• 24 اپریل, 2024

عوام الناس تو لا علم ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس عوام الناس تو لا علم ہے۔ ان کو جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ آگے اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔ آج بھی کئی احمدی اپنے واقعات بھیجتے ہیں کہ جب کسی طرح احمدیت کی حقیقت مخالفین کو بتائی گئی یا کسی شخص کو بتائی گئی جو مخالف تھا تو اس کی کایا پلٹ گئی۔ اسی طرح مجھے بھی بعض غیر از جماعت خط لکھتے ہیں کہ کس طرح ان کو احمدیت کی حقیقت معلوم ہوئی اور اب ہمیں پتا چلا ہے کہ مولوی ہمیں کس طرح گمراہ کر رہے تھے۔ افریقہ میں کئی ایسے واقعات ہیں جہاں بعد میں جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اظہار کیا کہ ہمیں مولویوں نے غلط رنگ میں احمدیت کے بارے میں بتایا تھا۔ پس ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امّت کو علماء سوء اور غلط لیڈروں سے بچائے اور عوام الناس کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ حقیقی مسلمان کے لئے یہ مقدر ہے کہ مصائب اور مشکلات اور خطرات پیدا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ حضرت مولانا روم کا شعر ہے کہ

ہَرْ بَلاکِیْں قوم رَا اُو دَادَہ است
زِیرِآں یَکْ گَنجْ ہَا بَنِہادَہ است

کہ اس خدا نے قوم پر جو بھی مشکل ڈالی اس کے نیچے اس نے ایک بہت بڑا خزانہ رکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی قوم یا جماعت واقع میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہو اس کے لئے موجب نجات و ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی جس کا نتیجہ اس کے لئے سُکھ نہیں ہوتا۔ یعنی ہر مصیبت جو آتی ہے ہرمشکل جو آتی ہے اس کے پیچھے سُکھ اور آسانیاں ہوتی ہیں۔

(مأخوذ از خطبات محمود جلد9 صفحہ167-166)

پس اس وقت تمام مسلم اُمّہ میں سے حقیقی مسلمان وہی ہے جو زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ ہمارے لئے اگر مشکلات کھڑی ہوتی ہیں تو مستقبل کی خوشخبریاں دینے کے لئے ہیں اور یہ سچائی کو ماپنے کا بہت بڑا معیار ہے کہ مشکلات کے بعد سُکھ آتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے سامان لے کر آتا ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ بد خیالات کا اثر بغیر ظاہری اسباب کے صرف صحبت سے بھی ہو جاتا ہے۔ کوئی کسی کو کسی برائی میں پڑنے کی ترغیب دے یا نہ دے اگر کسی برے کی صحبت میں انسان وقت گزار رہا ہو تو وہ برائی لاشعوری طور پر اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ برے انسان کا اثر لاشعوری طور پر اس پر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک سکھ طالبعلم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص کا تعلق رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا یا دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے کہلا کے بھیجا (مأخوذ از اپنے اندر یکجہتی پیدا کرو … انوار العلوم جلد24 صفحہ422) کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں جس سیٹ پر بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو۔ چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتایا کہ اب خدا تعالیٰ کے بارے میں کوئی شک پیدا نہیں ہوتا۔ جب یہ بات حضرت صاحب کو سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑ رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھتا تھا اور وہ دہریہ تھا۔ جب جگہ بدلی تو اس کا اثر پڑنا بند ہو گیا اور شکوک بھی نہ رہے۔ تو برے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بِلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کہے اثر پڑتا ہے اور اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بِلا اس کے کہ وہ کچھ کہے اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘

(مأخوذ ازملا ئکۃ اﷲ۔ انوار العلوم جلد 5صفحہ537)

پس دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتا نہیں لگتا۔ پس خاص طور پر نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ان کی دوستیاں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ایسے لوگوں سے ہو جو اُن پر بد اثر نہ ڈالیں۔ اسی طرح ٹی وی پروگرام ہیں۔ اس بارے میں بڑوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بچوں کو پروگرام دیکھنے سے روکتے ہیں تو وہ اگر بچوں کو ایسے پروگرام نہ بھی دیکھنے دیں جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتے ہیں یا پروگراموں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچوں کی عمر کے لئے نہیں ہیں، اس عمر کے بچوں کے لئے نہیں لیکن خود گھروں میں اگر ماں باپ دیکھ رہے ہوں تو ایک تو یہ بات ہے کہ کبھی نہ کبھی بچوں کی نظر اس پروگرام پر پڑ جاتی ہے جب ماں باپ دیکھ رہے ہوں۔ دوسرے لاشعوری طور پر ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت بھی خراب ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے ماں باپ جو ایسے پروگرام دیکھتے ہیں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ خود یہ پروگرام دیکھنے کے بعد بالکل تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر قائم ہوں۔ بعض دیر تک دیکھتے ہیں اور پھر صبح فجر پہ نمازوں کے لئے بھی نہیں جاگتے۔ پس والدین کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو پاک صاف رکھیں کیونکہ لاشعوری طور پر ان چیزوں کا بھی بچوں پر اثر پڑتا ہے اور تربیت پر اثر پڑتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ دعا کے لئے تعلق کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض لوگوں کو کہہ دیا کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا۔ یہ طریق اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے۔ اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا۔ اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا۔ مکان کے جو کاغذات تھے وہ گم گئے تھے۔ اس نے کہا مَیں دعا کروں گا پہلے میرے لئے حلوہ لاؤ۔ وہ شخص حیران تو ہؤا کہ میں دعا کے لئے گیا ہوں اور یہ مجھے حلوہ کا کہہ رہے ہیں۔ مگر بہرحال اس کو دعا کی ضرورت تھی حلوہ لینے چلا گیا اور حلوائی کی دکان سے حلوہ لیا۔ اور جب حلوہ اس نے لیا اور حلوائی اس کو ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا جو کاغذ حلوائی کے پاس پڑا ہوا تھا تو اس نے شور مچا دیا کہ اس کاغذ کو نہ پھاڑنا۔ یہی تو میرے مکان کے کاغذات ہیں۔ اسی کے لئے تو میں دعا کروانا چاہتا تھا۔ غرض وہ حلوہ لے کر گیا اور بتایا کہ مجھے قبالہ یا وہ کاغذات مل گئے ہیں تو اس بزرگ نے کہا کہ میری غرض حلوہ سے صرف یہ تھی کہ تمہارے سے ایک تعلق پیدا ہو اور وہ تعلق دعا کے لئے تو پیدا ہونا ہی تھا تمہیں ظاہری فائدہ بھی ہو گیا۔

(مأخوذ از منصب خلافت۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ49-50)

تو بہت سے ایسے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ملتے ہیں جب کسی مخلص کے کاروبار کی بہتری یا اس کی صحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص درد کے ساتھ اس لئے دعا کی کہ وہ آپ کے مشن، آپ کے اشاعت اسلام کے کاموں کے لئے مالی مدد بہت زیادہ کرتے تھے یا غیر معمولی کرتے تھے۔ پس ان قربانیوں کی وجہ سے خاص تعلق ان سے پیدا ہو گیا تھا۔

(خطبہ جمعہ 30؍ اکتوبر 2015ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں