مورخہ 20۔اپر یل 2020ء کے الفضل میں حضرت حافظ مختار احمد شاہجہاں پوری رضی اللہ عنہ کی تبلیغی خدمات کا ذکر پڑھ کر بہت سی پُرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ مگر ان تمام یادوں میں ایک واقعہ آیا ہے کہ جس کا اثر اب بھی دل و دماغ پر اس قدر گہرا ہے کہ جیسے کہ کل ہی کی بات ہو۔ آج سے تقریباً پچاس ساٹھ سال قبل کی بات ہے کہ ایک دن علی الصبح میری والدہ ماجدہ خلاف معمول گھر کا سودا سلف لانے والے خادم کو بار بار تاکیداً کہہ رہی تھیں کہ چنیوٹ سے تازہ سبزی آگئی ہو گی جلدی جاؤ اور ساری دکان میں دیکھ کر جہاں کہیں سے تازہ اتنی موٹی موٹی سبز مرچیں ملیں لے آؤدیگر سبزی کے علاوہ آپ کا زیادہ زور سبز مرچوں پر تھا۔ مزید براں کہتی چلی جارہی تھیں کہ جتنے کی بھی آئیں اچھی مرچیں لانا۔ اس دوران میں یہ تمام باتیں سن کر سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں والدہ صاحبہ مرچوں پر اتنازور کیوں دے رہی ہیں ۔ لیکن ادب کے تقا ضے نے مجھے خاموش رکھا ہوا تھا۔ دوپہر کو حسب معمول میں ان کے نلکے پر نماز ظہر کے لئے وضو کر رہا تھا کہ میں نے والدہ صاحبہ کی آواز سنی کہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کی ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز کے لئے وضو کر رہا ہوں۔ آپ اس وقت باورچی خانہ میں تھیں اور وہیں سے فرمایا کہ یہاں آؤ جب میں باورچی خانہ میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک ڈونگے میں ہانڈی سے کچھ ڈال رہی تھیں، اس دوران فرمانے لگیں۔ میں نے یہ مرچیں حضرت حافظ مختار احمد شاہجہاں پوری صاحبؓ کے لئے خاص طور پر پکائی ہیں یہ ان کے لئے لے جاؤ۔
میں نے عرض کیا میں نماز پڑھ آؤں تو پھر لے جاؤ نگا مجھے ڈانٹ کر فرمایا۔ نہیں ابھی لیتے جاؤ ۔ یہ مرچوں کی ڈش انہیں دے کر پھر نماز کے لئے چلے جانا اور نماز سے فارغ ہو کر خالی برتن لے آنا۔ میں نے ڈونگا پکڑ لیا اور حضرت حافظ شاہجہاں پوری صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑا جو کہ ان دنوں سید عبد الباسط شاہ سابق معتمد خدام الاحمدیہ مر کزیہ کے گھر مقیم تھے۔ آپ کا گھر مسجد محمود کے غربی جانب ہوا کرتا تھا۔ اور ہم تحریک جدید کے کوارٹرز میں مسجد محمود کے مشرقی جانب رہتے تھے۔ اس لئے چند منٹ میں آپ کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت حافظ صاحبؓ،عبد الباسط شاہ صاحب کی بیٹھک میں تشریف رکھتے تھے۔ باہر دروازه پر چِک پڑی رہتی تھی۔ میں نے حسب سابق بلند آواز سے السلام علیکم کہا جس پر حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ نے میری آواز پہچان لی۔ فرمایا ’’عبد المنان اندر آجاؤ‘‘۔ جب میں بیٹھک کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ چار پائی پر پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور سامنے میز پر کھانا رکھا ہوا ہے مگر آپ نے کھانا تناول کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ میں نے عرض کیا حافظ صاحب میری والدہ صاحبہ نے خاص طور پر آپ کے لئے یہ سبز مرچیں تیار کر کےبھجوائی ہیں۔یہ کہتے ہوئے میں نے ڈو نگا میز پر رکھ دیا حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ نے منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور بڑے والہانہ انداز سے فرمایا ’’اللہ تیری شان‘‘ میں نے عرض کیا کہ اب چلتا ہوں نماز ظہر ادا کر کے خالی برتن لے جاؤں گا۔ اس پر آپ نے فرما یا ’’ٹھہرو‘‘ اور بلند آواز سے پکارا ’’سيده‘‘ اندر سے جو اباً ایک خاتون نے بھی بلند آواز میں جواب دیا کہ ’’ماموں جان میں نے اچار میں بھی اور گھر میں سب جگہ دیکھا لیکن مجھے سبز مرچیں کہیں نہیں ملیں اب میں سرخ مرچ کوٹ رہی ہوں ابھی لے کر آئی‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’اب رہنے دو‘‘۔ اور مجھ سے کہا ’’جاؤ‘‘۔ حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ کا مجھے روکنے کا مقصد آپ قارئین نے ہی سمجھ لیا ہو گا کہ تا اس عاجز کو بھی معلوم ہو جائے کہ آپ ان مرچوں کا انتظار فرمارہے تھے۔ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی مہمان نوازی کےلئے بھجوائی تھیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں اپنے پیاروں کے متعلق فرماتا ہے۔ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُواتَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِى الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِى الآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيۤ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (حم السجدہ:31،33)
یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور استقامت اختیار کی ، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے لئے) خوش ہو جاؤ جس کا تم وعده دیئے جاتے ہو۔ ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو۔ یہ بہت بخشنے والےاور بار بار رحم کرنےوالے کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہے۔
اس ایک واقعہ کو ہی دیکھ لیں اللہ تعالیٰ نے کیسے حضرت حافظ صاحب رضی اللہ عنہ کی خواہش کرنے سےبھی کتنا پہلے سے آپ کی خواہش کو پورا کرنے کے سامان شروع کر دیئے تھے۔ میرے والد حضرت عبد المغنی خان فرمایا کرتے تھے ‘‘اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دل میں کسی خواہش کے آنے سے پہلے ہی اس کا بندوبست کر چکا ہو تا ہے اور ایساہی اس واقعہ سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ڈش کی تیاری کی خد مت میری والدہ سے لے لی اور لے جانے کی سعادت مجھ ناچیز کو عطا فرما کر اپنے فضلوں کا گواہ بنالیا اور اس طرح یہ واقعہ خاکسار کے ازدیاد ایمان کا بھی موجب بنا۔ یہ عاجز اب تک اس واقعہ کو کیا احمدی اور کیا غیر احمد ی سینکڑوں دوستوں کو سنا چکا ہے۔ اس واقعہ میں غیر احمدی احباب کے لئے بھی زندہ ثبوت ہے کہ آج بھی خدا اپنے دین محمدی ؐ کی جماعت کے نیک بندوں سے کس طرح فرشتوں کے ذریعہ اپنی ولایت کا یقین دلاتا ہے اور پھر مہمان نوازی بھی فرماتا ہے۔ جیسے آج سے پندرہ سو سال پہلے کر تا تھا۔
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلاً
(فاطر: 44)
پس تم ہر گز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔
٭…٭…٭
(عبدالمنان خان مغنی)