• 16 اپریل, 2024

لباسِ تقویٰ

جہاں تک لِبَاسُ التَّقۡوٰی کا تعلق ہے یہ لفظ قرآن کریم میں آیا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہےوَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ (الاعراف:27)اور رہا تقویٰ کا لباس،تو وہ سب سے بہتر ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس لباس کا ذکر فرمایا ہے جوبظاہرپتوں کی صورت حضرت آدم علیہ الصلوۃالسلام نے اوڑھا تھا مگر درحقیقت اس سے مُراد لِبَاسُ التَّقۡوٰی کے سوا اور کوئی لباس نہیں ہے۔

پس تقویٰ اختیار کرنے کی طرف قرآن کریم میں باربار توجہ دلائی گئی ہے۔ہمارے پیارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اس دُنیا میں تشریف لائے تو آپؐ نے عرب کے جہالت نما اندھیروں میں تقویٰ کے نور سے روشنی پھیلائی۔آپؐ نے اُن بادیہ نشینوں کو جہاں زندگی کا ڈھنگ سکھایا وہاں تقویٰ کی باریک راہیں بھی اُن کو سکھائیں۔آپؐ کی تمام زندگی اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ سے مزیّن ہے اور لِبَاسُ التَّقۡوٰی کی بہترین تفسیر آپؐ کی زندگی ہے۔جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار اُن کو مخاطب کر کے فرمایا کہ“اے ابوہریرہ ! تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کر،تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا”

(ابن ماجہ کتاب الزھد باب الوری التقوی)

آیئے ہم دیکھتے ہیں مامور زمانہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں۔
فرمایا: “لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کی انسان خدا کی تمام امانتوںاورایمانی عہداورایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتیٰ الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پرتابمقدور کاربندہو جائے”

(ضمیمہ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 21 ص 210)

تقویٰ کی طرف یہاں بار بار اس لئے توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمام نیکیوں کی بنیاد تقویٰ ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعودؑنے جب الہٰی منشاء کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی تو اس کی بنیادی غرض بھی تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا تھا۔جس کے لئے آپؑ نے بارہا جماعت کو مختلف پیرایوں میں حصولِ تقویٰ کی طرف توجہ دلائی ہے۔آپؑ فرماتے ہیں۔ “سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تیئں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کوخدا کےلئے صدق کے ساتھ پوراکرو۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے ۔نیکی سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔یقیناً یاد رکھو کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچا سکتا جو تقویٰ سے خالی ہو۔ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میںیہ جڑ ہو گی وہ عمل ضائع نہیں ہو گا”

(روحانی خزائن جلد 19کشتی نوح ص 15)

لباس التقویٰ کے معانی کیا ہیں؟ اس سلسلے میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں۔“انسان روزمرّہ کے عام لباس میں بھی تقویٰ کے بارے میں آزمایا جاتا ہے اور مختلف حالتوں میں تقویٰ کا مضمون بھی بدلتا رہتا ہے۔کبھی یہ دین کی طرف لے جاتا ہے،کبھی اہم کاموں کی طرف لے جاتا ہے،کبھی اعلیٰ مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور بعض دفعہ یہ سب قوموں میں مشترک ہو جاتا ہےاور جب بحیثیت انسان تقویٰ کی بات کرتے ہیں تو اور معنی بن جاتے ہیں۔کبھی یہ الٰہی رنگ پکڑتا ہے تو تقویٰ کا مضمون اور ہی شان میں داخل ہو جاتا ہے،لیکن صرف ظاہری لباس کے حوالے سے بات کی جائے تو بڑا پیارا مضمون بنتا ہےاور بڑا گہرا اور تفصیلی ہے۔اس کا دائرہ ساری زندگی پر محیط ہے……….اگر تقویٰ کا لباس دُنیاوی لباس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو پھر وہ الٰہی رنگ پکڑتا ہے ورنہ نہیں پکڑتا۔ادنیٰ لباس بھی تکبّر کا موجب بن جاتا ہےاگر اس خوف سے پہنےکہ اگر میں نے اعلیٰ پہنا تو لوگ کیا کہیں گے کہ اچھا یہ دُنیادار ہے۔چیتھڑے پہنے ہوئے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت میں انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ میں چیتھڑوںمیں بڑا بزرگ لگوں گا،میں کم کھاؤں گا تو بڑا اچھا لگوں گا،لوگ کہیں گے یہ بڑا صوفی ہے،یہ بڑا نیک ہے،تو اس کو چیتھڑوں نے ہلاک کر دیا اور اگر کوئی اچھا لباس پہن کر فخر سے دُنیا میں پھر رہا ہے فقر کے مقابلے پرتو وہ اس آزمائش میں مبتلا ہو گیا اور غریب بھائیوں پر صرف اس لئے تکبّر کی نگاہ ڈال رہا ہےکہ اُن کے پاس تھوڑا لباس ہےیعنی چھوٹے درجے کا لباس ہے،میرے پاس اچھے درجے کا لباس ہےوہ بھی مارا گیا۔تو لباسِ تقویٰ رنگ بدلتا رہتا ہے۔کہیں یہ آپ کے پاس غربت میں آزمائش کے لئے آجاتا ہے،کہیں امارت میں آزمائش کے لئے آ جاتا ہےاور ہر رنگ میں مومن کے لئے امتحان ہی امتحان ہے”

(خطبات طاہر، جلد اول ص75تا79)

حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی جو بہتر بڑے ولی اللہ تھے۔ان کے متعلق آتا ہے کہ آپ بڑے قیمتی لباس پہنا کرتے تھے۔ ایک دن کسی مرید نے لاعلمی میں آپ سے سوال کر دیا کہ حضرت آپ اتنے بڑے بزرگ ہو کر اتنے اچھے لباس کیوں پہنتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب میں کہا اچھا کیا تم نے پوچھ لیا۔خدا کی قسم میں کوئی جوڑا نہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ عبدالقادر اُٹھ اور یہ کپڑے پہن۔میں ان کپڑوں سے بےنیاز ہوں۔

تقویٰ کے لباس کی اصل حقیقت کیا ہے؟اس سلسلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ فرماتے ہیں۔“۔۔۔۔۔تقویٰ کا لباس انسان کی ہر خامی کو ڈھانپ لیتا ہے اور تقویٰ کے مطابق ہی انسان کو زینت ملتی ہے۔تقویٰ کا لباس نہ ہو تو جہاں جہاں سے یہ لباس نہیں ہو گا وہاں وہاں سے بدن ننگا ہو جائے گا۔وہ روحانی لحاظ سے دھوپ کا بھی شکار ہو گا اور سردی کا بھی شکار ہو گااور خدا اورخدا والوں کی نظر میں وہ چیتھڑوں میں ملبوس شخص جیسا ہو گا۔جتنا یہ لباس کامل ہوتا چلا جائے،روحانی بدن ڈھکتا چلاجاتا ہےاورزینت عطا ہوتی چلی جاتی ہے۔

چنانچہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یٰبَنِی اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف:32)دیکھوجب مسجدوں میں جاؤ تو اپنی زینت ساتھ لے جایا کرو۔

زینت سے کیا مراد ہے؟ کیا دُنیا کی زینت مُراد نہیں ؟وہ ثانوی معنی ہیں۔مُرادیہ ہے کہ تقویٰ کا لباس پہن کر جایا کرو محض للہ مسجد کی طرف سفر کیا کرو۔ہر قدم پر دُعائیں کرتے ہوئے توفیق مانگتے ہوئے جاؤ کہ خدا تعالیٰ مسجد سے تمہیں نیکی عطا کرے،ریاکاری سے بچائے، عبادت کے حق ادا کرنےکی توفیق بخشے……….

یونیفارم کے بغیر قومیں حسین منظر پیش نہیں کرتیں۔یونیفارم اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہےاور خداتعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی یونیفارم عطا فرمادی جو ہر ظاہری یونیفارم سے آزاد ہو چکی ہے اور وہ تقویٰ کا لباس ہے۔احمدی اپنےتقویٰ سے پہچانا جائے۔کسی رنگ میں ملبوس ہو،کوئی زبان بول رہا ہو، دیکھنے والی نگاہیں جان جائیں، معلوم کر لیں کہ یہ متقی لوگ پھر رہے ہیں۔یہ ہم سے مختلف قوم ہیں ، یہ خدا کے بندےہیں ، خدا کی طرف سے آئے ہیں اور خدا کی طرف بلانے آئے ہیں ۔

(خطبات طاہر جلد اول ص84,83)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی ارشاد لِبَاسُ التَّقْوٰی کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے اپنےایک خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃالاعراف کی آیت 27 کی تلاوت فرمائی اور اس کے حوالہ سے لباس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

اس(آیت الاعراف:27) میں خداتعالیٰ نے اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ خداتعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زینت کے طورپر ہے۔ کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں، بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے اُن کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں۔ موسموں کی شدّت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اُجاگر کرتا ہے۔ لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی ہے لباس کے فیشن کو اُن لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا ننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں اُن کو پورا کرو اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں۔ لیکن تقویٰ سے دُور چلے جانے کی وجہ سے یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دُنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خداتعالیٰ کو پسند ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10۔اکتوبر 2008بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس۔
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31۔اکتوبر2008ء)

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں احسن رنگ میں تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(امان اللہ امجد)

پچھلا پڑھیں

لاک ڈاؤن سے اپنائی گئی خوبیاں و اچھائیاں

اگلا پڑھیں

مطالعہ کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت وبرکات