• 25 اپریل, 2024

برصغیر کے ممتاز شاعر، صاحبِ طرز ادیب و ناول نگار اور بلند پایہ صحافی

محترم جناب قمر اجنالوی ۔ شخصیت و خدماتِ علم وادب

برصغیر کے ممتاز شاعر، صاحب ِطرز ادیب و ناول نگار اور بلندپایہ صحافی محترم جناب قمر اجنالوی جولائی 1919ء میں ایک دیندار اور مخلص احمدی گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام عبدالستار تخلص قمر ؔلیکن قمر اجنالوی کے نام سے علمی ، ادبی اور صحافتی حلقوں میں شہرت پائی۔ آپ کے والد حضرت میاں دین محمد اور دادا حضرت میاں عمر دین دونوں صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ اسی طرح دادا کے تینوں بھائی بھی صحابہ میں شامل تھے۔ آپ کے چچا محترم میاں غلام محمد اختر سابق ناظر اعلیٰ ثانی و ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ رہے۔

خاندان میں احمدیت

آپ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے دادا کے بھائی حضرت میاں محمد دینؓ جو کہ مولوی محمد دین کے نام سے مشہور تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ کا تعلق بلڑوال نزد اجنالہ ضلع امرتسر سے تھا۔آپ احمدیت قبول کرنے کے بعد قادیان میں ہی ٹھہر گئے اور پھر وہیں کریانہ کی دکان بھی شروع کر لی۔ حضرت میاں محمد دین کے والد میاں جھنڈو کو جب علم ہوا کہ میرا بیٹا قادیان چلا گیا ہے اور نعوذبا للہ کافر ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے دو بیٹوں میاں عمر دین (قمر اجنالوی کے دادا)اور میاں نبی بخش (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) کو اپنے بیٹے میاں محمد دین کو لینے کے لئے قادیان بھیجا۔ دونوں بھائی دو تین دن قادیان میں بھائی کے پاس رہے اور ان کو واپس جانے کے لئے قائل کرتے رہے لیکن میاں محمد دین ثابت قدم رہے۔جب دونوں واپس اپنے گاؤں لوٹنے لگے تو یہ عصر کے قریب کا وقت تھا۔ حضرت میاں محمد دین نے اپنے بھائیوں کو کہا کہ تم جانے سے پہلے مسجد اقصیٰ میں نماز عصر ادا کرلو اور مدعی مسیحیت کو خود دیکھ لو ۔ شروع میں تو وہ نہ مانے لیکن پھر دونوں بھائیوں نے مسجد اقصیٰ قادیان میں نماز عصر ادا کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے بعد آپ کے دامن سے ہی وابستہ ہوگئے ۔یہ روایت مکرم ونگ کمانڈر محمد حنیف شاد حال مقیم کینیڈا برادر اصغر محمد شریف اشرف سابق ایڈیشنل وکیل المال لندن نے اپنے والد میاں فتح محمد ابن حضرت میاں عمر دین سے سن کر بیان کی ہے۔ یوں یہ دونوں بھائی بھی احمدیت قبول کر کے اپنے گاؤں کو لوٹے۔ ان کے چوتھے بھائی حضرت میاں احمد دین (مکرم ضیاء اللہ مبشر کے دادا)نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور صحابی کا درجہ پایا۔

حضرت میاں محمد دینؓ ابتدائی موصیان میں شامل تھے۔ آپ کا وصیت نمبر 312ہے ۔ آپ نے 1917ء میں 50سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔آپ کی کوئی اولاد نہ تھی آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت میاں عمر دینؓ (قمر اجنالوی کے دادا)کے بیٹے محترم میاں غلام محمد اختر کو اپنے پاس رکھ کر پالا۔یوں وہ قادیان کے بابرکت ماحول میں رہ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی دعاؤں سے پاکستان ریلوے میں بہت اعلیٰ افسر بنے اور جماعت کی بھی نمایاں خدمت کی توفیق پائی۔

آپ کے والد محترم جناب قمر اجنالوی کے والد اور میری والدہ کے نانا حضرت میاں دین محمد پیدائشی احمدی اور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ دفتری ریکارڈ کے مطابق آپ کی پیدائش 1893-94کی بنتی ہے یوں قادیان کے ماحول میں آنے جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوا کرتی تھی۔خاکسارراقم الحروف کو ان سے متعدد بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور وہ اپنے بچپن کے ایام میں دارالمسیح قادیان کی باتوں کو یاد کر کے سنایا کرتے تھے۔انہوں نے 1986ء میں وفات پائی ۔ لمبا عرصہ جماعت مغلپورہ کے ممبر رہے۔ تاریخ احمدیت لاہور مرتبہ شیخ عبدالقادر نے حضرت میاں دین محمد کا تذکرہ صحابہ لاہور میں کرتے ہوئے لکھا ہے۔

“محترم میاں دین محمد محترم جناب میاں غلام محمد اختر ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ کے برادر اکبر ہیں۔ آپ بچپن کے احمدی ہیں ۔ بہت نڈر، بے باک ، صاف گو اور مخلص ۔ عمر 75سال کے لگ بھگ ہوگی(بوقت تحریر ۔ ناقل)پہلے لوکو ورکشاپ میں ملازم تھے ۔وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد اب گنج مغلپورہ میں ہی کریانہ کی دکان کرتے ہیں۔ اولاد :ایمنہ، عبدالستار قمر، نذیراں ، بشیراں۔”

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ279,278)

قمر اجنالوی صاحب کے والد حضرت میاں دین محمد نے اپنے گاؤں کو چھوڑ کر قادیان میں رہائش رکھ لی اور آ پ نے کریانہ کی دوکان شروع کر لی۔ آپ کا کاروبار اچھا تھا۔خاکسار کی والدہ محترمہ صادقہ ثریا بیگم نے اپنا پچپن اپنے نانا حضرت میاں دین محمد کے پاس گزارا ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ آپ کی دکان پر تمباکو بھی فروخت ہوتا تھا لیکن جب حضرت مصلح موعود ؓ نے احمدی دکانداروں کو تمباکو فروخت کرنے سے منع فرمایا تو حضرت میاں دین محمد نے بھی اس کی فروخت بند کردی۔اگرچہ اس کی وجہ سے بظاہر کاروبار میں نقصان بھی ہوا۔ تب آپ کے بھائی محترم میاں غلام محمد اختر نے آپ کو ریلوے لوکو ورکشاپ مغلپورہ میں ملازم کروا دیا۔ یہ 1940ء کے قریب کا زمانہ ہے یوں آپ کی فیملی اور قمراجنالوی قادیان سے مغلپورہ لاہور منتقل ہو گئے۔

قادیان میں خدمات

جناب قمر اجنالوی کا بچپن اور ابتدائی جوانی قادیان کے پاکیزہ اور علمی ماحول میں گزری۔ آپ شروع سے ہی علمی اور ادبی مزاج کے حامل تھے ۔ تحریر و تقریر اور شعر و شاعری سے دلچسپی رہی۔ قادیان میں آپ کے دوستوں میں مولانا نسیم سیفی سابق ایڈیٹر الفضل ، شبلی بی کا م اور سلیمان عرفانی تھے۔ ان تینوں نے مل کر ایک ماہنامہ “المبشر” بھی جاری کر رکھا تھا آپ اس رسالہ کے لئے خدمات بجالاتے رہے۔

قادیان کے زمانہ میں ہی آپ کی شاعری دربار خلافت اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے ہاں شرف پذیرائی حاصل کر گئی تھی اور جلسوں میں آپ نظمیں پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ سیرۃ و سوانح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ناشر لجنہ اماء اللہ لاہور کے صفحہ370پر لکھا ہے۔
“1939ء کے اوائل میں محلہ دارالرحمت میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت اماں جان بھی تشریف فرما تھیں۔ اس میں میاں عبدالستار صاحب قمر اجنالوی نے اپنی نظم پڑھی جس کا مطلع یہ تھا۔؂

کس شان سے مسلم آئے تھے اے ہند! تیرے میدانوں میں
شمشیر بکف ، قرآن بلب ، جوش تھا عجب ، دیوانوں میں

حضرت اماں جان نے اس نظم کو بہت پسند فرمایا اور ملک عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل کے ذریعہ اس نظم کو لکھوا کر منگوایا۔ اس نظم کی وجہ سے پھر بھی کبھی کبھی قمر صاحب کو اپنی نظمیں سنانے کا اتفاق ہوا۔جنہیں سن کر حضرت علیا پسندیدگی کا اظہار فرمایا کرتیں۔”

حضرت اماں جانؓ کو نظمیں سنانے کی روایت خاکسار کی والدہ محترمہ نے بھی مجھ سے کئی باربیان کی ہے کہ میرے ماموں جناب قمر اجنالوی حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کو اپنی نظمیں سنایا کرتے تھے۔اسی طرح حضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت اقدس میں آپ کو کلام سنانے کا موقع ملا۔ میری والدہ صاحبہ نے اپنے بچپن سے ان اشعار کو یاد کر رکھا ہے جو قمر اجنالوی صاحب نے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ 1993ء کے اخبار احمدیہ جرمنی میں یہ طبع شدہ ہے کہ 1940ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے حضور جناب قمر اجنالوی نے یہ خوبصورت قصیدہ پیش کیا:

میرے محبوب! نذرِ نوجوانی لے کے آیا ہوں
جوانی چیز کیا ہے؟ زندگانی لے کے آیا ہوں
سنا تھا آگ اور پانی کبھی یکجا نہیں ہوتے
مگر میں دل میں آگ ، آنکھوں میں پانی لے کے آیا ہوں

(بحوالہ روزنامہ الفضل 25جولائی1993ء)

آپ کا یہ نذرانہ عقیدت بہت معروف ہوا ۔ اس قدر شہرت پائی کہ اگلی روایت ملاحظہ فرمائیں۔

جناب قمر اجنالوی 1990ء میں جرمنی منتقل ہوگئے ۔ وہاں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تشریف لائے تو آپ کو حضرت صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔اس ملاقات کا احوال محترم قمراجنالوی نے اپنے بھانجے مکرم شاہد لطیف انجم کو بھی سنایا۔مکرم شاہد لطیف جماعت جرمنی میں عرصہ سے نمایاں خدمات بجالا رہے ہیں اور آجکل بھی حضور انور ایدہ اللہ کی ضیافت ٹیم کے ممبر ہیں۔وہ مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ ماموں جان قمر اجنالوی جب جرمنی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ملاقات کے لئے گئے ۔ (یہ ملاقات ایک طویل عرصہ کے بعد ہو رہی تھی)تو آپ اپنی بعض کتب بھی حضرت صاحب کے لئے تحفہ کے طور پر ساتھ لے گئے۔ ملاقات کے آغاز میں قمر اجنالوی حضورؒ کو اپنا تعارف کروانے لگے تو حضرت صاحب نے فرمایا قمر صاحب !میں تو آپ کو اس وقت سے جانتا ہوں جب آپ نے جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعود ؓکے حضور یہ نظم پڑھی تھی۔حضورؒ نے اس نظم کے اشعار بھی سنا دیئے یعنی ؂

میرے محبوب! نذرِ نوجوانی لے کے آیا ہوں

محترم قمر اجنالوی کو محترم ملک خادم حسین کی پاکٹ بک کی تیاری میں خدمت کا موقع ملا۔ چنانچہ اس میں شامل شیعہ مذہب کے بارہ میں حصہ آپ کا لکھا ہوا تھا۔محترم ملک خادم حسین کے ساتھ آپ نے کئی مناظروں میں بھی حصہ لیا۔

(الفضل 10جون 1993ء)

جب آپ اپنے والد صاحب کے ہمراہ قادیان سے لاہور آگئے تومغلپورہ میں آپ کی رہائش تھی۔میری والدہ محترمہ بھی اپنے ننھیال نانا جان کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔آپ کا بچپن اپنے نانا اور ماموں جناب قمر اجنالوی کے ہمراہ گزرا۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ جب آپ مغلپورہ لاہور آگئے تویہاں آپ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ادیب فاضل کا امتحان پا س کیا۔آپ مغلپورہ لاہور کے فعال خادم اور رکن جماعت تھے۔آپ پگڑی اور اچکن زیب تن رکھا کرتے تھے اور غیر از جماعت مولویوں کے ساتھ آپ کے مناظرے اور علمی مباحثے ہوا کرتے تھے۔

والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ جب تقسیم پاک و ہند کا اعلان ہوا اور قادیان سے لاہور ہجرت شروع ہوئی تو ان ایام میں محترم قمر اجنالوی کو بھرپور ڈیوٹی کی توفیق ملی آپ لاہور قادیان اور قادیان لاہور جانے والے کانوائے کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ مغلپورہ مسجد میں ہونے والے جلسوں میں آپ تقاریر کیا کرتے تھے ۔ آپ اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے۔ مغلپورہ میں آپ نے چند سال ریلوے میں ملازمت کی۔ آپ کے والد صاحب اور چچا بھی ریلوے میں ملازم تھے بلکہ یوں کہئے کہ محترم غلام محمدا ختر کی بدولت سارا خاندان ہی ریلوے میں ملازم تھا۔آپ کو طبعاً ریلوے کی نوکری پسند نہ تھی اور کہتے کہ میں بندش کی نوکری نہیں کر سکتا۔ چنانچہ آپ ریلوے کی نوکری چھوڑ کر اپنی طبیعت کے موافق صحافت سے وابستہ ہوگئے اور مختلف اخبارات و رسائل کے لئے لکھناشروع کر دیا۔

مغلپورہ کے قیام کے زمانہ میںمحترم ملک منور احمد جاوید کے ماموں ملک عبدالقدیر ابن ملک عبدالکریم آپ کے قریبی دوست تھے۔ اسی طرح محترم مولانا محمد اسماعیل دیالگڑھی کے ساتھ آپ کا دوستانہ تعلق تھا۔ وہ مغلپورہ آپ کے گھر ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے۔مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری اور ان کے بہنوئی مکرم خواجہ خورشید احمد سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔

میری والدہ محترمہ مغلپورہ لاہور میں اپنے بچپن کی یادوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ماموں جان قمر اجنالوی نے بچپن میں مجھے درثمین کے اشعار یاد کروانے شروع کئے۔قمر اجنالوی صاحب روزانہ دو شعر چاک کے ساتھ دیوار پر لکھ جاتے کہ ان کو یاد کرو۔ اس طرح مجھے درثمین کی نظمیں یادہو گئیں جن کو میں جماعتی اجلاسات میں پڑھا کرتی تھی۔والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم

؂ اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے

یہ ساری نظم جناب قمر اجنالوی نے یاد کروائی۔اسی طرح بچپن کی ایک بات اپنے ماموں جان کی اب تک یاد ہے جو آپ نے تربیت کے رنگ میں مجھے سکھائی کہ جب باہر سے کوئی آواز دے یادستک دے تو سب سے پہلے سلام کہیں اور پھر ان کا نام پوچھیں۔والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ محترم قمر اجنالوی کوحضرت سیدہ امّ طاہر سے بھی عقیدت کا تعلق تھا اور جب حضرت سیدہ اّم طاہر اپنی آخری بیماری میں لاہور ہسپتال میں داخل تھیں تو قمر اجنالوی صاحب ان کی خبرگیری کے لئے ہسپتال جایا کرتے تھے ۔

شادی واولاد

1945ء کے زمانہ میں آپ کی شادی مکرمہ امۃ الحفیظ بنت حضرت قاضی حسن محمدؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساکن محلہ دارالفضل قادیان سے ہوئی ۔ حضرت قاضی حسن محمد ابن حضرت قاضی عبدالصمدؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈلّہ نزد قادیان کے رہنے والے تھے۔حضرت قاضی حسن محمد (پیدائش 18فروری1895ء اور وفات 1978ء بمقام ربوہ )کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا ہم مکتب ہونے اور ان کی علالت کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئی دفعہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت قاضی حسن محمد صاحب کی دوسری بیٹی مکرم صوفی کریم بخش زیروی (زیرہ ہاؤس ۔ گولبازار ربوہ )کے ساتھ بیاہی گئیں۔قمر اجنالوی کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی پروین قمر اور چار بیٹے :نعیم قمر مرحوم،معین قمر مرحوم،مامون قمر (جرمنی)اور ہارون قمر (جرمنی) عطا کئے۔

صحافتی خدمات

جناب قمر اجنالوی کی صحافتی و ادبی خدمات کا دائرہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک محیط ہے۔ آپ کا شمار برصغیر کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے جو ہمہ گیر استعدادوں کے مالک تھے اور محض صحافی نہ تھے بلکہ صحافی ، شاعر، ادیب اور دانشور تھے۔آپ نے اپنی صحافتی اور ادبی سرگرمیوں کا آغاز قادیان سے کیا تھا پھر لاہور آگئے اور یہاں کے علمی ادبی اور صحافتی حلقوں سے وابستہ ہو کر خوب شہرت پائی۔اپنی عمر کے آخری تین سال آپ نے جرمنی میں اپنے بچوں کے پاس گزارے اور وہاں بھی علمی و ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور وہاں حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی۔آپ مؤقر روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ لمبا عرصہ منسلک رہے۔روزنامہ مسلم،روزنامہ ملت اور روزنامہ مغربی پاکستان کے ایڈیٹر رہے ۔ اسی طرح ہفت روزہ صدائے وطن کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ آپ معروف ڈائجسٹ مثلاً دوشیزہ کے لئے بھی لکھا کرتے تھے۔ بعض ادبی ایوارڈ بھی آپ کے حصہ میں آئے۔

ڈاکٹر ناصر احمد پرویز پروازی آپ کی صحافتی وادبی خدمات کے بارہ میں لکھتے ہیں۔

“قمر اجنالوی سے میرا پہلا تعارف لاہور کے روزنامہ ملت کے حوالہ سے ہوا۔یہ پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے ۔ قمر صاحب اس اخبار میں “ذکر و فکر”کے عنوان سے مطائبات لکھا کرتے تھے، نہایت شستہ اور برجستہ چونکہ عبدالمجید سالک مرحوم کے متبعین میں سے تھے اس لئے صرف لفظوں کے طوطا مینا نہیں بناتے تھے۔نپی تلی اور دو ٹوک بات کہتے تھے۔ایک فکاہیہ یاد آرہا ہے ۔ پنجاب کے ان پڑھ ملّاپڑھے لکھوں پر کیچڑ اچھالنے میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ منبر رسولؐ پر کھڑے ہو کر وہ ایسی زبان میں گفتگو کرتے تھے جو کسی دینی عالم کو کیا کسی جاہل کو بھی زیب نہیں دیتی تھی۔ قمر اجنالوی نے ایک کالم میںنہایت خوبصورتی اور چابک دستی سے انہیں موضوع سخن بنایا اور وہ موشگافیاں کیں کہ سالک ؔصاحب بھی عش عش کر اٹھے اور اپنا کالم “افکار و حوادث”انہیں عطا کر دیا۔”

تاریخی ناول نگاری

صحافت اور شاعری کے ساتھ ساتھ جناب قمر اجنالوی نے افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں خوب شہرت کمائی۔سب سے بڑھ کر مقام آپ نے تاریخی ناول نگاری میں حاصل کیا۔آپ کی وسعت ِ مطالعہ اور تاریخی واقعات پر دسترس منفرد تھی۔آپ نے اپنے تاریخی ناولوںکے ذریعہ اردو ادب میں بلند مقام حاصل کیا۔آپ کی کتب اور ناول کی اشاعت مکتبہ القریش اردو بازار لاہور کی طرف سے ہورہی ہے۔ آپ کے ناولوں میں: چاہ بابل ، ولی عہد،سلطان، پرتھال، شمشیر، بغداد کی رات(جلد اوّل و دوم)، مقدس مورتی(جلد اوّل ،دوم)،جنگ مقدس، لالہ رخ،اور خان الغازی، دھرتی کا سفر بہت معروف ہیں۔دیگر تصنیفات میں :پنڈارے،نئی دنیا، جہان لوح وقلم،کرامات اولیاء، غزالہ، لاڈو اور سب سے بڑھ کر قصیدہ بنام خیر الانامؐ شامل ہے۔آپ کی تصنیفات کی تعداد بیس سے زائد ہے۔

قصیدہ بنام خیر الانامؐ

جناب قمر اجنالوی نے آغاز جوانی میں ہی شاعری میں ایک مقام پیدا کر لیاتھا اور ابتدائی جوانی میں قادیان میں جلسوں کے موقع پر آپ نظمیں پڑھا کرتے اور معتبر شخصیات سے داد سخن پائی۔آپ کی شاعری کا معراج آپ کا قصیدہ بنام خیر الانام ؐ ہے جس کو علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے مسدس حالیؔ اور اقبالؔ کے شکوہ جواب شکوہ کے ہم پلہ قرار دیا گیا۔جناب احمد ندیم قاسمی نے اسے اسلامی دنیا کا پینو راما قرار دیا۔ اس قصیدہ کی رونمائی 1980ء میں ہوئی۔جب اکتوبر 1980ء میں پنجاب اکادمی ادبیات لاہور کے زیر اہتمام لاہور میں جناب احمد ندیم قاسمی نے صدارتی خطبہ پڑھتے ہوئے قصیدہ بنام خیر الانام ؐ کے موضوع کو علامہ اقبال کے “شکوہ” سے مماثل قرار دیا اور کہاکہ یہ قصیدہ پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں ایک غیر فانی گونج چھوڑ جاتا ہے جو شاعر کی درد مندی اور قادر الکلامی دونوں کا ایک زندہ ثبوت ہے۔

(قصیدہ بنام خیر الانام صفحہ 31تا 33، ناشر مکتبہ القریش اردو بازار لاہور)

٭ نیشنل سنٹرسرگودہا میں انجمن ترقی اردو کے تحت قصیدہ بنام خیر الانامؐ کے لئے قتیل شفائی کی صدارت میں تقریب ہوئی انہوں نے قصیدہ کے بارہ میں کہا۔

“ترقی پسندوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مذہب سے بے گانہ ہیں۔یہ بات سراسر غلط اور مفروضہ ہے۔ قمر اجنالوی کایہ نعتیہ قصیدہ مذہب سے وابستگی اور عقیدت کا مظہر ہے۔ میں اس قصیدہ سے بہت متاثر ہوں۔ جناب قمر اجنالوی کی کاوش قابل ستائش ہے کہ جو کام ہم نہ کر سکے وہ قمر صاحب نے کیا۔‘‘

(قصیدہ بنام خیر الانامؐ صفحہ40)

٭ معروف دانشور اے۔ حمیدؔ نے لکھا۔“میں اہل ادب اور تبصرہ نگاروں کی اس رائے سے مکمل اتفاق کرتاہوں کہ مولانا حالیؔ کی مسدس اور علامہ اقبال ؔکے شکوہ اور جواب شکوہ کے بعد قمر اجنالوی کا قصیدہ ’’بنام خیر الانام ؐ ‘‘ اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔”

(قصیدہ بنام خیر الانامؐ)

٭ جناب قتیل شفائی نے اس قصیدہ کی تعریف میں ایک نظم بعنوان “قصیدہ رسولؐ” لکھی ۔ جس کے دو اشعار ہدیۂ قارئین ہیں۔

اس پر کھلا درِ دل و دیدہ رسولؐ کا
لکھا ہے جس قلم نے قصیدہ رسولؐ کا
ہے لائق جزا قمرؔ اجنالوی، قتیلؔ
اس شخص نے کہا ہے قصیدہ رسولؐ کا

(قصیدہ بنام خیر الانامؐ صفحہ39)

جناب قمر اجنالوی اپنے قصیدہ بنام خیر الانام صلی اللہ علیہ سلم کو اس بند سے شروع کرتے ہیں۔

قمرؔ نبیؐ کو پیام لکھو
جو دل پہ گزری تمام لکھو
برنگِ اہل کلام لکھو
بنام خیر الانامؐ لکھو
قمر نبیؐ کو پیام لکھو
مدارج ان کے بلند سب سے
بیانِ لطف و کرم سے پہلے
قلم کو زمزم سے صاف کر کے
ذرا محمدؐ کا نام لکھو
قمر نبیؐ کو پیام لکھو

قصیدہ بنام خیر الانام ؐ نے بہت شہرت حاصل کی اور اکثر مشاعروں میں جناب قمر اجنالوی سے اس قصیدہ کے سننے کی فرمائش ہوتی رہی اور قمر اجنالوی قصیدہ سناتے تو محفل پر وجد طاری ہو جاتا۔

شخصیت

محترم پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد پرویز پروازی جناب قمر اجنالوی کی شخصیت کا نقشہ ان الفاظ میںکھینچتے ہیں۔

“قمراجنالوی سے بڑے طویل عرصہ تک شناسائی تو رہی مگر تفصیلی ملاقات نہ ہو سکی۔ پانچ چھ برس قبل اچانک ربوہ میں میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تو میں ان سے مل کر حیران رہ گیا۔ ان کا جو تصور میں نے اپنے ذہن میں قائم کر رکھا تھا اور اکاون باون کے زمانہ کی ملاقات کی جو یادداشت ذہن میں محفوظ تھی وہ اس سے قطعی مختلف نکلے۔ لمباقد جس میںقدِّخم کی خصوصیت جھلکنے لگی تھی۔گندمی رنگ ، چمکیلی آنکھیں، مصافحہ میں پنجابیوں والی گرفت ، باتوں میں موہنی ۔ قادیان کی باتیں اور کچھ مشترکہ دوستوں ، عزیزوں ، بزرگوں کے تذکرے ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم گھل مل گئے اور یوں محسوس ہو اجیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔اس کے بعد قمر صاحب ہمارے ربوہ کے مشاعروں میں بھی آنے لگے ۔ چنانچہ ایوانِ محمود کے جو مشاعرے میری میزبانی میں ہوئے اس میں قمر صاحب شریک ہوتے اور اپنا کلام سناتے رہے ۔ ان کی طویل نعت “بنام خیر الانامؐ” نعتیہ ادب میں بہت ممتاز سمجھی جاتی ہے۔”

(روزنامہ الفضل 25؍جولائی 1993ء)

قمر اجنالوی صاحب سے میری واحد ملاقات بھی ایوانِ محمود میں ایک کُل پاکستان مشاعرہ کے موقع پر ہی ہوئی تھی جس میں ملک کے ممتاز شعراء شامل ہوئے تھے۔یہ میری طالب علمی کا دور تھا جس سال میں فارغ التحصیل ہوا وہ جرمنی چلے گئے اور پھر آپ کا آخری دیدار کیا اور تدفین میں شامل ہوا۔

محترم قمر اجنالوی کی محترم مولانا نسیم سیفی سے قادیان کے زمانہ سے آغاز جوانی سے دوستی تھی اور یہ دوستی دونوں نے تادم آخر نبھائی۔قمر اجنالوی لاہور سے مولانا نسیم سیفی کو ملنے ربوہ آیا کرتے تھے۔ دونوں میں کچھ عزیز داری بھی تھی لیکن اصل میں قادیان کی یادیں ،شاعری اور صحافت قدر مشترک تھی۔مولانا نسیم سیفی سے میری ملاقاتوں میں قمر اجنالوی کا تذکرہ ہوتا تھا اور نسیم سیفی اپنے دوست کے ایک احسان کا اکثر ذکر کیا کرتے ہیں کہ جب میرے رشتہ کی بات ہوئی تو قمر اجنالوی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو تجویز کرتا ہوں اور آپ اس تجویز پر ان شاء اللہ ساری عمر ناز کریں گے۔قمر اجنالوی نے رشتہ میں اپنی کزن محترمہ سکینہ سیفی کا رشتہ اپنے دوست نسیم سیفی کے لئے تجویز کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بہت مبارک اور کامیاب ثابت ہوا اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک یہ مثالی جوڑا اور اس سے لائق فائق اولاد لوگوں نے مشاہدہ کی۔ سیفی صاحب نے کئی بار جذبات شکر کا اظہار کرتے ہوئے قمر اجنالوی صاحب کی اس تجویز کا ذکر میرے ساتھ کیا اور پھر یہ بھی بتاتے تھے کہ قمراجنالوی صاحب کے لئے میرے گھر آتے تو کہا کرتے تھے کہ کیوں بھئی میرا تجویز کردہ رشتہ کتنا کامیاب رہا ہے۔

قیام جرمنی اور وفات

جولائی 1990ء میں قمر اجنالوی صاحب جرمنی چلے گئے ۔ وہاں قیام کے دوران آپ ایک کتاب تصنیف کرتے رہے جس کا عنوان تھا روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد یورپ کی سیاسی صورتحال ۔ جرمنی میں ادبی محفلوں میں شامل ہوتے رہے۔ جرمنی میں آپ نے ’’خدام احمدیت‘‘ کے نام سے ایک نظم بھی لکھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی موجودگی میں اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی میں پڑھی گئی ۔ 1993ء میںآپ بیمار پڑ گئے اور 30؍جولائی 1993ء کو راہی ملک عدم ہوگئے۔

قمر اجنالوی صاحب کی خوش قسمتی کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اجتماع خدام الاحمدیہ میں شرکت کے لئے جرمنی دورہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔حضور رحمہ اللہ نے ازراہ ِ شفقت مسجد نور فرینکفورٹ میں آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ کے بیٹے ہارون قمر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جنازہ پڑھانے کے بعد حضور رحمہ اللہ نے قمر اجنالوی صاحب کا چہرہ دیکھا اور یہ الفاظ بیان فرمائے۔ “ آج علم کا خزانہ سمندر میں بہہ گیا”قمر اجنالوی صاحب کو یہ بہت بڑا خراج ِ تحسین حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی جانب سے پیش کیا گیا ۔ اس سے آپ کی تبحر علمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جناب قمر اجنالوی کی میت ربوہ لائی گئی جہاں 5؍جون 1993ء کو احاطہ صدر انجمن احمدیہ میں محترم مولانا سلطان محمود انور نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان عام نمبر1میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔روزنامہ الفضل نے 10؍جون 1993ء کے شمارہ میں آپ کی وفات کی تفصیلی خبر شائع کی۔مضمون کے آخر میں قمر اجنالوی صاحب کے چند منتخب اشعار ہدیہ قارئین کررہا ہوں۔نوٹ:اس مضمون کی تیاری کے دوران بہت سے لوگوں نے میرے ساتھ تعاون کیا ہے میں ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔فَجَزَاَھُم اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ

منتخب اشعار
ہر حکم ترا صورت خورشید عَلَم ہے
ہر بات تری لوح زمانہ پہ رقم ہے
کوثر سے لب خامہ کو دھو لوں تو کروں ذکر
حقّا کہ ترا ذکر ہی معراج قلم ہے
ہستی کا اعتبار مجھے ڈھونڈتا رہا
میں اڑ گیا ، غبار مجھے ڈھونڈتا رہا
میں ذات سے نکل کے ملا کائنات میں
لیکن کسی کا پیار مجھے ڈھونڈتا رہا
ہر منزل حیات سے گزرا ہوں یوں قمرؔ
اڑتا ہوا غبار مجھے ڈھونڈتا رہا
قمرؔ کون جانے ، کٹے کس طرح دن
فرشتے بتاتے رہے جرم گِن گِن
خطاؤں کا پُتلا ہوں مشہور لیکن
شفاعت کے چھینٹوں سے دھویا ہوا ہوں
قصہ نہیں ہے ذات کا ، ہے یہ سفر حیات کا
بخشا گیا تمہیں قمرؔ غم ساری کائنات کا
سارے جہاں کو ساتھ لو ، لے کر غمِ جہاں چلو
دنیا نئی بسائیں ہم ، ڈھونڈیں نیا جہاں چلو

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

روزہ کی فرضیت

اگلا پڑھیں

حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کاملہ کیلئے شعراء کے جذبات