• 24 اپریل, 2024

استغفار۔ ایک تعویذ، احتیاط اور دوا

استغفار۔ ایک تعویذ، احتیاط اور دوا
ان تکلیف دہ حالات میں سب کیلئے استغفار کی ضرورت ہے

اسلامی اصطلاحات میں سےایک اصطلاح اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ہے جس کو استغفار اور توبہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعددبار مومنوں کو اپنی سابقہ غلطیوں پر توبہ واستغفار کرنے اور آئندہ ایسی غلطیوں کو دہرانے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ جیسے وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ

(البقرہ: 200)

یعنی: اور اللہ سے بخشش مانگو۔

وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ

(الذّاریات: 19)

یعنی: اور صبحوں کے وقت بھی وہ استغفار میں لگے رہتے تھے۔

بلکہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنی لغزشوں کی بخشش کےلئےاستغفار کرنےکی تلقین فرمائی بلکہ مومنوں کےلئے مغفرت طلب کرنےاوران کے لئے بخشش کی دُعا کرنےکی نصیحت بھی فرمائی۔ جیسے فرمایا:

وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ

(محمد: 20)

ترجمہ: اور اپنی لغزش کی بخشش طلب کر۔

پھر فرمایا:

فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ

(آل عمران: 160)

ترجمہ: پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر۔

کتب احادیث میں بھی استغفارکی بہت زیادہ فضیلت اور تاکید بیان ہوئی ہے۔ بلکہ اس توبہ و استغفار کو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حسنِ ظن کےساتھ باندھ دیا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندےکی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتاہے جتنا کوئی آدمی جنگل بیابان میں (کھانے پینے سے لدا) گمشدہ اونٹ کے مل جانے پر خوش ہوتا ہے۔

(بخاری کتاب الدعوات)

آنحضور ﷺ سابقہ امتوں میں سے مغفرت کا یہ واقعہ بڑے ذوق وشوق سے صحابہؓ کو سُنا کراستغفار کی جہاں تلقین فرمایا کرتے تھے وہاں اپنےخدا کے رحم اور انسانیت سے پیار کے ذکر پر بھی محظوظ ہوتے تھے۔

آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی نے 99 قتل کئے۔ آخر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی۔ اس نے ایک بزرگ عالم سے رابطہ کرکے اس گناہ سے توبہ کےبارے میں پوچھا۔ جس نے اسے ایک تارک الدنیا زاہد کے بارہ میں بتایا۔ وہ شخص اس کے پاس آیا اور توبہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے جواباً کہا کہ اس شخص کی توبہ کیسےقبول ہوسکتی ہے جس نے 99 قتل کئے ہوں۔ اس پر اس شخص نے اس عابدوزاہد کو بھی قتل کرکے اپنی سنچری مکمل کی۔ پھر اسے ندامت ہوئی۔ اسے ایک اور عالم کا پتہ بتایا گیا جس سے اس نے اپنی توبہ بارے سوال کیا۔ اس عالم نے کہا کہ کیوں نہیں توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ تم فلاں ایک بزرگ کے پاس جاؤ۔ وہ عبادت اور خدمتِ دین میں مصروف ہوں گے۔ وہ انسانیت کا قاتل اس بزرگ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ آدھے راستے میں اسےموت نے آلیا۔ تب اس کے بارہ میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے اسے جنت لے جانےکی کوشش کی کہ اس نے توبہ کرلی تھی اور عذاب کے فرشتے یہ کہتے رہے کہ اس نے نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ کیسے بخشا جاسکتا ہے؟ اس پر ایک فرشتہ انسانی صورت میں نمودار ہوا جسے ان دونوں قسم کے فرشتوں نے اپنا ثالث مقرر کرلیا۔

اس نے دونوں کی باتیں سن کر کہاکہ جدھر سے یہ شخص آرہاتھا اور جدھرجارہا تھا دونوں فاصلے ناپ لیں۔ اگر طے شدہ فاصلہ زیادہ ہے تو جنت کو فرشتے لے جائیں۔ جب ناپا گیا تو منزل مقصود والا فاصلہ چھوٹا پایا گیا اور رحمت کے فرشتے اسے جنت میں لےگئے۔

(صحیح مسلم، کتاب التوبۃ باب قبول توبۃ)

بلکہ ایک روایت میں ہے کہ طےشدہ فاصلہ کم تھا۔ فرشتوں نے اسے کھینچ کرلمبا کر دیا کیونکہ یہ شخص توبہ کرچکا تھا اور خدا کو صدق ِ دل سے کی گئی توبہ بہت پسند ہے۔

انسان غلطیوں کا پتلاہے اور روزانہ انجانے میں بیسیوں غلطیاں کر جاتاہے۔ وہ ان پر توبہ بھی کرتا ہے، استغفار بھی کرتا ہے مگر وہ غلطیاں نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ سرزد ہوجاتی ہیں۔ مگر خدا غفور و رحیم ہے۔ وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور باربار کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی روٹین میں استغفار کو حرزِجان بنانا چاہئے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’استغفار کےاصل معانی تویہ ہیں کہ یہ خواہش کرناکہ مجھ سےکوئی گناہ نہ ہویعنی میں معصوم رہوں اوردوسرےمعانی جواس کے نیچے درجے پرہیں کہ میرےگناہ کے بدنتائج جومجھےملنے ہیں ان سے محفوظ رہوں‘‘

(تفسیرحضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ685)

پھر فرمایا:
’’روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا۔ یہی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سےموسوم کرتاہے۔‘‘

(نورالحق نمبر1، روحانی خزائن جلد9 صفحہ357)

استغفار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں:

میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کرکوئی تعویذ اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔

استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے۔

استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔

(تفسیرحضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ688)

تمام خلفاء استغفار کی طرف احباب ِ جماعت کو توجہ دلاتے رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’ہر عبادت کے بعد استغفار کا حکم ہے۔ دیکھو بڑی عبادت سجدہ ہے اور سجدہ کے بعد پڑھا جاتا ہے

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ۔ ایسا ہی جب نماز سے فارغ ہو جائیں تو استغفار پڑھتے ہیں۔ اسی طرح بیان فرمایا کہ جب حج کی عبادت ختم ہونے کے قریب آئے تو استغفار پڑھو۔ نبی کریم ﷺ کسی مجلس سے جب اٹھتے تو (70 سے 100 بار) تک استغفار پڑھتے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلداوّل صفحہ337۔338)

اسلامی تعلیمات اور کتب میں استغفار اور توبہ کے فضائل اور برکات اور اہمیت سے متعلق بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ ایک مختصر سے مضمون اور آرٹیکل میں ان سب کا بیان تو بہت مشکل ہے۔ یہاں صرف یہ اشارۃً بتانا ضروری معلوم ہوتا ہےکہ اسلامی اصطلاحات کے استعمال پر مضامین کی جو سیریز خاکسار نے شروع کر رکھی ہے اس کے مطابق اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کو بھی ایک اسلامی اصطلاح بتا کر باربار پڑھنے اور اپنی زندگی کا اسے حصّہ بنانے کی طرف ترغیب دلانا مقصود ہوتا ہے۔ بلاشبہ استغفار گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے اور جب گناہ بھسم، بند ہوجائیں تو پھر انسان بےشمار برکات وفیوض کا وارث ٹھہرتا ہے۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہےکہ قرآن واحادیث میں مختلف اذکار کا ذکر ملتاہے۔ اگر استغفار پڑھا جائے تو کیا دیگر اذکار کو نہ پڑھا جائے؟ یا کم پڑھا جائے؟ اس پرتوکوئی بحث نہیں۔ اسلامی تعلیمات میں بیان تمام اذکار کی اہمیت اپنی اپنی جگہ پر ہے اور اس کی برکات بھی انسان کو ملنے والی ہیں، ان اذکار کو ایسے ہی کہا جاسکتاہے کہ انسان مختلف خوشبوؤں والے صابن یا لوشن سے نہاتا ہے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتاہے، پھر ان پرپرفیوم بھی لگا دیتا ہے تو روحانی غسل کے لئے یہ تمام اذکار انسان کو صاف ستھرا بنانے کے لئے ہیں۔

احادیث اور کتب سلفیہ میں استغفار کے لئے مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس موقع پر ایک ایسا استغفار دیا جا رہا ہے جس کے ساتھ ایسےالفاظ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہےکہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں تمام دنیا اور دوسرے میں یہ الفاظ رکھ دیئے جائیں تویہ پلڑا بھاری ہوگا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کثرت سے یہ فرمایا کرتے تھے:
’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ۔ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ ﷺ کو دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بکثرت کہتے ہیں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلدی ہی اپنی امت میں ایک نشانی دیکھوں گا اور جب میں اس کو دیکھ لوں توبکثرت کہوں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ تو (وہ نشانی) میں دیکھ چکا ہوں۔ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۲﴾ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۳﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۴﴾

جب اللہ کی نصرت اور فتح آ پہنچے (یعنی فتح مکہ) اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کریں اور اس سے بخشش طلب کریں بلاشبہ وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم)

جون2012ء میں دورہ امریکہ کےدوران ایک طالبہ نے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پریشانیوں کے ازالہ کے حوالہ سے سوال کیا تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بےچینیاں اور پریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھنے سے دور کی جا سکتی ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17 اگست2012ء)

آج دنیا جس تکلیف دہ، مہلک و متعدی بیماری (وائرس) سے گزر رہی ہے، لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اس کے مستقبل کے بارہ میں کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔ ان حالات میں ہم مومنوں کا فرض ہے کہ ہم خود اپنے لئے بھی استغفار کریں، امّت مسلمہ کے لئے بھی استغفار کریں اور دنیا میں بسنے والے دیگر انسانوں کی حفاظت، صحت کےلئے دُعاگو رہیں کیونکہ یہ خدا کا کنبہ ہے اور ہم اس کاحصّہ ہیں۔ ہمیں اللہ کے کنبہ (خاندان) کے ہر فرد کے لئے دعا کرنا اپنے اوپر فرض کرلینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ دنیا بھر کی انسانیت کو ہر تکلیف اور مصیبت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اکتوبر 2021