• 19 اپریل, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

نایاب ہوتے ہوئے پانی کی قدر کریں

مکرمہ صفیہ بشیر سامی ۔ لندن سے لکھتی ہیں۔
الفضل آن لائن 7 مئی 2022ء کے شمارہ میں امة الباری ناصر صاحبہ کا مضمون ’’نایاب ہوتے ہوئے پانی کی قدر کریں‘‘ پڑھا۔ بہت اچھا اور بہت سی اچھی معلومات پر مبنی مضمون تھا۔ بہت سے واقعات میں ایک ربوہ کے آغاز میں بننے والے دارالخواتین کا ذکر بھی ہے جسے عام طور پر احاطہ کہتے تھے۔ اس احاطے کے اکلوتے نلکے سے پانی لینے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں بھی حضرت مصلح موعود ؓ کے بسائے ہوئے اُس مسکن سے پانی بھرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جہاں درویشوں اور شہیدوں کے خاندان مل جل کر رہتے تھے۔

سچ ہےپانی کی قدرو قیمت اُن علاقوں میں جہاں میلوں مسافت طے کر کے عورتیں اور بچے سروں پر مٹکے اُٹھائے ہوئے لے کر آتے ہیں ۔یا جہاں جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا احسان مان کر شکر گزار ہونا چاہئے اور شکر کے اظہار کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہمیں پانی کی قدر کرنی چاہئے اور اسے ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے پانی کی بچت کا بھی ذکر ہے۔ آپؒ کے یکم جنوری 1999ء کے خطبہ جمعہ سے مکمل اقتباس پیش کرتی ہوں۔ آپ فرماتے ہیں۔

یہ جو فضول خرچی ہے اس کے متعلق میں ضمناً یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ رمضان کا مہینہ، غریبوں کو کھانا کھلانے کے دن ہیں ، کھانے میں بھی انسان بہت فضول خرچیاں کرتا ہے اور سب سے زیادہ فضول خرچی وہ نہیں کہ اچھا کھانا کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھے کھانے اپنے بندوں ہی کی خاطر پیدا کئے ہیں۔ فضول خرچی مَیں سمجھتا ہوں کہ اچھا کھانا ہو یا برا کھانا ہو، بچا ہوا چھوڑدے اور ڈسٹ بِن (Dust bin) میں چلا جائے، خصوصاً امریکہ اور انگلستان اور مغربی ممالک میں جتنے بھی امیر ممالک ہیں ان میں یہ عادت ہے۔ اور ان کے بچوں میں بھی یہ عادت ہے۔ میرا تو گھر میں ہر وقت یہ کام رہتا ہے کہ سمیٹتا رہتا ہوں ان کی پلیٹیں اور بچا ہوا خود کھا جاؤں تا کہ ڈسٹ بِن میں نہ پھینکنا پڑے۔ لیکن آج کل ڈائٹنگ پر بھی ہوں آ خر کہاں تک کھا سکتا ہوں۔ پھر میں کچھ فریزر میں بچا تا رہتا ہوں تا کہ یہ کھا لوں اور اس طرح فضول خرچی نہ ہو۔

پھر آپؒ فر ماتے ہیں۔
ضیاع کو اگر آپ ختم کر دیں اور یہ نظام انگلستان میں لوگوں کو سکھا دیں تو انگلستان میں جو فضول خرچی ہوتی ہے، وہ بچت ہوگی اس سے بہت سے غریب ممالک کے پیٹ بھر سکتے ہیں۔ یہ نہیں لوگ سوچتے اور انگلستان میں جو گندے پانی کی مصیبت ہے یہ بھی اس فضول خرچی کی عادت کی وجہ سے ہے۔ اب میں اپنے گھر کی بات بتا رہا ہوں، غسل خانے کی بات مگر اتنی بتاؤں گا جو آپ کی بھلائی کے لئے بتانی ضروری ہے۔ مَیں کبھی بھی شاور (Shower) کھول کر غافل نہیں ہوتا، تاکہ چلتی رہے اب بے شک اور نہاؤں اور جب تک فارغ نہ ہو جاؤں شاور کھلی رہے ۔ ہر دفعہ جب شاور کو بدن پر استعمال کرتا ہوں ضرور بند کرتا ہوں پھر، اور بند کرنے کے بعد بدن کو تیار کیا نہانے کے لئے جو بھی ضرورتیں ہیں وہ پوری کیں پھر شاور کے سامنے آ گئے اور اگر گرم پانی میں خرابی کے خطرے کے پیش نظر شاور کھلی رکھی جائے تو شاورسے پہلے پہلے میں ساری تیاری کر لیتا ہوں تا کہ جب شاور شروع ہو جائے تو پھر مسلسل اس کا جائز اور صحیح استعمال ہو۔ جتنا پانی میں بچا تا ہوں انگلستان کا۔ اگر سارے انگلستان والے بچانا شروع کر دیں تو پانی کی مصیبت ہی حل ہو جائے۔

(الفضل انٹر نیشنل 19فروری 1999ء)

امتہ الباری ناصر صاحبہ کے ہر لفظ سے میں اتفاق کرتی ہوں ہمیں نہ صرف پانی بلکہ ہر چیز میں اعتدال سے کام لینا چاہئے۔ اور یہ بھی کہ اگر یہ نایاب پانی بہانا ہی ہے تو راتوں کو اپنی آنکھوں سے بہائیں اور وہ اتنا بہائیں کہ ہماری روحیں دُھل جائیں، ہمارے گناہ دُھل جائیں اور اللہ تعالیٰ ہماری بخشش فر مادے اور ہمیں اپنی رحمت اور بخشش کی چادر میں لپیٹ لے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ