کے معاملہ میں میاں بیوی برابر ہیں کہ کچھ پابندیاں خاوند کے ذمہ لگائی گئی ہیں اور کچھ پابندیاں بیوی کے ذمہ لگائی گئی ہیں اور دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھے جائیں گے۔‘‘

(صفحہ695-696)

مضمون کے آخر میں خاکسار نے قرآن و حدیث سے بیوی کے 13 فرائض بھی لکھے ہیں اور آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی درج ہے۔

الاخبار نے اپنے عربی سیکشن مین 15 مارچ 2007ء صفحہ 19 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس کے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 2006ء کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ دوبارہ شائع کیا۔ یہ خطبہ اپنی ذات میں بہت اہمیت کا حامل تھا اور اسی وجہ سے ایڈیٹر نے اسے دوسری مرتبہ شائع کیا۔ اس خطبہ جمعہ کا عنوان یہ تھا۔

التسامح فی الاسلام کما تمثلت فی شخصیۃ الرسول الکریم محمد ﷺ

اسلام میں عفو، درگزر، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی تعلیم۔ جس طرح رسول کریم ﷺ کی سیرت اور شخصیت سے ظاہر ہوئی۔

اخبار نے لکھا کہ الامام مرزا مسرور احمد نے جمعہ کے دن خطبہ جمعہ میں اسلام میں عفو، درگذر اور مذہبی رواداری کی تعلیم، آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کی مثالوں سے بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ بعض لوگ اسلام کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام صرف قتل و غارت کا نام ہے اور ان میں آزادی مذہب نام کی بھی نہیں اور ہر جگہ جبر و اکراہ ہی نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی اسلام سے ناواقفیت ہے اور ایسے لوگوں نے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ کو سمجھا ہی نہیں ہے۔

آپ نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے بعض مسلمانوں نے بھی اپنے غلط عمل کی وجہ سے ان کے ان خیالات کو تقویت پہنچائی ہے جس کی وجہ سے اسلام کو اور آپ کی ذات مطہرہ مقدسہ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اسلام نے ہر کسی کے حقوق کو قائم فرمایا ہے اور سب کو مکمل آزادی دی ہے۔

یہ بھی واضح ہو جانا چاہئے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو جنگیں کی ہیں وہ مجبوری تھی اور دفاعی جنگیں تھیں اور جب جنگ کی گئی تو اس کی بھی شرائط متعین کر دی گئیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت جہاد کا غلط تصور پھیلایا جارہا ہے۔ اس وقت جو جہاد کے نام پر جو غارتگری کی جارہی ہے وہ کسی رنگ میں بھی جائز نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ تو رحمت للعالمین تھے آپ نے کبھی جنگ میں پہل نہیں کی اور مخالفین کے لئے جنگ کے دوران بھی آپ صفت رحیم سے کام لیتے تھے اور انصاف اور عدل کے تقاضے پورے فرماتے تھے۔ تاریخ سے ہمیں اس کی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں جیسے کہ فتح مکہ کے وقت ہوا۔ اس وقت آپ نے سب کو مذہب کی آزادی دی کیونکہ قرآن کریم کی یہی تعلیم ہے۔ لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کہ دین میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔

آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ 13 سال مکہ میں رہے اور اس زمانے میں آپ کو شدید تکالیف کا سامنا رہا۔ طائف میں بھی آپ پر پتھر برسائے گئے۔ آپ کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ لیکن کفار نے پھر بھی آپ کو تکلیفیں دیں اور مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس کے باوجود آپؐ نے ہر موقعہ پر دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم کا معاملہ فرمایا۔

سورۃ اٰل عمران کی آیت 21 کے حوالے سے آپ نے فرمایا کہ یہ خدا کا کام ہے وہ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کو پکڑنا ہے، کس کو سزا دینی ہے، کس سے کیا سلوک کرنا ہے۔ پس یہ احکامات ہیں اور یہ آیت کریمہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ جبکہ آپ کو طاقت حاصل تھی۔

حضور نے مزید فرمایا کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپؐ نے جبر سے کام لیا۔ حالانکہ آپ کو یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ کوئی منافقت سے اسلام قبول کرے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ کی خدمت میں ایک کافر قیدی پیش ہوا۔ اس نے کہا مجھے کیوں قید کیا گیا ہے؟ میں تو مسلمان ہوں۔ آپ نے فرمایا اب نہیں۔ پہلے اسلام لاتے تو ٹھیک تھا۔ اب تم جنگی قیدی ہو اور رہائی حاصل کرنے کے لئے مسلمان بن رہے ہو۔ آپ نے اس کو جبر سے مسلمان بنانا نہیں چاہا۔ آپ تو چاہتے تھے کہ دل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں۔ فرمایا: پس یہ انصاف تھا جس نے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی ایک انقلاب پیدا کیا اور بعد میں بھی یہ انقلاب پیدا ہوا۔ اگرصحابہؓ کی زندگیوں کو دیکھیں۔ ان کے جائزےلیں تو پتہ لگتا ہے کہ جو انقلاب ان میں آیا وہ زبردستی دین بدلنے سے نہیں آتا بلکہ اس وقت آتا ہے جب دل تبدیل ہو جائیں۔ اس وقت آتا ہے جب دشمنوں سے بھی ایسا حسن سلوک ہو کہ دشمن بھی گرویدہ ہو جائے۔ فرمایا: فتح مکہ کے موقعہ پر عکرمہ جو شدید ترین دشمن تھا وہ بھاگ گیا۔ جب عکرمہ کی بیوی نے اس کو واپس لانے کے لئے معافی کی درخواست کی تو آپ نے معاف فرما دیا تو پھر ان میں ایسا انقلاب آیا جو تلوار کے زور سے نہیں لایا جا سکتا تھا۔ ایمان میں وہ ترقی ہوئی جو بغیر محبت کے نہیں ہو سکتی تھی۔ اخلاص سے دل ایسے پُر ہوئے جو بغیر محبت کے نہیں ہو سکتے تھے قربانی کے معیار اس طرح بڑھے جودلوں کے بدلنے کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ حضور انور نے حضرت خدیجہ ؓ کے غلام حضرت زید کا بھی ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنے باپ اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ پھر اس واقعہ کا ذکر بھی فرمایا کہ جب ایک یہودی او رمسلمان میں جھگڑا ہوا تو آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا اور ایک دفعہ آپ ایک یہودی کے جنازہ کے لئے بھی کھڑے ہو گئے۔

آخر میں مسجد بیت الحمید کا پتہ اور ایڈریس اور فون نمبر درج ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 15 مارچ 2007ء صفحہ26 پر اپنے انگریزی سیکشن میں نصف صفحہ پر ہماری خبر دو تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔

خبر کا عنوان ہے۔

Rabbi Booksten, Brett Kuncle and Imam Shamshad Discuss Salvation

یعنی رائی بکسٹن، بریٹ کنکل اور امام شمشاد ’’نجات‘‘ کے بارے میں تبادلہ خیالات

اخبار نے لکھا کہ احمدیہ مسلم طلباء کی تنظیم نے یورنیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ایک انٹرفیتھ میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں 70 سے زائد طلباء اور دیگر لوگوں نے شرکت کی اس انٹرفیتھ کا عنوان تھا ’’نجات‘‘ اخبار نے مزید لکھا کہ اگرچہ موسم بہت خراب تھا اس کے باوجود حاضری تسلی بخش تھی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ اعجاز سید نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ نیز بتایا کہ ہر مذہب کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو یہ بتائے کہ ’’نجات‘‘ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے 3 بڑے مذاہب کے سپیکرز کو اپنے خیالات کے اظہار کے لئے دعوت دی ہے۔

اس کے بعد ربائی یوناہ بک سٹن نے نجات کے بارے میں بیان کیا۔ مسٹر بیرٹک کنکل نے عیسائیت نقطہ نگاہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میں سب عیسائیوں کی نمائندگی نہیں کر رہا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی صلیبی موت پر ایمان لانے اور نجات کا طریق بتایا۔ اس کے بعد جماعت احمدیہ مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے اسلامی نظریہ نجات کے بارے میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی کا مقصد خدا سے محبت کرنا ہے۔ اور اس کی عبادت ہے۔ نجات کا حصول اسلام میں یہ ہے کہ خدا کی محبت اور عبادت میں کامیابی حاصل کی جائے اور قرآن نے وہ راہیں سکھائی ہیں جن سے انسان کو اس دنیا اور پھر آخرت میں کامیابی حاصل ہو گی۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ مومن ہی کامیاب ہوں گے اور وہ کس طرح کامیاب ہوں گے وہ عاجزی و انکساری سے اپنی پانچ نمازیں اور عبادت الہٰی کرنے والے ہوں۔ بے ہودہ اور لغو کاموں اور باتوں سے بچنے والے ہوں، وہ خدا کی خاطر اسی کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرنے والے ہوں۔ وہ اپنی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کرنےوالے ہوں۔ اپنے عہدوں کی اور امانتوں کی پاسداری کرنے والے ہوں۔ جب یہ کریں گے تو وہ کامیاب ہو جائیں گے اور یہی ان کی نجات ہو گی۔ تقاریر کے اختتام پر سوال و جواب بھی ہوئے اور طلباء کی طرف سے ریفریشمنٹ کا انتظام بھی سب کے لئے کیا گیا تھا۔

پاکستان ٹائمز نے اپنی 15 مارچ 2007ء صفحہ 14 پر 4 تصاویر کے ساتھ انٹرفیتھ میٹنگ کی خبر اردو میں دی ہے جس کا عنوان یہ ہے:
’’یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مذہبی مفکرین کے درمیان سیر حاصل گفتگو‘‘

نجات یا بخشش کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان کس قدر اپنی پیدائش کے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ امام سید شمشاد احمد ناصر

اخبار نے تفصیل کے ساتھ نصف سے زائد صفحہ پر یہ خبر دی۔ تصاویر میں ایک تصویر ہیڈ ٹیبل کی ہے جس میں دائیں طرف عیسائی مقرر، درمیان میں خاکسار اور بائیں جانب ربائی تشریف رکھتے ہیں۔ دوسری تصویر میں ربائی تقریر کر ہے ہیں اور خاکسار تقریر کر رہا ہے۔ تیسری تصویر میں خاکسار مہمانوں سے مل رہا ہے اور ان کے سوالات کے جوابات دے رہا ہے۔ چوتھی تصویر میں سامعین تقاریر سن رہے ہیں۔ خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان پوسٹ کی نیویارک کی اشاعت 15 مارچ 2007ء صفحہ 15 پر ہمارے اسی انٹرفیتھ کی خبر آدھے صفحہ سے زائد پر پانچ تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔ خبر کا عنوان اس اخبار نے یہ لگایا ہے:
’’کیلیفورنیا میں تینوں بڑے مذاہب کے مفکرین کے درمیان انٹرفیتھ ڈائیلاگ‘‘

بیت الحمید کیلیفورنیا کے امام شمشاد احمد ناصر نے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور خوبصورت انداز میں اسلام کا موقف پیش کیا۔

تینوں مذاہب کے درمیان نجات کے تصور پر تبادلہ خیالات، یہودی اور عیسائی عالموں نے بھی وضاحت کے ساتھ اظہار خیال کیا۔

نجات یا بخشش کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان کس قدر اپنی پیدائش کے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ امام سید شمشاد احمد ناصر

یہ ہیڈ لائنز تھیں۔ باقی خبر قریباً وہی ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی 16 مارچ کی اشاعت میں سیکشن B-23 پر ہماری مندرجہ بالا خبر ایک تصویر کے ساتھ انگریزی میں دی۔ تصویر کے نیچے (جو ہیڈ ٹیبل کی ہے) لکھا ہے۔ امام شمشاد، بریٹ کنکل اور ربائی یوناہ۔ اپنے اپنے مذہب سے انٹرفیتھ میتنگ میں خیالات کا اظہار۔

اخبار نے اروائن میں ہونےو الے احمدیہ مسلم طلباء کی آرگنائزیشن کے حوالہ سے اس خبر کی تفصیل شائع کی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے 16 مارچ 2007ء صفحہ6 پر 5 تصاویر کے ساتھ ہماری انٹرفیتھ کی خبر مندرجہ بالا جو اروائن یونیورسٹی میں احمدیہ طلباء کی تنظیم نے اہتمام کیا تھا کہ نصف سے زائد صفحہ پر شائع کیا ہے۔ یہ اخبار بھی نیویارک سے شائع ہوتا ہے اور اخبار کے مطابق یہ نیویارک کے علاوہ نیوجرسی، کنکٹی کٹ، شکاگو، بوسٹن، لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور پنسلوینیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا خبار ہے۔

خبرکا متن اور تفصیل قدرے وہی ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

نوٹ: اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہر کمیونٹی میں ہمیں پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور خبر دینی چاہئے اور پھر ایڈیٹر کے پیچھے پڑ جانا چاہئے۔ ایڈیٹر کو محسوس کرائیں کہ ہماری خبر ہی سب سے اہم ہے۔ خواہ چھوٹی خبر آئے۔ اس سے وہاں کی کمیونٹی میں پیغام پہنچ جائے گا۔ ان شاء اللّٰہ

(باقی آئندہ بدھ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

عہد بیعت اور اس کے تقاضے

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ