• 24 اپریل, 2024

25 فروری 2022ء This Week with Huzoor

This Week with Huzoor
مؤرخہ 25فروری 2022ء

اس دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی سے جوورچوئل ملاقاتیں ہوئیں وہ ناصرات اور لجنہ اماء اللہ جرمنی کی تھیں ۔ اسکے ساتھ ہی خدام الاحمدیہ انگلینڈ کےایک گروپ  کی حضور سے  ملاقات کا بھی احوال ہےجو تبلیغ کی غرض سے  ارجنٹینا کوروانہ ہو رہا تھا ۔

پہلی ملاقات

پیارے حضورانورنے خدام الاحمدیہ انگلینڈ کےایک گروپ کوانکے بغرضِ تبلیغ ارجنٹینا  روانگی سے قبل شرفِ ملاقات بخشا۔ حضور اقدس نے دُعا کروائی اور ان کو مختلف نصائح بھی فرمائیں کہ کس طرح وہ اپنےمقصد میں بہترین کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

خدام کے استفسار پر کہ حضوراقدس تبلیغ کے لئے کوئی راہنمائی ،کوئی نصیحت فرمائیں ۔حضورانور نے فرمایا کہ”دعا کرنا اور کام کرنا ۔۔۔ تبلیغ  تو دعا سے ہی ہوتی ہے۔محنت اور دعا۔  پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ نیک نیتی سے کرنا کام بس۔ اپنا وقت نظارے دیکھنے میں نہ گزار دینا۔ کام کرتے رہنا۔ نظارے دیکھنے کے لئے extra time لے لینا۔ دعا کر لو” دعا کے بعد فرمایا کہ’’ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ:

ہرطرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہےآئےگاوہ انجام کار

ہمارا کام تو بس اتناہی ہے۔ اسکے علاوہ دعا کرنی ہے اور دعا ؤں پر زور دینا ہےنمازوں کے علاوہ نفل بھی پڑھتے رہنا۔  تبلیغ کرنے جا رہے ہو۔ بڑی ضروری ہیں اور ذکرِ الٰہی بھی کرتے رہنا۔ چلو پھر، اللہ حافظ ہو۔‘‘

دوسری ملاقات

اس ملاقات کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالٰی سےجرمنی کی ناصرات نے ملاقات کا شرف پایا جن کی عمریں دس سے بارہ سال تھیں اور جو بیت السبوح مسجد فرینکفورٹ میں جمع تھیں۔ تلاوتِ قُرآن کریم اور مختصر پروگرام کے بعد ناصرات کو ایک گھنٹے کی ملاقات میں سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

سوال۔ایک بچی نے سوال کیا کہ حضور! میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان شاءللہ تعالٰی جماعت کی کتب نابینا لوگوں کے لئے Braille (برائیل) زبان میں مہیا ہوں گی؟

جواب۔ حضور اقدس نے فرمایا کہ’’ ہاں ان شاء اللہ وقت گزرے گا  جس جس طرح جماعت ترقی کر رہی ہے یہ بھی مہیا ہو جائیں گے ان شاء اللہ تعالٰی‘‘ پھر حضور نے بچی سے پوچھا کہ ’’تمہیں قرآنِ کریم پڑھنا آتا ہے؟‘‘ بچی نے جواب دیا کہ جی آتا ہے میں تو نارمل ہی پڑھتی ہوں اور  میں قرآنِ کریم کو حفظ بھی کر رہی ہوں۔ حضور نے فرمایا ’’اچھا ماشاءاللہ، تم نے کاغذ رکھا ہوا ہے کیا تمہیں نظر آتا ہے؟‘‘ بچی نے جواب دیا کہ  جی حضور! میں تو آئی پیڈ سے پڑھتی ہوں۔ حضورنے فرمایا ’’اچھا، ٹھیک ہے۔ مہیا ہوں گی ان شاء اللہ تعا لٰی وقت آئے گا تو۔  ابھی توپرنٹ میں بھی پوری طرح نہیں آئیں، ان شاء اللہ کوشش کریں گے۔‘‘

سوال۔ ایک بچی نے سوال کیا کہ حضور! انسان ہر کام حکمت سے کرنے کے لئے حکمت کیسے سیکھ سکتا ہے؟

جواب ۔ حضورِ انور نے پوچھا کہ’’ حکمت کیا چیز ہے؟ حکمت ہوتا ہے ’’عقل‘‘۔  اپنی عقل کو استعمال کرو۔عقل بڑھتی ہے علم حاصل کرنے سے بھی، علم حاصل کرو،  اورجب علم حاصل کرو گے تو اس بات میں تمہارے اندرزیادہ  سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گی اور جب سمجھنے کی صلاحیت زیادہ پیدا ہوجاتی ہے کسی چیز کو تو پھراس کا جواب بھی حکمت سے دینے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اسی لئے حکمت یہ ہے کہ ماحول کے مطابق عقل سے جواب دینا۔ایک سوال ہے کوئی کر رہا ہو تمہارے سے اس کا جواب  اگر تم  سختی سے دواورسخت لہجےمیں دواور وہ ناراض ہو جائے اور تمہارے سے لڑائی کرنے لگ جائے تو وہ حکمت نہیں ہے۔لیکن و ہی جواب اگر تم نرمی سے دو پیار سے اورسمجھا کے دوتووہ حکمت ہے۔ تو اللہ  تعالیٰ نے جو ہمیں عقل دی ہوئی ہے اس سے فیصلہ کرنا چاہئے کہ میں نےاس کا جواب کس طرح دینا ہے؟ اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمہاراعلم بھی اچھا ہو۔ اگر تم زبردستی کسی کو کہو کہ دیکھو تم پردہ نہیں کرتی، اللہ تعالٰی کےحکموں پر عمل نہیں کرتی  تو  اللہ تعالٰی تمہیں سزا دے گا اور تمہیں جہنم میں ڈالے گا۔ تو اس کو غصہ آ جائے گا کہ تم کون ہوتی ہو  مجھے سزا کا کہنے والی؟ اللہ نےفیصلہ کرنا ہے۔ میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر تم یہی بات کسی کو پیار سے کہو کہ میں تو پردہ اسی لئے کرتی ہوں،  میں تو حجاب اس لئے لیتی ہوں کہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے اس پر عمل کرو۔ میں تو اپنی دین کی تعلیم کرنے کے لئے کرتی ہوں۔ تو یہ حکمت سے سمجھا بھی دیا اسے اور لڑائی بھی نہیں ہوئی۔ حکمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عقل استعمال کرتے ہوئے کسی بات کا جواب دینا۔ جس سے نتیجہ بہتر نکلے لیکن حکمت کا یہ مطلب نہیں ہے ڈرجانا۔ اگر کوئی تمہیں کہے کہ تم احمدی ہواورتم کہو کہ نہیں، حکمت کا تقاضہ یہ تھا کہ وہاں لوگ میرا مذاق اڑائیں گے تو میں کہہ دوں، میں احمدی نہیں ہوں۔ یہ نہیں حکمت۔ کہو ہاں! اللہ تعالٰی کے فضل سے مجھے اللہ میاں نے توفیق دی ہے کہ میں نے زمانے کے امام کو مان لیا ہےآنحضرتﷺکی پیشگوئی کے مطابق۔  تویہ جواب ہے کہ حکمت کا مطلب خوف بھی نہیں ہے۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ عقل سے ایک ایسا جواب دینا جس کا  برا نتیجہ نہ نکلے۔

لیکن جہاں ایمان کا سوال آتا ہے وہاں ایمان کو نہیں چھپانا۔ وہاں ڈر کے مارے خوفزدہ ہو کے یہ نہیں کہنا کہ حکمت تھی، میں نے ڈر کے مارے کہہ دیا کہ میں احمدی نہیں ہوں۔ یا نماز کا وقت آ گیا تو کہہ دیا کہ کوئی بات نہیں ہم نہیں پڑھتے نماز، ایسی باتیں نہیں ہیں۔ جہاں دین کا معاملہ ہے وہاں غیرت دکھانی ہے۔ جہاں کسی بات کو کرنے کا معاملہ ہے، دوسرے کو سمجھانے کا معاملہ ہے، وہاں حکمت سے بات کرنی ہے۔‘‘

سوال۔ ایک بچی نے یہ سوال کیا کہ ایک مشکل وقت میں سے انسان کیسے گزرسکتا ہے جب اسکو محسوس ہو رہا ہو کہ وہ اپنا ایمان کھو رہا ہے اور وہ ایمان کو کیسے واپس  حاصل کر سکتا ہے؟

 جواب ۔ حضورانور نے اسکا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ایمان ضائع اگر ہو رہا ہے تو اسکا مطلب  یہ ہے کہ اللہ تعالٰی سے جو تعلق ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ایمان مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمہیں پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہے۔اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک تو پہلے غیب پر ایمان ہونا چاہئے،  یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالٰی ہے اور اسکے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں۔  پھر وہ کس طرح  ہے اسکی تلاش کرو۔کل ہی میں نے خطبے میں بیان کیا تھا حضرت مصلح موعود ؓ کا واقعہ کہ وہ گیارہ سال کے تھے  تو ان کو خیال آیا کہ میں کیوں  احمدی ہوں؟ پھرمیں کیوں مسلمان ہوں؟   میں کیوں اللہ تعالیٰ پر یقین کرتا ہوں ؟  پھر  انہوں  نے  سوچنا شروع کیا   اور ایک رات، اللہ تعالیٰ  نے ان کو سکھانا تھا تو،  آسمان پر چمکتے ستارے ہی دیکھ کر ان کو پتہ لگ گیا   کہ دیکھو! یہ ستارے   ہیں  ان کے پیچھے اور ستارے ہیں،  سیارے ہیں،  ایک کائنات ہے،  ایک کائنات کے بعددوسری   کائنات  ہے،  اتنی لاکھوں کائناتیں ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ کتنی کائناتیں ہیں۔ تو جب ان کو پتہ ہی نہیں اور لامحدود ہیں  تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت بھی اسی طرح لا محدود ہے۔ تو جب یہ پتہ لگ جائے کہ اللہ تعالٰی ہے تو  پھریہ بھی پتہ لگنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو نبی بھیجتا ہے ہماری اصلاح کے لئے وہ بھی سچے ہیں۔ اور پھر اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا۔ قرآنِ کریم میں دیکھو بہت ساری پیشگوئیاں ہیں۔ اگر دیکھو تم کہ لوگ نماز نہیں پڑھتے،  اللہ سے دعا نہیں کرتے رو رو کے اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے  تو پھر تو ایمان ضائع ہی ہوتا ہے۔پھر اگر قرآنِ کریم نہیں پڑھتے قرآن شریف کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اس میں سے حکم نہیں نکالتے جو ایمان کو مضبوط کرنے والے ہوں تو  پھربھی ایمان کمزور ہوتا ہے ۔پھر اس زمانے  میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بہت سا لٹریچر دیا ہے اس میں جو آسان باتیں ہیں ایمان مضبوط کرنے کے لئے اگر ہم وہ پڑھیں تو ہمارا علم بڑھے گا۔اور علم کے ساتھ ہمارا  ایمان بھی بڑھے گا۔تو یہ چیز تو محنت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ  نے بھی قرآن شریف میں یہ ہی کہا ہے کہ۔   وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا ۔وہ جو میرے رستے میں جہاد کرتے ہیں۔ان کو میں صحیح راستے دکھاتا ہوں۔ جہاد کا مطلب یہی ہے کہ کوشش کرنی پڑتی ہےایمان کو لانے کے لئے اور کوشش یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرو اورقرآنِ کریم میں جو حکم ہیں اللہ کے ان کو سمجھنے کی کوشش کرو۔  اس عمر میں یہ کوشش کرنی  شروع کر دینی چاہئے بارہ سال کی عمر میں۔

سوال ۔  ایک بچی نے پیارے حضورِ انور سے سوال کیا کہ: ’’حضور! میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی نظم ہے جو آپ کو بہت پسند ہے اور آپ اکثر سنتے ہیں ؟‘‘

جواب ۔ حضور  نےجواب ارشاد فرمایا کہ’’ہر نظم جو اچھی پڑھی ہوتی ہے مجھے اچھی لگتی ہے ۔

 باقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کی نظمیں ہیں  سب سے اچھی اور کلامِ محمود کی نظمیں بہت ساری درِّ عدن کی نظمیں ہیں ۔اور بہت سے اچھے شاعروں کی  نظمیں ہوتیں ہیں۔ کسی دن کسی چیز کا موڈ ہو جاتا ہے اور سننے کا اگر وقت ملے تو ۔ وقت ہی نہیں ملتا نظمیں سننے کے لئے بیٹھ کر (حضور بہت مسکراتے ہوئے یہ جواب دے رہے تھے)’’ پھر حضورِ انور  نے بچی سے  پوچھاکہ تم کون سی نظمیں سنتی ہو؟‘‘  تو بچی نے جواب دیا کہ بہت ساری سنتی ہوں جیسے خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا۔خلیفہ دل ہمارا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ ’’درثمین کی نظمیں پڑھا کرو اور کلامِ محمود کی نظمیں بھی پڑھا کرو  تو  تمہارااس سے ایمان بھی بڑھے گا۔  یہ  توجو عارضی جوش پیدا کرنے والی نظمیں ہیں یہ تو ہیں لیکن ایمان بڑھانے  کے لئے بھی زمانے کے امام حضرت مسیح موعود اور پھر خلفاء کا کلام جو ہے اس کو بھی پڑھنا چاہئے اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے ۔ ‘‘

سوال ۔  ایک اور بچی نے سوال کیا کہ: ’’ السلام علیکم حضور!  جاپان، کوریا اور چین میں سلام کرتے وقت جھکتے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ادھر جائیں تو اس طرح جھکنا شرک کہلائے گا کیونکہ انسان کے سامنے جھکنا جائز نہیں ہے۔‘‘

جواب ۔ حضورِ نے جواب میں فرمایا کہ’’انکا ایک ٹریڈیشن ہے وہ یوں سر جھکا کر سلام کرتےہیں ۔ہمارے ایشیا میں  بھی رواج ہے۔  پاکستان میں بھی،  انڈیا میں بھی کہ بعض دفعہ سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں جھک کر سلام کردیتے  ہیں ۔السلام علیکم کہتے ہیں اور ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ  دیتے ہیں۔  تو وہ کوئی شرک  تو نہیں ہوتا  ۔ویسے بھی یہ انکی ٹریڈیشن ہے انکا سلام کا طریقہ ہے۔  وہ یوں جھکتے ہیں۔ کوئی عبادت کے لئے نہیں جھکتے۔ وہ اگلے کو  خدا سمجھ کے   تو نہیں جھک رہے ہوتے کہ اس سے میں نے کچھ لینا ہے یا مانگ رہا ہوں۔  وہ تو کرٹسی کا اظہار ہے کہ دکھائی جا رہی ہےکہ کس طرح ہم آپ کو عزت دیتے ہیں،  احترام دیتے ہیں  اور سلام کا ایک طریقہ ہے۔  توجاپان وغیرہ اور بہت ساری دوسری جگہوں پر جب عورتیں آتی  تھیں سلام کرنے کے لئے  تو میں ان سے ہاتھ تو نہیں ملاتا ،  عورتوں سے ، تو میں ذرا سا جھک کر  آگے ہو کر السلام علیکم کہہ دیتا ہوں۔  اس سے ان کو ہوجاتا ہے کہ ہماری عزت افزائی  ہو گئی ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ  اگلے کی عزت کرنا۔   تو ایک اصول یاد رکھو  کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔  اگر تمہاری  نیت کسی کے سامنے جھکنے کی اس لئے ہے کہ تم اس سے مانگو اور اس کو خدا سمجھ رہی ہو تو وہ شرک ہے۔  اگر صرف کرٹسی ہے اور یہ کرٹسی  دکھانے کے لئے،  اس کو عزت دینے کے لئے  ہے یوں کر  کے (حضور نے جھکتے ہوئے واضح کیا)  ہلکاسا سر جھکا دیا آگے ۔یا   ذرا سی کمر کو بھی خم   کر دیا،   ذرا سا جھکا دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،  کوئی شرک نہیں ہےیہ۔‘‘

سوال ۔ ایک بچی نے سوال کیا کہ  میرا سوال یہ ہے کہ لاہوری جماعت ہم سے علیحدہ کیوں ہوئی تھی؟

جواب ۔ حضورِ نے  جواب میں تفصیل سے واضح فرمایا کہ’’فرق یہ ہے کہ لاہوری جماعت  جو ہے ، وہ لوگ  کہتے تھے کہ  حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانے میں بھی یہی تھا شروع ہو گیا  ان کا سلسلہ۔  وہ کہتے تھے کہ جو خلافت ہے وہ انجمن کے ماتحت ہونی چاہئے اور انجمن کے  جو   افسران  تھے وہ کہتے تھے کہ ہم جماعت کو چلائیں۔ سارے فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔  تو خلیفہ اول  ؓ نے فرمایا تھا کہ  خلیفہء ِ وقت کو کل اللہ تعالٰی نے اختیار دئے ہیں۔   یہ ہی اسلامی طریقہ ہے۔   انجمن کے ماتحت  نہیں ہو سکتا خلیفہ۔ خیر اس وقت تو ان لوگوں نے برداشت  کر لیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ  کے چھ سال  کا زمانہ لیکن پھر جب خلافت ِ ثانیہ کا انتخاب  ہوا تو پھر جو بڑے بڑے مولوی تھے  عہدیدار جماعت کے،  انہوں نے کہا کہ خلافت نہیں ہونی چاہئے  اور ان کو یہ شک تھا کہ مرزا بشیرالدین محمود  احمد اب خلیفہ منتخب ہو جائیں گے اس لئے انہوں نے شور مچا دیاکہ ہم خلافت نہیں مانتے ۔ حضرت خلیفہ ثانی حضرت مرزا  بشیر الدین ؓ نے کہاکہ یہ خلافت  تو بحر حال ہونی چاہئے  تمہیں یہ اگر شک ہے کہ میں خلیفہ بنوں گا تو مجھے کوئی خواہش نہیں خلیفہ بننے کی ۔ اگر تم چاہتے ہو تو  تمہارے میں سے کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں  لیکن ہو گی خلافت ہی جس پر ہم اکٹھے ہو جائیں ۔  چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہوں  یا کوئی اور  ہو۔  کسی ایک کو ہم خلیفہ مان لیتے ہیں  ۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ہمیں پتہ ہے کہ جماعت نے آپ کو ہی بنانا ہے۔  تو اس لئے انہوں نے خلافت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے تو یہ وعدہ کیا تھا کہ خلافت قائم ہو گی حضرت  مسیح موعود علیہ السلام   کے بعد۔   حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے رسالہ  الوصّیت  میں جب وصیت کی سکیم شروع فرمائی ہے ۔اس میں یہ بھی فرمایا تھا  کہ میرے بعد خلافت  ہو گی۔  اس لئے خلافت تو بحرحال قائم ہونی تھی آنحضرت ﷺ نے بھی یہی فرمایا تھا۔  آپ کی حدیث  بھی یہی ہے۔   لیکن  یہ لوگ خلافت کو ماننے پر تیار نہیں تھے اسی لئے یہ لوگ علیحدہ ہو  کر لاہور چلےگئے  اور وہاں جا کرانہوں نے اپنی جماعت بنا لی ۔ جتنا جماعت کا  خزانہ تھا ، پیسے تھے،  وہ بھی ساتھ لے گئے اوربہت سارے بڑے بڑے علماء ان کے ساتھ چلے گئے۔لیکن اللہ تعالٰی نے کیونکہ خلافت کی حفاظت کرنی تھی اس لئے ان کی جماعت تو کچھ عرصے کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوتے اب تو ختم ہی ہو چکی ہے ۔لیکن جماعت احمدیہ جو خلافت کے ساتھ  تھی،  جس کا خلافت سے تعلق تھا،  وہ بڑھ ر ہی ہے اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور دنیا کے اب 212 ملکوں میں پہنچ چکی ہے۔تو اختلاف یہاں ہوا تھا کہ  وہ لوگ جو تھے،بڑے علماء،    وہ کہتے تھے کہ ہم افسران جو ہیں  ہمارے پاس  سارے اختیار ہوں اور خلیفہء وقت کے پاس کوئی اختیار نہ ہو۔بلکہ خواہش انکی یہ تھی کہ خلیفہ ہو ہی نہ۔ صرف انجمن ہو۔ اس لئے اس  بات کو مانا نہیں  خلیفہ ثانی نے، نہ ہی جماعت کے ممبران نے اور اس کے بعد وہ ناراض ہو کے لاہوری جماعت لاہور چلی گئی۔  لاہور جا کر انہوں نے ایک جماعت علیحدہ  قائم کر لی۔  اسکو پیغامی بھی کہتے ہیں اور لاہوری بھی کہتے ہیں۔  غیر مبائع  بھی کہتے ہیں۔  جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی۔

لیکن اب دیکھ لو،  آہستہ آہستہ وہ لوگ جو بڑے بڑے لوگ تھے اور سمجھتے تھے کہ قادیان ختم ہو جائے گا۔ کہا کرتے تھے کہ اب قادیان میں کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اسکی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔  لیکن قادیان تو ترقی کرتا گیا اور جب ہجرت ہوئی تو پھر اسکے بعد اللہ  تعالیٰ نے پاکستان میں بھی مرکز دے دیا۔پھر دنیا میں اور جگہ جماعتیں بننی شروع ہو گئیں۔لیکن وہ پیغامی تو اب چندایک جگہ پر ہی ہیں۔اب ایک برلن میں ، تمہارے جرمنی میں،  انکی مسجد ہے جو پرانی سب سے بڑی مسجد ہے۔  لیکن اس مسجد میں  انکو تو امام بھی کوئی نہیں ملتا نماز پڑھانے کے لئے۔ بڑی مشکلوں سے کوئی آتا ہے مہینے تین مہینے کے لئے پھر چلا جاتا ہے۔جبکہ ہماری مسجد برلن میں بن گئی ہے آباد رہتی ہے۔ جب میں وہاں گیا  ہوں برلن،  تو انکی مسجد دیکھنے بھی گیا تھا۔  اسوقت وہاں امریکہ سے ایک لڑکا سا آیا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں ہی ان کا امام ہوں اور میں عارضی طور پر یہاں آیا ہوا ہوں۔  نہ ہی  اس میں  اماموں والی کوئی بات تھی،  نہ ہی وہ کوئی دینی علم پڑھا ہوا تھا۔لٹریچر بھی ، حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابیں بھی شائع کرتے ہیں۔   لیکن بس کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہے تھوڑا بہت لٹریچر شائع کر لیتے ہیں۔  چند ایک وہ رہ گئے ہیں،   چند سو ہوں گے ان کے ماننے والے۔   لیکن جماعتِ احمدیہ جو خلافت کے ساتھ ہے وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ وہاں مسجد میں بھی میں نے دیکھا کہ  ہر طرف کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔  بڑا بُرا انتظام تھا۔  مسجد کی صفائی  وغیرہ بھی نہیں ہوئی  تھی۔  لیکن جماعتِ احمدیہ دیکھ لو جرمنی میں بھی نئی نئی مسجدیں بھی بنا رہی ہے اور ترقی بھی کر رہی ہے۔یہ خلافت کی وجہ سے ہی ہے۔اور اسی طرح دنیا کے دوسرے ملکوں میں افریقہ میں ،ایشیا میں ،آسٹریلیا میں، جزائر میں، امریکہ میں ،یورپ میں ہر جگہ جماعت ترقی کر رہی ہے۔  تو وہ لوگ خلافت کے انکاری تھے اس لئے چلے گئےاور اس کا نقصان بھی انہوں نے دیکھ لیا۔  اب ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو  اس بات کو  مانتے ہیں کہ ہم نے خلافت کو چھوڑ کے غلطی کی اور اب ان میں سے، پیغامیوں میں سے ہی، جب میں فجی گیا ہوں تو وہاں  مجھے ملنے بھی آئے تھے بعض  اور انہوں نے بیعت بھی کی ہے۔ اسی طرح  وہاں نیوزی لینڈ میں آئے تھے ۔  انہوں نے بیعت بھی  کی۔  تو آہستہ آہستہ لوگ ان میں سے جن کو سمجھ آ رہی ہے احمدی ہوتے بھی گئے اور خلافت کے سائے تلے آ گئے  ۔‘‘

سوال ۔ ایک بچی نے سوال کیا کہ  حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جب آنحضورﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی تو ایسی کیفیت ہو جاتی تھی کہ باوجود سردی کے موسم میں آپ کو پسینہ آجاتا تھا۔  میرا سوال یہ ہے کہ ایسی کیفیت کیوں ہوتی تھی اور کیا اس وقت آپ جسمانی تکلیف بھی محسوس فرماتے تھے؟اور کیا جب حضرت مسیح موعودؑ پر الہام ہوتے تھے تو آپ کی بھی ایسی ہی کیفیت ہوتی تھی؟

جواب ۔ حضورِ انورایدہ اللہ نے جواباً فرمایا کہ’’جب وحی فرشتے لے کر آتے ہیں تو وہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کا خوف نبیوں کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور جب فرشتے پیغام لے کر آ رہے ہوتے ہیں تو اسکا بوجھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انسان کانپ کے رہ جاتا ہے اور جس کو جو صحیح فہم ہو،  ادراک ہو اس چیز کا،  اسکو سب سے زیادہ اس کا احساس ہوتا ہے۔  تو آنحضرتﷺ کی جو کیفیت ہوتی تھی وہ اسی لئے ہوتی تھی کہ اللہ تعالٰی کی وحی نازل ہوئی ہے اور اس وقت لگتا تھا کہ ٹنوں بوجھ آپ فرماتے ہیں کہ لگتا تھا  کہ ٹنوں بوجھ میرے اوپر پڑ گیا ہے۔اور فرشتے جو  پیغام لے کر آتے تھے اس وحی کا بوجھ ہی اتنا زیادہ ہوتا   ہےکہ وہ انسان  اس سے کانپ جاتا ہے  دل جس کو صحیح اللہ تعالٰی کے وجود کا ادراک ہواور نبیوں کو سب سے زیادہ اس کا ہوتا ہے اس لئے ایسی حالت ہوتی تھی۔ اوریہی حضر ت مسیح موعوؑد  پر بھی جب الہامات کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپ پر بھی ، گو اس مقام پر تو نہیں پہنچ سکتے جہاں آنحضور ﷺ پہنچے ہوئے تھے،  مگر آپ پر بھی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ آپ کا جسم جو تھا وہ بہت زیادہ کانپنے لگ جاتا تھا۔ ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی کہ لگتا تھا کہ کوئی الہام ہو رہا ہے۔جتنا زور دار الہام ہوتا تھا ا تنی آپ کی جسمانی کیفیت ہوتی تھی اور تھوڑی دیر کے لئے پھر کمزوری بھی رہتی ہے۔ پھر وہ کیفیت جاتی رہتی ہے ۔‘‘

تیسری ملاقات

اگلے دن لجنہ اماء  اللہ جرمنی کو حضورِ اقدس  خلیفۃُالمسیح  الخامس  ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئل ملاقات   کا شرف حاصل ہوا۔ اس ملاقات میں شمولیت کرنے والی لجنات کو سوالات   کرنے کا موقع  ملا۔

سوال ۔ ایک لجنہ کی ممبر نے سوال کیا کہ  کیا اسلام پہ اعتراض کیا جا سکتا ہے؟

جواب ۔ پیارے حضور نے جواباً فرمایا کہ’’ کیا  اتنے غیر مسلم اسلام پہ اعتراض   نہیں کرتے؟‘‘ لجنہ ممبر نے دوبارہ سوال دوہرایا  تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ سوال یہ ہے کہ  سوائے مسلمانوں کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اسلام کو  کریٹیسائز کرتے ہیں  ناں؟  ہاں اگر تم کہو کہ ایک مسلمان اسلام پر اعتراض کر سکتا ہے کہ نہیں تو تمہارے  اندر جوسوال پیدا ہوتے ہیں ان کو تمہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت نمازیں رکھیں ہیں۔  تمہارے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پانچ  نمازیں کیوں ہیں؟   اسکا حل تلاش کرو۔ روزے کیوں ہیں؟  اس کا حل تلاش کرو۔  اب تو سائینسدان  بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ روزے جو ہیں یہ بڑے فائدہ مند چیز ہیں۔ نمازیں جو ہیں  یہ ریگیولیٹ کرتیں ہیں،  ڈسپلن کرتیں ہیں انسان کو اور خدا تعالیٰ کی ذات پر سوال ہے   یا اور بہت سارے احکامات پر سوال ہیں یا پردے پر سوال ہے،  ہر ایک کا جواب تلاش کرنا چاہئے ۔ ابھی میں نے جمعہ کے خطبے میں ہی حضرت مصلح موعودؓ کا حوالہ پڑھا تھا ۔ تم نے سنا تھا خطبہ؟‘‘ ممبر لجنہ کے جی کہنے پر حضور انور نے اپنا جواب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا’’کہ حضرت مصلح موعودؓ نے  یہی کہا تھا کہ جب میں گیارہ سال کا تھا تو مجھے اعتراض پیدا ہوا  کہ اللہ تعالیٰ کے ہونے کا  کیا ثبوت ہے پھر آنحضرت ﷺ کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے؟حضرت مسیح موعود ؑ کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام کی سچائی کا کیا ثبوت ہے؟ پھر اس پر میں نے  جب سوچنا شروع کیا  اور پھر مجھے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا پتہ لگ گیا کہ وہ ہے اور ثابت ہو گیا  ، پھر مجھے سمجھ آ گئی کہ آنحضورﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ بھی آپ کی اتباع میں آئے ہیں اس زمانے کی اصلاح کے لئے ۔ تو سوال پیدا ہوتے ہیں انسان کے دل میں،  پڑھے لکھے دل میں۔ لیکن اس اعتراض کو اعتراض برائے اعتراض کر کےپھر صرف اس پر خاموش نہیں ہو جانا چاہئے۔  بلکہ جس طرح حضرت مصلح موعود ؓنے کہا کہ میں نے تحقیق کی،  میں نے جستجو کی اور میں نے کہا کہ میں یہاں سے نہیں اٹھوں گاجب تک مجھے جواب نہیں مل جاتے۔ تو وہ جستجو بھی ہونی چاہئے۔  اگر تمہیں اسی دن جواب نہیں ملتے، اگلے دن پھر سوچو، پھر لوگوں سے پوچھو،  پھر لٹریچر پڑھو۔  اب تو لٹریچر بھی اتنا موجود ہے جماعت احمدیہ میں اللہ کے فضل سے۔  اُس زمانے میں تو نہیں تھاکہ اسکے سوالوں کے جواب تمہیں آسانی سے مل سکتے ہیں۔ اگرتمہارے ذہن میں  سوال اٹھتا ہے اسلام کے بارے میں  یا اسلام کے کسی حکم کے بارے میں تو معین کرو کہ کیا پوچھنا چاہتی تھی؟  کہ کیا کسی مسلمان کے دل میں اسلام کے متعلق کوئی سوال اٹھ سکتاہے کہ نہیں۔ یہ کہنا چاہتی تھی؟‘‘   لجنہ ممبر نے جواباً کہا کہ جی حضور!  تو حضور پرنور نے فرمایا کہ ’’ تو یہ کہو ناں پھر۔  ڈر ڈر کر کیوں سوال کرتی ہو؟  کھل کر سوال کرو۔  کیا ہم اسلام  کی تعلیم پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں؟سوال یہ بناؤ کہ ہم اسلام کی تعلیم کو جس کی سمجھ نہ آئے اسکے متعلق سوال کر سکتے ہیں کہ یہ کیوں ہے؟  یا یہ میرے نزدیک غلط ہے۔  تمہارے نزدیک غلط ہے تو اسکا حل تلاش کرو ۔ اس کے لئے جس کو علم ہے اس سے پوچھو۔   تمہارے مربی ہیں،  تمہاری پڑھی لکھی عورتیں ہیں یا تمہیں سمجھ نہیں آتی تو  پھر مجھے سوال لکھ کر بھیج سکتی ہو کہ یہ سوال ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ دین تو و ہی ہوتا ہے ناں جس کی سمجھ بھی آئے۔  تبھی انسان صحیح طرح دین پہ عمل بھی کر سکتا ہے۔اگر صرف اس لئے دین کو مان لیاکہ میرے اماں ابا  احمدی مسلمان تھے تو میں بھی احمدی مسلمان ہوں،  تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں۔  جب تک تمہیں خود پتہ نہ لگے کہ احمدیت کیاچیز ہے؟ حضرت مسیح موعود ؑ کا  کیا دعویٰ ہے؟ آنحضرت محمد ﷺ کیا شریعت لے کر آئے تھے؟قرآنِ کریم کے کیا حکم ہیں؟ اللہ تعالیٰ کیاچاہتا ہے اپنے بارے میں؟ یہ ساری چیزیں جب تک تمہیں پتہ نہ لگیں تم پکی احمدی مسلمان بن ہی نہیں سکتی۔یہ سوال پڑھے لکھے کے ذہن میں اٹھتے ہیں ۔   ضروراٹھنے چاہئیں۔  لیکن اس پہ ضدی ہو کے اس کو چھوڑنا نہیں  چاہئے ۔  بلکہ اس کا حل تلاش کرنا چاہئےاور اس وقت تک نہ چھوڑو جب تک اس کا حل نہ مل جائے۔‘‘

 سوال ۔ ایک اور لجنہ کی ممبر نے سوال کیا کہ حضور!  میرا سوال ہے کہ ہم کیا ایسا  عمل کریں کہ ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا ہو؟

جواب ۔ حضور نے جواب  میں فرمایا کہ ’’اپنے آپ کو عاجز سمجھو۔ ایک تو اللہ تعالیٰ سے پانچ وقت کی نمازوں میں دعا کیا کروکہ اللہ تعالیٰ میرے اندر تکبر نہ پیدا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تکبر کو نہیں پسند کرتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچا کر رکھے ۔ اور پھر جب لوگوں سے ملو اچھے اخلاق دکھا کر ملو۔ سلام کرو ہر ایک کو اور ہر ایک سے ہنس کے، مسکرا کے بات کرو  اَور بحر حال  یہ دیکھو کہ میں احمدی ہوں،  احمدی مسلمان ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہےاور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے۔‘‘

سوال ۔ پھر ایک لجنہ کی ممبر نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا پھر بھی احمدیوں پر کیوں ظلم ہوتا ہے؟

جواب ۔ پیارے حضور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے۔ اللہ کا سب سے پیارا نبی کون تھا؟‘‘ لجنہ ممبر نے جواب میں کہا کہ حضرت محمد ﷺ۔ پھر حضور نے اپنا جواب جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’ تو کیا مکہ میں آپ  پہ تیرہ سال ظلم نہیں ہوتے رہے؟‘‘ لجنہ ممبر نے کہا کہ جی ہوتے رہے ہیں۔  تو حضورِ انور نے پھر فرمایا کہ’’اسکے بعد جب مدینہ آئے تو وہاں بھی بہت ساری مشکلات کا ہی سامنا کرنا پڑا ؟   پھر جب فتح مکہ ہوئی تو اسکے بعد بھی ظالموں نے حملہ کیا۔ اسکے بعد بھی جنگ ہوتی رہی۔  پھر منافقین بھی سر اٹھاتے رہے۔ پھر خلفائے راشدین آئے۔  انکے زمانے میں بھی ظلم ہوتے رہے۔ جہاں جہاں تھوڑے سے مسلمان ہوتے  تھے ان پر بھی ظلم ہوتے رہے۔ تو اللہ تعالٰی قرآن شریف میں کہتا ہے کہ میں لوگوں کو آزماتا ہوں۔  دیکھتاہوں کہ تمہارا اِیمان کتنا مضبوط ہے۔ تمہارے پر جو ظلم ہوتا ہے، زیادتی ہوتی ہے اور تم پھر بھی اللہ تعالٰی کو نہیں بھولتے اور لوگوں سے نہیں ڈرتے اور صرف اللہ کا خوف رکھتے ہو دل میں،  تو پھر اللہ تعالٰی تمہیں ریوارڈ دیتا ہے۔ یہ دنیا جو ہے،  یہاں بھی دے دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی ریوارڈ دیتا ہے۔ اب دیکھو تم لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہو۔  تمہارے  والدین پہ، ماں باپ پہ اگر ظلم ہوئے پاکستان میں تو وہاں سے آ گئے۔ وہاں اگر ظلم برداشت کر کے آئے اور اپنی دولت یا روپیہ لٹا کے آئے اور تم لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا، کاروبار جلائے گئے، تو یہاں آ کے اللہ تعالٰی نے اور بے شمار دے دیا،  اس سےبڑھ کے دے دیا۔ ظلم کرنے والے ایک وزیر اعظم نے کہا کہ میں احمدیوں کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا دوں گا۔ بھیک مانگیں گے۔  پیالہ لے کے لوگوں سے پیسے مانگا کریں گے احمدی، آجکل بڑے اکڑتے  ہیں ،  ایسا ان کا حال کروں گا۔  وہ حال کیا ہوا؟   اس کو تو اللہ تعالٰی نے مار دیااور اسکے اپنے جرنیل نے ہی اس کو پھانسی پر لٹکا دیا   اور احمدی جن کے ہاتھوں میں کشکول پکڑانا تھا،  آج دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ کے فضل سے جماعت ترقی بھی کر رہی ہے اور اللہ کے فضل سے ہم ہر جگہ مسجدیں بھی بنا رہے ہیں۔مشن بھی بنا رہے ہیں۔  تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔اور ذاتی طور پر بھی احمدی بہتر حالات میں ہو رہے ہیں۔ تواللہ تعالٰی آزماتا ہے دیکھنے کے لئے کہ تمہارے اندر کتنا ایمان ہے ۔ تو ظالموں کو تو وہ ظلم کی سزا دے دیتا ہے ساتھ تم لوگوں کو بھی آزماتا ہے پھر  دیکھتا ہے۔  پھر دنیا میں بھی جزا دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی جزاء  دیتا ہے۔ اور یہ ہمیشہ ہر نبی کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔  ہر نبی پہ ظلم ہوا، ہرنبی کی جماعت پہ ظلم ہوا،  لیکن اللہ تعالٰی آخر میں انکو بچا لیتا ہے اور انکو کامیاب کرتا ہے۔‘‘

 سوال ۔ ایک لجنہ کی ممبر نے سوال کیا کہ میرا سوال ہے کہ  حضرت محمد ﷺ کےخلاف جو سکول کی کتابوں میں خاکے چھپے ہیں انکے خلاف ہم کیا کر سکتے ہیں؟

 جواب ۔ حضور نے جواب دیاکہ۔’’ تم ان کو بتاؤ کہ اس طرح اگر ایک دوسرے کے  مذہب کے جو لیڈر ہیں یا جو مذہبی فائونڈر ہیں کسی مذہب کے،  یا نبی ہیں یا رسول ہے،  انکے خلاف اگر ہم بولیں گے تو اس طرح امن اور سلامتی قائم نہیں رہ سکتی، سکول میں یا معاشرے میں۔ بے شمار جگہ میں نے یہ لیکچر دئے ہوئے ہیں۔  اگر تم میری کتاب Pathway to Peace (امن کی راہ)  پڑھو تو اس میں تمہیں بہت ساری باتیں پتہ لگ جائیں گی۔اور تم میری کتاب پڑھ سکتی ہو ۔ جرمن  زبان میں بھی  چھپی ہوئی  ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ جو خاکے چھاپے ہیں اس پر بھی  میں نے خطبات دئے ہوئے تھے بہت سارے۔   اُن کو بھی پڑھو ۔ کہ اس طرح امن نہیں قائم رہ سکتادنیا میں۔  دنیا میں  امن قائم رکھنا ہے تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی کسی کے ماں باپ کو برا کہے تو لڑائی ہو جائے گی ناں؟ تو آنحضرت ﷺ تو ہمیں اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے ہونے چاہئیں  ۔اسی لئے ان سے کہو کہ دیکھو! میں اس طرح  تم لوگوں  کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ اس لئے  امن قائم رکھنا ہے، آپس میں محبت اور پیار سے رہنا ہے،  تو ہمیں  عزت و احترام سے رہنا پڑے گا۔ اُن سے کہناکہ ہم حضرت عیسیٰ کی عزت کرتے ہیں۔  حضرت موسٰی کی عزت کرتے ہیں۔  ہم سارے نبیوں کی عزت کرتے ہیں۔  ہم سارے نبیوں کو مانتے ہیں۔اور یہی ہمیں آنحضرتﷺ نے  سکھایا ہے تاکہ دنیا میں امن اور پیار قائم ہو۔  تم لوگ اگر ایسی باتیں کرو گے تو امن نہیں قائم رہ سکتا ۔ اور  ہمارےجذبات جو ہیں  وہ ان کو تم ہرٹ کر رہے ہو گے۔ ‘‘

-اختتام-

(ٹرانسکرائب و کمپوزنگ : عفت وہاب بٹ۔ ڈنمارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 18؍مارچ 2022ء