• 24 اپریل, 2024

فقہی کارنر

عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
قرآن شریف میں …. یہ آیت ہے۔ نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ (البقرہ: 224) یعنی تمہاری عورتیں اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ۔ صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو۔ بعض آدمی اسلام کے أوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے۔ اس آیت میں خدا نے منع فرمایا اور عورتوں کا نام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُ گتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت در حقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طرح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔۔ ہاں اگر عورت بیمار ہو اور یقین ہو کہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنٰی ہیں ورنہ عند الشرع ہر گز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔

غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تا اس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں۔

دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بد نظری اور بد عملی سے محفوط رہیں۔ تیسری غرض یہ بھی قرارا دی ہے کہ تا باہم اُنس ہو کر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں۔ یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ292-293)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2022